8- سورۃ الانفال : تعارف، مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

(الف) سورۃ کا عمود :

سورہ انفال دوسرے گروپ کی تیسری سورۃ ہے۔ یہ مدنی ہے۔ اس میں مسلمانوں کو تقوی، باہمی اخوت و ہمدردی اور اللہ و رسول کی اطاعت کی اساس پر منظم اور جہاد کے لیے تیار ہونے کی دعوت دی گئی ہے تاکہ وہ اس ملت ابراہیمی اور مرکز ملت ابراہیمی، بیت اللہ، کی امانت و تولیت کے اہل ہوسکیں جو اب قریش کی جگہ ان کی تحویل میں دی جانے والی ہے۔
سورۃ الانفال : تعارف مضامین و مطالب کا تجزئیہ


پچھلی دونوں سورتوں۔ انعام اور اعراف۔ میں آپ نے دیکھا کہ قریش کو عقائد، اعمال اور اخلاق، ہر پہلو سے اس امانت کے لیے نا اہل ثابت کردیا ہے۔ اب اس سورۃ میں مسلمانوں کی تطہیر و تنظیم، ان کی اصلاح اور تزکی کی طرف توجہ فرمائی ہے۔ اس کا آغاز اس طرح ہوا ہے کہ غزوہ بدر کے دوران میں بعض کمزور مسلمانوں کی طرف سے جو کمزوریاں، اللہ ور سول کی اطاعت اور ایمان و توکل کے منافی، صادر ہوئی تھیں، ان پر پہلے گرفت فرمائی ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو ان کمزوریوں سے پاک کریں۔ پھر ان غیبی تائیدات کی طرف اشارہ فرمایا جو غزوہ بدر کے دوران میں ظاہر ہوئیں تاکہ مسلمانوں کا اعتماد اللہ پر مضبوط ہو اور جو لوگ ابھی پوری طرح یکسو نہیں ہوئے ہیں وہ یکسو ہو کر آگے کے مراحل کے تقاضے پورے کرنے کے اہل ہوسکیں۔ پھر مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں جہاد پر ابھارا ہے اور یہ وعدہ فرمایا ہے کہ اگر انہوں نے کمزوری نہ دکھائی تو جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ حریف کی سازشوں کے سارے تار و پود بکھر جائیں گے۔ بیچ بیچ میں قریش کو بھی تنبیہ فرمائی ہے کہ بدر کے واقعہ میں تمہارے لیے بڑا سبق ہے، تمہارے لیے اب بہتر یہی ہے کہ اس سے فائدہ اٹھاؤ ورنہ یاد رکھو کہ اگر تم نے مزید کوئی شرارت کی تو پھر منہ کی کھاؤ گے، اب تک تمہارے ساتھ جو رعایت ہوئی ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول تمہارے اندر موجود تھا۔ سنت الٰہی یہ ہے کہ جب تک رسول قوم کے اندر موجود رہتا ہے اس وقت تک قوم پر عذاب نہیں آتا لیکن اب جب کہ رسول تمہارے اندر سے ہجرت کرچکا ہے۔ تمہاری امان اٹھ چکی ہے اور تم ہر وقت عذابِ الٰہی کی زد میں ہو۔ تمہارا یہ غرہ بالکل بے جا ہے کہ تم بیت اللہ کے متولی اور مجاور ہو، بیت اللہ کے متولی ہونے کے اہل تم نہیں ہو، تم نے ابراہیم کے بنائے ہوئے اس گھر کا مقصد بالکل برباد کر کے رکھ دیا اور اس کی حرمت کو بٹہ لگایا، تم جس نماز اور عبادت کے مدعی ہو یہ نماز عبادت نہیں بلکہ محض مذاق ہے، تمہارے لیے سلامتی کی راہ یہ ہے کہ تم توبہ اور اصلاح کی روش اختیار کرو ورنہ یاد رکھو کہ اب اس حرم کی سرزمین پر نہ اہل ایمان پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا کوئی موقع باقی چھوڑا جائے گا اور نہ اللہ کے دین کے سوا یہاں کوئی اور دین باقی رہنے دیا جائے گا ۔

