10۔ سورۃ یونس : تعارف مضامین و مطالب کا تجزئیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

(الف)۔ سورتوں کے تیسرے گروپ پر ایک اجمالی نظر :



 سورۃ توبہ پر سورتوں کا دوسرا گروپ، جیسا کہ ہم نے مقدمیں میں واضح کیا ہے، تمام وا، اب سورۃ یونس سے تیسرا گروپ شروع ہورہا ہے جو سورۃ نور پر ختم ہوا ہے، اس میں 14 سورتیں، یونس، ہود، یوسف، رعد، ابراہیم، حجر، نحل، بنی اسرائیل، کہف، مریم، طہ، انبیاء، حج اور مومنون مکی ہیں، آخر میں صرف سورۃ نور مدنی ہے۔ سورتوں کے جوڑے جوڑے ہونے کا اصول، جس طرح پچھلے دونوں گروپوں میں آپ نے ملاحظہ فرمایا اسی طرح اس گروپ میں بھی ملحوظ ہے۔

سورہ نور کی حیثیت :

سورہ یونس : تعارف مضامین و مطالب کا تجزئیہ 
 گروپ کی پندرھویں سورۃ، سورۃ نور، بظاہر الگ نظر آتی ہے لیکن اس کی حیثیت، جیسا کہ ہم سورۃ کی تفسیر میں واضح کریں گے، سورۃ مومنون کے تکملہ اور تممہ کی ہے۔ سورۃ مومنون میں اہل عیمان کو دنیا اور آخر دونوں کی فلاح کی جو بشارت دی گئی ہے وہ اس خاص اخلاق و کردار کے ساتھ مشروط ہے جو ایمان کا لازمی مقتضی ہے۔ سورۃ نور میں اخلاق کردار کو مزید واضح فرمایا گیا ہے جس سے "خبیثون" اور "خبیثات" کے کافرانہ معاشرے کے مقابل میں "طیبون" اور "طیبات" کا مومنانہ معاشرہ پوری آب و تاب ک ساتھ نگاہوں کے سامنے آگیا ہے اور اس معاشرہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ ہے وہ بھی اس میں نہایت واضح اور قطعی الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے "وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (٥٥ ): تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلافت بخشے گا جس طرح اس نے ان لوگوں کو خلافت بخشی جو ان سے پہلے گزرے اور ان کے اس دین کو ان کے لیے مستحکم کرے گا جس کو اس نے پسند فرمایا اور ان کی اس خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا" (نور)

سورہ حج مکی ہے : اس گروپ کی سورتوں میں سے سورۃ حج کو بعض لوگوں نے مدنی قرار دیا ہے لیکن یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ گروپ کی آخری سورتیں چونکہ ہجرت کے بالکل قریب زمانے کی ہیں اس وجہ سے ان میں کہیں کہیں مدنی دور کی جھلک آگئی ہے۔ لیکن یہ سورتیں اپنے مزاج اور مطالب کے اعتبار سے سب مکی ہیں۔ سورۃ حج کی بعض آیتیں مدنی دور سے تعلق رکھنے والی ضرور ہیں لیکن سورۃ بحیثیت مجموعی، جیسا کہ ہم اس کی تفسیر میں واضح کریں گے، مکی ہے۔ کسی مکی سورۃ میں مدنی دور کی بعض آیتیں بطور توضیح یا تکمیل آجانے سے پوری سورۃ پر مدنی ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ ایسی سورتیں قرآن میں بہت ہیں جن میں مدنی دور کی آیات شامل ہیں لیکن یہ سورتیں اپنے بنیادی مطالب اور اپنے مزاج کے اعتبار سے مکی ہی قرار دی گئی ہیں ۔

