13۔ سورہ رعد : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

13۔ سورہ رعد کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ 
(الف)۔ سورۃ کا عمود : یہ سورۃ سورۃ یوسف کے قوام اور اس کے جوڑے کی حیثیت رکھتی ہے۔ دونوں کے عمود میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ قرآن کے نزول نے حق و باطل کے درمیان جو کشمکش برپا کردی تھی، انجام کار کی کامیابی اس میں جس گروہ کو حاصل ہونے والی تھی اس کو اس میں نمایاں فرمایا ہے۔ یہی حقیقت سورۃ یوسف میں بھی واضح کی گئی ہے، البتہ دونوں سورتوں میں طریق استدلال الگ الگ ہے۔ سورۃ یوسف میں حضرت یوسف کی زندگی کے حالات و واقعات سے اس حقیقت کو اجاگر کیا گیا ہے اور اس سورۃ میں عقل و فطرت کے دلائل سے آیات 17۔22 سے اس سورۃ کے عمود پر روشنی پڑتی ہے۔
(ب)۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ : یہ سورۃ اپنے مطالب کے اعتبار سے تمام تر مکی ہے۔ بعض مصاحف میں اس پر مدنی لکھا گیا ہے، جس کی وجہ ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ ہمارے نزدیک پوری سورۃ کا مدنی ہونا تو الگ اس کی کوئی ایک آیت بھی مدنی نہیں ہے۔ اب ہم اختصار کے ساتھ سورۃ کے مطالبہ کا تجزیہ بھی کیے دیتے ہیں تاکہ پوری سورۃ پر ایک اجمالی نظر پڑجائے ۔
(1)۔ تمہید، جس میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ یہ کتاب الٰہی کی آیات ہیں، ہوائی باتیں نہیں ہیں، ان کی یہ بات ایک حقیقت ہے اور جن باتوں کی یہ خبر دے رہی ہیں وہ سب پوری ہو کر رہیں گی لیکن اکثر لوگ اپنی ضد پر اڑے ہی رہیں گے، اس پر ایمان نہیں لائیں گے۔
(2۔4)۔ کائنات کی ان نشانیوں کی طرف اشارہ جن سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ پورا کارخانہ ایک ہی مدبر کی تدبیر و حکمت سے چل رہا ہے۔ اس میں ربوبیت کا وسیع نظام ہے جو اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ اس کو بنانے والے نے کوئی کھیل تماشا نہیں بنایا ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم قصد ہے جو ظہور میں آکے رہے گا۔ اس کے ہر گوشہ میں کثرت کے اندر وحدت اور اختلاف کے اندر ساز گاری کی ایسی نشانیاں موجود ہیں جو صاف شہادت دے رہی ہیں کہ اس پورے کارخانہ پر ایک ہی خالق و مالک کا ارادہ اور تصرف کار فرما ہے۔
(5۔6)۔ منکرین قیامت کے اس تعجب پر تعجب کہ وہ مرجانے اور سر گل جانے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کو نہایت عجیب بات سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ تعجب درحقیقت خدا کے انکار کے ہم معنی ہے۔ ان لوگوں کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں۔ نہ یہ آسمان کی نشانیاں دیکھنے کے لیے اپنی آنکھیں اٹھا سکتے ہیں اور نہ یہ زمین کی نشانیاں دیکھنے کے لیے ان کو جھکا سکتے ہیں۔ یہ توبہ سے پہلے عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں حالانکہ تاریخ کے اندر ان کے لیے کافی سبق موجود ہے۔ یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ لوگوں کوا ن کی سرکشی کے باوجود مہلت دیتا ہے لیکن وہ سخت پاداش والا بھی ہے، جب وہ پکڑے گا تو کوئی اس کی پکڑ سے نہ بچ سکے گا۔