آگے بدر کے واقعات ہی کی روشنی میں مسلمانوں کی حوصلہ افزائی اور کفار کو تنبیہ کرتے ہوئے ان اعتراضات کے جواب تک  بات  پہنچ گئی ہے جو قریش نے بدر میں شکست کھانے کے بعد لوگوں کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدگمان کرنے کے لیے اٹھائے۔ بدر سے پہلے تک تو وہ مسلمانوں کی کمزوری و مجبوری کو اسلام کے خلاف دلیل کے طور پر پیش کرتے تھے لیکن بدر میں انہی کمزور مسلمانوں کے ہاتھ جب پٹ گئے تو یہ کہنا شروع کردیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیغمبر کس طرح ہوسکتے ہیں، بھلا پیغمبر کا کہیں یہ کام ہوتا ہے کہ اپنی ہی قوم کو باہم لڑا دے۔ اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرائے، پھر ان کو قید کرے، ان سے فدیہ وصول کرے اور ان کا مال و اسباب غنیمت بنا کر کھائے اور کھلائے ؟  اس اعتراض سے بھی کمزور قسم کے لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہوسکتے تھے اس وجہ سے قرآن نے ان کو بھی صاف کیا اور آخر میں انصار اور مہاجرین کو باہمی  اخوت کی تعلیم و تلقین فرمائی کہ دونوں مل کر کفر کے مقابلہ میں بنیان مرصوص بن کر کھڑے ہوں۔

اگرچہ سورۃ کا نظام سمجھنے کے لیے یہ اجمالی نظر بھی کافی ہے لیکن ہم مزید وضاحت کے لیے سورۃ کے مطالب کا تجزیہ بھی کیے دیتے ہیں ۔

(ب)۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ :

(1۔4) مال غنیمت کی تقسیم سے متعلق بعض کمزور قسم کے مسلمانوں کی طرف سے معترضانہ نوعیت کے سوال کا حوالہ اور اس کا اجمالی جواب۔ اس اعتراض کو پیش نظر رکھ کر مسلمانوں کو اس امر کی ہدایت کہ اگر تم سچے مون ہو تو اللہ سے ڈرتے رہو، اپنے آپس کے تعلقات رشک و رقابت سے پاک رکھو، اللہ و رسول کی ہر مرحلے میں اطاعت کرو۔ سچے اور پکے اہل ایمان کی خصوصیات کا بالاجمال حوالہ اور ان کے لیے اللہ کے ہاں اجر عظیم کا وعدہ۔

(5۔8)۔ کمزور قسم کے مسلمانوں کی ایک اور کمزوری کی طرف اشارہ جو جنگ بدر کے لیے نکلتے ہوئے ان سے صادر ہوئی کہ باوجودیکہ ان پر یہ بات واضح تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ نکلنا قریش کی اس فوج سے مقابلہ کے لیے ہے جو تجارتی قافلہ کی حفاظت کا بہانہ بنا کر مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے ہے لیکن وہ فوج کے مقابلہ سے ڈرتے رہے اور انہوں نے پورا زور اس بات پر لگایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسل تجارتی قافلہ کا رخ کریں تاکہ بغیر کسی خطرے کے لقمہ تر ہاتھ آئے حالانکہ اللہ و سول کا منشا یہ تھا کہ حق کا بول بالا ہو اور باطل کا زور ٹوٹے جو اس ی صورت میں متصور تھا جب قریش کی عسکری قوت مجروح ہو نہ کہ ایک غیر مسلح تجارتی قافلہ۔

(9۔14)۔ مسلمانوں کی تقویت اور حوصلہ افزائی کے لیے ان غیبی تائیدات کا حوالہ جو بدر کے موقع پر ظاہر ہوئیں۔ مسلمانوں کی دعا کے جواب میں بروقت ہزار فرشتوں کی مدد کا وعدہ۔ برسر موقع میدان جنگ میں اطمینان کی نیند اور بارش کے نزول سے مساعد حالات کا ظہور۔ امدادی فرشتوں کو یہ ہدایت خداوندی کہ مسلمانوں کا حوصل بحال رکھو، کفار کو مرعوب کرو اور ان کے پرخچے اڑا دو۔

