9۔ سورۃ براءۃ : تعارف ، مضامین اور مطالب تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

9۔سورۃ براءۃ کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ 
(الف)۔ سورۃ کا عمود اور اس پر بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ :
یہ سورۃ، جیسا کہ گروپ کی تمہید میں ہم عرض کرچکے ہیں، سورتوں کے دوسرے گروپ کی آخری سورۃ ہے۔ اس میں اور انفال میں بالکل اسی نوع کا تعلق ہے جس نوع کا تعلق متن اور شرح یا تمہید اور اصل مقصد میں ہوتا ہے۔ سورۃ انفال میں مسلمانوں کو جس جہاد کے لیے ظاہراً و باطناً منظم کیا گیا ہے اس سورۃ میں اس کا اعلان فرما دیا۔ مصحف کی ترتیب میں اس سورۃ پر بسم اللہ نہیں لکھی ہوئی ہے اور روایات سے ثابت ہے کہ یہ بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے ہی سے چلی آ رہی ہے جس سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ اس پر بسم اللہ کا نہ لکھا جانا ایمائے الٰہی سے ہوا ہے۔ علمائے تفسیر نے اس کی مختلف توجیہیں کی ہیں۔ سب سے زیادہ قابل قبول توجیہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ ان دونوں سورتوں میں عمود و مضمون کے لحاظ سے نہایت گہرا اتصال بھی ہے اور مقصد و غایت کے اعتبار سے فی الجملہ انفصال بھی۔ ایک کا رخ بالکلیہ مسلمانوں کی طرف ہے اور دوسری کا رخ اصلاً مشرکین، اہل کتاب اور منافقین کی طرف۔ ایک کی نوعیت تیار کی ہے اور دوسری کی، جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں، الٹی میٹم اور اعلانِ جنگ کی۔ اشتراک و انفصال کے ان دونوں پہلوؤں کو ممیز کرنے کے لیے حکمت الٰہی مقتضی ہوئی کہ یہ سورۃ سابق سوہ سے بالکل الگ بھی نہ لیکن فی الجملہ نمایاں اور ممتاز بھی رہے۔ بسم اللہ نہ لکھے جانے سے یہ دونوں پہلو بیک وقت نمایاں ہوگئے۔ بسم اللہ، جیسا کہ ہم واضح کرچکے ہیں، دو سورتوں کے درمیان علامت فصل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس علامت فصل کے نہ ہونے سے دونوں کا معنوی اتصال نمایاں ہوگیا اور ساتھ ہی اس کے علیحدہ وجود نے اس کو علیحدہ نام دے دیا جس سے اس کی امتیازی خصوسیت بھی سامنے آگئی۔
(ب) سورۃ کے مطالب کا تجزیہ :
اس سورۃ میں مطالب کی ترتیب اس طرح ہے کہ پہلے ان تمام مشرکین سے اعلان براءت کیا ہے جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے امن و صلح کے معاہدے کیے لیکن ان کی خلاف ورزیاں کر کے وہ ان کو کالعدم کرچکے تھے۔ جنہوں نے اپنے معاہدے قائم رکھے تھے ان کے متعلق یہ اعلان فرمایا کہ مدت پوری ہوجانے کے بعد یہ معاہدے بھی ختم کردیے جائیں اور ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھی جائے جب یہ اسلام نہ قبول کریں۔