(7۔11)۔ کفار کی طرف سے کسی نشانی عذاب کا مطالبہ اور اس کا جواب۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تسلی کہ تم پر ذمہ داری صف لوگوں کو عذاب سے ہوشیار کردینے کی ہے، عذاب کا لانا یا اس کا وقت مقرر کرنا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے۔ سنت الٰہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قوم کی طرف انذار اور بشارت کے لیے اپنا ایک رسول بھیجتا ہے۔ اگر قوم اس کی تکذیب کردیتی ہے تو وہ لازماً تباہ کردی جاتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ عزاب کب اور کس شکل میں آئے گا تو اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ ایک حاملہ یہ تو جانتی ہے کہ اس کے پیٹ میں بچہ ہے اور اس کو جنے گی لیکن اس بات کا علم صرف اللہ ہی کو ہے وہ کب جنے گی اور کیا جنے گی ۔
لوگوں کو مخاطب کرکے یہ دھمکی کہ تم میں سے ایک ایک کی ہر بات، خواہ ظاہر ہو یا پوشیدہ اور ہر شخص، خواہ وہ شب کے پردوں میں چھپا ہوا ہو یا روز روشن میں مصروف عمل ہو، اللہ کے علم میں ہے۔ اللہ کے مقرر کیے ہوئے فرشتے اس کی نگرانی کررہے ہیں، وہ ان کو جب چاہے گا اور جہاں سے چاہے گا پکڑ لے گا۔ سنت الٰہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اپنی نظر عنایت سے محروم نہیں کرتا جب تک وہ قوم خود اپنی روش بگاڑ نہ لے۔ ہاں جب قوم اپنی روش بگاڑ لیتی ہے تو اللہ کی طرف سے اس پر وہ عذاب آتا ہے جس کو کوئی بھی دفع نہیں کرسکتا۔
(12۔13)۔ عذاب کی بعض نشانیوں کی طرف اشارہ جو آئے دن لوگوں کے مشاہدے میں آتی رہتی ہیں۔ مثلاً بجلی اور کڑک دمک کی نشانی۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے ایک کڑک سے سب کو فنا کردے۔ اس کی طاقت بے پناہ ہے۔
(14۔16۔ خدا کے سوا کسی دوسرے کو پکارنا سراب کو پانی سمجھ کر اس کے پیچھے بھاگنا ہے۔ یہ خیالی شرکاء و شفعاء کہیں کام آنے والے نہیں ہیں۔ ان کو پکارنا محض صدا بصحرا ہے۔ اس کائنات میں ہر چیز اپنے وجود سے خدا کی توحید کی شہادت دے رہی ہے۔ جن کی گردنیں خدا سے اکڑی ہوئی رہتی ہیں ان کے جسموں کا بھی سایہ خدا ہی کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ ان کو پکارنے سے کچھ حاصل نہیں جو خود اپنے لیے کسی نفع و ضرر پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ شرک خدا کے عدل و حکمت کی نفی ہے۔ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور ایک یکہ و تنہا سب کو اپنے کنٹرول میں رکھنے والا ہے۔
(17)۔ اس کائنات کی بعض نشانیوں کی طرف اشارہ جن سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس کا خالق و صانع ہر گوشہ میں نافع کو باقی رکھتا اور غیر نافع کو چھانٹتا رہتا ہے۔ یہ اس بات کی شہادت ہے کہ وہ حق وباطل کی اس کشمکش میں بھی جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اور قرآن کے نزول سے برپا ہوئی ہے باطل کو مٹا دے گا اور حق کا بول بالا کرے گا۔
(18۔25)۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کرکے اللہ کے کے راستہ پر چل کھڑے ہونے والوں کے لیے انجام کار کی کامیابی کی بشارت اور اس دعوت کی مخالفت و مزاحمت کرنے والوں پر اللہ کی لعنت۔
(26)۔ اس شبہ کا جواب کہ اگر اللہ کی تمام عنایتوں کے حق دار صرف اہل ایمان ہی ہیں تو وہ لوگ کیوں رزق و فضل کے مالک بنے بیٹھے ہیں جو رات دن اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت مزاحمت میں سرگرم ہیں۔
