7۔ سورۃ الاعراف : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

 7۔ تعارف و مضامین سورۃ الاعراف :
الف : سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
سورہ انعام میں، جیسا کہ تفصیل سے واضح ہوا، قریش کو اسلام کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ دعوت اس بنیاد پر دی گئی ہے کہ یہی اصل ملت ابراہیم ہے جس کی ابراہیم نے اپنی ذریت کو تلقین کی نہ کہ وہ مجموعہ بدعات و اوہام جو تم یے بیٹھے ہو۔ اللہ نے تم پر بڑا فضل فرمایا ہے کہ اس نے تمہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جس نے اللہ کی حجت تم پر پوری کردی ہے اب تمہارے لیے گمراہی پر جمے رہنے کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہ گیا ہے۔ اس اتمام حجت کے بعد بھی اگر تم اپنی ضد پر اڑے رہ گئے تو یاد رکھو کہ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کو خدا نے ہمیشہ تباہ کردیا ہے۔ یہ تاریخ کی ایک معروف حقیقت ہے جس کی دلیل ڈھونڈنے کے لیے تمہیں کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس ملک میں آج با اقتدار ہو خود اسی کی تاریخ میں تمہارے لیے کافی سامانِ عبرت موجود ہے۔ تم اس سرزمین پر پہلے آنے والے نہیں ہو بلکہ تم سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں جو اسی طرح اقتدار کی مالک ہوئیں جس طرح تم۔ بلکہ بعض اپنے اقتدار و سطوت کے اعتبار سے تم سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھی۔ انہی کے وارث تم ہوئے ہو۔ پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ قدرت کا قانون تمہارے ساتھ اس سے مختلف معاملہ کرے جو اس نے ان کے ساتھ کیا۔ ان کے جن جرائم کی بنا پر خدا نے ان کو ہلاک کر کے ان کی جگہ تم کو بکشی، انہی جرائم کے مرتکب تم ہوئے تو خدا تم کو دندناتے پھرنے کے لیے کیوں چھوڑے رکھے گا، خدا کا قانون تو سب کے لیے ایک ہی ہے۔
انعام کے بعد اعراف، انعام کی مثنی سورۃ ہے۔ اس میں دعوت کے بجائے انذا کا پہلو غالب ہے۔ اس میں صاف صاف قریش کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو بس سمجھ لو کہ اب تم خدا کے عذاب کی زد میں ہو۔ اس میں پہلے ان کی فرد قرار داد جرم کی طرف اجمالاً اشارہ کیا، اس کے بعد تفصیل کے ساتھ ان تمام پچھلی قوموں کی تاریخ سنائی جو اس ملک میں اقتدار پر آئیں اور پھر یکے بعد دیگرے اسی جرم میں کیفر کردار کو پہنچیں جس کے مرتکب قریش ہوئے۔ یہ تفصیل گویا انعام کی آخری آیت کے اجمال کی تفصیل ہے۔ اسی کے ساتھ یہود کو بھی لے لیا ہے اور ان کو بھی بالکل آخری تنبیہ فرمائی ہے۔ آخر میں عہد فطرت کو، جو تمام ذریت آدم سے لیا گیا ہے، بنیاد قرار دے کر انذار کے مضمون کو اس کے آخری نتائج تک پہنچا دیا ہے جس کے بعد براءت، ہجرت اور اعلان جنگ یا نزولِ عذاب کے مراحل سامنے آجاتے ہیں ۔
