14.سورۂ ابراہیم : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

(الف)۔ سورۃ کا عمود : سورۃ رعد کی آیات اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا الایہ میں قریش کو جو دھمکی اور مسلمانوں کو جو بشارت، اشارہ اور کنایہ کے انداز میں، دی گئی تھی اس سورۃ میں وہ کھل کر سامنے آگئی ہے۔ قریش پر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ آج مکہ کی سرزمین پر حق و باطل میں جو کشمکش برپا ہے اس میں تم جس کلمۂ باطل کے علمبردار ہو اس کی کوئی بنیاد نہ زمین میں ہے نہ آسمان میں۔ اس کی مثال گھورے پر اگے ہوئے ایک شجرہ خبیثہ کی ہے جو بیک جنبش اکھاڑ کر پھینکا جا سکتا ہے۔ اگر یہ اب تک برقرار رہا تو اس وجہ سے نہیں کہ وہ کوئی مضبوط جڑ رکھتا تھا بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس کو اکھاڑنے والے ہاتھ موجود نہیں تھے۔ اب اللہ نے وہ ہاتھ نمودار کردیے ہیں تو تم دیکھو گے کہ کتنی جلدی اس کا قصہ پاک ہوا جاتا ہے۔ اس کے بالمقابل اسلام کی دعوت کی تمثیل اس سدا بہار شجرہ طیبہ سے دی گئی ہے جس کی جڑیں پاتال میں اتری ہوئی اور جس کی شاخیں فضائے آسمانی میں پھیلی ہوئی ہوں۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو دنیا میں بھی مضبوط و مستحکم کرے گا اور آخرت میں بھی ان کو سرخروئی بخشے گا بشرطیکہ وہ صبر و استقامت کے ساتھ اپنی دعوت حق پر جمے رہے اور اس راہ میں پیش آنے والی آزمائشوں کا انہوں نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے مقابلہ کیا۔

اس حقیقت کو تاریخ کی روشنی میں واضح کرنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء کی سرگزشتوں کے ان پہلوؤں کی طرف اس میں اشارات ہیں جن سے اصل مدعا کی تائید ہوتی ہے۔ آخر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سرگزشت کا حوالہ دے کر یہ واضح فرمایا ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے اپنے وطن سے ہجرت کرکے اس وادی غیر ذی زرع میں آئے تھے، اس سرزمین کے لیے انہوں نے کیا دعا کی، اس میں اپنی اولاد کو بساتے ہوئے ان کے دل میں کیا ارمان تھے اور انہوں نے اپنے رب سے ان کے لیے کیا چاہا اور کیا مانگا تھا۔ یہ باتیں سنانے سے مقصود قریش کے سامنے ان کی اپنی تاریخ کا آئینہ رکھ دینا ہے تاکہ وہ اندازہ کرسکیں کہ ان کو کیا بننا تھا اور وہ کیا بن کے رہ گئے ہیں۔

اگرچہ سورۃ کا نظام سمجھنے کے لیے یہ تمہید بھی کافی ہے لیکن اپنے طریقہ کے مطابق ہم سورۃ کے مطالب کا تجزیہ بھی کیے دیتے ہیں۔

(ب)۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ :

(آیات 1 تا 4)۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے اس کتاب کو اتارنے کا مقصد واضح فرمایا گیا ہے کہ یہ اس لیے اتاری گئی ہے کہ اس کے ذریعے سے تم لوگوں کو عقاید و اعمال کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان و عمل صالح کی روشنی میں لاؤ۔ پھر ان لوگوں کا انجام بتایا گیا ہے جو اس کا انکار کریں گے۔ قریش کو دھمکی دی گئی ہے کہ اس کتاب کو ان کی زبان میں اتار کر خدا نے ان پر اپنی حجت تمام کردی ہے۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ لوگوں کا ایمان لانا یا نہ لانا خدا کی توفیق بخشی پر منحصر ہے وہ جس کو جس چیز کا مستحق پائے گا وہی دے گا۔ اس معاملے میں تمہاری ذمہ داری صرف بلاغ کی ہے ۔
(5 تا 17)۔ حضرت موسیٰ اور دوسرے انبیاء سابقین کا حوالہ وہ بھی اسی مقصد کو لے کر آئے تھے اور نہیں اس راہ میں بڑے بڑے مصائب سے دوچار ہونا پڑا لیکن انہوں نے استقامت دکھائی جس کا صلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ ملا کہ وہ غالب رہے اور ان کے مخالفین کو اللہ نے تباہ کردیا۔ مقصود ان سرگزشتوں کے حوالہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں پر یہ واضح کرنا ہے کہ اس کشممکش میں بھی بالآخر غلبہ انہی کو حاصل ہوگا لیکن ان ابتدائی مراحل میں صبر و استقامت اور آخری مرحلہ میں شکر نعمت لازمی ہے ۔

(18 تا 22)۔ کفار و مشرکین کا آخرت میں جو حشر ہوگا اس کا بیان کہ ان کا سارا کیا کرایا خاک اور راکھ ہو کر اڑ جائے گا۔ لیڈر اور ان کے پیرو ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے۔ یہاں تک کہ شیطان بھی اپنی پیروی کرنے والوں سے اعلان براءت کردے گا اور ان سے کہے گا کہ تم مجھے ملامت کرنے کے بجائے خود اپنے سر پیٹو، تم اپنی بدبختی کے ذمہ دار خود ہو۔

(23 تا 27)۔ اس کے مقابل میں اہل ایمان کا حال آخرت میں یہ ہوگا کہ آپس میں سلام و تحیت اور مبارک سلامت کے تبادلے ہورہے ہوں گے۔ اللہ نے اپنے قول محکم کی بدولت جس طرح دنیا میں ان کو سرفرازی بخشی اسی طرح آخرت میں بھی ان کو سرفرازی بخشے گا۔

(28 تا 34)۔ قریش کے لیڈروں کو انذار و تنبیہ کہ انہوں نے اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں کو کفر و شرک کا ذریعہ بنایا اور اس طرح اپنی قوم کو جہنم کے گھاٹ پر اتارا۔ ضمناً مسلمانوں کو نصیحت کہ وہ نماز کا اہتمام رکھیں اور اپنے مال میں سے خدا کی راہ میں سراً و علانیۃً خرچ کریں۔ مقصود اس نصیحت سے مسلمانوں کو یہ رہنمائی دینا ہے کہ یہی چیز ان کے حریفوں کے مقابل میں عنداللہ ان کے حق کو مرجح کرنے والی اور حضرت ابراہیم کے اس مقصد کو پورا کرنے والی ہوگی جس کے لیے انہوں نے اس وادی غیر ذی زرع میں، جیسا کہ آگے اس کا ذکر آ رہا ہے، اپنی ذریت کو بسایا تھا۔

(35 تا 41)۔ حضرت ابراہیم کی ان دعاؤں کا حوالہ جو انہوں نے سرزمین مکہ کو اپنا دار الہجرت بنانے کے بعد اس سرزمین کے لیے اور اپنی اولاد کے لیے کیں، مقصود ان کے حوالے سے قریش پر یہ واضح کرنا ہے کہ ان کی ساری زندگی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں اور تمناؤں کے بالکل برعکس ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مقصد کو اگر پورا کر رہے ہیں تو یہ پیغمبر اور ان کی پیروی کرنے والے مسلمان لیکن قریش ان کے دشمن ن کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

(42 تا 52)۔ خاتمہ سورۃ جس میں تمام تر تنبیہ و انذار ہے ۔