12۔ سورہ یوسف : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

 12۔ سورہ یوسف کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ 
(الف)۔ سورۃ کا عمود : سورتوں کا یہ گروپ سورۃ یونس سے شروع ہوا ہے۔ ہم اس پورے گروپ کے عمود پر، سورۃ یونس کی تفسیر کی تمہید میں، ایک جامع تبصرہ کرچکے ہیں، یہاں اس کا ضروری حصہ نقل کیے دیتے ہیں تاکہ ذہن میں بات تازہ ہوجائے ہم نے لکھا ہے۔ "اس پورے گروپ کی تلاوت، تدبر کے ساتھ، بار بار کیجیے تو آپ نہایت واضح طور پر محسوس کریں گے کہ گروپ کی تمام سورتوں میں مشترک حقیقت، جو مختلف پہلووؤں اور اسلوبوں سے واضح فرمائی گئی ہے، یہ ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے حق و باطل کے درمیان جو کشمکش برپا ہوچکی ہے وہ بالآخر پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کی کامیابی و فتح مندی اور قریش کی ذلت و ہزیمت پر منتہی ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ اس میں قریش کے لیے انذار اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کے لیے بشارت ہے۔ قریش پر عقلی و فطرت، آفاق و انفس کے دلائل اور تاریخ ونظام کائنات کے شواہد سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ جو حق تمہارے پاس آچکا ہے اس کی مخالفت میں اگر تمہاری یہی روش قائم رہی تو بہت جلد وہ وقت آرہا ہے جب تم اس کا انجام بد اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے"۔ "اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو صبر، استقامت اور تقوی کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ جس حق کو لے کر تم اٹھے ہو انجام کار کی کامیابی و فیروز مندی اسی کا حصہ ہے۔ البتہ سنت الٰہی یہ ہے کہ حق کو غلبہ اور کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے آزمائش کے مختلف مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان مرحلوں سے لازماً تمہیں بھی گزرنا ہے۔ اگر یہ مرحلے تم نے عزیمت و استقامت کے ساتھ طے کرلیے تو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی تمہارا ہی حصہ ہے۔ یثبت اللہ الذین امنوا بالقول الثابت فی الحیوۃ الدنیا وفی الاخرۃ، ویضل اللہ الظالمین" (27۔ ابراہیم) ۔

اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے سورۃ یونس اور سورۃ ہود دونوں میں، جیسا کہ آپ نے دیکھا، حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں کی سرگزشتیں تفصیل سے سنائی گئی ہیں اور سورۃ ہود کے آخر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے ان سرگزشتوں کے سنانے کا یہ مقصد بیان فرمایا گیا ہے ۔"وَكُلًّا نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهٖ فُؤَادَكَ ۚ وَجَاۗءَكَ فِيْ هٰذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَّذِكْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ۔ وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ اعْمَلُوْا عَلٰي مَكَانَتِكُمْ ۭ اِنَّا عٰمِلُوْنَ۔ وَانْتَظِرُوْا ۚ اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ۔ : اور ہم رسولوں کی سرگزشتوں میں سے تمہیں وہ سب سنا رہے ہیں جس سے تمہارے دل کو مضبوط کریں اور ان میں تمہارے لیے بھی حق واضح ہوا ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے بھی ان میں موعظت اور یاد دہانی ہے اور جو ایمان نہیں لارہے ہیں ان سے کہہ دو کہ تم اپنی جگہ پر کام کرو، ہم اپنی جگہ کام کر رہے ہیں اور تم بھی انتظار کرو، ہم بھی منتظر ہی ہیں"

(ب)۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ : بعینہ یہی مقصد اس سرگزشت کا بھی ہے جو سورۃ یوسف میں مذکور ہوئی ہے۔ بس یہ فرق ہے کہ پچھلی سورتوں میں متعدد انبیاء کی سرگزشتیں سنائی گئی ہیں، اس میں ایک ہی سرگزشت نے پوری سورۃ کو گھیر لیا ہے اور اس کو احسن القصص (بہترین سرگزشت) سے تعبیر فرمایا گیا ہے اور آخر میں خلاصۂ سرگزشت ان الفاظ میں سامنے آیا ہے۔ "انہ من یتق ویصبر فان اللہ لا یضیع اجر المحسنین : بے شک جو تقوی اختیار کریں گے اور ثابت قدم رہیں گے تو اللہ ایسے خوب کاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا" (یوسف :90)۔ گویا سورۃ ہود کے بعد سورۃ یوسف اسی حقیقت کو مبرہن کرنے کے لیے ایک تاریخی چہادت ہے جو سورۃ ہود کی مندرجہ بالا آیت میں مذکور ہوئی ہے اور یہ شہادت ایک بہترین شہادت ہے جو ایک بہترین سرگزشت میں نمایاں ہوئی ہے۔

(ج)۔ قصہ یوسف (علیہ السلام) کے احسن القصص ہونے کے بعض وجوہ :۔ قصہ یوسف کا احسن القصس ہونا اس پہلو سے تو نہایت واضح ہونا اس پہلو سے تو نہایت واضح ہے کہ ہر پڑھنے والا اس کے اندر اپنے ایمان کے لیے غذا اور اپنی وح کے لیے لذت و حلاوت محسوس کرتا ہے لیکن اس کے بعض پہلوؤں کی طرف ہم بھی یہاں اشارہ کیے دیتے ہیں تاکہ جو لوگ اس کے محاسن کو گرفت میں لینے کا شوق رکھتے ہوں ان کی کچھ رہنمائی ہوسکے۔
ہمارے نزدیک اس کے "احسن القصص" ہونے کے مندرجہ ذیل پہلو خاص اہمیت رکھتے ہیں۔

