11۔ سورہ ہود : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

(الف)۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق :
اس پورے گروپ کے عمود اور اس کے مطالب پر ایک جامع تبصرہ ہم سورۃ یونس کی تمہید میں پیش کرچکے ہیں۔ یہ سورۃ چونکہ ہمارے اصول سے سورۃ یونس ہی کا مثنی ہے اس وجہ سے نفس عمود میں دونوں کے دریان کچھ ایسا فرق نہیں ہے، البتہ اجمال و تفصیل اور بحث و استدلال کے اعتبار سے دونوں کا نہج الگ الگ ہے۔ سورۃ یونس میں جو باتیں بالاجمال بیان ہوئی تھیں، مثلاً پچھلی قوموں کی سرگزشتیں۔ وہ اس سورۃ میں تفصیل سے بیان ہوئی ہیں اور اس حقیقت کی طرف اس کی پہلی ہی آیت نے اشارہ بھی کردیا ہے۔ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ (یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں، پھر خدائے حکیم و خبیر کی طرف سے ان کی تفصیل کی گئی)۔ ان دونوں کا قرآنی نام بھی ایک ہی یعنی، الرا، ہے ہے اور یہ بات ہم اس کے محل میں واضح کرچکے ہیں کہ سورتوں کے نام میں اشتراک ان کے مطالب کے اشتراک پر دلیل ہے۔ عمود کے متعلق یہ اشارہ کافی ہے۔ اب ہم سورۃ کے مطالب کا تجزیہ پیش کرتے ہیں جس سے پوری سورۃ بحیثیت مجموعی نگاہ کے سامنے آجائے گی۔

(ب)۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ :

(1۔4)۔ پہلے بطور تمہید قرآن کی یہ خصوصیت واضح کی گئی ہے کہ لوگوں کی رتبیت و تعلیم کے مقصد کو پیش نظر رکھ کر اللہ تعالیٰ نے اس کو اس شکل میں اتار ہے کہ پہلے صرف اصولی اور بنیادی باتیں، گٹھے ہوئے الفاظ میں اجمال و اختصار کے ساتھ، بیان ہوئیں، پھر بتدریج و تفصیل کے قالب میں آئیں۔ اس کے بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے اس کتاب کے پیغام کی وضاحت فرمائی کہ یہ اللہ واحد کی بندگی اور استغفار و توبہ کی دعوت ہے اور میں اللہ طرف سے بشیر و نذیر ہو کر آیا ہوں کہ جو لوگ استغفار کر کے اللہ واحد کی طرف رجوع کرلیں گے اللہ ایک مقررہ مدت تک ان کو زندگی کی نعمتوں سے بہرہ مند اور اپنے فضل سے متمتع کرے گا اور جو لوگ اس سے اعراض کریں گے ان کے لیے ایک بڑے عذاب کا دن سامنے ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

(5۔6)۔ ان لوگوں کی حالت پر اظہار افسوس جن کے دل تو یہ گواہی دے رہے ہیں کہ پیغمبر کا ڈراوا بالکل حق ہے لیکن اس کے باوجود وہ حقیقت کا مواجہہ کرنے سے اس طرح گریز کر رہے ہیں گویا وہ اپنے آپ کو خدا سے چھپا رہے ہیں حالانکہ خدا سے کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں رہتی، وہ پوشیدہ و علانیہ ہر چیز سے باخبر اور سینوں کے بھیدوں سے بھی آگاہ ہے۔ وہی سب کو رزق پہنچاتا ہے۔ اس کو ہر ایک کے مستقر و مدفن کا پتہ ہے۔ ہر چیز اس کے رجسٹر میں درج ہے۔

