17۔ سورہ بنی اسرائیل(سورۃ الاسراء): تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

17۔ سورہ بنی اسرائیل(سورہ الاسراء)کا  تعارف  اور مطالب کا تجزیہ  

(1)۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق :

یہ سورۃ، سابق سورۃ، سورۃ نحل کی، جیسا کہ ہم پیچھے اشارہ کر آئے ہیں، توام سورۃ ہے اس وجہ سے دونوں کے عمود میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے، صرف تفصیل و اجمال کا فرق ہے۔ پچھلی سورۃ میں جو باتیں اشارات کی شکل میں ہیں وہ اس سورۃ میں نہایت واضح صورت میں آگئی ہیں۔ مثلاً : پچھلی سورۃ میں مشرکین مکہ کے ساتھ ساتھ بنی اسرائیل کے لیے دعوی اور انذار دونوں ہے لیکن جہاں تک بنی اسرائیل کا تعلق ہے صرف اشارت کی شکل میں ہے اس سورۃ میں تفصیل کے ساتھ ان کو مخاطب کرکے، ان کی اپنی تاریخ کی رونی میں، یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ اگر تم اس غرے میں مبتلا ہو کہ تم خدا کے محبوب اور چہیتے ہو تو یہ غرہ محض خود فریبی پر مبنی ہے، تمہاری اپنی تاریخ شاہد ہے کہ جب جب تم نے خدا سے بغاوت کی ہے تم پر مار بھی بڑی ہی سخت پڑی ہے۔ خدا کی رحمت کے مستحق تم اسی صورت میں ہوئے ہو جب تم نے توبہ اور اصلاح کی راہ اختیار کی ہے تو اگر اپنی بہبود چاہتے ہو تو اس پیغمبر کی پیروی کرو جو اسی سیدھی راہ کی دعوت دے رہا ہے جو تورات کے ذریعے سے تم پر کھولی گئی تھی۔ ساتھ ہی معراج کے واقعے کی طرف اشارہ کر کے مشرکین مکہ اور بنی اسرائیل دونوں پر یہ حقیقت بھی واضح فرمائی گئی ہے کہ اب مسجد حرام اور مسجد اقصی دونوں کی امانت خائنوں سے چھین کر ان نبی کے امی کے حوالہ کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے تو جس کو اپنی روش بدلنی ہے وہ بدلے ورنہ اپنی ضد اور سرکشی کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوجائے۔

قرآن جس فطری اور سیدھے طریقہ زندگی کی دعوت دے رہا ہے، پچھلی سورۃ میں صرف اس کی اساسات کی طرف اجمالی اشارہ تھا۔ اوامر میں عدل، احسان اور قرابت مندوں کے حقوق کی ادائی کا حوالہ تھا اور منہیات میں حفشاء، منکر اور بغی کا، اس سورۃ میں اس کی پوری تفصیل آگئی ہے۔ اس تفصیل سے تورات کے احکام عشرہ کے ساتھ اس کی مطابقت واضح ہوتی ہے۔ گویا انسانی فطرت اور قدیم آسمانی تعلیم دونوں ہم آہنگ ہیں اس وجہ سے قریش اگر اس سے بغاوت کرتے ہیں تو ان کی بھی شامت ہے اور اگر بنی اسرائیل اس کے خلاف سازشیں کرتے ہیں تو ان پر بھی خدا کی پھٹکار ہے ۔

پچھلی سورۃ میں ہجرت کا ذکر بھی ہے لیکن اشارے کی شکل میں ہے۔ اس سورۃ میں اس کا ذکر نہایت واضح طور پر ہوا ہے اور اس کے لیے جن تیاریوں کی ضرورت ہے۔ ان کی ہدایت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو ایسے انداز میں دی گئی ہے جس سے یہ نمایاں ہورہا ہے کہ اس کا وقت بہت قریب ہے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ سورۃ ہجرت کے قریب زمانہ میں نازل ہوئی۔

سابق سورۃ کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت واضح کرنے کے بعد اب ہم اس کے مطالب کا تجزیہ پیش کرتے ہیں تاکہ بالاجمال پوری سورۃ نظر کے سامنے آجائے ۔

(ب)۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ :

(1)۔ واقعہ معراج کی طرف اشارہ جس میں یہ حقیقت مضمر تھی کہ اب مسجد حرام اور مسجد اقصی دونوں گھروں کی امانت خائنوں اور بدعہدوں سے چھین کر نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ کی گئی۔ اب یہی ان مقدس گھروں اور ان کے انوار و برکات کے وارث اور محافظ و امین ہوں گے اور ان کے قابضین، مشرکین قریش اور یہود، عنقریب ان گھروں کی تولیت سے بے دخل کیے جائیں گے۔