اس کے بعد اہل کتاب کے متعلق یہ اعلان فرمایا کہ ان سے بھی جنگ کرو تاآنکہ یہ تمہاری ماتحتی قبول کرنے اور تمہیں جزیہ ادا کرنے پر مجبور ہوں۔ اس کے بعد آخر سورۃ تک بڑی تفصیل کے ساتھ منافقین کا تعاقب کیا ہے اور ان کے باب میں بھی یہ ہدایت دی ہے کہ اب ان کا سختی سے محاسبہ کیا جائے، ان کے ساتھ کوئی نرمی نہ برتی جائے تاآنکہ یہ یا تو سچے اور اچھے مسلمان بن جائیں یا پھر مشرکین اور اہل کتاب میں سے، جن کے ساتھ بھی ان کی وابستگی ہے، ان کے انجام میں یہ بھی شریک ہوجائیں۔ یہی تین گروہ اس وقت مسلمانوں کے کھلے یا چھپے دشمن تھے۔ ان تینوں کا ذکر پچھلی سورۃ میں بھی آیا تھا لیکن ان کے باب میں قطعی پالیسی واضح نہیں ہوئی تھی۔ اس سورۃ میں بالکل واضح ہوکر سامنے آگئی۔ اگرچہ سورۃ کے نظام کو سمجھنے کے لیے یہ اجمالی نظر بھی کافی ہے تاہم سورۃ کے مطالب کا تفصیلی تجزیہ بھی ہم لیے دیتے ہیں۔
(1۔4)۔ جن مشرکین نے معاہدہ کرکے درپردہ یا علانیہ اپنے معاہدے توڑدیے تھے ان سے براءت ذمہ کا اعلان۔ ان کو چار مہینے کی مہلت اور مسلمانوں کو یہ ہدایت کہ حج کے موقع پر یہ منادی کردی جائے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اب ان کے معاہدوں کی ذمہ داری سے بری ہیں۔ اگر وہ توبہ کرلیں تو ان کے حق میں بہتر ہے۔ اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو یاد رکھیں کہ وہ خدا کے قابو سے باہر نہیں جا سکتے۔ صرف وہ مشرکین اس حکم سے مستثنی ہیں جنہوں نے نہ تو اپنے معاہدے کی کوئی خلاف ورزی کی ہے نہ مسلمانوں کے خلاف ان کے دشمنوں کی کوئی مدد کی ہے۔ یہ معاہدے قراردادہ مدت تک باقی رکھے جائیں۔
(5۔6)۔ مسلمانوں کو یہ حکم محترم مہینوں کے گزرنے کے بعد ان کے خلاف جنگی کاروائی کرو۔ ان کو پکڑو، گھیروا اور ماروا اور اس وقت تک ان کا یچھا نہ چھوڑو جب تک یہ توبہ کر کے نماز نہ قائم کریں اور زکوۃ نہ ادا کریں۔ البتہ ان میں اگر کوئی شخص پناہ کا طالب ہو تو اس کو اتنی مہلت دو کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام سن لے اور پھر اس کے مامن میں پہنچا دو۔ یہ رعایت ان کو اس لیے دی جائے کہ یہ امی لوگ رہے ہیں، ممکن ہے ان کو خدا کلام نہ پہنچا ہو۔
(7۔16)۔ مشرکین کے ساتھ آئندہ کوئی معاہدہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے وجوہ کی تفصیل۔ مسجد حرام کے پاس قریش سے جو معاہدہ ہوا ہے وہ بھی اسی وقت تک باقی رکھا جائے جب تک وہ اس کو نباہتے ہیں۔ اگر وہ اس کو توڑدیتے ہیں تو تم ان ائمہ کفر سے بھی جنگ کرو۔ قریش کے بعض سنگین جرائم کی طرف اشارہ۔ مسلمانوں کو بشارت کہ تم ان سے ڈرو نہیں، لڑو، تمہارے ہاتھوں اللہ ان مظلوم مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا جو ان ظالموں کی قساوت کا ہدف بنے ۔
(17۔22) مشرکین قریش کو بیت اللہ اور مساجد الٰہی پر قابض رہنے کا کوئی حق نہیں مساجد الٰہی کے متولی اور منتظم وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے، نماز قائم کرتے اور زکوۃ دیتے ہیں۔ حاجیوں کو پانی پلا دینا اور حرم کی کچھ دیکھ بھال کردینا نیکی کے کام سہی لیکن یہ نیکیاں اللہ اور آخرت پر ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کا بدل نہیں ہوسکتیں۔
