واقعۂ نوح

رضوان اللہ 

ماہنامہ اشراق 2018 


یہ انسانی تاریخ کاایک اہم واقعہ ہے جس کابیان ہمیں کئی مذہبی روایات میں ملتاہے۔بائیبل میں تاریخی ترتیب کے ساتھ اس کی تفصیل آئی ہے تو قرآن میں تذکیری اندازکے مطابق جستہ جستہ اس کے متعلق بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ یہ دونوں کتابیں الہامی ہونے کے لحاظ سے چونکہ ایک ہی روایت کی امین ہیں اور ان میں اکثر و بیش تر واقعات باہم موافق پائے جاتے ہیں،اس لیے ان میں یہ واقعہ بھی اپنی اصل کے لحاظ سے ایک ساآیاہے۔ تاہم،کئی مقامات پریہ اپنے بیان میں مختلف بھی ہوگیاہے اور تورات کی نقل میں غلطی، اِلحاق اور تحریف جیسے امکانات کے ہوتے ہوئے ایساہوجاناناممکن نہیں ہے۔ اس واقعہ کی تفصیلات کیاہیں؟ان سے توہم سب لوگ واقف ہیں اور اُنھیں یہاں بیان کرنے کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں،مگراس کے بارے میں چندسوالات ایسے پیداہوتے ہیں جو شدت سے اس بات کا تقاضاکرتے ہیں کہ اُن کے تشفی بخش جواب ضروردیے جائیں، مثال کے طورپر:
۱۔ حضرت نوح علیہ السلام کیا سب انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے؟
۲۔ طوفان نوح کیاپوری زمین پرآیا؟
۳۔ اُن کی کشتی میں کون سوارہوئے؟
۴۔ کیانوح کے اہل محض اہل ہونے کی بناپرسوارہوئے؟
۵۔ آج کے سب انسان کس کی اولادہیں؟
۶۔ سیدنا ابراہیم کیاواقعی حضرت نوح کی نسل سے ہیں؟
ہم ذیل میں ان سوالات کے جواب میں اپنی معروضات پیش کرتے ہیں:

۱۔ حضرت نوح علیہ السلام کیاسب انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے؟


عام طورپر خیال کیاگیاہے کہ نوح علیہ السلام کی بعثت اُن کے زمانے کے سب انسانوں کی طرف ہوئی۔اس خیال کی دلیل اس کے سواکچھ نہیں کہ آدم اورنوح کازمانہ چونکہ بہت قریب کاہے،اس لیے غالب اِمکان یہی ہے کہ آدم کی نسل ابھی ایک ہی جگہ قیام رکھتی ہوگی اورنوح کوان سب کی طرف مبعوث کردیاگیاہوگا۔قرآن کے بیانات اس زمانی قرب کی بالکل تائیدنہیں کرتے۔ مثلاً اس میں بتایا گیاہے کہ نوح سے پہلے آدم کی اولادمیں نبوت کا باقاعدہ سلسلہ قائم رہا ہے۔۱؂ یہ، ظاہرہے کہ ان دونوں کے درمیان میں پائی جانے والی ایک لمبی مدت پردلالت کرتا ہے۔ یہ بھی بتایاگیاہے کہ نوح کے زمانے میں شرک کی پوری رام لیلا،ود، سواع ،یغوث،یعوق اور نسر کی صورت میں وجود پذیر ہو چکی تھی۔۲؂ اس کاوجودبھی دلالت کرتاہے کہ انسان کی پیدایش کے بعداچھاخاصازمانہ گزرچکاہے کہ اس طرح کی ہستیاں اپنی موت کے عرصۂ دراز بعدہی خداؤں کی صورت میں ڈھلاکرتی ہیں۔بلکہ بائیبل کے بیانات کو اگر صحیح مان لیاجائے توآدم اور نوح کی پیدایش میں پائی جانے والی مدت توبالکل متعین ہو کرہمارے سامنے آجاتی ہے، یعنی ۱۰۵۶ سال۔ اس میں اُن کی بعثت تک کی عمر مزید شامل کی جاسکتی ہے۔اب اس قدرطویل زمانے کے ساتھ ساتھ انسان کی انتہادرجے کی تجسس پسندفطرت،سماجی ومعاشرتی عوامل اور معیشت کی مجبوریوں کااگرلحاظ رہے تو یہ فرض کرلینا بالکل محال ہوجاتا ہے کہ انسان زمانۂ نوح میں ایک ہی علاقے میں قیام پذیررہا ہوگا اورمختلف علاقوں میں ہجرت نہ کرگیاہوگا۔قیاس یہی کہتاہے کہ نوح کے زمانے تک جس طرح آدم کی اولادسے مختلف نسلیں ظہورمیں آچکی ہوں گی، اسی طرح یہ سب لوگ زمین کے مختلف علاقوں میں آبادبھی ہوگئے ہوں گے۔سوان حالات میںیہ مان لینا کسی طرح ممکن نہیں رہتا کہ ایک پیغمبرکوایک وقت میں سب انسانوں کی طرف مبعوث کردیاجائے،بلکہ یہی بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت نوح کی بعثت سب کے بجاے بعض لوگوں کی طرف کی گئی ہو ۔اور یہ وہ بات ہے جسے قرآن مجیدنے بھی لفظوں میں بیان کردیاہے۔فرمایاہے:
اِنَّآ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖٓ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ. (نوح ۷۱: ۱) 
’’ہم نے نوح کو اُس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجاکہ اپنی قوم کو خبردار کرو، اِس سے پہلے کہ ایک دردناک عذاب اُن پر آجائے۔‘‘