ان تمام سورتوں میں قدرِ مشترک : اس پورے گروپ کی تلاوت بار بار تدبر کے ساتھ کیجیے تو آپ نہایت واضح طور پر محسوس کریں گے کہ گروپ کی تمام سورتوں میں مشترک حقیقت، جو مختلف اسلوبوں اور پہلوؤں سے واضح فرمائی گئی ہے، یہ ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے حق و باطل کے درمیان ج کشمکش برپا ہوچکی ہے وہ بالآخر پیغمبر اور اہل ایمان کی کامیابی و فتحمندی اور قریش کی ذلت و ہزیمت پر منتہی ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ اس میں قریش کے لیے انذار اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کے لیے بشارت ہے۔ قریش پر عقل و فطرت اور آفاق و انفس کے دلائل اور تاریخ و نظام کائنات کے شواہد سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ جو حق تمہارے پاس آچکا ہے۔ اگر اس کی مخالفت میں تمہاری یہی روش قائم رہی تو بہت جلد وہ وقت آ رہا ہے جب تم اس کا انجام بد اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے۔ دنیا میں تم سے پہلے جن قوموں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی ہے جو حشر ان کا ہوا ہے اور جن کے عبرت انگیز آثار تمہارے اپنے ملک میں موجود ہیں، وہی حشر تمہارا بھی ہونا ہے۔

اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو صبر و استقامت اور تقوی کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ جس حق کو لے کر تم اٹھے ہو انجام کار کی کامیابی اور فیروزمندی اسی کا حصہ ہے۔ آفاق و انفس اور تاریخ اقوام و ملل کے دلائل و شواہد سب تمہارے ہی حق میں ہیں۔ البتہ سنت الٰہی یہ ہے کہ حق کو غلبہ اور کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے آزمائش کے مختلف مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان مرحلوں سے لازماً تمہیں بھی گزرنا ہے۔ اگر یہ مرحلے تم نے عزیمت و استقامت کے ساتھ طے کرلیے تو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی تمہارا ہی حصہ ہے۔ "يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ"۔

یہ پورے گروپ پر ایک اجمالی نظر ہوئی۔ اب ہم گروپ کی ایک ایک سورۃ کو الگ الگ لے کر اس کی تفسیر کریں گے۔ گروپ کی پہلی سورۃ، سورۃ یونس ہے۔ ہم اپنے طریقہ کے مطابق پہلے اس کا عمود متعین کر کے اس کے مطالب کا تجزیہ کریں گے، اس کے بعد ایک ایک آیت کی تفسیر کریں گے۔ وما توفیقی الا باللہ ۔

(ب)۔ سورۃ کا عمود : 


اس سورۃ کی عمود نہایت جامع الفاظ میں اس کی دوسری ہی آیت سے واضح ہورہا ہے۔ فرمایا ہے "اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ڼ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ: کہ لوگوں کو آگاہ کردو اور اہل ایمان کو بشارت پہنچا دو کہ ان کے رب کے پاس ان کے لیے بڑی پایگاہ ہے کافروں نے کہا یہ تو کھلا ہوا جادوگر ہے" (یونس :2)۔ "فاصبر ان العاقبۃ للمتقین : پس ثابت قدم رہو، انجام کار کی کامیابی متقین ہی کے لیے ہے" (ھود :49)۔ سورۃ یوسف میں ارشاد ہے : "انہ من یتق و یصبر فان اللہ لا یضیع اجر المحسنین : بے شک جو تقوی اختیار کریں گے اور ثابت قدم رہیں گے تو اللہ ایسے خوب کاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا" سورۃ رعد میں اس صبر و تقوی کی کسی قدر تفصیل بھی آگئی ہے : "والذین صبروا ابتغاء وجہ ربھم و اقاموا الصلوۃ وانفقوا مما رزقناھم سرا وعلانیۃ و یدرءون بالحسنۃ السیئۃ اولئک لھم عقبی الدار : اور جو لوگ اپنے رب کی رضا جوئی میں جمے رہے اور نماز کا اہتمام کیا اور جو کچھ ہم نے ان کو رزق بخشا اس میں چھے اور کھلے خرچ کیا اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے رہے وہی لوگ ہیں جن کے لیے دار آخرت کی کامیابی ہے" (رعد :22)۔ سورۃ ابراہیم میں اس کلمہ توحید کی طرف بھی اشارہ ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں اہل ایمان کے ثبات قدم کا ضامن ہے : "یثبت اللہ الذین امنوا بالقول الثابت فی الحیوۃ الدنیا وفی الآخرۃ۔ ویضل اللہ الظالمین : اللہ اہل ایمان کو دنیا اور آخرت میں قول محکم کی بدولت ثبات قدم بخشے گا اور ظالموں کو نامراد کردے گا" (ابراہیم :27)۔ سورۃ نحل میں ہے : "للذین احسنوا فی ھذہ الدنیا حسنۃ۔ ولدار الآخرۃ خیر۔ ولنعم دار المتقین : جن لوگوں نے خوب کاری اختیار کی ان کے لیے اس دنیا میں بھی اچھا صلہ ہے اور آخرت کا گھر اس سے کہیں بہتر ہے اور کیا ہے اچھا ہے متقین کا گھر" (نحل :20)۔ سورۃ بنی اسرائیل میں ہے کہ سیدھی راہ قرآن کی بتائی ہوئی راہ ہے اور جن لوگوں نے یہ راہ اختیار کرلی ہے دنیا اور آخرت کی فلاح کی بشارت انہی کے لیے ہے۔ "إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا (٩) وَأَنَّ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (١٠): بے شک یہ قرآن اس رستہ کی طرف رہنمائی کر رہا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان مومنین کو جو نیک عمل کر رہے ہیں ایک اجر عظیم کی بشارت دے رہا ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے لیے ہم نے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے"۔ سورۃ انبیاء میں ہے : "ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون : اور ہم نے زبور میں یاد دہانی کے بعد یہ لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث میرے صالح بندے ہوں گے"۔ گروپ کی آخری سورۃ۔ سورۃ نور۔ میں یہ بشارت واضح سے واضح تر ہوگئی ہے۔ "وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (٥٥ ): تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلافت عطا فرمائے گا جس طرح ان لوگوں کو خلافت عطا فرمائی جو ان سے پہلے گزرے اور ان کے اس دین کو مستحکم کرے گا جس کو ان کے لیے پسند فرمایا اور ان کی اس خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا" (نور :55)۔
ان آیات کو نقل کرنے سے مقصود سورۃ یونس اور اس گروپ کی دوسری سورتوں کے عام مزاج سے فی الجملہ قارئین کو آشنا کردینا ہے۔ ہر سورۃ کا عمود اور بحث و استدلال میں اس کا صحیح رخ مطالب کے تجزیہ سے سامنے آئے گا۔ اب ہم سورۃ یونس کے مطالب کا تجزیہ پیش کرتے ہیں تاکہ پوری سورۃ بیک نظر سامنے آجائے ۔

