6۔ سورہ انعام : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

6۔ سورہ انعام کا تعارف اور مضامین
الف۔ سورتوں کے دوسرے گروپ پر ایک اجمالی نظر :
سورۂ مائدہ پر، جیسا کہ ہم مقدمے میں واضح کرچکے ہیں، سورتوں کا پہلا گروپ تمام ہوا۔ اب یہ انعام سے۔ دوسرا گروپ شروع ہورہا ہے۔ اس میں چار سورتیں ہیں۔ انعام، اعراف، انفال، براءت۔ انعام اور اعراف مکی ہیں، انفال اور براءت مدنی۔ انعام و اعراف دونوں میں خطاب اہل مکہ سے ہے۔ انعام میں توحید، معاد اور رسالت کے بنیادی مسائل زیر بحث آئے ہیں اور اصل دینِ ابراہیم کی وضاحت کی گئی ہے۔ بنائے استدلال تمام تر عقل و فطرت اور آفاق و انفس کے شواہد پر ہے یا پھر ان مسلمات پر جن کو اہل عرب تسلیم بھی کرتے تھے اور جو صحیح بھی تھے ۔
 اعراف میں انذار کا پہلو غالب ہے۔ اس میں قریش پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ کسی قوم کے اندر ایک رسول کی بعثت کے مقتضیات و تضمنات کیا ہوتے ہیں، اس باب میں اللہ تعالیٰ کے قاعدے اور ضابطے کیا ہیں، اگر کوئی قوم اپنے رسول کی تکذیب پر جم جاتی ہے تو اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں، اس معاملے میں تاریخ کی شہادت کیا ہے اور اگر وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی اس روش سے باز نہ آئے تو اسے اپنے لیے کس روزِ بد کا انتظار کرنا چاہیے ۔
 انفال میں مسلمانوں کو اپنی کمزوریاں دور کر کے اللہ اور رسول کی اطاعت پر مجتمع ہونے اور کفارِ قریش سے جہاد پر ابھارا ہے۔ قریش کے متعلق صاف صاف یہ اعلان فرمایا ہے کہ ان کو بیت اللہ پر قابض رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس وراثتِ ابراہیمی کے حق دار مسلمان ہیں نہ کہ قریش۔ مسلمانوں کو ہدایت دی ہے کہ تم ان سے مرعوب نہ ہو، اب ان کے لیے ذلت اور عذاب کا وقت آ چکا ہے۔ اگر یہ اپنی روش سے باز نہ آئے تو منہ کی کھائیں گے اور دنیا و آخرت دونوں میں کوئی بھی ان کو پناہ دینے والا نہیں ہوگا
 سورۃ براءت میں کھلم کھلا قریش کو الٹی میٹم ہے۔ ان کے لیے صرف دو راہیں کھلی چھوڑی گئی ہیں۔ اسلام یا تلوار۔ مسلمانوں کو ان سے ہر قسم کے روابط قطع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جو مسلمان رشتہ و قرابت کی بنا پر ان سے در پردہ تعلق رکھتے تھے ان کو سخت سرزنش کی گئی ہے اور ان کے سامنے بھی واضح طور پر دو شکلیں رکھ دی گئی ہیں، یا تو اپنے آپ کو نفاق کی تمام آلائشوں سے پاک کر کے سچے اور پکے مسلمان بن جائیں یا پھر اسی انجام سے دو چار ہونے کے لیے تیار ہوجائیں جو اللہ و رسول کے ان دشمنوں کا ہونے والا ہے ۔
 اس روشنی میں اگر تدبر کے ساتھ آپ اس گروپ کی تلاوت کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان چاروں سورتوں میں نہایت گہری حکیمانہ ترتیب ہے۔ انعام میں قریش پر اتمامِ حجت ہے، اعراف میں ان کو انذار ہے، انفال میں مسلمانوں کو جہاد کی تیاری کی ہدایت اور بیت اللہ کی تولیت سے قریش کی معزولی کا فیصلہ ہے۔ براءت میں قریش کو الٹی میٹم اور منافقین کو آخری تہدید ہے۔