یہاں واضح طورپرفرمایاہے کہ ہم نے نوح کی بعثت اُس کی قوم کی طرف کی اوریہ کہتے ہوئے کی کہ اپنی قوم کو خبردار کرو۔ نوح کی اس قوم کا ذکر قرآن نے مختلف پیراؤں میں اور باربارکیاہے۔ اس تسلسل اورتکرارسے اُن کی قوم کا یہ ذکر اُس وقت بے جا اورقطعی مہمل قرار پاتا ہے، جب قوم نوح کے علاوہ کوئی دوسری قوم سرے سے پائی نہ جاتی ہو اور حضرت نوح کوتمام انسانوں کی طرف مبعوث کیاگیاہو۔

۲۔ طوفان نوح کیا پوری زمین پر آیا؟

اس بارے میں رائج راے یہی ہے کہ طوفان نوح پورے کرۂ ارض پر آیا۔اس راے کی بنیاداصل میں قرآن اور بائیبل، دونوں میں آنے والا محض ایک لفظ، یعنی ’’زمین‘‘ ہے۔قرآن میں اس کے لیے ’الْاَرْض‘ استعمال ہواہے اور لوگوں نے اس سے پوری زمین مراد لے لی ہے، حالاں کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ قرآن میں جس طرح پوری زمین کے لیے آتا ہے، اسی طرح زمین کے کسی خاص حصہ کے لیے معہودہوکربھی آتاہے۔ فرعون کے بارے میں فرمایاہے:
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ. (القصص ۲۸: ۴) 
’’ واقعہ یہ ہے کہ سرزمین مصرمیں فرعون نے سرکشی اختیارکرلی تھی۔‘‘


یہاں ’الْاَرْض‘ کالفظ زمین کے ایک مخصوص حصے ،یعنی مصر کے لیے آیاہے کہ فرعون کی سرکشی اس کے زیرنگیں علاقے میں تھی، نہ کہ پورے کرۂ ارض میں۔بالکل اسی طرح حضرت نوح کی دعاہو،اُن کی قوم پرآنے والے عذاب کا ذکر ہو یا اس عذاب کے اختتام کابیان ہو، ان سب مقامات پر’’زمین‘‘کالفظ اپنے معہودکے اعتبارسے آیاہے اور اس سے مراد وہ مخصوص علاقہ ہے، جہاں اُن کی قوم آبادتھی۔اس معہودکوماننے کی وجہ یہ ہے کہ یہ معمول میں آنے والا کوئی طوفان نہیں، بلکہ خداکاعذاب تھا ،اس لیے ضروری تھا کہ یہ اُن لوگوں پر اوراُسی علاقے میں آئے، جہاں خداکی طرف سے اِتمام حجت کیاجاچکاہو۔
ہماری راے میں بائیبل کابیان اس معاملے میں قرآن سے مختلف نہیں،بلکہ اُس کے عین مطابق ہے۔اس میں بھی ’’زمین‘‘ یا ’’روے زمین‘‘ جیسے الفاظ سے مراداصل میںیہی معہودذہنی ہے ۔ باقی اس کے راویوں کاحسن کمال ہے کہ اُنھوں نے ہمارے لوگوں کی طرح پہلے اسے پوری زمین قراردیااورپھراسی کے مطابق سارے واقعہ کوبیان کردیا۔

