15. سورۃ الحجر : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

15.سورہ الحجر: تعارف و مطالب کا تجزیہ۔
(الف)۔ سورۃ کا عمود : پچھلی سورۃ کے آخر میں کفار کے لیے جو تہدید و وعید اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جو تسکین و تسلی مجمل الفاظ میں وارد ہوئی ہے وہ اس سورۃ میں بالکل سامنے آگئی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے یہ اطمینان دلایا گیا ہے کہ یہ قرآن بجائے خود ایک واجح حجت ہے۔ اگر یہ لوگ اس کو نہیں مان رہے ہیں، تمہیں خطبی اور دیوانہ کہتے ہیں، مطالبہ کررہے ہیں کہ ان پر فرشتے اتارے جائیں تب یہ مانیں گے تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے، ہمشیہ سے رسولوں کے جھٹلانے والوں کی یہی روش رہی ہے، اگر ان کے مطالبہ کے مطابق ان کو معجزے دکھا بھی دیے گئے جب بھی یہ ہٹ سے باز آنے والے نہیں ہیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑو، وہ وقت آئے گا جب یہ آرزوئیں کریں گے کہ کاش پیغمبر اور قرآن کی دعوت قبول کرکے مومن و مسلم بنے ہوتے۔
(ب)۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ :
(آیات 1 تا 15)۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسکین و تسلی کہ یہ قرآن بجائے خود ایک واضح حجت ہے، یہ کسی خارجی نشانی یا کسی معجزے کا محتاج نہیں ہے، جو لوگ اس کو آج جھٹلا رہے ہیں وقت آئے گا جب وہ اپنی بدبختی پر ماتم کریں گے۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑو، یہ چند دن اپنی خود فراموشیوں میں مگن رہ لیں۔ اس قوم کی ہلاکت کے لیے خدا کی طرف سے ایک وقت مقرر ہے، جب وہ وقت پورا ہوجائے گا خدا کا عذاب آجائے گا۔ یہ خدا کے فرشتوں کے ظہور کا مطالبہ کررہے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ فرشتے تو جب آتے ہیں خدا کا فیصلہ لے کر ہی آتے ہیں اس کے بعد کسی قوم کو مہلت نہیں ملا کرتی۔ اگر یہ لوگ اس قرآن کی تکذیب کر رہے ہیں تو اس کی پروا نہ کرو، خدا اس کی حفاظت کا خود سامان کرے گا۔ یہی روش ان سے پہلے کی قوموں نے اختیار کی تو وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچیں، وہی حشر ان کا بھی ہونا ہے۔ یہ اطمینان رکھو کہ ان کو کوئی بڑے سے بڑا معجزہ بھی قائل کرنے والا نہیں بن سکتا۔ وہ اس کو دیکھ کر بھی کوئی نہ کوئی بات بنا ہی لیں گے۔
(16 تا 25)۔ قرآن کی دعوت کی صداقت کی جو نشانیاں آفاق میں موجود ہیں ان کی یاد دہانی۔ آسمان اور اس کے چمکتے ہوئے تارے، زمین اور اس کی نوع بنوع پیداواریں، ہوائیں اور ان کی ابر خیزیاں ان عجائب قدرت کے مشاہدے سے وہ سبق کیوں نہیں حاصل کرتے ؟ ان نشانیوں کے ہوتے کسی معجزے کے ظاہر ہونے کی کیا ضرورت باقی رہی ؟
(26 تا 48)۔ یہی آدم اور ابلیس کے ابتدائی ماجرے کی یاد دہانی جس سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ کفار کی گمراہی کا اصل مصدر کیا ہے اور ابلیس کی ذریات نے ان کو جس ضلالت میں پھنسایا ہے بالآخر اس کا انجام کیا ہونا ہے۔ نیز شیطان کے فنتوں سے محفوظ رہنے والے متقین کی فوز و فلاح کی طرف ایک اجمالی اشارہ۔
(49 تا 77)۔ حضرت ابراہیم(علیہ السلام) کے پاس آنے والے فرشتوں کے واقعہ کی یاد دہانی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا اپنے بندوں پر بڑا مہربان بھی ہے اور ان پر دردناک عذاب لانے والا بھی۔ وہی فرشتے جو حضرت ابراہیم کے لیے بیٹے کی بشارت لے کر آئے اور وہی فرشتے قوم لوط کے لیے صاعقۂ عذاب بن کر نمودار ہوئے۔ آخر میں کفار کو توجہ دلائی گئی ہے کہ تم لوط کی بستیوں پر سے آئے دن گزرتے ہو، اگر دیدۂ بینا رکھتے ہو تو ان کے انجام سے کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے ؟ تم پیغمبر سے فرشتوں کے ظہور کے لیے مطالبہ کر رہے ہو۔ فرشتے تو جب مکذبین کے پاس آتے ہیں تو اسی طرح آتے ہیں جس طرح قوم لوط کے پاس آئے کہ ان کے آنے کے بعد ان پر عذاب الٰہی آ دھمکا۔
(78 تا 84)۔ قوم شعیب اور قوم ثمود کے انجام کی طرف اجمالی اشارہ۔ قوم لوط کی طرح قومی شعیب اور قوم ثمود کے آثار پر سے بھی قریش کو اپنے تجارتی سفروں میں گزرنے کا موقعہ ملتا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر دیدہ بینا ہو تو قدم قدم پر مفسدین کے انجام کے آثار موجود ہیں۔ یہ کیا ضروری ہے کہ جب اپنے ہی اوپر سب کچھ نازل ہوجائے تب ہی آنکھیں کھلیں۔

(85 تا 99)۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسکین و تسلی کہ ابھی خوبصورتی کے ساتھ ان لوگوں سے درگزر کرو۔ ان کے کیے کا سارا انجام ان کے سامنے آجائے گا۔ خدا نے قرآن عظیم کی شکل میں جو دولت گرانمایہ تمہیں بخشی ہے وہ تمہارے لیے لیے کافی ہے۔ اس کے ہوتے تمہیں کسی چیز کی احتیاج نہیں۔ ان کے طعنوں کی تم کچھ پروا نہ کرو، خدا کی تسبیح اور نماز میں مشغول رہو۔ صبح یقین طلوع ہوا ہی چاہتی ہے ۔