(ج)۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ :

(1۔2)۔ قریش کے حال پر اظہار افسوس کہ یہ پر حکمت کتاب کی آیات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک شخص پر اتاری ہیں، حق تھا کہ وہ اس کتاب کی قدر کرتے، یہ منکرین کو ان کے انجام بد سے آگاہ کرنے والی اور مومنین کو اللہ کے ہاں مرتبہ بلند کی بشارت دینے والی ہے لیکن ان متکبرین پر یہ بات شاق گزر رہی ہے کہ انہی میں کا ایک آدمی ان کے پاس بشیر و نذیر بن کر آئے چنانچہ وہ اس کو جادوگر قرار دیتے ہیں۔

(4۔3) اللہ ہی سب کا رب ہے۔ اسی نے آسمان و زمین بنائے۔ وہی تمام آسمان و زمین کا انتظام فرما رہا ہے۔ اس کے ہاں اس کے اذن کے بغیر کسی کے لیے سفارش کی گنجائش نہیں۔ سب اسی کی طرف لوٹیں گے اور وہ ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو عدل کے ساتھ بھرپور صلہ دے گا اور کفار کے لیے دوزخ کا عذاب ہے ۔

(5۔10)۔ آفاق کی شہادت کہ یہ کائنات کسی کھلنڈرے کا کھیل تماشہ نہیں ہے جو غور کرنے والے ہیں وہ اس حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں کہ اس کے بعد ایک روز عدل ظہور میں آنے والا ہے۔ صرف وہی لوگ اس حقیقت سے غافل ہیں جو اللہ کی نشانیوں پر غور نہیں کرتے اور اسی دنیا کی دلچسپیوں میں مگن ہیں۔ ایسے لوگوں کو ٹھکانا جہنم ہے۔ اللہ ایمان اور عمل صالح والوں کو ان کے ایمان کی بدولت نعمت کے باغوں میں داخل کرے گا جہاں وہ اپنی کامیابیوں پر شاداں ایک دوسرے کو مبارک سلامت کا پیغام دیں گے اور اللہ نعمتوں کی تکمیل پر ان کی زبانوں پر حمد و شکر کے ترانے ہوں گے ۔