۳۔ اُن کی کشتی میں کون سوار ہوئے؟

یہ سوال اصل میں دوضمنی سوالات پرمشتمل ہے:ایک یہ کہ کون سے جانور سوارہوئے؟دوسرے یہ کہ انسانوں میں کون کون سوار ہوئے؟جہاں تک پہلے سوال کاتعلق ہے تواس کاجواب عام طورپریہ دیاگیاہے کہ حضرت نوح کوحکم ہوا تھا کہ وہ ہرقسم کے جانوروں کانرومادہ اپنے ساتھ کشتی میں سوار کر لیں۔ اس کے لیے قرآن اور بائیبل، دونوں میں آنے والے لفظ ’کُلّ‘ کو دلیل بنایا گیا ہے، دراں حالیکہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن میں اس ’کُلّ‘ کااستعمال جس طرح ہر ہر چیز کے لیے ہواہے ،اسی طرح کچھ مخصوص چیزوں کے لیے بھی ہواہے،جیسا کہ اس آیت میں:
وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ.(الانبیاء ۲۱: ۳۳) 
’’ حقیقت یہ ہے کہ وہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے ۔ اِن میں سے ہر ایک (اپنے) ایک مدار میں گردش کر رہا ہے۔‘‘


یہاں ’کُلّ‘ سے مرادیہ نہیں ہے کہ ہرچیزاپنے مدارمیں گردش کررہی ہے ،بلکہ اس کامطلب ہے کہ سورج اور چاند، ان میں سے ہرکوئی اپنے مدارمیں گردش کررہاہے۔یہی معاملہ حضرت نوح کودیے جانے والے حکم کاہے۔اس میں بھی ’کُلّ‘ معہود ذہنی کے لحاظ سے بولا گیاہے اوراس سے مراد کچھ خاص جانور ہیں جواُن لوگوں کے تصرف میں اوران کی عمومی ضروریات کے لیے ہیں۔ ’کُلّ‘ یہاں عہد کے لیے ہے،اس کی دلیل طوفان کے موقع پراس کا استعمال ہے اور یہ ایسا ہی استعمال ہے، جیساکہ ہم اپنی زبان میں کسی علاقے میں آنے والے سیلاب کے پیش نظراعلان کریں: لوگو، ’’سب‘‘ مال اورجانورلے کریہاں سے نکل جاؤ۔ظاہرہے ،اس سے مرادہماری ضرورت اور استعمال کے جانورہی ہوں گے، نہ کہ درندوں،پرندوں ،چرندوں اورکیڑوں مکوڑوں سمیت دنیابھرکے سب جانور۔۳؂
ہمارے نزدیک اگربائیبل کے راویوں کی حاشیہ آرائی سے قطع نظرکرلیاجائے تواس میں بھی ’’کل‘‘ اور ’’ہر قسم‘‘ وغیرہ کے الفاظ اصلاً اسی طریقہ سے آئے ہیں اوران سے مرادکچھ خاص جانورہی ہیں، اس لیے کہ یہی بات زبان کے اصولوں کے مطابق ہے اوراسی بات کا اِمکان نوح اوراُن کی کشتی کے حجم کے تناظرمیں تسلیم کیا جا سکتا ہے۔۴؂ بلکہ ’’کل‘‘ کا لفظ بول کرکچھ خاص چیزوں کومرادلینے کی ایک اورمثال ہمیں تورات کے اِسی مقام پرمل جاتی ہے۔ فرمایا ہے: ’’تو ہر طرح کی کھانے کی چیزلے کر اپنے پاس جمع کرلینا‘‘۔۵؂ ظاہرہے، اس میں ’’ہرطرح کی کھانے کی چیز‘‘ سے مراد عام طورپر اُن کے کھانے میں آنے والی چیزیں ہی ہیں۔
دوسرے سوال کاکہ اس کشتی میں کون لوگ سوارہوئے،بعض حضرات کی طرف سے یہ جواب دیاگیاہے کہ اس میں صرف نوح کے گھروالے ہی سوار ہوئے ۔یہ اصل میں تورات کابیان ہے اوروہیں سے ہمارے ہاں رواج پا گیا ہے۔ وگرنہ ہم جانتے ہیں کہ نوح پراُن کی قوم کے بھی بعض لوگ ایمان لاچکے تھے،۶؂ اورواضح سی بات ہے کہ اُن کے لیے بھی اب یہی فیصلہ ہونا تھاکہ وہ نوح کی کشتی میں بیٹھ کر لازماًنجات پائیں۔ قرآن مجیدنے اس بات کوبڑی صراحت کے ساتھ لفظوں میں بھی بیان کردیاہے:
قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَھْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌ.(ہود ۱۱: ۴۰)
’’ ہم نے کہا:ہر قسم کے (جانوروں کے) جوڑے اِس میں رکھ لو، (نر و مادہ) دو دو اور (اُن کے ساتھ) اپنے گھر والوں کو بھی اِس کشتی میں سوار کرا لو، سواے اُن کے جن کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے، اور اُن کو بھی جو ایمان لائے ہیں اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے۔‘‘