(15۔18)۔ مذکورہ تائیدات غیبی کی روشنی میں مسلمانوں کو یہ ہدایت کہ کفار سے جب مقابلہ ہو تو کبھی پیٹھ نہ دکھاؤ، منظم فوج کشی کی صورت میں پیٹھ دکھانے والے خدا کے غضب اور جہنم کے عذاب کے سزاوار ٹھہریں گے۔ مسلمان جب خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو صرف وہی نہیں لڑتے بلکہ ان کی طرف سے خدا بھی لڑتا ہے اور اہل ایمان کے لیے جوہر دکھانے کے مواقع فراہم کرتا ہے، بدر میں اس حقیقت کا مشاہدہ تم کرچکے ہو، اور یہ جو کچھ ہوا ہے اس پر بس نہ سمجھو، آئندہ اللہ ان کفار کی ساری چالیں بے کار کردے گا۔

(19)۔ قریش کو اللہ تعالی کی طرف سے برسر موقع تنبیہ کہ تم کہتے تھے کہ اس جنگ میں جس کو فتح حاصل ہوگی وہ برسر حق سمجھا جائے گا تو دیکھ لو فتح ظاہر ہوگئی۔ اب بہتر ہے کہ کسی مزید شرارت کی جرات نہ کرو۔ اگر تم باز نہ آئے، پھر شرارت کی تو یاد رکھو ہم کہیں چلے نہیں گئے ہیں، ہمبھی اپنی شان پھر دکھائیں گے اور یہ اچھی طرح یاد رکھو کہ تمہارے لاؤ لشکر کی کثرت کچھ کام نہ آئے گی، مسلمانوں کے پہلو پر ہم ہیں ۔

(20۔30)۔ مسلمانوں کو یہ ہدایت کہ پوری وفاداری کے ساتھ اللہ و رسول کی اطاعت کرو، رسول اکی عین موجودگی میں اس سے انحراف نہ اختیار کرو۔ یہ روش ان یہود کی ہے جو کہتے تھے کہ ہم نے مانا لیکن مانتے نہیں تھے۔ الہ کے نزدیک سب سے بد تر جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو سوچنے سمجھنے سے عاری ہیں۔ اللہ نے ان میں کوئی صلاحیت نہیں پائی۔ اس وجہ سے ان کو قبول حق سے محروم کردیا۔ توفیق الٰہی انہی لوگوں پر کارگر ہوتی ہے جو اپنے اندر اثر پذیر اور قبول حق کی صلاحیت زندہ رکھتے ہیں ۔

(24۔ 26) مسلمانوں کو تنبیہ کہ رسول کی دعوت تمہارے لیے روح و قلب کی زندگی کی دعوت ہے تو اس دعوت کی قدر کرو اور اس پر لبیک کہو۔ اگر تم نے کمزوری دکھائی اور تذبذب کے شکار رہے تو یاد رکھو کہ آدمی اور اس کی قوت ارادی کے درمیان سنت الٰہی حائل ہوجاتی ہے۔ پھر وہ خیر کی توفیق سے محروم ہوجاتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں جو خرابیاں کچھ مخصوص لوگوں کی طرف سے ظاہر ہوتی ہیں اگر دوسرے ان کی اصلاح کی کوشش نہ کریں تو ان کے برے نتائج کی لپیٹ میں اچھے برے سب آجاتے ہیں، اسلام کے مستقبل کی طرف سے کسی تذبذب اور اندیشے میں مبتلا نہ ہو۔ تم اس ملک میں تھوڑے تھے۔ خدا نے تمہیں زیادہ کیا اور اپنی تائید و نصرت سے تمہیں نوازا۔ اسی خدا پر بھروسہ رکھو وہ آگے کے مراحل میں بھی تمہارا کارساز ہے۔

(27۔29)۔ کمزور قسم کے مسلمانوں کو تنبیہ کہ اللہ اور رسول سے عہد اطاعت و وفاداری کرچکنے کے بعد بے وفائی نہ کرو۔ مال و اولاد کی محبت اللہ و رسول کی محبت کے تقاضوں میں مانع نہ ہو۔ یہ چیزیں فتنہ ہیں۔ ان فنوں میں پڑ کر اس اجر عظیم کو ضائع نہ کرو جو اللہ کے پاس اس کے وفادار بندوں کے لیے محفوظ ہے۔ جو لوگ محبت دنیا کو اپنے اوپر غالب نہ ہونے دیں گے اللہ ان کے آگے سے باطل کے تمام حجابات چاک کردے گا اور ان کو اپنی مغفرت سے نوازے گا۔