(11۔12)۔ اللہ تعالیٰ سرکش لوگوں کو اس دنیا میں جو ڈھیل دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ رحمت کرنے میں تو جلدی کرتا ہے لیکن قہر کرنے میں جلدی نہیں کرتا۔ اگر وہ رحمت کی طرح قہر کرنے میں بھی جلدی کرنے والا ہوتا تو ان سرکشوں کا قصہ کب کا تمام ہوچکا ہوگا۔ لیکن ایسا نہیں ہے اس وجہ سے وہ ایسے لوگوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی سرکشی میں اچھی طرح بھٹک لیں اور اپنے اوپر اللہ کی حجت تمام کرالیں۔ ان لوگوں کی یہ سرکشی اور ان کی یہ اکڑ ان کے تھڑدلے پن کا ثبوت ہے۔ انسان کا حال یہ ہے کہ ذرا ہم پکڑیں تو لیٹے، بیٹھے، کھڑے ہمارا وظیفہ پڑھنا شروع کردیتا ہے لیکن ذرا ڈھیل دے دیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نہ یہ کبھی ہماری پکڑ میں آیا تھا اور نہ کبھی اس نے ہمارے آگے کوئی فریاد کی تھی ۔

(13۔14)۔ پچھلے رسولوں اور ان کی امتوں کا حوالہ کہ آخر یہ لوگ ان کے حالات سے سبق کیوں نہیں لیتے ؟ اللہ تعالیٰ نے انہی کی جگہ ان کو دی اور اس لیے دی کہ دیکھے یہ کیسا عمل کرتے ہیں تو آخر ان کے ساتھ اس سے مختلف معاملہ کیوں ہوگا جو ان کے ساتھ ہوا ۔

(15۔19)۔ توحید بیزاری کے سبب سے قریش کا یہ مطالبہ کہ اگر ہم کو سنانا ہے تو اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لآ یا کم ازکم اس میں کوئی ایسی ترمی کرو کہ یہ ہمارے لیے گوارا ہوسکے۔ پیغمبر کی طرف سے اس کا جواب کہ میں تو تمہارے سامنے اللہ کی وحی پیش کرتا ہوں۔ مجھے اس میں کسی تبدیلی یا ترمیم کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ تم جانتے ہو کہ میں تمہارے اندر اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ گزار چکا ہو اور اس دوران میں کوئی دعوی یا دعوت لے کر نہیں اٹھا۔ اب جو میں تمہارے سامنے آیا ہو تو اپنی خواہش سے نہیں آیا ہوں بلکہ خدا کے حکم کی تعمیل میں آیا ہوں۔ اگر خدا کا حکم نہ ہوتا تو میں ہرگز تمہارے سامنے یہ چیزیں پیش نہ کرتا۔ ساتھی ہی ان کو توحید بیزاری پر یہ تنبیہ کہ یہ جن چیزوں کی پرستش کر رہے ہیں اور سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ خدا سے ان کے لیے سفارش کرتی ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ سب ان کے ذہن کے مفروضات ہیں، خدا کے علم میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس قسم کی شرکتوں سے پاک اور ارفع ہے۔ اس نے ان لوگوں کو اپنی طرف سے ایک ہی دین توحید دیا لیکن لوگوں نے اس میں اختلاف پیدا کیا اور اگر اللہ نے اپنے فیصلہ کا ایک دن نہ مقرر کیا ہوتا تو آج ہی اس جھگڑے کا فیصلہ ہوجاتا۔ 

(20۔23)۔ کفار قیش کی طرف سے نشانی عذاب کا مطالبہ اور اس کا جواب کہ نشانی عذاب دکھانا پیغمبر کا کام نہیں ہے۔ اس کا تعلق اللہ تعالی سے ہے۔ صرف وہی جانتا ہے کہ کوئی نشانی ظاہر ہوگی یا نہیں اور ظاہر ہوگی تو کب ہوگی۔ یہ محض انسان کی رعونت ہے کہ وہ کسی عذاب کا مطالبہ کرتا ہے حالانکہ تھڑ دلے پن کا حال یہ ہے کہ جب ذرا خدا کی گرفت میں آجاتا ہے تو اللہ اللہ پکارنے لگتا ہے اور عہد کرتا ہے کہ اس آفت سے جان چھوٹ جائے تو زندگی اپنے رب کا شکر گزار بن کر گزاروں گا لیکن جب اللہ تعالیٰ اس کو نجات دے دیتا ہے تو پھر وہ بغاوت اور نافرمانی کی وہی زندگی اختیار کرلیتا ہے۔

