18۔ سورۂ کہف : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


18۔ سورۂ کہف کا تعارف اور مضامین کا تجزیہ 
(الف)۔ سورۃ کا زمانۂ نزول، عمود اور سابق سورۃ سے تعلق :
سابق سورۃ کی طرح یہ سورۃ بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکی زندگی کے اس دور میں نازل ہوئی ہے جب حق و باطل کی کشمکش اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ قریش اپنے تمام حربوں کے ساتھ قرآن کی دعوت کو مٹا دینے پر تل گئے تھے اور یہود و نصاری نے بھی جیسا کہ ہم پیچھے اشارہ کر آئے ہیںِ درپردہ قریش کی پیٹھ ٹھونکنی شروع کردی تھی کہ انہی کے ہاتھوں یہ دعوت اپنے مرکز ہی میں ختم ہوئے، اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے خود انہیں میدان میں نہ اترنا پڑے۔
ان حالات کے تقاضے سے اس سورۃ میں چند بناتیں خاص طور پر نمایاں ہوئی ہیں۔
1۔ قریش کو انذار و تنبیہ کہ وہ اپنی دنیوی کامیابیوں کے غرے میں ایک بدیہی حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش نہ کریں۔ اب عذاب الٰہی ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے، اگر وہ اپنی رعونت سے باز نہ آئے تو وہ وقت دور نہیں ہے جب وہ اس عذاب کی زد میں آجائیں گے۔
2۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے مظلوم صحابہ کو صبر و عزیمت کی تلقین۔ آنے والے مراحل یعنی ہجرت وغیرہ کی طرف بعض لطیف اشارات، ان مراحل میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو جو غیبی فتوحات حاصل ہونے والی ہیں ان کی بشارت ۔
3۔ جس طرح سابق سورۃ۔ بنی اسرائیل۔ میں یہود کے چہرے سے نقاب الٹ دی گئی ہے اسی طرح اس سورۃ اور اس کے بعد کی سورۃ۔ سورۃ مریم۔ میں نصاری کے چہرے سے نقاب الٹ دی گئی ہے اور مقصود اس سے قریش کو متنبہ کرنا ہے کہ جن کی اپنی کوئی بنیاد نہیں ہے اگر ان کی شہ پر خدا کی اس نعت کی ناقدری کرو گے جس سے اس نے تم کو سرفراز کرنا چاہا ہے تو یاد رکھو کہ پرائے شگون پر اپنی ناک کٹوا بیٹھوگے ۔
(ب)۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ : سورۃ کے مطالب کا تجزیہ بالاجمال یہ ہے :
(آیات 1 تا 8)۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین صبر کہ تمہاری ذمہ داری صرف انذاروتبشیر ہے۔ اگر یہ متمردین، قرآن پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس کتاب میں کوئی کج پیچ یا تمہاری دعوت و تبلیغ میں کوئی کسر ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ زخارج دنیا کی محبت میں اندھے ہو رہے ہیں تو تم ان کے پیچھے اپنے تئیں ہلکان نہ کرو۔ ایک وقت آنے والا ہے جب اس دنیا کے چہرے کا یہ مصنوع غازہ اتر جائے گا اور یہ اپنے اصل روپ میں نمایاں ہوجائے گی اس وقت یہ بدبخت لوگ اپنے سر پیٹیں گے۔
(9 تا 26)۔ اصحہاب کہف سے متعلق مخالفین کے اٹھائے ہوئے ایک سوال کا جواب جس سے ان کی اصل زندگی، لاطائل تفصیلات سے بالکل پاک ہو کر، اس طرح سامنے آگئی ہے کہ اس کے آئینہ میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار ساتھیوں کو گویا دکھا گیا ہے کہ تم اس وقت دعوتِ حق کی راہ میں جس مرحلہ سے گزر رہے ہو۔ یہ مرحلہ اصحاب کہف کو بھی پیش آ چکا ہے۔ اگر تم بھی انہی کی طرح تمام خطرات کے علی الرغم، جادۂ حق پر استوار رہے تو اللہ تمہارے لیے بھی اسی طرح مشکلات کو آسان کرے گا جس طرح ان کے لیے آسان کیں۔ اور اسی طرح تمہارے لیے بھی پردۂ غیب سے اسباب و وسائل مہیا کرے گا جس طرح ان کے لیے مہیا فرمائے۔ اللہ اپنی راہ میں ثابت قدم رہنے والوں کو ضائع نہیں کرتا۔