(7۔11)۔ جزا و سزا کے منکرین اور عذاب کے مذاق اڑانے والوں کو تنبیہ کہ یہ دنیا بازیچہ اطفال نہیں ہے۔ اللہ نے اس کو اس لیے بنایا ہے کہ وہ دیکھے کہ لوگ کیسا عمل کرتے ہیں۔ مجرموں کو جو مہلت وہ دیتا ہے ہے اس سے دلیر ہو کر شریر لوگ پیغمبر کا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں کہ اس نے محض دھونس جمانے کے لیے عذاب کی دھمکی دی تھی۔ انسان کا حال عجیب ہے کہ جب خدا کی پکڑ میں آجاتا ہے تب تو بالکل ماویس اور دل شکستہ ہوجاتا ہے لیکن جب خدا اس کو ڈھیل دے دیتا ہے تو اکڑنے اور شیخی بگھارنے لگتا ہے۔ تھوڑے لوگ ایسے نکلتے ہیں جو مصیبت میں صبر کی اور نعمت میں شکر کی روش اختیار کرتے ہیں۔ انہی کے لیے خدا کے ہاں مغفرت اور اجر عظیم ہے۔

(12۔16)۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حوصلہ افزائی کہ تم مخالفین کے استہزا اور مطالبہ معجزات سے دل شکستہ نہ ہو۔ تم ایک منذر ہو۔ اپنا فرض انذار ادا کرو۔ خدا سب کچھ دیکھ اور سن رہا ہے۔ اگر یہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن تمہارا گھڑا ہوا ہے تو ان سے کہو کہ وہ دس سورتیں ایسی ہی گھڑی ہوئی لا کر دکھا دیں اور اس کام میں وہ اپنے شریکوں کی مدد بھی حاصل کرلیں جن کو یہ خدا کے سوا پوجتے ہیں۔ اگر ان کے شرکاء اس کام میں ان کی مدد نہ کرسکیں تو پھر یہ مانیں کہ یہ خدا کی اتاری ہوئی چیز ہے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ ان لوگوں کو اگر یہ گھمنڈ ہے کہ دنیاوی اعتبار سے تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے مقابل میں ان کا حال بہتر ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کے طالبین کو اللہ سب کچھ اسی دنیا میں پورا کردیتا ہے، آخرت میں ان کے لیے دوزخ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

(17۔24)۔ قرآن کی دعوت کو قبول کرنے والوں اور اس سے اعراض کرنے والوں کے ذہنی فرق و اختلاف کی وضاحت۔ ایمان صرف وہ لوگ لائیں گے جن کی فطرت مسخ ہونے سے محفوظ ہو۔ وہ قرآن کی آواز کو اپنے دل کی آواز سمجھیں گے۔ اس سے پہلے موسیٰ کو جو کتاب دی گئی وہ بھی ان کے لیے ایک تائید مزید فراہم کرے گی۔ رہے وہ لوگ جن کی اپنی فطرت کا نور بجھ چکا ہو وہ دوزخ کی آگ ہی دیکھ کر قائل ہوں گے تو ان کی مخالفت تمہیں اپنے موقف کے بارے میں کسی تردد میں نہ ڈالے۔ ان لوگوں سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جنہوں نے خدا پر جھوٹ باندھا ہے اور اس جھوٹ کے ذریعہ سے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روک رہے ہیں۔ یہ خدا کے قابو سے باہر نہیں ہیں۔ لیکن خدا اس لیے انہیں ڈھیل دے رہا ہے کہ آخرت میں ساری کسر پوری ہوجائے گی۔ فلاح صرف ان لوگوں کو حاصل ہوگی جنہوں نے اپنے آپ کو بالکلیہ اپنے رب کے حوالے کردیا اور ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کی۔ ان دونوں گروہوں کی تمثیل ایسی ہے کہ ایک گروہ اندھوں بہروں کا ہو اور دوسرا چشم و گوش رکھنے والوں کا۔ کیا یہ دونوں یکساں ہوں گے ؟

