19۔ سورہ مریم : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

 19۔ سورہ مریم کا تعارف و مضامین کا تجزیہ 

(الف)۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق :یہ سورۃ، سورۃ کہف کی مثنی یا بالفاظ دیگر اس کی توام سورۃ ہے۔ ان دونوں کے عمود میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ وہی مضمون جو سورۃ کہف میں بیان ہوا ہے اس میں بھی بیان ہوا ہے۔ لیکن طریق استدلال اور نہج بیان میں فرق ہے۔ اس میں حضرت آدم، نوح اور ابراہیم علیہم السلام کی نسل میں پیدا ہونے والے انبیائے اولوالعزم کے متعلق یہ بات بتائی گئی ہے کہ ان کی دعوت، توحید کی دعوت تھی۔ انہوں نے نماز و زکوۃ کا حکم دیا لیکن ان کے پیرو شرک میں مبتلا ہوئے اور نماز و زکوۃ ضائع کرکے بدعات و شہوات میں پڑگئے۔ اور اب جب کہ ان کو اصل دین کی دعوت دی جا رہی ہے تو اس کی مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے مقابل میں صبر و استقامت کی تلقین کی گئی ہے اور انجام کار کی کامیابی کی بشارت دی گئی ہے۔ آخر میں مخالفین کی گمراہی کی اصل علت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ لوگ اہل ایمان کے مقابل میں اپنی دنیوی کامیابیوں کو اپنے برحق ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ان کے برحق ہونے کی دلیل نہیں بلکہ یہ خدا کی طرف سے ان کے لیے ڈھیل ہے کہ خدا کی حجت ان پر پوری ہوجائے اور جب وہ پکڑے جائیں تو ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔

اس میں حضرت مسیح (علیہ السلام) اور حضرت مریم علیہما السلام کا ذکر خاص طور پر نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ اس کی وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم پچھلی سورۃ میں اشارہ کرچکے ہیں کہ اس دور میں یہود کی طرح نصاریٰ نے بھی درپردہ قریش کی پشت پناہی شروع کردی تھی۔ اہل کتاب کی اس پشت پناہی سے قریش کو بڑی طاقت حاصل ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب امی ہونے کے سبب سے مذہبی معاملات میں اہل کتاب سے ایک قسم کا حسنِ ظن رکھتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اہل کتاب بھی انہی کے ہم خیال ہیں تو اس سے ان کا حوصلہ بہت بڑھ گیا۔ قرآن نے اہل کتاب کے اس اثر کو باطل کرنے کے لیے ان کی حقیقت واضح کی۔ چنانچہ پیچھے سورۃ بنی اسرائیل میں یہود کا بالکل بے بنیاد ہونا واضح کیا ہے۔ اور اس سورۃ میں بالکل اسی انداز میں نصاری کی بے ثباتی دکھائی ہے۔ مقصود یہ ہے کہ قریش پر حقیقت واضح ہوجائے کہ جن کی اپنی کوئی بنیاد نہیں ہے وہ بھلا حق و باطل کے اس معرکے میں ان کے لیے کیا سہارا بن سکیں گے۔

اس تمہید کے بعد اب ہم سورۃ کے مطالب کا تجزیہ بھی کیے دیتے ہیں۔

(ب)۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ :

(آیات 1 تا 15)۔ سورۃ کا آغاز حضرت زکریا کی اس دعا سے ہوتا ہے جو انہوں نے اپنے بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود ایک فرزند کے لیے کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما کر ان کو حضرت یحیی کی ولادت کی خوش خبری دی۔ یہ واقعہ تمہید ہے حضرت مریم کے اس واقعہ کی جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ نصاری نے حضرت عیسیٰ کی خارق عادت ولادت کو ان کی الوہیت کی دلیل بنایا۔ قرآن نے یہاں حضرت عیسیٰ سے پہلے حضرت یحیی کی ولادت کا ذکر کرکے دکھایا ہے کہ اگر مجرد خارق عادت ولادت ہی کسی کے الٰہ ہونے کی دلیل ہے تو یہ دلیل تو حضرت عیسیٰ سے پہلے حضرت یحیی کے حق میں موجود ہے۔ ان کی ولادت بھی ایک بوڑھے باپ اور ایک بانجھ ماں کے ہاں ہوئی۔ لیکن نہ تو انہوں نے خود الوہیت کا دعوی کیا نہ کسی دوسرے نے ان کو الٰہ بنانے کی کوشش کی۔ علاوہ ازیں یہی حضرت زکریاں ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ کی والدہ حضرت مریم کی تربیت کی اور یہی حضرت یحیی ہیں جنہوں نے حسبِ روایات نصاری، حضرت مسیح کو مسح کیا تو پھر حضرت ابن اللہ کس طرح بن گئے !

