20۔ سورہ طہ : تعارف مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود:

اس سورۃ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو، مخالفین کے مقابل میں، صبر اور انتظار کی تلقین ہے کہ آپ ان کے پیچھے زیادہ پریشان نہ ہوں، اگر یہ آپ کی بات نہیں سنتے تو بہت جلد یہ اپنا انجام خود دیکھ لیں گے۔ اسی مضمون سے سورۃ کا آغاز بھی ہوا ہے اور اسی پر اختتام بھی۔ اس صبر کے حصول اور اس کی تربیت کے لئے نماز اور دعا کے اہتمام کی ہدایت فرمائی گئی ہے اور ساتھ ہی عجلت و بے صبری کے نقصانات واضح فرمائے گئے ہیں۔ سورۃ میں خطاب تمام تر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے۔ مخالفین سے اگر کوئی بات کہی بھی گئی ہے تو ان کو خطاب کر کے نہیں بلکہ منہ پھیر کر غائبانہ انداز میں کہی گئی ہے ۔
سورہ طہ : تعارف مضامین و مطالب کا تجزئیہ 

پچھلی سورۃ میں متعدد انبیائے عظام کا ذکر آیا ہے۔ اس میں صرف حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی سرگزشت تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ ولادت سے لے کر دعوت و ہجرت تک جتنے اہم موڑ بھی ان کی زندگی میں پیش آئے ہیں سب اس سورۃ میں نمایاں کئے گئے ہیں تاکہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے، دعوت کے اس مرحلہ میں بھی اور آگے کے مراحل میں بھی، جس رہنمائی کی ضرورت ہے وہ ایک عملی مثال کی صورت میں آپ کے سامنے رکھ دی جائے ۔

ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ

مطالب کے اعتبار سے یہ سورۃ تین حصوں میں تقسیم ہے : 

(١۔ ٨) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہایت دل نواز انداز میں یہ ہدایت کی کہ آپ دوسروں کے ایمان کی فکر میں اپنی زندگی کو ضرورت سے زیادہ نہ کھپائیں۔ آپ کا کام صرف ان لوگوں کو یاد دہانی کر دینا ہے۔ جن کے اندر کچھ خشیت ہے۔ جن کے دل خشیت سے خالی ہیں ان کے اندر ایمان اتار دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ قرآن کسی سائل کی درخواست نہیں ہے بلکہ خالق ونس و سماء اور مالک عرش و کونین کا فرمان ہے اس کو اس کے شایان شان انداز میں پیش کر دیجئے ناقدروں اور مغروروں کی زیادہ ناز برداری کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے رب پر بھروسہ رکھئے۔ وہ آپ کے تمام سرو علانیہ سے اچھی طرح باخبر ہے ۔
(٩٠۔ ٩٨) آگے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی سرگزشت بیان ہوئی ہے جس کے نمایاں پہلو بالا جمال یہ ہیں ۔
… حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا مدین سے واپسی پر وادی مقدس طویٰ میں پہنچنا اور نبوت و رسالت سے سرفراز ہونا ۔
… نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو اولین ہدایت ۔
… عصا اور ید بیضا کے معجزات کا عطا کیا جانا ۔
… فرعون کے پاس انذار و دعوت کے لئے جانے کا حکم، شرح صدر اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے مددگار بنائے جانے کے لئے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی دعا اور اس کی دعا کی فوری قبولیت ۔
… حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی تقویت قلب کے لئے اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس فضل خاص کی یاددہانی جو ان پر بچپن میں ہوا کہ وہ دریا میں ڈالے گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ ان کو دریا سے بچا لیا بلکہ ان کے اور اپنے دونوں کے دشمن سے ان کی پرورش کرائی اور دوبارہ ان کو ان کی اس ماں کی آغوش میں پہنچا دیا جس نے فرعون کے ڈر سے، کلیجہ پر تھر رکھ کر، ان کو دریا کی موجوں کے حوالے کیا تھا ۔
… حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ہاتھوں ایک قبطی کے قتل ہوجانے کے واقعہ کی یاددہانی۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا مدین جانا۔ وہاں مختلف آزمائشوں اور مراحل سے گزرنے کے بعد پھر خدائی پروگرام کے مطابق بالکل معین وقت پر وادی مقدس طویٰ میں پہنچنا اور منصب نبوت پر سرفراز ہونا ۔
… اس فضل خاص کی یاددہانی کے بعد حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور ہارون ( علیہ السلام) دونوں کی حوصلہ افزائی اور یہ ہدایت کہ وہ بے خوف و خطر فرعون کے پاس انذار و دعوت کے لئے جائیں۔ خدا کی ان کی حفاظت فرمائے گا ۔
… فرعون کو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی دعوت اور فرعون کا معارضہ ۔
… فرعون کے جمع کردہ ساحروں اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) میں مقابلہ، ساحروں کی شکست اور ان کا حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پر ایمان لانا ۔
… فرعون کی طرف سے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور ایمان لانے والے ساحروں پر سازش اور بغاوت کا الزام اور ان کو سولی پر چڑھانے کی دھمکی ۔
… بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو ہجرت کا حکم۔ فرعون کی طرف سے ان کا تعاقب۔ بالآخر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کا بخیریت دریا کے پار ہوجانا اور فرعون اور اس کی فوجوں کی غرقابی ۔
… دریا پار کرانے کے بعد بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے جو احسانات فرمائے ان کا حوالہ اور بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی چند روزہ غیبت میں، جب کہ وہ کوہ طور پر تورات لینے گئے، سامری کے فتنہ میں مبتلا ہو کر جو بت پرستی کی اس کی تفصیل اور اس کے اسباب و عواقب پر تبصرہ ۔