1۔ یوں تو قرآن میں حضرت انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں کے درمیان کشمکش کے جتنے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں سب ہی عبرت و رہنمائی کے لیے بیان ہوئے ہیں کہ ماضی کی ان سرگزشتوں سے حاضر اور مستقبل کے حالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے سبق حاصل کیے جائیں لیکن خاص طور پر حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کی یہ سرگزشت تو گویا ایک آئینہ ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے سے وہ تمام حالات دکھا دیے گئے جو آپ کی قوم کے ہاتھوں آپ کو پیش آنے تھے۔

تفصیلات میں جانے کا یہاں موقع نہیں ہے۔ چند نمایاں واقعات کی طرف اشارہ کردینا کافی ہوگا۔ دار الندوہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کے مشورے اور اس شر سے حضور کا محفوظ رہنا۔ غار ثور میں حضور کا چھپنا اور پھر مدینہ کو ہجرت فرمانا۔ مدینہ پہنچ کر آہستہ آہستہ آپ کو وہ وقار و اقتدار حاصل ہونا کہ چشم فلک نے اس کی نظیر نہیں دیکھی۔ آپ کی قوم کے باایمان لوگوں کا مدینہ کو ہجرت کرنا اور وہاں ایک طاقتور حکومت کا قیام۔ اس حکومت کا عروج اور اہل مکہ کا اس کی اطاعت میں داخل ہونا۔ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم کے باایمان لوگوں کا مدینہ کو ہجرت کرنا اور وہاں ایک طاقتور حکومت کا قیام۔ اس حکومت کا عروج اور اہل مکہ کا اس کی اطاعت میں داخل ہونا۔ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی قوم کے لوگوں سے یہ سوال کہ لوگو، بتاؤ، میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں ؟ وہ بولے کہ "آپ شریف بھائی اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔ ان کے اس جواب کے بعد آپ نے فرمایا، میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میری بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی، جاؤ تم آزاد ہو، تم پر کوئی الزام نہیں۔۔ ان تمام واقعات کو ذہن کے سامنے رکھتے ہوئے سورۃ یوسف کا تدبر کے ساتھ مطالعہ کیجیے تو یہ ساری سرگزشت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی پر یوں منطبق ہوتی ہے کہ گویا۔ جامہ بود کہ برقامت او دوختہ بود۔

2۔ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا حاضر و مستقبل اس آئینہ میں بالکل مصور و ممثل دیکھ لیا اسی طرح آپ کے دشمنوں نے بھی، کم از کم جو ذہن میں رہے ہوں گے، اس قصہ کے پیرایہ میں اپنی عاقبت دیکھ لی ہوگی اور اس کا بھی امکان ہے کہ جن کے اندر صلاحیت رہی ہوگی وہ اس سے متاثر بھی ہوئے ہوں گے۔ حالانکہ اگر یہی باتیں صریح الفاظ میں کہی جاتیں تو اس سے فائدہ پہنچنے کی بجائے الٹا نقصان پہنچتا۔ ایک لطیف قصہ کے پردے میں لوگ جو کچھ ہضم کرجاتے ہیں وہ کھلے ہوئے وعظ کی شکل میں کبھی قبول نہیں کرتے۔

3۔ عام طور پر لوگ ان قصوں سے بہت دلچسپی لیتے ہیں جن میں کچھ چاشنی حسن و عشق کی ہو لیکن ایسے قصے بالعموم اخلاق کو بگاڑنے والے ہوتے ہیں۔ اس قصہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں حسن و عشق کی ہو لیکن ایسے قصے بالعموم اخلاق کو بگاڑنے والے ہوتے ہیں۔ اس قصہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں حسن و عشق کی چاشنی بھی ہے اور پھر پوری سرگزشت ہر پہلو سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اعلی کردار و صفات کا ایک مرقع ہے۔ جو مواقع خاص آزمائش کے آئے ہیں ان میں حضرت یوسف نے اپنی اعلی فطرت کے جو جوہر نمایاں کیے ہیں وہ ایسے شاندار ہیں کہ ہر پڑھنے والے کے اندر ان کی تقلید کا جذبہ ابھرتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ یہ تقلید ناممکن نہیں بلکہ ممکن محسوس ہوتی ہے ۔

4۔ یہ پہلو بھی اس سرگزشت کا نہایت دلکش ہے کہ باوجودیکہ جو واقعات و حالات پیش آئے وہ نہایت حیرت انگیز ہیں لیکن کوئی بات بے ربط اور رفتار حالات سے بے جوڑ نہیں معلوم ہوتی۔ ذہن بے تکلف اس کو قبول کرلیتا ہے اور ان کی فطری صداقت سے ہر سننے والا اپنی صلاحیت کے مطابق متاثر ہوتا ہے۔
5۔ حضرت یوسف حسن ظاہر اور حسن باطن دونوں کے جامع تھے لیکن ان کا اصلی حسن ان آزمائشوں میں نمایاں ہوا ہے جو ان کی زندگی کے مختلف مراحل میں پیش آئی ہیں۔ وہ بیک وقت ذہانت، پاکیزگی، نبوت، بادشاہی، پاکدامنی اور قدرت کے ساتھ عفو و درگزر کی ایک زندہ جاوید مثال ہیں ۔

یہ چند نمایاں پہلوؤں کی طرف یہاں ہم نے اشارہ کردیا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس قصہ کی حکمت بس انہیں چند باتوں تک محدود ہے۔ آگے اثنائے قصہ میں کتنے نوادر حکمت آئیں گے جن کی وضاحت ان کے محل ہی میں مناسب رہے گی۔ "



(حوالہ:  تدبر قرآن  از امین احسن اصلاحی )