(23۔ 28) مسلمانوں کو تنبیہ کہ ان لوگوں سے جنگ کرنے میں رشتہ و قرابت کا پاس و لحاظ مانع نہ ہو جو لوگ ایمان کے تقاضوں پر ان چیزوں کو ترجیح دیں گے ان کا شمار انہی لوگوں کے ساتھ ہوگا۔ اللہ اور رسول کی محبت ہر چیز پر مقدم ہے۔ جنگ حنین اور پچھلے غزوات سے مسلمانوں کو سبق کہ اصل شے خدا کی مدد و نصرت ہے، پس اصلی بھروسہ خدا ہی پر ہونا چاہیے۔ یہ اعلان کہ مشرکین نجس ہیں۔ اس وجہ سے ان کو اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس پھٹکنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ مسلمانوں کو یہ اطمینان دہانی کہ اس کا جو اثر تجارت اور معاشی حالات پر پڑے گا اللہ اپنے خزانہ جود سے اس کی تلافی فرمائے گا۔
(29۔35) اہل کتاب سے جہاد اور ان کو ذمی بنا کر جزیہ وصول کرنے کا حکم۔ ان کے فساد عقائد اور فساد اخلاق کی طرف بعض اشارات۔ ان کے علماء اور صوفیا کے فاسد کردار اور ان کی اسلام دشمنی کا حوالہ۔
(36۔37) مسلمانوں کو یہ تاکید کہ یہ جنگ و جہاد اگرچہ تمام مشرکین سے من حیث القوم ہو، کسی گروہ کے ساتھ رعایت نہ کی جائے تاہم محترم مہینوں کا احترام ہر حال میں ملحوظ رہے۔ محترم مہینے بحساب سال قمری ملت ابراہیم کی یادگار ہیں۔ اگر تم نے ان کی حرمت کو بٹہ لگایا تو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنوگے۔ نسی کی بدعت کی طرف اشارہ کہ اس بدعت نے ان مہینوں کو ان کے اصل مقام سے ہٹا کر موسموں کے ساتھ باندھ دیا اور یہ کفر میں ایک اضافہ ہے۔ تمہیں مری مہینوں کے حساب پر، جو روزِ اول سے خدا کے مقرر کیے ہوئے مہینے ہیں، ان چار محترم مہینوں کی حرمت کو برقرار رکھنا ہے ۔
(38۔42) منافقین کو تنبیہ کہ تم جہاد سے جی چراتے ہو، یاد رکھو کہ اگر تم اسی طرح جی چراتے رہے تو تم خدا کا کچھ نہیں بگاڑوگے، اپنی ہی جانوں پر ظلم ڈھانے والے نہ بنوگے۔ خدا تمہاری جگہ اپنے دین کی نصرت کے لیے دوسروں کو اٹھا کھڑا کرے گا۔ یاد کرو کہ ایک دن وہ بھی گزرا ہے جب ہمارا رسول ایک غار میں پناہ گیر تھا اور اس کے ایک ساتھی کے سوا اور کوئی بھی اس کے ساتھ نہ تھا لیکن پھر وہ دن بھی آیا کہ خدا نے اپنی طرف سے اس پر سکینت نازل فرمائی۔ غیبی فوجوں سے اس کی مددفرمائی، کفر کا سر نیچا اور اللہ کا کلمہ بلند ہوا۔ پس یہ خدا کی ضرورت نہیں بلکہ تمہاری اپنی سعادت ہے کہ جو سروسامان بھی میسر ہو اس کے ساتھ جہاد کے لیے اٹھو۔ مناقین کے جہاد سے جی چرانے اور جھوٹی قسموں کے بل پر بہانہ سازی کی ایک مثال۔
(43۔ 46)۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محبت آمیز عتاب کہ جہاد سے جی چرانے والوں کے جھوٹے عذرات تم قبول کرلیتے ہو حالانکہ یہ منافق لوگ ہیں۔ اگر یہ چاہیں تو جہاد کے لیے نکلنے کا سامان مہیا کرسکتے ہیں لیکن یہ جھوٹے بہانے بنا کر تمہاری نرمی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
