16۔سورہ نحل : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

16۔سورہ نحل کا تعارف  اور مطالب کا تجزیہ 
(الف)۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق :اس گروپ کی تمام سورتوں کے عمود پر ایک جامع بحث ہم سورۃ یوسف کی تفسیر کے شروع میں کر آئے ہیں رسول کی بعثت سے حق و باطل کے درمیان جو کشمکش شروع ہوتی ہے وہ لازماً رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کی فتح اور اس کے جھٹلانے والوں کی ہزیمت پر ختم ہوتی ہے۔ یہی حقیقت ایک نئے اسلوب سے اس سورۃ میں بھی واضح کی گئی ہے۔ اس پہلو سے دیکھیے تو اس کی آیت 30 للذین احسنوا فی ھذہ الدنیا حسنۃ ولدار الاخرۃ خیر ولنعم دار المتقین، کو عمود کی حیثیت حاصل ہے۔ یعنی جو لوگ نیکی اور تقوی کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے اس دنیا میں بھی فیروز مندی ہے اور آخرت کا گھر تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے ہی اور کیا ہی خوب ہے تقوی اختیار کرنے والوں گا گھر۔ یہی بات اس سورۃ کی آیات 41 تا 42 میں بھی فرمائی گئی ہے کہ جو لوگ حق کی راہ میں مخالفین حق کے مظالم سہہ کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت اختیار کرتے ہیں ہم ان کو دنیا میں بھی اقتدار و تمکن عطا کرتے ہیں اور آخرت کا صلہ تو اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے ہی۔
سابق سورۃ (سورہ حجر) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس تسلی کے مضمون پر ختم ہوئی تھی کہ آج جو لوگ تمہارے انذار اور تمہاری تنبیہ و تذکیر کا مذاق اڑا رہے ہیں اور تمہاری باتوں کو محض ہوائی باتیں خیال کررہے ہیں تم ان کے اس استہزاء سے دل شکستہ نہ ہو، تمہاری طرف سے ان متکبروں اور مغروروں سے نپٹنے کے لیے ہم کافی ہیں۔ اس مضمون کے بعد یہ سورۃ بغیر کسی تمہید کے ان متکبرین ہی کو خطاب کرکے یوں شروع ہوگئی ہے کہ اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ، یعنی عذاب کے لیے امر الٰہی صادر ہوچکا ہے تو اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ، اور یہ لوگ اس گھمنڈ میں نہ رہیں کہ جن کو خدا کا شریک بنائے بیٹھے ہیں وہ ان کو خدا کی پکڑ سے بچا لیں گے۔ اللہ اس سے پاک اور برتر ہے کہ اس کا کوئی شریک و سہیم ہے۔
(ب)۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ :
(آیات 1 تا 9)۔ کفار قریش کو تنبیہ کہ عذابِ الٰہی کو آیا ہی ہوا سمجھو۔ اس کو مذاق سمجھ کر اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ۔ اس گھمنڈ میں نہ رہو کہ جن کو تم نے خدا کا شریک بنا رکھا ہے تو وہ تم کو اس سے بچا لیں گے۔ خدا کا کوئی شریک نہیں ہے۔ یہ دنیا کوئی بازیچۂ اطفال نہیں ہے کہ لوگ اس میں دھاندلی مچاتے پھریں اور اس کا خالق و مالک ان سے کوئی باز پرس نہ کرے۔ پانی کی ایک بوند سے پیدا ہوئے انسان کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ وہ خدا سے جھگڑا کرے کہ مرنے کے بعد اس کو کون دوبارہ پیدا کرسکتا ہے۔ اس دنیا میں خدا کی ربوبیت اور اس کی پروردگاری کی جو نشانیاں ہر قدم پر موجود ہیں وہ اس بات کی شاہد ہیں کہ اس کا خالق نہایت ہی مہربان و رحیم ہے۔ وہ ایک دن ایسا ضرور لائے گا جس میں تمام معاملات کا فیصلہ کرے گا اور نیکوں اور بدوں دونوں کو ان کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دے گا۔ پس لوگوں کے لیے صحیح رویہ یہی ہے کہ وہ اس کی بتائی ہوئی اور اس تک پہنچانے والی سیدھی راہ اختیار کریں اور کج و پیچ کی راہوں میں بھٹکنے سے بچیں۔ اگر خدا چاہتا تو سب کو راہ ہدایت ہی پر کردیتا لیکن اس معاملے میں اس نے جبر کو نہیں پسند فرمایا بلکہ یہ چاہا کہ لوگ اپنے اختیار و انتخاب سے ہدایت کی راہ اختیار کریں۔
(10 تا 23)۔ توحید کے دلائل اس کائنات کے مختلف اجزاء میں توافق کے پہلو سے۔ یعنی اس کائنات کے مختلف اجزا میں جو باہمی سازگاری ہے وہ اس حقیقت کی نہایت واضح دلیل ہے کہ ایک ہی حکیم و قدیر کا ارادہ اس پوری کائنات میں کارفرما ہے۔ اس میں کسی اور کی شرکت نہیں ہے تو جو لوگ دوسرے معبودوں پر تکیہ کیے بیٹھے اور آخرت سے نچنت ہیں وہ اپنے اس گھمنڈ کی سزا ایک دن ضرور بھگتیں گے۔
(24 تا 32)۔ قرآن اور اس کی تعلیمات سے متعلق متکبرین کی رائے اور ان کے رویے کی طرف اشارہ اور اس حقیقت کی تصریح کہ آج جو لوگ اپنی لیڈری کے زعم میں قرآن سے لوگوں کو برگشتہ کررہے ہیں، وہ قیامت کے دن اپنی گمراہی کا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور ان لوگوں کے بوجھ میں سے بھی کچھ حصہ ان کو اٹھانا پڑے گا جن کی گمراہی کا وہ ذریعہ بنیں گے۔ ان کے مقابل میں خدا ترسوں کا جو رویہ ہے اس کا حوالہ اور ان کے اچھے انجام کی طرف اشارہ۔
(33 تا 40)۔ مشرکین، قرآن کی مخالفت اور اپنے باطل نظریات کی حمایت میں جو باتیں کہتے تھے ان میں سے بعض کا حوالہ اور ان کی تردید۔
(41 تا 47) جو لوگ کلمہ حق کی خاطر مشرکین کے ہاتھوں مصائب جھیل رہے تھے ان کی ہمت افزائی اور شرک کے علم برداروں کو ان کی سرکشی پر تہدید و وعید۔
(48 تا 60)۔ توحید کے دلائل اور مشرکین کو تنبیہ کہ سب کچھ اللہ واحد ہی کے اختیار میں ہے۔ اگر اس کی پکڑ میں آگئے تو کوئی دوسرا اس کی پکڑ سے نجات دینے والا نہیں بن سکتا اور وہ جب چاہے اور جس حال میں چاہے لوگوں کو پکڑ سکتا ہے۔
(61 تا 64)۔ مشرکین کو تنبیہ کہ خدا نے اگر تم کو مہلت دے رکھی ہے تو اس لیے دے رکھی ہے کہ اس کے ہاں ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے، جب وہ وقت مقرر آجائے گا تو پھر نہ اس سے پیچھے ہٹ سکو گے نہ آگے بڑھ سکو گے۔ ساتھ ہی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ جو کچھ تمہیں پیش آ رہا ہے یہی کچھ تم سے پہلے رسولوں کو بھی پیش آچکا ہے۔ تمہارا کام لوگوں کو مومن و موحد بنا دینا نہیں ہے بلکہ صرف لوگوں پر اللہ کی حجت تمام کردینا ہے۔