اب ہم سورۃ کے مطالب کا تجزیہ پیش کرتے ہیں تاکہ پوری سورۃ بیک نظر نگاہ کے سامنے آجائے ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ :۔
(آیات 1 تا 9)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسل کو تسلی کہ اس کتاب الٰہی سے متعلق تمہاری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہوشیار کردو تاکہ ان پر اللہ کی حجت تمام ہوجائے۔ تم پر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ لوگ اس کو قبول بھی کرلیں۔ اس سے فائدہ صرف اہل ایمان ہی اٹھائیں گے۔ قریش کو تنبیہ کہ اس کتاب کو قبول کرو ورنہ یاد رکھو کہ تم سے پہلے کتنی قومیں رسولوں کی تکذیب کے جرم میں ہلاک ہوچکی ہیں اور جب خدا کا عذاب ان پر آیا تو اس کے مقابل میں وہ کوئی بند نہ باندھ سکیں بلکہ انہوں نے خود اپنے جرم کا اقرار کیا اور عذاب الٰہی کی پکڑ میں آگئیں۔ پھر تم پرا یک دن ایسا لامزاً آنے والا ہے جس میں تم سے تمہاری ذمہ داریوں کے بابت پرسش ہونی ہے اور رسول سے اس کی ذمہ داری کے بابت۔ اس دن سارا کچا چٹھا ہم سب کے سامنے رکھ دیں گے۔ اس دن جو میزانِ عدل نصیب ہوگی وہ ہر ایک کے اعمال تول کر بتا دے گی کہ کس کے پاس کتنا حق ہے، کتنا باطل، اس دن فلاح صرف وہی پائیں گے جن کے پلڑے بھاری ہوں گے۔ باقی سب نامراد ہوں گے ۔
(10 تا 25)۔ قریش کو تنبیہ کہ اس ملک میں تمہیں جو اقتدار حاصل ہوا، خدا ہی کا بخشا ہوا ہے۔ اسی نے تمہارے لیے معاش و معیشت کی راہیں فراخ کیں۔ لیکن شیطان نے تم پر حاوی ہو کر تم کو ناشکری کی راہ پر ڈال دیا، آدم اور ابلیس کے ماجرے کا حوالہ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شیطان نے ذریت آدم کو جو دھمکی دی تھہ کہ وہ ان کو اپنی چالوں سے گمراہ کر کے چھوڑے گا، ان کی اکثریت خدا کی نافرمان و ناشکری بن جائے گی، اس نے اپنی وہ دھمکی تمہارے اوپر سچ کر دکھائی، جس طرح اس نے آدم و حوا کو دھکا دے کر جنت سے نکلوایا اسی طرح اس نے اپنا فریب تم پر چلایا ہے تو تم شیطان کے چکموں میں آ کر اس کی امیدیں بر آنے کے سامان نہ کرو ۔
(26 تا 30)۔ یہ تذکیر کہ تم نے آدم کی اولاد ہو کر شیطان کی اس دشنی کو یاد نہ رکھا جو اس نے تمہارے باپ کے ساتھ کی۔ اس نے انہیں فتنہ میں ڈالا اور حلہ جنت سے محروم کر کے جنت سے نکلوا دیا۔ وہی کھی وہ تمہارے باپ کے ساتھ کھیلا ہے۔ خدا نے تم کو ظاہر و باطن کے جس لباس سے مزین کرنا چاہا شیطان کی اطاعت میں تم نے وہ دونوں جامے اتار پھینکے۔ تقوی کا لباس بھی جو باطن کی زینت ہے، اتار کر پھینک دیا اور ظاہر کا لباس بھی اتار دیا۔ چنانچہ عینِ حرمِ الٰہی میں۔ اس نے تمہیں عریاں طواف پر ورغلایا اور تم اس بے حیائی نہ صرف باپ دادا کی واثت سمجھتے ہو بلکہ یہ دعوی کرتے ہو کہ اس کا حکم تمہیں خدا نے دیا ہے۔ سوچو کہ خدا ایسی بے حیائی کا حکم کس طرح دے سکتا ہے ؟ خدا نے تو ہر باب میں صرف حق و عدل کا حکم دیا ہے، صرف اپنی عبادت کا حکم دیا ہے، توحید کا حکم دیا۔ تم نے شیطان کی پیروی میں اپنے آپ کو فتنوں میں مبتلا کیا اور دعوی کرتے ہو کہ یہی راہ ہدایت کی راہ ہے۔ صرف تھوڑے سے لوگ اس فتنہ سے محفوظ رہ سکے۔