(24۔27)۔ اس دنیا کی زندگی کی بے ثباتی کی تمثیل کہ کفار کو اس جو زور اور اقتدار حاصل ہے سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی رخنہ کہاں سے پیدا ہوجائے گا۔ حالانکہ آئے دن اس دنیا میں یہ مشاہدہ ہوتا رہتا ہے کہ بارش ہوتی ہے، زمین لہلہا اٹھتی ہے۔ باغ اور کھیت سب مالا مال ہوجاتے ہیں، زمینوں اور باغوں کے مالک یہ سمجھتے ہیں کہ بھلا اب ہمیں ان سے کون محروم کرسکتا ہے کہ دفعۃً رات میں یا دن میں کسی وقت عذاب الٰہی کا کوئی جھونکا آتا ہے اور وہ سب کو آناً فاناً بے نشان کر کے رکھ دیتا ہے۔ سلامتی کا گھر صرف اللہ کے پاس ہے اور وہ لوگوں کو اسی کی طرف دعوت دیتا ہے لیکن اس کی راہ صرف صاحب توفیق ہی اختیار کرتے ہیں اور وہ لوگوں کو اسی کی طرف دعوت دیتا ہے لیکن اس کی راہ صرف صاحب توفیق ہی اختیار کرتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کے چہرے آخرت میں روشن ہوں گے۔ رہے یہ لوگ جو اسی دنیا کی زندگی میں مگن ہیں خدا سے ان کو کوئی بچانے والا نہ ہوگا اور ان کے چہروں کا یہ حال ہوگا کہ گویا ان پر شب دیجور کا کوئی ٹکڑا اڑھا دیا گیا ہے ۔

(28۔36)۔ کفار اپنے جن معبودوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں آخرت میں ان کے اور ان کے معبودوں کے درمیان جدائی ہوجائے گی۔ ان کے معبود ان سے اظہار بیزاری کریں گے کہ ہمیں کچھ خبر نہیں کہ تم ہماری عبادت کر رہے تھے۔ اس دن ہر شخص کو صرف اپنے اعمال سے سابقہ پیش آئے گا اور ہر ایک کی پیشی معبود حقیقی کے سامنے ہوگی۔ کفار سے یہ مطالبہ کہ جب تم خالق، رازق، مالک اور زندگی اور موت پر اختیار رکھنے والا خدا ہی کو مانتے ہو تو اسی کو رب بھی مانو۔ اس واضح حق کے بعد اگر تم خدا کے سوا کسی اور کو بھی رب مانتے ہو تو یہ صریح ضلالت ہوئی آخر اس دنیا کی خلق و تدبیر اور تمہاری ہدایت و رہنمائی میں تمہارے ان فرضی معبودوں کا کیا حصہ ہے جس کی بنا پر تم ان کو خدا کے حقوق میں شریک بنا بیٹھے ہو، یہ تو محض تمہاری اٹکل پچو باتیں ہیں جو حق کے مقابل میں تمہارے کچھ کام آنے والی نہیں ہیں ۔

(37۔44)۔ یہ قرآن کوئی من گھرت چیز نہیں ہے۔ اس کی پیشین گوئیاں پچھلے صحیفوں میں موجود ہیں اور یہ انہی پیشین گوئیوں کا مصداق اور انہی اشارات کی تفصیل ہے۔ اس کے خدائی کتاب ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کفار کہتے ہیں کہ یہ تمہاری گھڑی ہوئی چیز ہے جس کو تم جھوٹ موٹ خدا کی طرف منسوب کر رہے ہو تو ان سے کہو کہ یہ اس کی مانند کوئی ایک ہی سورۃ لا کر دکھائیں اور اس کام میں اپنے معبودوں کی مدد بھی اگر حاصل کرسکیں تو وہ بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اصل یہ ہے کہ یہ ایک ایسی چیز کا انکار کر رہے ہیں جس کی حقیقت ان کے سامنے ابھی نہیں آئی ہے۔ اور اس معاملے میں یہ پچھلے مکذبین کی روش کی تقلید کر رہے ہیں تو صبر کرو اور دیکھو کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔ پیغمبر کو تسلی کہ جن کے اندر صلاحیت ہے وہ اس کتاب پر ایمان لا رہے ہیں، رہے وہ لوگ جو اندھے بہرے بن چکے ہیں تو نہ وہ تمہاری بات سنیں گے نہ تمہارے اوپر کی ان کی کوئی ذمہ داری ہے، تم ان سے اپنی براءت کا اعلان کردو۔ یہ خود اپنے اعمال کی بدولت اس حالت کو پہنچے ہیں۔ خد نے ان کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں کی ہے۔