(2۔8)۔ تاریخ بنی اسرائیل کی روشنی میں ان کے اس زعم کی تردید کہ وہ اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں اس وجہ سے اب دنیا کی مذہبی پیشوائی ان کا اجارہ ہے۔ ان آیات میں ان پر واضح کیا گیا ہے کہ تمہیں خود تمہارے نبیوں کے ذریعہ سے آگاہ کردیا گیا تھا کہ تم دو مرتبہ خدا سے بغاوت اور زمین میں فساد مشاؤگے اور دونوں مرتبہ خوب خوب پٹوگے۔ چنانچہ تمہاری تاریخ شاہد ہے کہ تم نے دو مرتبہ خدا سے بغاوت کی اور دونوں ہی مرتبہ خوب پٹے۔ ایک مرتبہ کلدانیوں کے ہاتھوں اور دوسری مرتبہ رومنیوں کے ہاتھوں، تمہیں کلدانیوں کے شکنجہ سے نجات اس وقت ملی جب تم نے اپنے حالات کی اصلاح کی۔ اسی طرح اگر آئندہ بھی تم خدا کی رحمت کے مستحق بننا چاہتے ہو تو توبہ اور اپنے حالات کی اصلاح کرو۔ اس نبی امی کی دعوت نے تمہارے لیے توبہ اور اصلاح کی راہ کھول دی ہے اگر سلامتی چاہتے ہو تو اس دعوت کو قبول کرو اور اس کی برکات میں حصہ دار بن جاؤ۔ اگر تم نے حسد میں مبتلا ہو کر اس نبی کی تکذیب کردی اور نحن ابناء اللہ واحباءہ کے غرے میں مبتلا رہے تو یاد رکھو کہ ہم کہیں چلے نہیں گئے ہیں، ہم تمہیں پھر سی طرح پٹوائیں گے جس طرح اس سے پہلے پٹوا چکے ہیں ۔

(9۔12)۔ مشرکین قریش اور بنی اسرائیل دونوں کو قرآن پر ایمان لانے کی دعوت کہ یہ قرآن فطرت کی اسی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کر رہا ہے جس کی طرف سابق انبیاء اور پچھلے صحیفوں نے رہنمائی کی ہے۔ ان کے لیے بشارت ہے جو اس کو قبول کرلیں اور ان کی شامت ہے جو اس کو رد کردیں۔ ان لوگوں کی حالت پر افسوس جو اس دعوتِ حق کو قبول کرنے کے بجائے حسی معجزات اور عذاب کی نشانیاں مانگتے ہیں اور ان نشانیوں کی طرف توجہ نہیں کرتے جو آفاق میں بھی پھیلی ہوئی ہیں اور جن کی تفصیل اس کتاب میں بھی کردی گئی ہے۔ یہ اپنے مزعومہ معبودوں پر تکیہ کیے بیٹے ہیں حالانکہ کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، ہر ایک کو اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا ہے اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ انذار و تنبیہ کے بغیر عذاب نہیں بھیجتا، اب ان کو تنبیہ ہوچکی ہے، اگر انہوں نے اس تنبیہ سے فائدہ نہ اٹھایا تو آگے عذاب ہی کا مرحلہ باقی ہے۔ ساتھ ہی عذاب کے بارے میں سنت الٰہی کی وضاحت کردی گئی ہے ۔

(22۔39)۔ قرآن جس طریق اقوم کی دعوت دے رہا ہے (جس کی طرف سورۃ نحل کی آیت 90 میں اشارہ گزر چکا ہے) اس کی تفصیل۔ یہ تفصیل واضح کرتی ہے کہ تورات کے احکام عشرہ اور قرآن حکیم کی ان ہدایات میں پوری مطابقت ہے اور یہ عین انسانی فطرت کے موافق ہیں جن کے بغیر کوئی صالح معاشرہ وجود میں نہیں آ سکتا اس وجہ سے نہ بنی اسرائی کے لیے ان سے فرار کا کوئی جواز ہے نہ بنی اسماعیل کے لیے۔ حضرت ابراہیم سے لے کر حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح تک سب نے انہی باتوں کی تعلیم دی ہے۔

(40۔52)۔ مشرکین قریش کی قرآن سے بیزاری کے اصل سبب کی طرف اشارہ کہ وہ توحید اور آخرت پر ایمان نہیں لانا چاہتے اس وجہ سے جب ان کو قرآن سنایا جاتا ہے تو وہ اس سے بدکتے اور پیغمبر پر طرح طرح کے فقرے چست کرتے ہیں حالانکہ ان دونوں باتوں کے دلائل اس قدر واضح ہیں کہ کوئی عاقل ان کا انکار نہیں کرسکتا۔

(53۔55)۔ یہ تین آیتیں اثنائے کلام میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف التفات کی نوعیت کی ہیں۔ آپ کو یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اپنے صحابہ کو متنبہ کردیں کہ دعوت کی اس گرما گرمی کے دور میں، تبلیغ حق کے جوش میں، کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکالیں جو مخالفین کے لیے مزید اشتعال کا سبب بن جائے اور شیطان اسے فتنہ کا ذریعہ بنا لے۔ ساتھ ہی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ تمہارا فرض صرف تبلیغ حق تک محدود ہے، لوگوں کو مومن و مسلم بنا دینا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے، اللہ ہی جس کو چاہے گا ایمان کی توفیق دے گا اور جس کو چاہے گا اس سے محروم رکھے گا۔ آیت 55 میں یہ حقیقت واضح فرما دی گئی کہ اللہ نے اپنے تمام نبیوں کو کسی نہ کسی پہلو سے فضیلت بخشی ہے اس وجہ سے کسی کے لیے مطلق ترجیح و تفضیل کی بحث نہ چھیڑی جائے کہ وہ وجہ فتنہ بن جائے۔