(31 تا 34)۔ قریش کو تنبیہ کہ اپنے جی سے تم نے یہ جو حرام و حلال بنا رکھا ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ خدا نے نہ تو زینت حرام کی ہے اور نہ کھانے پینے کی چیزیں حرام کی ہیں۔ یہ دنیا میں بھی اہل ایمان کے لیے مباح ہیں اور آخرت میں تو وہ ان کے بلا شرکت غیرے حق دار ہوں گے ہی۔ خدا نے حرام بے حیائی کو ٹھہرایا ہے خواہ ظاہری ہو یا باطنی، حق تلفی اور سرکشی کو حرام ٹھہرایا ہے جن کا کوئی جواز نہیں، شرک کو ٹھہرایا ہے جس کے حق میں کوئی دلیل نہیں اور اللہ کے اوپر افترا کو حرام ٹھہرایا ہے۔ لیکن تم ان ساری ہی باتوں کے مرتکب ہو رہے ہو۔ اگر اس کے باوجود تمہیں مہلت مل رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے ہاں ہر امت کی تباہی کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔
(35 تا 43)۔ اس امر کی یاد دہانی کہ ذریت آدم کو ابتدا ہی میں یہ ہدایت کردی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے احکام سے آگاہ کرنے کے لیے اپنے رسول بھیجے گا تو جو لوگ ان رسولوں کی پیروی کریں گے وہ جنت حاصل کریں گے، جو ان کو جھٹلائیں گے وہ دوزخ میں پڑیں گے۔ یہ دوزخ میں پڑنے والے سب ایک دوسرے کے اوپر لعنت بھیجیں گے اور ان کو کسی طرح دوزخ سے نکلنا نصیب نہ ہوگا۔ بس دوزخ کی آگ ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بنے گی۔ البتہ جو اہل ایمان ہوں گے وہ جنت حاصل کریں گے اور وہ باہمدگر ایک دوسرے کی ملاقات سے مسرور اور اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں پر شکر گزار ہوں گے۔ وہ اعتراف کریں کہ یہ ہمیں جو کچھ خدا نے بخشا اپنے رسولوں کی پیروی کے طفیل بخشا۔ رسولوں نے جو کچھ فرمایا سب حرف حرف سچ ثابت ہوا۔
(44 تا 53)۔ اہل جنت کا اہل دوزخ سے خطاب کہ ہم سے تو ہمارے رب نے جو وعدے فرمائے تھے وہ سب حرف بحرف پورے ہوئے، تم بتاؤ کہ تم نے بھی وہ سب کچھ دیکھ لیا یا نہیں جس سے تمہیں آگاہ کیا گیا تھا، اہل دوزخ پر خدا کی طرف سے لعنت کا اعلان۔ اس امر کا بیان کہ مقامِ اعراف سے اہل ایمان کے ایک گروہ کو دوزخ اور جنت دونوں کا مشاہدہ کرایا جائے گا تاکہ وہ دیکھ لیں کہ خدا نے رسولوں کے ذریعے سے جن باتوں کی خبر دی تھی وہ سب پوری ہوئیں۔ اصحاب اعراف کی طرف سے اہل جنت کو مبارک باد اور اہل دوزخ کو ملامت۔ اہل دوزخ کی اہل جنت سے فریاد کہ وہ ان پر کچھ کرم کریں۔ اہل جنت کی طرف سے جواب کہ جنت کی نعمتیں کفار پر حرام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان کہ جنھوں نے دنیا میں خدا کی باتوں کو نظر انداز کیا آج خدا نے ان کو نظر انداز کردیا ہے۔ کفار کی طرف سے اپنی محرومی و بدبختی پر اظہار حسرت ۔