(25۔49)۔ حضرت نوح اور ان کی قوم کی سرگزشت جس میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھایا گیا ہے کہ جس بشارت و انذار کے ساتھ تم اپنی قوم کے پاس آئے ہو بعینہ اسی انذار و بشارت کے ساتھ اللہ نے نوح کو ان کی قوم کے پاس بھیجا تھا۔ ان کی قوم کے سرغنوں نے بھی بعینہ اسی طرح کی باتیں بنائیں جس طرح کی باتیں تمہاری قو کے لوگ بنا رہے ہیں۔ بالآخر ان پر اللہ کا عذاب آیا اور وہ غرق کردیے گئے۔ آخر میں اس کا خلاصہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ان لفظوں میں رکھا گیا ہے۔ فاصبر ان العاقبۃ للمقتین (پس جمے رہو، انجام کار کی کامیابی خدا سے ڈرنے والوں ہی کے لیے ہے)۔ یعنی اگر تمہاری قوم کے لوگ بھی سرکشی سے باز نہ آئے تو اسی طرح کا روزِ بد یہ بھی دیکھیں گے۔ خدا تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو بہرحال سرخرو کرے گا، اگر تم تمام مخالفتوں کے علی الرغم اپنی دعوت میں ثابت قدم رہے۔

(50۔60)۔ قوم عاد کی سرگزشت۔ انہوں نے بھی اپنے پیغمبر ہود کے ساتھ اسی قسم کی روش اختیار کی جس قسم کی روش قوم نوح نے نوح کے ساتھ اور قریش نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اختیار کی۔ بالآخر یہ بھی اپنے کیفر کردار کو پہنچے اور ہود (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے سرخرو کیا۔ اس سرگزشت کے سنانے سے بھی مقصود قریش کو تاریخ کے آئینہ میں ان کا انجام دکھا دینا اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے۔

(61۔68)۔ قوم ثمود اور حضرت صالح کی سرگزشت جس سے بعینہ وہی حقیقت واضح ہوتی ہے جو اوپر سرگزشتوں سے واضح ہوتی ہے ۔

(69۔83)۔ قوم لوط کی سرگزشت اسی مضمون کی تائید کے لیے جو اوپر سے چلا آرہا ہے۔ اس سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ قریش جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرشتے اتارنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ اپنی شامت بلانے کا سامان کر رہے ہیں۔ فرشتوں کا آنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوتا، یہ جب آتے ہیں تو کسی عظیم خدائی مہم پر آتے ہیں۔ ان کی اہمیت کا حال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ جیسے عظیم پیغمبر نے جب یہ محسوس کیا کہ ان کے پاس فرشتے آئے ہیں تو ان کا دم خشک ہوگیا اور اس وقت تک انہوں نے اطمینان کا سانس نہیں لیا جب تک ان کی پیش نظر مہم کی نوعیت ان کے سامنے واضح نہیں ہوگئی۔

(84۔95)۔ اہل مدین اور حضرت شعیب کی سرگزشت ۔

(96۔99)۔ حضرت موسیٰ اور فرعون کی سرگزشت کی طرف سرسری اشارہ۔ چونکہ حضرت موسیٰ کی سرگزشت پچھلی سورۃ میں تفصیل سے گزر چکی تھی اس وجہ سے اس سورۃ میں اس کی طرف صرف اشارہ فرما دیا۔

(100۔123)۔ خاتمہ سورۃ جس میں ان سرگزشتوں کو سنانے سے جو مقصد ہے اس کو واضح فرمایا ہے۔ پھر ان سے جو نتائج وحقائق نکلتے ہیں ان کی روشنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو ضروری ہدایت دی ہیں۔ قریش کو اپنے ملک کی تاریخ سے سبق لینے ورنہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنے کے لیے تنبیہ فرمائی ہے۔
مضامین سورۃ کے اس تجزیہ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے بھی اندازہ ہوجائے گا کہ پوری سورۃ ایک معین مقصد پر نہایت جامع اور مربوط خطبہ ہے۔ "

-------------------------------------------------------
(حوالہ:  تدبر قرآن  از امین احسن اصلاحی )