(30۔37)۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے ان تائیدات ربانی کی یاد دہانی جو قریش کی مسلسل سازشوں کے مقابل میں ظاہر ہوئیں اور جن سے ان کے تمام منصوبے خاک میں مل گئے، ان کی ساری چالیں شکست کھا گئیں اور خدا کی تدبیر غالب رہی۔ وہ قرآن کو اگلوں کا افسانہ کہتے تھ لیکن اس کا انذار ان کے لیے واقعہ ثابت ہوا۔ وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ اگر تم پیغمبر برحق ہو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسیں یا کوئی اور عذاب آئے تو ہم مانیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے ان پر عذاب نہیں بھیجا کہ تم ان کے اندر موجود تھے لیکن اب جب کہ تم ان کے اندر سے نکل چکے ہو کوئی نہیں ہے کہ وہ عذاب سے محفوظ رہیں۔ وہ اپنے آپ کو مسجد حرام کا متولی سمجھتے ہیں لیکن وہ اس کے متولی کہاں سے ہوئے ؟ اس کے متولی تو صرف خدا سے ڈرنے والے بندے ہی ہوسکتے ہیں۔ ان مدعیوں کو اللہ کے اس گھر کی اصل تاریخ اور اس کے مقاصد تعمیر کا کوئی علم نہیں، تالی پیٹنا اور سیٹی بجانا ان کی نماز ہے، بھلا اس مسخراپن کو نماز ابراہیمی سے کیا علاقہ ؟ یہ اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکنے اور اسلام کو شکست دینے کے لیے بڑی دلیری سے جو اپنے مال خرچ کر رہے ہیں اس کا کچھ حاصل نہیں۔ یہ سارا خرچ ان کے لیے موجب حسرت و اندوہ بنے گا۔ اب ان کے آگے صرف جہنم ہے۔ خدا اس سارے ذخیرہ خبیث کو اکٹھا کر کے دوزخ کی آگ میں جھونک دے گا ۔

(38۔40)۔ کفار قریش کو تنبیہ کہ اگر وہ اپنی شرارتوں سے باز آجائیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے اگر انہوں نے اپنے رویے کی اصلاح کرلی تو ان کی پچھلی غلطیاں معاف کردی جائیں گی اور اگر وہ باز نہ آئے تو یاد رکھیں کہ ان کا بھی وہی حشر ہونا ہے جو ان سے پہلے انبیاء کو جھٹلانے والی قوموں کا ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو یہ ہدایت کہ ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ کمزور مسلمانوں پر ان کے جبر و ظلم کا خاتمہ ہوجائے اور اس سرزمین پر اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین باقی نہ رہ جائے اگر یہ باز آگئے تو ان کے لیے بہتر ہے، اگر باز نہ آئے تو خدا تمہارا مددگار ہے اور وہ بہترین مددگار ہے۔