(47۔ 52)۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلی کہ جہاد کے لیے تمہارے ساتھ ان منافقین کے نہ نکلنے میں ہی خیر ہے۔ اگر یہ نکلتے تو کوئی نہ کوئی فساد ہی برپا کرتے۔ ان کے دلوں میں خیر خواہی کا کوئی جذبہ نہیں ہے۔ یہ تو ہر پہلو سے تمہارے لیے کسی مصیبت کے متمنی ہیں۔
(53۔57)۔ منافقین بادل ناخواستہ دین کے نام پر جو کچھ خرچ کرتے ہیں اللہ کے ہاں اس کی کوئی قیمت نہیں۔ یہ اللہ اور رسول کے منکر ہیں اور ان کا انفاق اور ان کی نماز سب محض نمائش ہے۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کہ ان کے مال کو کوئی وقعت نہ دو اور ان کی رفاقت کی ذرا پروا نہ کرو۔ یہ بزدل اور ڈرپودک تمہارے ساتھی نہیں بن سکتے۔
(58۔60) منافقین کے اس گروہ کی طرف اشارہ جو محض صدقات کے مال میں حصہ بٹٓنے کی حد تک پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھی تھا۔ اگر خواہش کے مطابق پا جاتے تو راضی ورنہ پیغمبر کے خلاف طرح طرح کی باتیں بناتے۔ صدقات کے اصل حق داروں کی تفصیل۔
(61۔66)۔ ان شریر منافقین کی طرف اشارہ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف پروپیگنڈا کرتے کہ آپ کان کے کچے ہیں، لوگوں میں آپ کی رائے اور معاملہ فہمی کا مذاق اڑاتے، جب کسی بات پر گرفت ہوتی تو جھوٹی قسمیں کھاتے اور لا یعنی صفائی پیش کرتے۔
(67۔70)۔ منافق مردوں اور منافق عورتوں کا کردار اور ان کا نجام دنیا اور آخرت میں۔
(71۔ 72)۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کہ کفار کی طرح ان منافقین کے معاملے میں بھی اب سخت رویہ اختیار کرو کہ تمہاری نرمی سے فائدہ اٹھا کر یہ اسلام کے ساتھ چمٹے نہ رہیں۔ یہ جھوٹی قسموں کے پردے میں اپنے کفر کو چھپائے ہوئے ہیں۔ اللہ کے فضل اور رسول کی کریم النفسی نے ان کو اسلام دشمنی میں اور زیادہ دلیر بنا دیا ہے۔ انہوں نے وعدے کچھ کیے اور ان کا عمل اس کے بالکل خلاف ہوا اور اس چیز نے ان کے نفاق کو پختہ سے پختہ تر کردیا۔
(79۔84) منافقین کی اس شرارت کا بیان کہ خود تو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اور اگر اللہ کے مخلص اور غریب بندے اپنی گاڑھی کمائی میں سے خرچ کرتے ہیں تو انکا مذاق اڑاتے اور ان کی دل شکنی کرتے ہیں۔ اسی طرح خود تو جہاد میں نکلنے کے بجائے گھروں میں بیٹھ رہتے ہیں اور جو اللہ کے بندے نکلتے ہیں ان کو گرمی اور سردی کے ڈراوے سنا سنا کر بٹھا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان اشرار کے بارے میں وعیدِ الٰہی کا بیان اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے لیے دعا و استغفار کرنے کی شدید ممانعت۔
(85۔96)۔ دین کے مطالبات سے جی چرانے والوں کے جھوٹے عذرات کی طرف اشارہ۔ سچے اہل ایمان کے کردار کا بیان۔ ان معذورین کی تفصیل جن کا عذر قابل قبول ہے۔ عذر تراشوں اور بہانہ بازوں کو یہ دھمکی کہ اگر تم پیغمبر اور مومنین کو اپنے خانہ ساز عذرات سے دھوکا دینے میں کامیاب بھی ہوجاؤ جب بھی یہ چیز تمہارے لیے کچھ سود مند نہیں۔ خدائے علام الغیوب کو تم بہرحال ان بہانہ سازیوں سے فریب نہیں دے سکتے۔