(65 تا 83)۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں بخش رکھی ہیں ان میں سے کچھ کو گنا کر مشرکین کو ملامت کہ ان میں سے کس نعمت کو وہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ جو لوگ جان بوجھ کر انجان بن رہے ہیں ان کو راستہ پر لا کھڑا کرنا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے۔ تمہاری ذمہ داری صرف حق کو پہنچا دینے کی ہے۔
(84 تا 90)۔ اللہ تعالیٰ نے ہر امت میں حق کی تبلیغ کے لیے اپنے رسول بھیجے ہیں۔ وہ ان سے قیامت کے دن گواہی دلوا دے گا کہ انہوں نے اللہ کا پیغام ان کو پہنچا دیا۔ یہی حیثیت اس امت کے لوگوں کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہے۔ اسی مقصد کے لیے اللہ نے آپ پر یہ کتاب تاری اور اس کتاب کا جو بنیادی پیغام ہے اس کا اجمالی حوالہ۔
(91 تا 95)۔ یہود سے خطاب اور ان کو ملامت کہ تم اللہ سے عہد باندھ کر محض بربنائے حسد مخالفین حق کی صف میں جا کھڑے ہوئے اور اس بڑھیا کے مانند جو اپنا کا تا خود اپنے ہی ہاتھوں ادھیڑ کر رکھ دے تم اللہ سے باندھے ہوئے عہد کے بخیے ادھیڑ رہے ہو۔ اللہ کے عہد کو متاع دنیا کے عوض نہ بیچو اور اپنی قسموں کو لوگوں کو حق سے برگشتہ کرنے کا ذریعہ نہ بناؤ
(96 تا 105)۔ جو لوگ مخالفوں کی مخالفت کے علی الرغم حق پر ثابت قدم رہیں گے ان کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں بہترین صلہ کا وعدہ۔ قرآن اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے مخالفین جو سخن سازیاں کرتے تھے ان میں سے بعض کا جواب۔
(106 تا 111)۔ اعدائے حق کی ستم رانیوں کے ہدف بنے ہوئے مسلمانوں کو صبر و استقامت کی تلقین اور ان لوگوں کو تہدید و وعید جو مخالفین سے مرعوب ہوکر اسلام سے برگشتہ ہوجائیں گے۔ حق کی خاطر ہجرت کی طرف ایک اشارہ اور اس کا اجر و ثواب۔
(112 تا 117) قریش کی تنبیہ کے لیے ایک بستی کی تمثیل کہ اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی تو ان کا بھی وہی انجام ہوسکتا ہے جو اس بستی والوں کا ہوا۔ نیز ان کو یہ ہدایت کہ اپنے جی سے حرام و حلال نہ ٹھہراؤ۔ اللہ نے جن چیزوں کو حلال ٹھہرایا ہے ان کو کھاؤ، اپنے مشرکانہ توہمات کے تحت ان کو حرام نہ ٹھہراؤ۔
(118۔124)۔ اس امر کی طرف اشاہ کہ یہود پر بھی وہی چیزیں حرام ٹھہرائی گئی تھیں جو اس ملت میں حرام ہیں لیکن انہوں نے اپنی سرکشی کے سبب سے خود اپنے اوپر بعض چیزیں حرام کرلیں اور اب ان کو ملت ابراہیم کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ابراہیم کو نہ یہودیت نہ نصرانیت سے کوئی علاقہ تھا، نہ وہ مشرکین میں سے تھے، ان کی ملت ان سب سے الگ تھی اور وہی ملت ہے جس کی پیروی کی ہدایت تمہیں کی گئی ہے۔ سبت کے احترام کا تعلق بھی یہود سے تھا، ملت ابراہیم سے اس کو کوئی تعلق نہیں ۔
(125 تا 128)۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو حکمت و موعظت کے ساتھ دعوت کی ہدایت اور اس راہ میں صبرواستقامت کی تلقین۔ صبر و استقامت کے حصول کا ذریعہ تعلق باللہ ہے۔ مخالفین کی سازشوں سے دل شکستہ نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ اپنے متقی اور خوب کار بندوں کا ساتھی ہے۔ "