(45۔58)۔ جس عذاب اور روز آخرت کی ان کو دھمکی دی جا رہی ہے اس کے لیے یہ جلدی مچائے ہوئے ہیں حالانکہ جب وہ آئے گا تو یہ محسوس کریں گے کہ زندگی کی مہلت ایک ساعت سے زیادہ نہیں تھی۔ یہ اللہ ہی کے علم میں ہے کہ یہ عذاب کب آئے گا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تمہاری موجودگی ہی میں ان کو دکھا دیا جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمہاری وفات کے بعد یہ اس کا مزا چکھیں۔ لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب کسی قوم کے پاس اس کا رسول آجاتا ہے تو اس قوم کا فیصلہ لازماً ہوجایا کرتا ہے۔ اگر یہ تم سے اس دھمکی کے ظہور کا وقت پوچھتے ہیں تو تم کہہ دو کہ میرے پاس نہ غیب کا علم ہے اور نہ میں کسی نفع و ضرر پر اختیار رکھتا ہوں۔ بس یہ حقیقت جانتا ہے کہ ہر امت کے لیے ایک پیمانہ مقرر ہے، جب وہ پیمانہ بھر جائے گا تو پھر اس کو ایک منٹ کی بھی مہلت نہیں ملے گی۔ یہ اگر اتنی جلدی مچائے ہوئے ہیں تو ان سے پوچھو کہ خدا کے عذاب کا مقابلہ کرنے کے لیے انہوں نے کیا سامان کر رکھا ہے ؟ اس وقت تو ان کا ایمان لانا بھی بالکل بے سود ہوگا ؟ اس وقت تو حال یہ ہوگا کہ ہر جان اس سے چھوٹنے کے لیے ساری دنیا بھی اس کے ہاتھ آجائے تو اس کو فدیہ میں دینے کے لیے تیار ہوجائے گی تو آخر یہ اپنی شامت بلانے کے درپے کیوں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت و رحمت کو اختیار کیوں نہیں کرتے جو ان پر قرآن کی شکل میں نازل ہوئی ہے اور جس کے آگے اس دنیا کے تمام زخارف بالکل ہیچ ہیں۔

(59۔70)۔ جن لوگوں نے بے دلیل خدا کے شریک اور سفارشی بنا رکھے ہیں کیا ان کو خدا سے ناانصافی کا اندیشہ ہے ؟ خدا تو اپنے بندوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔ البتہ لوگ ناشکری کرتے اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کو دوسری نسبت سے حلال و حرام ٹھہارتے ہیں۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو تسلی کہ خدا ہر قد پر تمہارے ساتھ ہے۔ جو اللہ کے اولیاء ہیں ان کے لیے کوئی خوف اور غم نہیں ہے۔ دنیا کی زندگی میں بھی ان کے لیے بشارت ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے بشارت ہے اور خدا کے وعدے اٹل ہیں۔ عزت صرف اللہ کے لیے ہے، جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کی پوجا کرتے ہیں وہ صرف گمان کی پوجا کر رہے ہیں۔ شب و روز سب اللہ ہی کے بنائے ہوئے ہیں اور زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ اللہ سب سے مستغنی ہے۔ اس کا کوئی ساجھی اور شریک نہیں۔ جو لوگ اپنے جی سے خدا کے شریک ٹھہراتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اور وہ آخرت میں عذاب شدید سے دو چار ہوں گے۔