 پہلے گروپ میں اصل بحث اہل کتاب سے تھی، قریش سے اگر کہیں خطاب ہوا تھا تو ضمناً۔ برعکس اس کے اس گروپ میں اصل خطاب قریش سے ہے۔ اہل کتاب کا اس میں ذکر آیا ہے تو ضمناً۔ مواد استدلال میں بھی مخاطب کے اختلاف کے لحاظ سے بنیادی فرق ہے۔ اس گروپ میں بیشتر استدلال عقل و فطرت اور آفاق و انفس کے شواہد سے ہے اور پہلے گروپ میں اہل کتاب کے تعلق سے وہ ساری چیزیں استدلال کے طور پر استعمال ہوئی ہیں جن کو اہل کتاب مانتے تھے۔ پہلے گروپ میں اہل کتاب کو امامت کے منصبت سے معزول کیا گیا ہے اور ان کی جگہ مسلمانوں کو دی گئی ہے۔ اس گروپ میں قریش کو بیت اللہ کی تولیت سے معزول کیا گیا ہے اور اس کی خدمت امت مسلمہ کے سپرد کی گئی ہے ۔
 یہ پورے گروپ پر ایک اجمالی تبصرہ ہوا۔ اب ہم اس کی ایک ایک سورۃ کو الگ الگ لے کر اس کی تفسیر کریں گے۔ گروپ کی پہلی سورۃ انعام ہے۔ اب ہم اللہ کا نام لے کر اس کی تفسیر شروع کرتے ہیں۔ وبید اللہ التوفیق ۔
ب۔ سورۃ کا عمود : سورۂ انعام میں، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، مخاطب قریش ہیں۔ ان کے سامنے توحید، معاد اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے دلائل واضح کرتے ہوئے ان کو ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ تنبیہ ہے کہ اگر انہوں نے یہ دعوت قبول نہ کی تو اس انجام سے دوچار ہونے کے لیے ان کو تیار رہنا چاہیے جس سے رسولوں کی تکذیب کرنے والی قوموں کو دوچار ہونا پڑا۔ اہل عرب چونکہ حضرت ابراہیم کی اولاد تھے اور ان کا دعوی یہ تھا کہ جس مذہب پر وہ ہیں یہ ان کو حضرت ابراہیم ہی سے وراثت میں ملا ہے اس وجہ سے اس سورۃ میں اس حجت کو خاص طور پر نمایاں کیا گیا ہے جو حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کے سامنے پیش کی تاکہ قریش پر یہ واضح ہوجائے کہ اصل ملتِ ابراہیم کیا ہے اور اس کے حقیقی پیرو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ ہیں یا قریش۔ سورۃ کے اس عمود کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب ایک اجمالی نظر سورۃ کے مطالب پر ڈالیے ۔
ج۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ :
(1۔5)۔ توحید اور معاد کے بعض واضح دلائل کی طرف اشارہ۔ بالکل بدیہی حقائق سے اعراض پر اظہارِ تعجب۔ قرآن کی تکذیب ایک امر حق کی تکذیب ہے جس کا خمیازہ یہ بھگتیں گے۔ قرآن انہیں جن نتائج کی خبر دے رہا ہے وہ سب پیش آ کے رہیں گے۔
(6 - 7) رسولوں کی تکذیب کرنے والے عذاب الٰہی میں پکڑے گئے۔ عرب کی پچھلی تاریخ کی طرف اشارہ ۔
(8- 11) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ کوئی بڑے سے بڑا معجزہ بھی ان جھٹلانے والوں کو قائل نہیں کرسکتا۔ جو معجزہ یہ مانگتے ہیں وہ بھی ان کو دکھا دو گے جب بھی یہ اپنے انکار سے باز نہیں آئیں گے۔ تم سے پہلے جو رسول آئے اس قماش کے لوگوں نے ان کا بھی مذاق اڑایا۔ بالآخر وہ اس عذاب میں مبتلا ہو کے رہے جس کا انہوں نے مذاق اڑایا۔ ان کو ان کے ملک کی تاریخ کی طرف توجہ دلاؤ۔