(٩٩۔ ١٣٥) حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی سرگزشت سنانے کے بعد یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف خطاب اور التفات ہے۔ اور سورۃ کی تمہید میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس خاتمہ میں اس کی تکمیل کر دی گئی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ ماضی کی یہ سرگزشت جو آپ کو سنائی گئی ہے صرف قصہ ٔ ماضی نہیں ہے بلکہ آپ کی اپنی سرگزشت بھی ہے۔ آپ کو جو کتاب عطا ہوئی ہے اس میں ہر پہلو سے لوگوں کو تنبیہ کر دی گئی ہے۔ اگر لوگ نہیں مانیں گے تو اس کا انجام دنیا اور آخرت دونوں میں خود بھگتیں گے۔ تاریخ میں ان کے لئے کافی سامان عبرت موجود ہے۔ اس وجہ سے آپ ان کے معاملے میں جلدی نہ کریں۔ صبر کے ساتھ خدا کے فیصلہ کا انتظار کریں۔ جلد ہی شیطان کو دراندازی کے لئے راہ دے دیتی ہے۔ آدم ( علیہ السلام) نے جلدی ہی کی وجہ سے شیطان سے دھوکا کھایا تو آپ صبر کے ساتھ خدا کے وعدۂ نصرت کے ظہور کا انتظار کریں اور اس صبر کے حصول کے لئے نماز کا اہتمام کریں۔ امراء و اغیایء کے ایمان کے لئے بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ ان کے ایمان سے دعوت کو قوت و شوکت حاصل ہوگی۔ آپ کی دعوت اپنا نرا دور … خود اپنے ساتھ رکھتی ہے اور اللہ نے آپ کی کفالت کی ذمہ داری اپنے اوپر لی ہے۔ جو لوگ آپ کو زچ کرنے کے لئے عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں ان سے کہہ دیجئے کہ میرا کام آگاہ کرنا تھا وہ میں نے کردیا۔ اب اگر تم عذاب ہی کے منتظر ہو تو انتظار کرو۔ میں بھی اسی کا منتظر ہوں ۔"

-------------
(بحوالہ : تدبر قرآن - مولانا امین احسن اصلاحی )