(27۔32)۔ کفار کی طرف سے کسی معجزہ کا مطالبہ اور اس کا جواب۔ دلوں کو مطئن کرنے والی چیز اللہ اور اس کی صفات کی یاد داشت اور اس میں غور و فکر ہے نہ کہ کوئی معجزہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ تمہیں وہی کچھ پیش آ رہا ہے جو تم سے پہلے نبیوں اور رسولوں کو پیش آچکا ہے تو تم خدا کی وحی کی ہوئی کتاب ان کو سنا دو اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ مسلمانوں کو یہ تسلی کہ یہ نہ خیال کرو کہ اگر ان کو کوئی معجزہ دکھا دیا گیا تو یہ مان لیں گے اگر کوئی ایسا قرآن بھی ان کے لیے اتار دیا جائے جس سے پہاڑ چلنے لگیں، زمین ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے یا مردے بولنے لگ جائیں جب یہ اپنی ہٹ سے باز آنے والے نہیں ہیں۔ اہل ایمان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ نے ایمان کے معاملے میں جبر کو پسند نہیں فرمایا ہے اگر وہ جبر کو پسند کرتا تو سب کو ہدایت کے راستہ پر چلا دیتا۔ عذاب کی نشانیاں ان پر یا ان کے قرب و جوار میں ظاہر ہوتی رہیں گی یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ کن عذاب آجائے۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ جس طرح یہ لوگ تمہارا مذاق اڑا رہے ہیں اسی طرح تم سے پہلے آنے والے رسولوں کا بھی مذاق اڑایا گیا، بالآخر خدا کا عزاب نمودار ہوا اور ان مذاق اڑانے والوں کا فیصلہ کردیا گیا۔
(33۔35)۔ شرک اور شرکاء کی نفی شرکاء و شفعاء کا کوئی وجود نہیں۔ یہ محض من گھڑت باتیں ہیں۔ اس فریب نفس میں مبتلا ہو کر جنہوں نے اللہ کے راستہ سے منہ موڑا وہ اس دنیا میں بھی خدا کے عذاب سے دوچار ہوں گے اور آخرت کا عذاب تو اس سے کہیں سخت ہوگا۔ کوئی شریک و شفیع وہاں ان کو بچانے کے لیے نہیں اٹھے گا۔ جنت کی ابدی نعمتیں صرف ان لوگوں کا حصہ ہوں گی جو خدا سے ڈرنے والے ہیں۔
(36۔37)۔ اہل کتاب کے دو گروہوں کا حوالہ جن میں سے ایک حق پر قائم تھا اس وجہ سے اس نے قرآن کا پوری خوش دلی سے خیر مقدم کیا اور دوسرا اپنی ایجاد کردہ بدعات میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس کا مخالف بن گیا۔ ان کے سامنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلان حق اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ طرف سے یہ تنبیہ کہ حق کے واضح ہوچکنے کے بعد اگر تم نے ان کی بدعات کی پیروی کی تو تمہیں خدا کی پکڑ سے کوئی نہ باسکے گا۔
(38۔43)۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخالفین کے اعتراضات و مطالبات کے مقابل میں تسلی کہ تم سے پہلے جو رسول آئے وہ بھی کوئی فرشتے یا آسمانی مخلوق نہیں تھے بلکہ تمہاری ہی طرح بشر اور بیویاں رکھنے والے لوگ تھے۔ انہوں نے جو معجزے بھی دکھائے وہ اللہ کے حکم سے دکھائے، اپنے اختیار سے نہیں دکھائے۔ تم ان لوگوں کو جن باتوں سے ڈرا رہے ہو، ہوسکتا ہے کہ ہم تمہاری زندگی ہی میں ان میں سے بعض چیزوں کو دیکھا دیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم تمہیں وفات دیں اور اس کے بعد ان سے مواخذہ کریں یہ لوگ اگر آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں یہ چیز نظر آسکتی ہے کہ ہم ان کے اطراف سے بالتدریج ان کی طرف بڑھ رہے ہیں اور عنقریب ان کو اپنے گھیرے میں لیا چاہتے ہیں۔ اس وقت انہیں پتہ چل جائے گا کہ انجام کار کی کامیابی کس کا حصہ ہے۔ اگر یہ لوگ تمہیں رسول نہیں مانتے تو تم ان سے کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ اور اللہ کے وہ بندے کافی ہیں جن کے پاس اللہ کی کتاب کا علم ہے ۔


(حوالہ:  تدبر قرآن  از امین احسن اصلاحی )