(41۔44)۔ مال غنیمت کی تقسیم سے متعلق سوال مذکورہ آیت 1 کا تفصیلی جواب اور مسلمانوں کو یہ تنبیہ کہ اس تقسیم کو خوش دلی سے قبول کریں۔ اللہ و رسول کے فیصلہ پر راضی رہنا ہی سچے ایمان کی علامت اور اس کا تقاضا ہے۔ یہ یاد رکھو کہ بدر کے دن تمہیں جو کامیابی حاصل ہوئی یہ تمہاری اپنی تدابیر اور تمہارے اپنے تدبر کا کرشمہ نہیں تھی بلکہ یہ ساری اسکیم اللہ کی بنائی ہوئی تھی۔ یہ اسی کی کارسازی تھی اور اس نے ٹھیک اس وقت تمہاری فوج کو اس وادی کے ایک سرے پر پہنچا دیا جس کے دوسرے سرے پر دشمن کی فوجیں پہنچ چکی تھیں۔ اگر تم ایک دوسرے کو الٹی میٹم دے کر نکلتے تو تمہارا یہ عین وقت پر دشمن کے مقابلہ کے لیے پہنچ جانا ممکن نہ تھا۔ یہ اللہ کی اسکیم تھی جو پوری ہوئی۔ اس نے یہ چاہا کہ تمہارے اور قریش کے درمیان ایک ایسا معرکہ ہوجائے جو حق و باطل کے درمیان ایک امتیاز پیا کردے، تاکہ اس کے بعد جو کفر پر جمے رہنا چاہیں ان پر حجت قائم ہوجائے اور جو اسلام کو اختیار کریں ان کو ایک روشن دلیل مل جائے۔ یہی رمز تھا کہ خدا نے کفار کی فوج کو پیغمبر کی روما میں کم دکھایا تاکہ مسلمانوں میں ہراس پیدا نہ ہو اور وہ ان سے ٹکر لینے کے لیے پر حوصلہ رہیں اور پھر یہیی رمز تھا کہ جب تہاری اور ان کی فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو تمہاری نگاہوں میں خدا نے ان کو حقیر دکھایا اور ان کی نگاہوں میں تم کو کم دکھایا تاکہ ٹکر لینے سے کوئی بھی نہ جھج کے اور وہ معرکہ واقع ہو ہی جائے جو حق و باطل کے درمیان ایک فرق بن کر نمایاں ہو۔ یاد رکھو کہ سارے معاملات کا سر رشہ خدا ہی کے ہاتھ میں ہے۔

(45۔46)۔ مسلمانوں کو آئندہ کے لیے نصیحت کہ بدر کی اس جنگ میں تم نے دیکھ لیا کہ اصل کارساز خدا ہے تو جب کفار کے کسی گروہ سے تمہاری ٹکر ہوجائے تو پورے جماؤ اور پوری ثاتب قدمی سے لڑو اور اپنے مرجع حقیقی خدا کو زیادہ سے زیادہ یاد کرو۔ یہی فلاح کا راستہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی پوری اطاعت کرو۔ کسی امر میں اختلاف نہ کرو ورنہ ہزیمت اٹھاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ دوسری چیز جو اطاعت کے ساتھ مطلوب ہے وہ ثابت قدرمی اور پامری ہے۔ خدا انہی کے ساتھ ہوتا ہے جو اس کی راہ میں ثابت قدمی دکھاتے ہیں۔

(47۔49)۔ ان کفار کی روش سے بچتے رہنے کی ہدایت جو اکڑتے، اتراتے اور اپنے کر و فر کی نمائش کرتے ہوئے میدان جنگ میں اترے تھے اور مقصود جن کا لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنا تھا، ان لوگوں کو پتہ نہیں کہ خدا کے آگے کسی کی پیش نہیں جاتی، سب کا زور زور اور سب کا کر و فر اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ان لوگوں کو شیطان نے پٹی پڑھائی تھی کہ آج تمہارے کوئی مد مقابل نہیں اور میں تمہارا ساتھ ہوں لیکن جب اس نے میدان جنگ کا نقشہ دیکھا تو اپنی روایت کے مطابق دم دبا کر بھاگا کہ میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں (یہاں ایک لطیف تعریض یہود کی طرف بھی ہے، تفسیر میں اس کی وضاحت آگے آئے گی)۔ منافقین اور حاسدوں کے اس طعنہ کا جواب جو وہ مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کے لیے دیتے تھے کہ ان کو ان کے دین کے غرے نے نتائج و عواقب سے بے پروا کردیا ہے، یہ ہاتھیوں سے گنے کھانے چلے ہیں۔ ان منافقین کو پتا نہیں تھا کہ خدا کا برھوسہ بڑی چیز ہے۔ خدا عزیز و حکیم ہے۔