(54 تا 58)۔ کفار قریش کو تنبیہ کہ خلق و امر سب خدا ہی کے اختیار میں ہے تو امید و بیم ہر حالت میں اسی کو پکارو۔ زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ برپا کرو۔ قیامت شدنی ہے۔ موت کے بعد زندگی کا مشاہدہ تم اس کائنات میں برابر کر رہے ہو۔ خدا نے ہر پہلو سے اپنی آیات واضح فرما دی ہیں۔
(59 تا 93)۔ قوم نوح، قوم ہود، قوم صالح، قوم لوط، قوم شعیب کی سرگزشتیں، جو اس بات کا تاریخی ثبوت ہیں کہ جو قومیں فساد فی الارض کی مرتکب ہوتی اور اپنے رسول کی دعوت اصلاح کی تکذیب کردیتی ہیں اللہ تعالیٰ کو صفحہ ارض سے مٹا دیتا ہے۔
(94 تا 102)۔ مذکورہ بالا سرگزشتوں پر ایک اجمالی تبصرہ، قوموں کے ساتھ اللہ تعالیٰ جو معاملہ کرتا ہے اس کے بعض بنیادی اصول اور بعض حکمتیں اور عبرتیں، قریش کو یہ تنبیہ کہ انہی کے خلف تم ہو تو اگر تم دیدہ عبرت سے دیکھتے تو تمہارے اپنے ملک کی تاریخ میں تمہارے لیے کافی سامان بصیرت موجود ہے لیکن جس طرح ان قوموں کے دلوں پر اللہ کی مہر لگ گئی تھی اسی طرح تمہارے دلوں پر بھی اللہ کی مہر لگ چکی ہے ۔
(103 تا 136)۔ حضرت موسیٰ اور فرعون کی سرگزشت جس سے واضح ہوتا ہے کہ فرعون نے حضرت موسیٰ کو شکست دینے کے لیے تمام ہتھکنڈے، جو اس کے امکان میں تھے، استعمال کیے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بامراد کیا اور فرعون کو، تمام اسباب و وسائل کے علی الرغم شکست دی، مفسدین کا بیڑا غرق ہوا اور جو جماعت مظلوم و مقہور تھی خدا نے اس کو، اس کی استقامت کی بدولت، زمین میں اقتدار بخشا ۔
(137 تا 171)۔ بنی اسرائیل کی تاریخ کے تمام ادوار پر ایک جامع تبصرہ جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہمیشہ بڑے بڑے کرم فرمائے لیکن انہوں نے شروع سے لے کر اب تک ہمیشہ خدا کے انعامات کی ناقدری کی اور کسی تذکیر و تنبیہ سے بھی کوئی پائدار فائدہ نہیں اٹھایا اور اب بھی ان کی روش وہی ہے چنانچہ جس حق کی علمبرداری کی ذمہ داری ان پر ڈالی گئی تھی وہ اس کی مخالفت میں پیش پیش ہیں حالانکہ یہ موقع ان کے لیے آخر موقع ہے جس کو ضائع کردینے کے بعد ان کے لیے دائمی ذلت کے سوا اور کوئی چیز باقی نہیں رہ جائے گی۔
(171 تا 206)۔ خاتمہ سورۃ جس میں قریش کو عہد فطرت کی یاد دہانی کی گئی ہے اور بنی اسرائیل کے حالات سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ پھر ان کو عذابِ الٰہی کی دھمکی دی گئی ہے اور خبردار کیا گیا ہے کہ جب اللہ کی پکڑ میں آجاؤ گے تو تمہارے یہ اولیا و اصنام جو تم نے گھڑ رکھے ہیں کچھ کام نہیں آئیں گے۔ آخر میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر، اعراض اور ہر آن یاد الٰہی کے ساتھ وابستہ رہنے کی ہدایت ۔


(حوالہ:  تدبر قرآن  از امین احسن اصلاحی )