(12- 13) آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب خدا ہی کی ملکیت ہے۔ اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے اس وجہ سے لازم ہے کہ وہ جزا اور سزا کا دن لائے ۔
(14 - 18) شرک سے اظہار براءت۔ خیر و شر سب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے۔ سب اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں وہ حکیم و خبیر ہے۔
(19 - 24) توحید اور شرک کے باب میں فیصلہ کن شہادت اللہ کی ہے اور اللہ کی شہادت توحید کے حق میں ہے۔ یہ قرآن اسی شہادت کے ساتھ اترا ہے۔ سچے اہل کتاب بھی اس سے آشنا ہیں، صرف بدبخت ہی ہیں جو اس پر ایمان لانے سے محروم رہیں گے۔ جو لوگ شرک کے مدعی ہیں وہ خدا پر جھوٹ افترا کر رہے ہیں۔ ایسے ظالم فلاح نہیں پائیں گے۔ قیامت کے دن جب ان سے سوال ہوگا کہ تمہارے شرکاء کہاں ہیں تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے ۔
(33 - 39) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ نشانیٔ عذاب کا مطالبہ پورا نہ کیے جانے پر یہ جو تمہارا مذاق اڑا رہے ہیں، یہ چیز تمہارے لیے غم کا باعث نہ بنے۔ یہ تمہارا مذاق نہیں بلکہ خدا کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس وجہ سے اس معاملے کو خدا پر چھوڑو۔ تم سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں ان کو بھی اسی طرح کے حالات سے سابقہ پیش آیا تو انہوں نے صبر کیا۔ اس کے بعد اللہ کی نصرت ظاہر ہوئی۔ یہی سنت اللہ ہے اور سنت اللہ میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ تمہیں اس معاملے میں پریشان نہیں ہونا چاہیے ایمان تو وہی لائیں گے جن کے اندر کچھ صلاحیت ہے، جن کے دل بالکل مردہ ہوچکے ہیں وہ بڑی سے بڑی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ خدا کے آسمان و زمین نشانیوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن جو اندھے ہوچکے ہیں ان کو ان نشانیوں سے کیا فائدہ ؟
(40 - 50) یہ عذاب کی نشانی مانگتے ہیں، ان سے پوچھو کہ اگر خدا کا عذاب آیا تو اس سے بچاؤ کا کیا سامان انہوں نے کر رکھا ہے ؟ پچھلی قوموں کا حوالہ کہ انہوں نے بھی اپنے رسولوں سے نشانیاں مانگیں تو اللہ نے ان کو مختلف مصیبتوں میں مبتلا کیا لیکن خدا کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے ان کے دل اور سخت ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خدا نے ان کی جڑ ہی کاٹ دی۔ پیغمبر کی طرف سے یہ اظہار و اعلان کہ میں خدا کے خزانوں کا مالک اور غیب کا عالم ہونے کا مدعی نہیں ہوں۔ میں تو بس وحی الٰہی کا پیرو ہوں ۔
(51 - 55) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کہ جن کے اندر خدا و آخرت کا خوف موجود ہے وہی اس قرآن سے فائدہ اٹھائیں گے۔ سو ان کو اس ذریعہ سے جگاؤ۔ رہے وہ جو معجزات کے طالب ہیں تو ان کو نظر انداز کرو۔ جو غریب لوگ اللہ کی خوشنودی کے طالب اور تمہاری باتوں کے سننے والے ہیں ان کو ان متکبرین کے مطالبہ پر اپنے سے دور نہ کرو۔ اگر یہ متکبرین اس وجہ سے تمہارے پاس نہیں آتے کہ تمہاری مجلس میں غربا ہوتے ہیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑو، تم ان کے ایمان و اسلام کے ذمہ دار نہیں ہو۔ ان کے لیے غریبوں کی غریبی اور ان کی اپنی امیری فتنہ بن گئی ہے۔ تم ان غربائے مسلمین کا بہرحال خیر مقدم کرو اور ان کو بشارت دو ۔