دیکھ لیاجاسکتاہے کہ یہاں ’وَمَنْ اٰمَنَ‘ کو ’اَھْلَکَ‘ پرعطف کیاگیاہے ۔یہ مغایرت کاتقاضاکرتااوریوں بڑی خوبی سے اس بات کو بیان کردیتا ہے کہ نوح کو اپنے اہل کے علاوہ کچھ اورمومنین کوبھی سوارکرنے کاحکم ہواتھا۔
۴۔ کیا نوح کے اہل محض اہل ہونے کی بنا پر سوار ہوئے؟
حضرت نوح کے اہل کوکشتی میں سوارکرنے کاحکم کس بنیادپر دیاگیا؟بعض حضرات کے نزدیک اس کی وجہ اُن کا محض حضرت نوح کے اہل میں سے ہوناہے۔ یہ راے بنیادی طورپرتورات میں آنے والے ایک حکم سے مترشح ہوتی ہے:
’’اورخداوندنے نوح سے کہاکہ تواپنے پورے خاندان کے ساتھ کشتی میں آ، کیونکہ میں نے تجھی کواپنے سامنے اس زمانہ میں راست باز دیکھا ہے۔‘‘ (کتاب پیدایش ۷: ۱)


اسے پڑھ کربادی النظرمیں یہی مفہوم ہوتاہے کہ اُس وقت صرف نوح راست بازتھے اوریہ اُن کی راست بازی کا گویا انعام تھاکہ اُن کا خاندان بھی محض اُن کاخاندان ہونے کی وجہ سے بچا لیاجائے۔
اس راے کوایک اورطرح سے بھی بیان کیا گیا ہے، وہ یہ کہ حضرت نوح کوچونکہ منکرین کی طرف سے مار دینے کی دھمکی دی گئی تھی،اس لیے اُن کی دعاکی قبولیت اس طرح سے ہوئی کہ اُنھیں اُن کے خاندان سمیت بچا لیا گیا۔ اس کی دلیل میں قرآن کے اُن مقامات کو پیش کیا گیا ہے، جہاں نوح کواپنے گھر والوں کو کشتی میں سوارکرنے کاحکم دیتے ہوئے ’اَھْلَکَ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔اس لفظ سے یہ نتیجہ نکالاگیاہے کہ اس معاملہ میں اُن کے اہل کے لیے اُن کا اہل ہونا ہی مدار نجات تھا۔اس کی تائیدمیںیہ دلیل بھی لائی گئی ہے کہ جب نوح کا بیٹا عذاب کی گرفت میں آگیا اور انھوں نے ’اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ‘ (ہود ۱۱: ۴۵) کہتے ہوئے خداسے التجاکی تو اس کے جواب میں یہ کہنے کے بجاے کہ وہ ایمان نہ لایا تھا، اس لیے غرق ہوا،یہ کہا گیا: ’اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَہْلِکَ‘، وہ تمھارے اہل میں سے نہ تھا،اس لیے غرق ہوا (ہود ۱۱: ۴۶)۔
یہ راے جن حضرات نے پیش کی ہے،اُن سے جس طرح اسلام کے بنیادی اصولوں سے یک سراِعراض ہوا ہے، اِسی طرح خاص اس واقعہ کے بارے میں بیان کردہ تصریحات سے بھی مکمل طورپرصرف نظرہوگیاہے۔ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں حسب نسب کی حیثیت فقط باہمی تعارف اورپہچان کی ہے۔خداکے ہاں اگرکسی چیزکی اہمیت ہے تو وہ ایمان اورعمل صالح کی ہے۔بالخصوص اُس کی عدالت میں،چاہے وہ عدالت آخرت کی ہویارسالت کے نتیجے میں اس دنیامیں برپاکردی گئی ہو۔چنانچہ یہ بات کسی طرح باورنہیں آتی کہ حضرت نوح کورسول بناکربھیجاجائے اور منکرین کی تکذیب کے نتیجے میں عذاب سرپرآن پہنچے اوراُس وقت نجات کے فیصلے حق وباطل کے بجاے نسل اور خاندان کی بنیاد پر کیے جائیں،اورنوح کے اہل وعیال جواُن کی دعوت کے براہ راست مخاطب بھی ہیں، محض اُن کے اہل ہونے کی وجہ سے بچالیے جائیں۔اس کے برخلاف، اگرقرآن کی تصریحات دیکھی جائیں تووہ اس سارے معاملے کو ایک اورطرح سے بیان کرتی ہیں۔ان کے مطابق یہ سب ایمان اورکفرکی بنیادپرہوا ۔ نوح اپنی قوم کودعوت دیں یا اُنھیں تنبیہ کریں۔ نجات کی دعاکریں یا عذاب کی درخواست کریں۔خد ااپنے عذاب کافیصلہ سنائے یانجات پانے والوں کا بیان کرے۔کامیابی کا مژدہ سنائے یاناکام ہونے والوں پرلعنت کابیان کرے؛۷؂ اس طرح کے ہر موقع پر ایمان و کفر، توحید و شرک، رسول کی معیت اوراس کی تکذیب ہی کاصراحت سے ذکرہوا ہے۔اوریہی وجہ ہے کہ حضرت نوح کوجب حکم دیاگیاکہ وہ لوگوں کوکشتی میں سوارکریں تواُس وقت بھی اسی اصل اصول پراُن سے فرمایا ہے:
قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَھْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌ.(ہود ۱۱: ۴۰)
’’ ہم نے کہا:ہر قسم کے (جانوروں کے) جوڑے اِس میں رکھ لو، (نر و مادہ) دو دو اور (اُن کے ساتھ) اپنے گھر والوں کو بھی اِس کشتی میں سوار کرا لو، سواے اُن کے جن کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے، اور اُن کو بھی جو ایمان لائے ہیں اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے۔‘‘