 (50۔54) قریش کو تہدید کہ یہ بدر میں جو کچھ پیش آیا ہے یہ تو محض نقد عاجل ہے، مرنے کے بعد جو کچھ تمہارے سامنے آنے والا ہے وہ بڑی ہی سخت چیز ہے اور یہ جو کچھ ہوا ہے یا جو کچھ ہوگا یہ تم پر کوئی ظلم نہیں ہے بلکہ تمہارے اعمال کا قدرتی نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ اپنے رویے کو نہیں بدلتا، جب تک وہ قوم اپن رویہ نہ بدل لے۔ تم سے پہلے قوم فرعون اور دوسری قوموں کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے یہی معاملہ کیا۔ جب انہوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی خدا نے ان کو تنبیہ کی۔ پھر جب است نبیہ کے بعد بھی وہ سرکشی سے باز نہ آئے تو خدا نے ان کو اپنے عذاب میں دھر لیا اور وہ فنا کردیے گئے۔ اسی طر بدر کا واقعہ تمہارے لیے ایک تنبیہ ہے۔ اگر اس سے تم نے سبق نہ لیا تو تمہارے سامنے بھی وہی انجام آجائے گا جو فرعون اور اس کی قوم کے سامنے آیا۔

(55۔62)۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کہ جن گروہوں نے تم سے معاہدہ کر رکھا ہے لیکن وہ اس کا احترام نہیں کر رہے ہیں بلکہ جب کوئی موقع ان کو ہاتھ آجاتا ہے معاہدے کو توڑ دیتے ہیں، ان کے ساتھ ذرا رعایت نہ کرو۔ اگر کسی جنگ میں وہ تمہارے مقابل میں آئیں تو ان کو ایسا سبق دو کہ جو ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں ان ان کے بھی ہوش درست ہوجائیں۔ یہ لوگ تمہارے قابو سے باہر نہیں نکل سکتے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے مقدور بھر اپنی فوجی قوت بڑھائیں تاکہ اللہ کے اور اپنے ان دشمنوں کو مرعوب رکھ سکیں جن میں سے بعض ظاہر ہیں اور بعض ابھی پس پردہ ہیں۔ مسلمان اس مقصد کے لیے جو بھی خرچ کریں گے خدا کے ہاں سب پورا کردیا جائے گا، کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ ہاں اگر یہ صلح کے خواہشمند ہوں تو تم بھی صلح سے گریز نہ کرو۔ اللہ پر بھروسا کر کے ان سے صلح کرلو۔ اگر اس مصالحت سے ان کا مقصد تم کو دھوکا دینا ہو تو تمہارے لیے وہ اللہ کافی ہے جس نے اپنی تائید خاص اور مسلمانوں کے ذریعے سے تمہاری مدد فرمائی۔ یہ اللہ ہی کا فضل ہوا ہے کہ اس نے اہل ایمان کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا ہے ورنہ یہ کام تو دنیا جہان کی دولت بھی تم لٹا دیتے جب بھی ہونا ممکن نہیں تھا ۔

(63۔65)۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اطمینان دہانی کہ تم اپنے ساتھیوں کی افرادی قوت کی کمی سے کسی پریشانی میں مبتلا نہ ہو، تمہارے لیے اللہ اور مومنین کی یہی مختصر سی جماعت کافی ہے۔ تم انہی مسلمانوں کو جہاد پر ابھارو۔ تمہارے بیس ثابت قدم جانباز کفار کے دو سو آدمیوں پر بھاری رہیں گے اور تمہارے سو مجاہد حریف کے ایک ہزار کے لشکر کو شکست دیں گے۔ جنگ، عزم و ایمان سے لڑی جاتی ہے۔ ان ناسمجھ کفار کے اندر یہ جوہر کہاں ؟

(66)۔ ایک آیت تخفیف جو بعد میں اس زمانہ میں نازل ہوئی جب لوگ اسلام کے اندر فوج در فوج داخل ہونے لگے۔ چونکہ ان مسلمانوں کے اندر وہ پختہ کاری نہیں تھی جو سابقون الاولون کے اندر تھی۔ اس وجہ سے وہ عددی نسبت گھٹا دی گئی جو اوپر والی آیت میں مذکور ہوئی۔ اب نسبت صرف ایک اور دور کی رہ گئی۔ وضاحت آیت کی تفسیر کے تحت آئے گی۔