(71۔93)۔ اوپر کے بیان کردہ حقائق کی تائید میں تاریخ کی شہادت۔ حضرت نوح سے لے کر حضرت موسیٰ تک کے انبیاء اور ان کی قوموں کی سرگزشت کا اجمالی حوالہ، پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو یہ تلقین کہ جس طرح کے حالات تم سے پہلے انبیاء اور ان کے ساتھیوں کو پیش آچکے ہیں اسی طرح کے حالات تمہاری قوم کی طرف سے تم کو پیش آرہے ہیں۔ پس اگر تم نے صبر اور توکل کی وہی روش اختیار کی جو تمہارے پیش رو انبیاء اور ان کے صحابہ نے اختیار کی اور اس پر جمے رہے تو تمہیں اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت دونوں جہان میں سرخرو کرے گا اور تمہارے مخالفوں کا وہی حشر ہوگا جو نوح اور موسیٰ کے خالفوں کا ہوچکا ہے۔

(94۔103)۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے مسلمانوں کو یہ تلقین کہ مخالفوں کو غوغا تمہیں اس کتاب کے باب میں کسی شک میں نہ ڈالے جو تم پر اللہ نے اتاری ہے۔ یہ بالکل حق ہے اور جو اچھے اہل کتاب ہیں وہ بھی اس کے حق ہونے کے گواہ ہیں۔ جولوگ اس کو جھٹلا رہے ہیں وہ اپنے اعمال کے سبب سے خدا کے قانون کی زد میں آچکے ہیں، ان کو خواہ کتنی ہی نشانیاں دکھا دی جائیں وہ اس وقت تک ایمان لانے والے نہیں ہیں جب تک فیصلہ کن عذاب نہ دیکھ لیں۔ کوئی قوم جب قانونِ الٰہی کی زد میں آجاتی ہے تو اس کو ایمان نصیب نہیں ہوا کرتا۔ صرف قوم یونس ایک ایسی قوم ہے جو عذاب الٰہی کی زد میں آتے آتے بچ گئی۔ عذاب بس آنے ہی کو تھا کہ وہ ایمان لائی اور اللہ نے اس کو بچا لیا۔ اہل ایمان کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ لوگ عقل اور سمجھ سے کام لے کر ایمان کی راہ اختیار کریں نہ کہ عذاب کی نشانیوں سے مجبور ہو کر۔ اگر اللہ کو مجبورانہ ایمان مطلوب ہوتا تو اس کے لیے کیا مشکل تھا کہ وہ سب کو ایمان کی ڈگر پر ہانک دیتا ؟ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ ایمان کی توفیق صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو عقل و بصیرت سے کام لیتے ہیں۔ جو لوگ اپنے دلوں پر نجاست کے انبار جمع کرلیتے ہیں ان کے لیے ایمان کی راہ نہیں کھلتی۔ ایسے لوگوں کو بڑی سے بڑی نشانی بھی کچھ نفع نہیں پہنچاتی۔ یہ لوگ تو بس اس طرح کے فیصلہ کن دن کے انتظار میں ہیں جس طرح کے فیصلہ کن دن پچھلی قوموں کو پیش آچکے ہیں۔ ان سے کہو کہ اگر تم اسی کے انتطار میں ہو تو انتظار کرو میں بھی اب تمہارے لیے اسی کے انتظار میں ہوں ۔

(104۔109)۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے مخالفین کے سامنے ایک فیصلہ کن اعلان کہ اگر کسی کو میرے دین کے بارے میں شک ہو تو وہ اچھی طرح کان کھول کر سن لے کہ جن چیزوں کو تم پوجتے ہو میں ان کو نہیں پوجتا، میں صرف اللہ واحد کی عبادت کرتا ہوں۔ اسی توحید پر آپ کو جمے رہنے کی تاکید، اس لیے کہ نفع و ضرر صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہے، دوسرا نہ کچھ بنا سکتا، نہ بگاڑ سکتا۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے اعلان کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق آچکا ہے اور وہ میں نے لوگوں کو پہنچا دیا ہے۔ اب جو ہدایت اختیار کرے گا تو اس کا نفع اس کو پہنچے گا۔ اور جو گمراہی کی راہ اختیار کرے گا تو اس کا انجام خود بھگتے گا۔ میں کسی کے ایمان کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ آخر میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کہ وحی الٰہی کی پیروی کرو، اسی پر جمے رہو، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ صادر فرما دے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔

--------------------
(بحوالہ تدبر القرآن از مولانا امین احسن اصلاحی )