(56 - 67) شرک سے اعلانِ بیزاری کی ہدایت اس لیے کہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔ پیغمبر ایک واضح شہادت اپنے پاس رکھتا ہے اور یہ مکذبین اس شہادت کو تو جھٹلاتے ہیں اور نشانی عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ عذاب کا لانا پیغمبر کے اختیار میں نہیں، خدا کے اختیار میں ہے۔ ہر جان خا کی مٹھی میں ہے۔ اللہ جب چاہے اور جہاں سے چاہے عذاب بھیج سکتا ہے۔ ہر بات کا ایک وقت مقرر ہے۔ یہ جھٹلانے والے عنقریب جان لیں گے ۔
(68 - 70) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کہ جب دیکھو کہ ان مکذبین کو اعتراض و مخالفت کا بخار چرھ گیا ہے تو ان سے بحث میں نہ الجھو، بلکہ کنارہ کش ہوجاؤ۔ تمہارا کام تذکیر و موعظت ہے، جب دیکھو کہ وہ سننا نہیں چاہتے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو، یہ خود بھگتیں گے، تم ان کے ایمان و اسلام کے ذمہ دار نہیں ہو ۔
(71 - 73) ان سے کہہ دو کہ حق واضح ہوجانے اور اللہ کی ہدایت آجانے کے بعد کیا ہماری مت ماری ہوئی کہ ہم صحرا میں گم کردہ راہ قافلے کی طرح بھٹکتے پھریں ؟ ہم تو اب اسی راہ پر چلیں گے جو خدا نے ہمارے لیے کھولی ہے ۔
(74- 83) توحید کے ثبوت میں حضرت ابراہیم نے جو دلیل اپنی قوم پر قائم کی اس کا بیان ۔
(84 - 90) حضرت ابراہیم سے پہلے اور ان کے بعد ان کی ذریت میں جو انبیا و رسل اس دین توحید کے حامل اٹھے ان کی طرف ایک سرسری اشارہ اور اس بات کی تاکید کہ اصل ہدایت کی راہ یہی ہے جو ان پیغمبروں نے بتائی ہے تو اس پر مضبوطی سے استوار رہو۔ اگر کفار قریش اس کا انکار کرنا چاہتے ہیں تو ان کی پروا نہ کرو۔ اللہ دوسروں کو اس کی تائید و حمایت میں کھڑا کردے گا ۔
(91 - 92) یہود کا القا کیا ہوا ایک اعتراض اور اس کا جواب ۔
(93 - 94) ان بد دماغوں کی تردید جو دعوی کرتے تھے کہ اگر وہ چاہیں تو وہ بھی اسی طرح کا کلام پیش کرسکتے ہیں جس قسم کا کلام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کی طرف منسوب کر کے پیش کرتے ہیں، انہیں بھی وحی کا تجربہ ہوتا ہے ۔
(95- 99) توحید کے آفاقی دلائل ۔
(100- 105) شرک کی تردید اور یہ تنبیہ کہ ہدایت تمہارے پاس آ چکی، اب جو گمراہی اختیار کرے گا تو ذمہ داری خود اس پر ہے۔
(106- 108) پیغمبر کو مضبوطی سے وحی الٰہی کے اتباع پر جمے رہنے اور مشرکین سے اعراض کی ہدایت اور مسلمانوں کو یہ نصیحت کہ مشرکین کے بتوں اور معبودوں کی بے ضرورت تحقیر و تذلیل نہ کی جائے کہ وہ مشتعل ہو کر تمہارے خدا کو برا بھلا کہنے لگیں ۔
(109- 111) کفار کی اس قسم کی تردید کہ اگر ان کی طلب کے مطابق ان کو معجزہ دکھا دیا جائے تو وہ ضرور ایمان لائیں گے۔ فرمایا کہ اگر ان کو دنیا جہان کے معجزے دکھا دیے جائیں جب بھی جو ایمان لانے والے نہیں ہیں وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔
(112 - 117) اس سنت اللہ کا بیان کہ جب نبی کی دعوت بلند ہوتی ہے تو شیاطین جن و انس کو بھی یہ مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے باطل کو ملمع کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرلیں تاکہ جن کو ان کی راہ اختیار کرنی ہے وہ ان کی راہ اختیار کریں۔ پیغمبر کو یہ ہدایت کہ تم ان الجھنے والوں کو بتا دو کہ جب میرے پاس خدا کی کتاب آ چکی ہے تو میں اس کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کی پیروی کس طرح کرسکتا ہوں ۔
(118 - 123) مسلمانوں کو یہ ہدایت کہ تم ورغلانے والوں کی باتوں سے ہوشیار رہو۔ انہوں نے اپنے مشرکانہ عقائد کے تحت جو چیزیں حرام کر رکھی ہیں ان کے باب میں تم ان کی بدعات کی پروا نہ کرو بلکہ وہ چیزیں کھاؤ جن کی حرمت کی کوئی دلیل نہ ملت ابراہیم میں موجود ہے۔ نہ قرآن نے ان کے حرام ہونے کی خبر دی ہے۔ اب خدا نے تمہیں تاریکی سے روشنی میں لا کھڑا کیا ہے تو تم ان لوگوں کی بدعا اور کج بحثیوں کی پروا نہ کرو جو کفر و شرک کے اندھیرے میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔
(124 - 127) ان مغروروں کی تردید جو قرآن پر ایمان لانے کی شرط یہ ٹھہراتے تھے کہ جب تک ان پر بھی اسی طرح وحی نہ آئے جس طرح پیغمبر پر آتی ہے اس وقت تک وہ اس پر ایمان نہ لائیں گے۔ فرمایا کہ نبوت کے مرتبہ بلند کا سزاوار ہر شخص نہیں ہوتا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کا اہل ہے، کون نہیں۔ جو لوگ کبرِ نفس میں مبتلا ہو کر دنیا اور آخرت دونوں کی سرفرازیوں کا اجارہ دار صرف اپنے کو سمجھتے ہیں وہ اپنے اس غرور کی سزا پائیں گے۔ رہا ایمان لانے اور نہ لانے کا معاملہ تو یہ اللہ کی توفیق پر منحصر ہے اور اس توفیق کے لیے ایک مخصوص سنت الٰہی ہے ۔
(128 - 135) آخرت میں جنوں اور انسانوں کے گمراہ لوگ اعتراف کریں گے کہ وہ اتمام حجت کے باوجود محض اپنی شامت اعمال سے اس انجام کو پہنچے۔ قریش کو دھمکی کہ سنبھلنا چاہتے ہو تو اب بھی سنبھل جاؤ ورنہ جس عذاب کی دھمکی تمہیں سنائی جا رہی ہے وہ آ کے رہے گا اور کوئی اس سے بچ نہ سکے گا ۔
(136 - 144) مشرکین نے اپنے مشرکانہ عقائد کے تحت کھیتی اور چوپایوں میں سے جن چیزوں کو حرام ٹھہرا لیا تھا یا اپنے دویتاؤں کو راضی کرنے کے لیے انسانی جانوں کی جو قربانیاں پیش کرتے تھے ان کی تردید و مذمت کہ یہ سب باتیں بے سروپا اوہام پر مبنی ہیں۔ عقل، فطرت اور ملتِ ابراہیم میں ان کی کوئی اصل نہیں ہے ۔

(145- 154) اس قرآن کے ذریعہ سے جو اتمام حجت ہوا ہے اس کا بیان۔ اب اس کے بعد بھی اگر لوگ کسی نشانی کے ظہور کے منتطر ہیں تو وہ انتظار کریں، اس قسم کی نشانی دکھانا پیغمبر کے اختیار میں نہیں ہے۔ پیغمبر کی طرف سے یہ اعلان کہ خدا نے مجھے ملتِ ابراہیم کی ہدایت بخشی ہے اور میں اس پر چل کھڑا ہوا ہوں۔ اب جس کا جی چاہے اس صراط مستقیم پر آئے اور جس کا جی چاہے بھٹکتا پھرے۔ اللہ کے ہاں ہر ایک اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے ۔