(67۔69)۔ کفار کے اس طعنہ کا جواب جو بدر میں شکست کھانے کے بعد انہوں نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا کہ بھلا یہ پیغمبر کس طرح طرح ہوسکتے ہیں، پیغمبر کا کہیں یہ کام ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہی قوم سے جنگ کرے، اس کا خون بہائے، اس کے اندر سے قیدی پکڑے، ان سے فدیہ وصول کرے، اور قوم کے مال کو مال غنیمت قرار دے کر اپنے ساتھیوں میں تقسیم کرے اور کھائے کھلائے ؟ اس طعنہ سے ان کا مقصود بدر میں مسلمانوں کی فتح کے ان اثرات کو مٹانا تھا جو قدرتی طور پر عام لوگوں کے دلوں پر پڑتے نظر آئے۔ چونکہ قریش کے لیڈروں نے خود اس جنگ کو حق و باطل کے درمیان امتیاز کی کسوٹی بنا دیا تھا، اس وجہ سے انہیں بدر میں منہ کی کھانے کے بعد اپنے پروپیگنڈے کا رخ بدل دینا پڑا۔ اب انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ نعوذ باللہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اقتدار اور حکومت کے خواہاں ہیں۔ اور اس مقصد کی خاطر انہوں نے اپنی ہی قوم کو آپس میں ٹکرا دیا ہے جو ایک پیغمبر کا کام کبھی نہیں ہوتا۔ قرآن نے ان کو یہ جواب دیا کہ یہ جو کچھ ہوا ہے پیغمبر کی وجہ سے نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے باعث تم خود ہوئے ہو۔ دنیا کے طالب تم ہو، اللہ و رسول دنیا کے طالب نہی ہیں۔ تم نے اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کی سازش کر کے جو اقدام کیا تھا وہ ایسا سنگین مجرمانہ اقدام تھا کہ حق تھا کہ تم پر خدا کی طرف سے عذاب عظیم آجاتا جو تمہارا فیصلہ ہی کردیتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے لیے جو مہلت لکھ رکھی ہے وہ تم کو ملی اور تم عذاب سے تباہ کردیے جانے کے بجائے صرف تنبیہ کر کے چھوڑ دیے گئے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو خطاب کر کے ان کو اطمینان دلایا کہ یہ تمہارے مال غنیمت پر جو اعتراض کر رہے ہیں تم اس کی کوئی پروا نہ کرو۔ اس کو کھاؤ برتو، یہ تمہارے لیے حلال و طیب ہے۔

(70)۔ اسی سلسلہ میں بدر کے قیدیوں کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ سے یہ کہلوایا کہ اگر اللہ نے ان کے دلوں میں کوئی بھلائی پائی، انہوں نے اس احسان کی قدر کی کہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا تو ان کے لیے مزید بھلائی کی راہیں کھلیں گی۔ اور اگر انہوں نے بے وفائی اور بدعہدی کی اور پھر خدا سے لڑنے کے لیے نکلے تو یاد رکھیں کہ خدا ان پر پھر تم کو اسی طرح قابو دے دے گا جس طرح اس نے بدر میں ان کو تمہارے قابو میں دے دیا۔

(71۔75)۔ مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت کی تاسیس، اس اخوت میں وہ تمام مسلمان شریک ہیں جو کفر کے علاقوں سے ہجرت کر کے اس میں آ شامل ہوں۔ جو مسلمان ہجرت نہ کریں، دار الاسلام کے مسلمانوں پر ان کی نصرت و حمایت کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اگر اپنے دین و ایمان کے تحفظ کے لیے وہ کسی مدد کے طالب ہوں تو ان کی مدد کی جائے بشرطیکہ یہ مدد مسلمانوں کے کسی معاہدہ گروہ کے خلاف یا اس کے مقابل میں نہ ہو۔ اب حقوق و فرائض اور حمایت و نصرت کی ذمہ داری ایمان و ہجرت کی بنیاد پر ہوگی۔ پچھلے خاندانی اور قبائلی تعلقات کی بنیاد پر نہیں ہوگی۔ البتہ مسلمانوں کے آپس کے حقوق کی بنیاد انہی رحمی رشتوں کے تحت ہوگی جو اللہ کی کتاب میں بیان ہوئے ہیں ۔


----------------------

(بحوالہ: تدبر قرآن از مولانا امین احسن اصلاحی )