(97۔101)۔ اعراب یعنی اہل بدو میں جو منافقین تھے ان کی طرف اشارہ اور ان کے اندر جو مخلصین تھے ان کی حوصلہ افزائی۔ سابقون الاولون اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کی تحسین، منافقین اعراب اور منافقین مدینہ دونوں کو دھمکی۔
(102۔106)۔ ان لوگوں کو قبولیت توبہ کی بشارت جنہوں نے ان تنبیہا سے متاثر ہو کر اپنے رویہ میں تبدیلی کرلی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی مزید تربیت اور ان کے لیے دعا کی ہدایت۔ اس گروہ کے بعض افراد کی قبولیتِ توبہ کے معاملہ کا التوا ۔
(107۔110)۔ مسجد ضرار کے بانیوں کو نہایت تند الفاظ میں وعید۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس مسجد میں نماز پڑھنے کی ممانعت ۔
(111۔113) اہل ایمان اور اللہ کے درمیان جو عہد و میثاق ہے اس کی نوعیت کی وضاحت اور اس کے حقیق مقتضیات کا بیان۔
(114۔116)۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کو شرک پر مرنے والوں کے لیے دعائے استغفار کرنے کی ممانعت اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ رہے ہوں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو اپنے باپ کے لیے دعا کی اس کی نوعیت۔
(117۔118)۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام مخلص مہاجرین و انصار کے لیے عام قبولی توبہ کی بشارت۔ جن لوگوں کی توبہ کی قبولیت کا معاملہ آیت 106 میں ملتوی کیا گیا تھا، رجوع کامل کے بعد ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان ۔
(119۔122)۔ اہل مدینہ اور اعراب کو راست بازی اور کامل وفاداری کے ساتھ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جاں نثاری کی تلقین۔ اس جاں نثاری کی راہ میں چھوٹی یا بڑی جو تکلیف بھی اہل ایمان اٹھائیں گے اس کے اجر عظیم کا بیان۔ اہل بدو کو یہ ہدایت کہ ان میں سے ہر گروہ کے لوگ اپنے منتخب آدمی حصول تربیت کے لیے مجلسِ نبوی میں بھیجتے رہیں تاکہ یہ لوگ وہاں سے کسبِ فیض کر کے انی قوت کی تربیت کرسکیں۔
(123۔ 129)۔ مسلمانوں کو یہ عام ہدایت کہ ہر جگہ کے مسلمان اپنے اپنے علاقہ کے کفار سے مصروف جہاد ہوں۔ ان لوگوں کی طرف اشارہ جو قرآن اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مواجہہ سے گریز کرتے تھے۔ پیغمبر کے وجود قدسی کی صورت میں دنیا پر اللہ کی جو عظیم رحمت نازل ہوئی تھی اس کی قدر کرنے کی تلقین۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ناقدروں سے بے پروا ہو کر صرف اللہ پر بھروسہ کرنے کی ہدایت۔
اس فہرست مطالب پر ایک سرسری نظر ڈال کر بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سورۃ کا ہر جزو نہایت مربوط و نظم ہے اور آغاز سے لے کر انتہا تک باہم دگر ایک فطرت تسلسل کے ساتھ وابستہ و پیوستہ۔ ۔۔۔۔"

(حوالہ:  تدبر قرآن  از امین احسن اصلاحی )