(27 تا 31)۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دولتِ دنیا کے متوالوں سے بے نیاز ہوکر، اپنے ان غریب و نادار ساتھیوں کی طرف متوجہ ہونے کی ہدایت جو اگرچہ دولتِ دنیا سے مھروم تھے لیکن ایمان کی دولت سے مالا مال اور شب و روز اللہ کی یاد اور اس کے دین کی دعوت میں سرگرم تھے۔ اسی ذیل میں آپ کو منکروں کی حالت پر غم کھانے سے روک دیا گیا ہے کہ یہ لوگ اگر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑو، یہ سنتِ الٰہی کی زد میں آئے ہوئے ہیں اور سنتِ الٰہی کو کوئی بدل نہیں سکتا۔
(33 تا 49)۔ ایک تمثیل جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ جو لوگ اسی دنیا کی کامیابیوں کو اصل کامیابی سمجھے بیٹھے ہیں ان پر خدا اور آخرت کی یقین دہانی بڑی شاق گزرتی ہے۔ وہ اپنی انہی کامیابیوں کو اپنے برحق ہونے کی دلیل تصور کرتے ہیں۔ اس وجہ سے اگر کوئی اللہ کا بندہ ان کو خدا اور آخرت سے ڈراتا ہے تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ بتاؤ تماہرا حال اچھا ہے یا ہمارا ؟ اگر ہمارا حال اچھا ہے اور بالبداہت اچھا ہے تو ہم یہ کیوں نہ باور کریں کہ ہماری ہی زندگی اور ہمارا ہی عقیدہ و عمل بھی صحیح ہے۔ اس ذہن کے لیے لوگ یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ جو جاہ و اقبال ان کو آج حاصل ہے اس پر کبھی زوال بھی آسکتا ہے۔ وہ قیامت کو ایک بہت بعید از امکان چیز سمجھتے ہیں اور اگر ایک مفروضہ کے درجہ میں اس کو مانتے بھی ہیں تو اپنی زندگی کی موجودہ کامرانیوں کو دلیل بنا کر یہ گمان کرلیتے ہیں کہ اگر ہمیں خدا کے پاس جانا ہی پڑا، جیسا کہ یہ سرپھرے مسلمان ڈراتے ہیں تو وہاں بھی ہمیں اس سے بہتر مرتبہ و مقام حاصل ہوگا۔ اس تمثیل کو پیش کرنے سے مقصود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ واضح کرنا ہے کہ آج بعینہ اسی طرح کے مغروروں سے تمہیں سابقہ ہے۔ یہ لوگ تمہاری بات سننے والے نہیں ہیں۔ ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں گی جب برق خرمن سوز ان کے سارے خرمن کو خاکستر کرکے رکھ دے گی۔ سو تم اس دنیا اور اس کی اس زندگی کی، جس پر یہ ریجھے ہوئے ہیں، حقیقت ایک تمثیل سے سمجھا دو کہ یہ دنیا اور اس کی ساری رونقیں اور بہاریں چند روزہ ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ساتھ جانے والی نہیں ہے۔ ساتھ صرف نیک اعمال جائیں گے تو جن کو جمع کرنا ہو یہ سرمایہ جمع کرنے کی فکر کریں۔
(50 تا 59)۔ آدم اور ابلیس کی سرگزشت کی یاد دہانی جس سے مقصود قریش کے مغروروں کو ان کی بدبختی پر متنبہ کرنا ہے کہ انہوں نے اپنی شامت اعمال سے ابلیس اور اس کی ذریات کو اپنا دوست اور کارساز بنا رکھا ہے حالانکہ اولادِ آدم کے ساتھ ان کی دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے۔ اسی ضمن میں ان کی اس بدبختی پر بھی ملامت کی گئی ہے کہ اللہ نے تو ان پر عظیم فضل فرمایا کہ ان کی ہدایت کے لیے ایک ایسی کتاب اتاری جو ہر حقیقت کو گوناگون پہلوؤں سے واضح کردینے والی ہے لیکن یہ اس کو قبول کرنے کے بجائے اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ ان کو وہ عذاب دکھا دیا جائے جس سے قرآن ان کو ڈرا رہا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے، وہ رحمت میں سبقت کرتا ہے، عذاب میں جلدی نہیں کرتا لیکن یہ شامت کے مارے لوگ عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہی۔