(16 تا 36)۔ حضرت مریم کی پاکیزہ زندگی اور ان کے زہد و عبادت کا حوالہ۔ حضرت مسیح کی ان کے ہاں جس طرح ولادت ہوئی اس کی تفصیل۔ حضرت مسیح نے گہوارے ہی میں جس طرح اپنے بندہ ہونے اور خدا کی طرف سے نماز و زکوۃ کی ہدایت پانے کی منادی کی ہے، اس کا تذکرہ اور ان بدبختوں کی حالت پر افسوس جنہوں نے یہ ساری باتیں جانتے بوجھتے اللہ کے ایک فرمانبردار بندے کو الٰہ اور اس کی ایک فرمانبردار بندی کو ابن اللہ کی ماں بنا کر رکھ دیا ۔
(37 تا 40)۔ حضرت مسیح کی واضح تعلیمات کے باوجود ان کی باب میں نصاریٰ کے باہمی اختلاف پر ان کو ملامت اور ایک ایسے دن کی آمد کی دھمکی جس دن اس سارے اختلاف کا فیصلہ ہونے والا ہے۔

(41 تا 50)۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کو توحید کی جو دعوت دی اور اس کے نتیجہ میں جس طرح انہیں ہجرت کرنی پڑی۔ اس کا حوالہ۔ پھر اس ہجرت کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑھاپے میں جو اولاد عطا فرمائی اس کا تذکرہ۔

(51 تا 36)۔ حضرت موسیٰ، حضرت ہارون، حضرت اسماعیل اور حضرت ادریس علیہم السلام کے حالات و خصوصیات کا اجمالی حوالہ کہ یہ آدم و نوح اور ابراہیم و اسرائیل کی ذریت میں اولوالعزم انبیاء گزرے ہیں۔ یہ سب خدا کی ہدایت سے سرفراز اور اس کے برگزیدہ بندے تھے۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب خدا کی آیات سنتے تو روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے۔ پھر انہی کی اولاد میں ایسے ناخلف پیدا ہوئے جنہوں نے نماز و زکوۃ سب ضائع کردی اور اپنی خواہشوں کے پیرو بن گئے۔ یہ لوگ اپنی اس گمراہی کے انجام سے عنقریب دوچار ہوں گے۔ ان کے اندر سے نجات پانے والے وہی بنیں گے جو توبہ اور اصلاح کرلیں گے۔

(64 تا 65)۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی زبان سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر و انتظار کی ہدایت اور عجلت سے احتراز کرنے کی تلقین ۔
(66 تا 72)۔ قیامت کی تکذیب کرنے والوں کو زجروتنبیہ اور ان کے انجام کی طرف اشارہ۔

(73۔ تا 82)۔ مغروروں اور متکبروں کی طرف سے قرآن کے انذار کے جواب کا حوالہ کہ وہ کہتے ہیں کہ جب قرآن کے ماننے والوں کے مقابل میں ہمارا حال بہتر ہے تو لازماً ہمارا ہی عقیدہ و عمل بھی بہتر ہے۔ قیامت اول تو ہے نہیں اور اگر بالفرض ہوئی تو ہم ان فتّو فقیروں سے وہاں بہتر حال میں رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس باطل ذہنیت کی تردید اور اصل حقیقت سے آگاہی۔

(83 تا 96)۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبروانتظار کی تلقین کہ آپ عذاب کے لیے جلدی مچانے والوں کے مطالبہ سے پریشان نہ ہوں۔ ان مغروروں کا ایک ایک دن گنا جا رہا ہے۔ یہ جن معبودوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں یہ ان کے ذرا بھی کام آنے والے نہیں ہیں۔ قیامت کے دن سرخروئی صرف اہل ایمان کو حاصل ہوگی۔

(97 تا 98)۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کہ قرآن انذار و تبشیر کے لیے بہترین چیز ہے۔ اسی کے ذریعہ سے انذار و تبشیر کیجیے۔ جن کے اندر صلاحیت ہوگی وہ اس پر ایمان لائیں گے۔ جو ایمان نہیں لائیں گے وہ اپنا انجام خود دیکھ لیں گے۔ ان کے پیچھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ مطالب کے اس تجزیہ سے سورۃ کا مجموعی نظام بالکل واضح ہے۔"