(56۔57)۔ التفات کی آیات بطور جملہ معترضۃ تھیں۔ ان کے ختم ہونے کے بعد توحید کے اس مضمون کی تکمیل کردی گئی جو اوپر سے چلا آرہا تھا۔ مشرکین، فرشتوں کو خدا کا شریک مانتے تھے۔ ان کی بابت فرمایا کہ خدا کا شریک ہونا تو الگ رہا وہ تو خود برابر خدا کے قرب اور اس کی رضا کے حصول کی جدوجہد میں سرگرم اور ہروقت اس کے عذاب کے اندیشے سے لرزاں و ترساں ہیں ۔

(58۔60)۔ مخالفین کے مطالبہ نشانی عذاب کا جواب اور اس باب میں سنت الٰہی کا بیان۔

(61۔65)۔ مخالفین کے اعراض و انکار کے اصلی سبب کی طرف اشارہ کہ اللہ نے ان کو اپنی نعمتوں سے نوازا تو انہوں نے نعمت کو شکر کے بجائے کفر و استکبار کا سبب بنا لیا۔ اس معاملے میں انہوں نے ٹھیک ٹھیک ابلیس کے نقش قدم کی پیروی کی ہے اور ابلیس نے ان کے باب میں اپنا گمان بالکل سچ کردکھایا۔

(66۔72)۔ نعمت پا کر انسان کے غرور و اسکتبار کی تمثیل اور آنکھیں کھول کر زندگی بسر کرنے والوں اور آنکھیں بند کرکے بھٹکنے والوں کے انجام کا بیان۔

(73۔77): مخالفین کی مخالفت کے علی الرغم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت حق پر جمے رہنے کی تاکید اور اس امر کا اعلان کہ اگر قریش نے تمہیں اس سرزمین سے نکال دیا تو پھر ان کو بھی یہاں زیادہ دیر تک ٹکنا نصیب نہ ہوگا نبی کی ہجرت کے باب میں سنت الٰہی کی وضاحت۔

(78 تا 81) حصول صبر و ثابت کے لیے نماز کے اہتمام کی تاکید۔ قربب ہجرت کی طرف اشارہ اور اس کے لیے دعا کی تلقین۔ ظاہری حالات کے علی الرغم غلبہ حق کی بشارت :

(82۔89)۔ مخالفین کی حرماں نصیبی پر اظہار افسوس کہ وہ قرآن جیسی نعمتِ عظمی کی ناقدری کر رہے ہیں حالانکہ یہ ان کے لیے شفا اور رحمت ہے اور تمام جن وانس مل کر بھی اگر ایسی کتاب لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے۔ ضمناً وحٰ اور جبریل سے متعلق مخالفین کا ایک معترضانہ سوال اور اس کا حکیمانہ جواب ۔

(90۔100)۔ کفار کی طرف سے بعض معجزات کا مطالبہ اور ان کا جواب۔ ہدایت و ضلالت کے باب میں سنت الٰہی کی طرف اشارہ۔ قریش کے متکبرین کو یہ تنبیہ کہ تم خدا کے خزائن نعمت کے ٹھیکے دار نہیں ہو کہ سمجھتے ہو کہ اگر نبوت کسی کو ملنے والی ہوتی تو تمہیں میں سے کسی کو ملتی۔ یہ اللہ کا فضل ہے اس نے جس کو چاہا دیا۔
(101۔104)۔ حضرت موسیٰ اور ان کے نو معجزات کا حوالہ۔ ان معجزات کے دیکھنے کے باوجود فرعون کی سرکشی اور اس کا انجام۔ 

(105 تا 111)۔ خاتمہ سورۃ۔ قرآن یکسر حق ہے۔ رسول کی ذمہ داری صرف انذار و تبشیر ہے۔ قرآن کا باتلدریج اترنا تعلیم کے پہلو سے ہے۔ جو بدبخت اس پر ایمان نہیں لا رہے ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔ جن کے اندر علم کے روشنی ہے وہ اس پر ایمان لا رہے ہیں۔ اللہ اور رحمن سب خدا ہی کے نام ہیں۔ جو لوگ ان ناموں میں کوئی فرق کرتے اور ان کو بنائے اعتراض بناتے ہیں، ان کے درپے نہ ہو۔ اس دین کی روح میانہ روی ہے اور اس میانہ روی کو اپنی عبادات میں ملحوظ رکھو اور اللہ کی حمد اور اس کی تکبیر میں سرگرم رہو۔

اس تجزیہ مظالب پر ایک نظر ڈالیے اور دیکھیے کہ ایک معین عمود کے تحت کس طرح اس سورۃ کی ہر کڑی دوسری کڑی سے ملی ہوئی ہے۔ "