(60 تا 82)۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک تربیتی سفر کی سرگزشت۔ یہ سفر اللہ کی ہدایت کے تحت انہوں نے اس لیے کیا کہ ایک بندۂ خاص کے ذریعے سے وہ اس کائنات کے اس رمز سے اچھی طرح آگاہ ہوجائیں کہ اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب ارادۂ الٰہی کے تحت ہوتا ہے اور ارادہ الٰہی سرتاسر حکمت و برکت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس دنیا میں بظاہر سرکشوں اور نافرمانوں کو ڈھیل ملتی ہے اور اہل حق مختلف قسم کی آزمائشوں اور تکلیفوں میں مبتلا کیے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال بہتوں کے ایمان کو متزلزل کردیتی ہے اور ان کے لیے جادۂ حق پر ثابت قدم رہنا نہایت ابتلا کا کام بن جاتا ہے۔ اس ابتلا میں ثابت قدم صرف وہی لوگ رہتے ہیں جن پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو کہ یہاں جو کچھ ہورہا ہے سب ارادۂ الٰہی کے تحت اور اس کی حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہورہا ہے لیکن انسان کا محدود علم اس کی حکمتوں اور مصلحتوں کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ اس وجہ سے صحیح رویہ یہ ہے کہ راہِ حق میں ناموافق و نامساعد جو حالات بھی پیش آئیں آدمی ان سے دل شکست و مایوس نہ ہو بلکہ پورے عزم و جزم کے ساتھ موقف حق پر ڈٹا رہے، حکمت الٰہی کے ظہور کا انتظار کرے اور امید رکھے کہ اگر اس دنیا میں نہیں تو آخرت میں اس کا ظہور ہوکے رہے گا۔
یہی حکمت، صبر کی اساس و بنیاد ہے جس پر سارا دین قائم ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ کو ایک عظیم مہم کے لیے انتخاب فرمایا تو اس صبر کی تربیت کے لیے ان کو اپنے ایک خاص بندے کے پاس بھیجا کہ یہ چیز صرف جاننے کی نہیںٰ بلکہ عملی تربیت کی بھی محتاج تھی۔ بعینہ یہاں یہ سرگزشت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے واسطہ سے آپ کے اس دور کے ساتھیوں کو اس مقصد سے سنائی گئی ہے کہ باغیوں اور نافرمانوں کو جو دندناتے دیکھ رہے ہو اور تم حق پر ہوتے ان کے مظالم کے جو ہدف بنے ہوئے ہو اس سے ہراساں اور مرعوب نہ ہونا۔ اس دنیا میں اگر مسکینوں کی کشتی میں چھید کیا جاتا ہے تو اس میں بھی حکمت خیر ہوتی ہے اور اگر ظالموں کی کسی بستی میں، کسی گرتی دیوار کو سہارا دیا جاتا ہے تو اس میں بھی خیر ہی مضمر ہوتا ہے لیکن انسان کا محدود علم خدا کے سارے اسرار کا احاطہ نہیں کرسکتا۔
(83 تا 101)۔ ایک سوال کی تقریب سے ایک سلطان عادل۔ ذوالقرنین۔ کا ذکر جس سے مقصود قریش کے ان متمردین کو عبرت دلانا ہے جو پیغمبر کے انذار کو مذاق اور اپنے اقتدار کو لازوال سمجھتے تھے۔ ان کے سامنے خود انہی کے سوال پر یہ واضح فرمایا کہ ایک بندہ مومن ذوالقرنین تھے جن کا حال یہ تھا کہ تمام مشرق و مغرب کو فتح کرلینے کے بعد بھی وہ ہر کامیابی کو اللہ کا انعام اور اس کا فضل سمجھتے اور ہر قدم اس کی مرضی کے مطابق اٹھاتے تھے اور ایک تم ہو کہ ذرا سا اقتدار جو مل گیا ہے تو اس کے نشہ میں خدا اور آخرت سب کا مذاق اڑانے لگے ہو۔
(102 تا 110)۔ خامتہ سورۃ میں اسی تہدید و انذار کے مضمون کا پھر اعادہ ہے جس سے سورۃ کا آغاز ہوا ہے گویا آخر میں ایک نئے اسلوب سے اسی حقیقت کی پھر یاد دہانی فرما دی جو سورۃ کا عمود ہے۔ ساتھ ہی ان لوگوں کا جواب بھی دے دیا جو قرآن کی پر حکمت باتوں کا مذاق اڑاتے اور کسی حسی معجزہ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ فرمایا اگر دیکھنے والی آنکھیں ہوں تو آفاق و انفس میں خدا کی اتنی نشانیاں ہیں کہ اگر سمندر روشنائی بن جائیں جب بھی ان کو قلم بند نہیں کیا جا سکتا۔ آخر میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے اعلان کرادیا کہ معجزے اور نشانیاں دکھانا خدا کا کام ہے، میں تو تمہاری ہی طرح خدا کا ایک بندہ ہوں، تمہیں وہی سناتا ہوں جس کی مجھے وحی کی جاتی ہے۔
سورہ کے مطالب کا یہ اجمالی تجزیہ اس کے نظام اور عمود کو واضح کردینے کے لیے کافی ہے۔"