یہ حکم حسب نسب کے بجاے ایمان کی بنیادپردیاگیا،اس بات کی دلیل ’اَہْلَکَ‘ پرآنے والا ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ‘ کااستثناہے اور اس کے بعد ’وَمَنْ اٰمَنَ‘ کے الفاظ میں بیان ہونے والا وصف ایمان ہے۔ یہ دوچیزیں بڑی وضاحت سے بتارہی ہیں کہ اس معاملہ میں نوح کے خاندان کی نجات کے لیے ایمان ہی اصل معیار قرار دیا گیا۔ بلکہ ایک اورمقام پر ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ‘ کے بعد ’وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَ۸؂‘ کے الفاظ کے ذریعے سے اس معیارکوایمان وکفر،دونوں پہلوؤں سے خوب واضح کردیاگیا ہے۔ 
یہ تورہی اصولی بات۔اب جہاں تک اس راے کے حق میں دی گئی پہلی دلیل کاتعلق ہے توہم اس پرعرض کریں گے کہ ’اَھْلَکَ‘ کے لفظ اوراس کی تکرارکایہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ اہل محض اہل ہونے کی بنا پر سوار کر لیے جائیں۔ قرآن مجیدمیں اس واقعہ کے ذیل میں دو مقامات پر ’اَھْلَکَ‘ کالفظ استعمال ہواہے،مگران دونوں مقامات پر وہ اپنے عموم کے بجاے تخصیص میں ہواہے۔یعنی،اس لفظ سے مراد تمام اہل وعیال سرے سے ہے ہی نہیں کہ اس سے کوئی شخص اہل ہونے کونجات کی وجہ قراردے۔مذکورہ بالاآیت میں اس تخصیص کی دلیل اس لفظ کو استعمال کرنے کا موقع اوراس پرعطف ہونے والے ’وَمَنْ اٰمَنَ‘ کے الفاظ ہیں۔دوسرے اس پرآنے والا ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ‘ کا استثنا ہے جس نے واضح طورپر بتادیاہے کہ سوار ہونے کے اس حکم میں اہل سے آپ کے تمام اہل نہیں، بلکہ وہ خاص اہل مرادہیں جن کے بارے میں خداکے عذاب کافیصلہ صادرنہیں ہوچکا۔بلکہ دوسری جگہ پراِس استثنا کے بعدآنے والے ’وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا‘ کے الفاظ نے توسلبی طریقے سے بھی اس تخصیص کو نمایاں کر دیا ہے۔ سو ’اَھْلَکَ‘ میں پائی جانے والی یہی تخصیص ہے جو اِعادۂ معرفہ کے اصول پراس واقعہ کے تفصیلی بیان میں آخر تک موجودرہی ہے، یعنی نوح نے التجا کرتے ہوئے جب ’اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ‘ کہا ہے تواس سے اُن کی مراد یہی ہے کہ پروردگار، میرا بیٹا تو میرے اُن خاص اہل میں سے تھاجن کے بارے میں عذاب کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ ۹؂ اس کے جواب میں خدانے جب ’اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَہْلِکَ‘ کہا ہے تواس کامطلب بھی یہی ہے کہ وہ تمھارے اُن خاص اہل میں سے نہیں تھا،بلکہ ہمارے فیصلہ کی زدمیں آیاہواتھااوراس کی وجہ یہ تھی کہ ’اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ‘ وہ اپنی ذات میں سراسربرائی ہوچکاتھا۔
’اَھْلَکَ‘ کی یہ تخصیص اِس راے کے حق میں دی ہوئی دوسری دلیل کابھی مکمل طورپرجواب ہوگئی ہے۔اس کے ہوتے ہوئے اب یہ ممکن نہیں رہاکہ ’اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَہْلِکَ‘ کا مطلب یہ لیاجائے کہ وہ تمھارے خاندان میں سے نہیں، یعنی تمھارا اپنا بیٹا نہیں ہے۔ تاہم ،بعض حضرات کواُس کی نسبت کے انکارکرنے پراس قدر اصرارہے کہ اُنھوں نے اسے موکدکرنے کے لیے ایک اورمقام سے دلیل اٹھائی ہے۔ وہ مقام یہ ہے :


ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰھُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْھُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا.(التحریم ۶۶: ۱۰)

’’ اللہ منکروں کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے۔ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کے گھر میں تھیں، مگر اُنھوں نے اپنے شوہروں سے بے وفائی کی تو اللہ کے مقابلے میں وہ اُن کے کچھ کام نہ آسکے۔‘‘

اُنھوں نے اس آیت میں آنے والے لفظ ’خیانت‘ سے حضر ت نوح کی بیوی کے بدچلن ہونے پراستدلال کیا ہے اوراس کے نتیجے کے طورپراُس بیٹے کی نوح کے ساتھ نسبت کا انکارکردیاہے۔ اس استدلال کے پہلے جزپرہم عرض کریں گے کہ خداکے رسول اپنے مخاطبین کے سامنے اخلاق کی اعلیٰ مثال ہوتے ہیں۔اُن کے منکرین بھی اِس بات کی اُن کے حق میں شہادت دیتے ہیں اور اگروہ کہیں ضدمیں آکرالزام لگابیٹھیں تواس عالم کاپروردگارخوداُن کی طرف سے جواب دیتااوراُن کے اچھے اخلاق پراپنی مہرتصدیق ثبت کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جب اپنے لوگوں کے ساتھ بدخواہی ۱۰؂ اور مال وزرکے لیے قیدی پکڑنے ۱۱؂ کا بہتان تراشاگیاتوہم جانتے ہیں کہ قرآن میں کس اہتمام سے حقیقت حال کو واضح کیاگیا۔بلکہ منافقین کی طرف سے جب ازواج مطہرات کے کردار کو داغ دار کرنے کی کوششیں ہوئیں تواُس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے آگے بڑھ کراُن کی براء ت کا اعلان کیا۔۱۲؂ ان فتنوں سے بچنے کی تدابیر بتائیں،۱۳؂ یہاں تک کہ اس گندگی سے پاک کرنے کے مقصدسے اُن کے لیے کچھ خاص احکام بھی اتارے۱۴؂۔ اور یہ سب اس لیے ہواکہ اللہ کے رسول پراپنے گھرکا سربراہ ہونے کی حیثیت سے بھی کوئی الزام نہ آنے پائے۔ مبادا وہ اخلاقی حیثیت سے لوگوں میں تنقیدکاہدف ٹھیریں اور نتیجے میں اُن کی دعوت بالکل بے اثرہوکررہ جائے۔ اللہ کے رسول کا لوگوں کے لیے مثال ہونااوراللہ کااِس مثال کو قائم رکھنے کے لیے اُن کے ساتھ یہ معاملہ کرنا،اس سب کے ہوتے ہوئے یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آتی کہ اللہ کے ایک اور رسول ، حضرت نوح کی بیوی برے اخلاق و کردار کی اس درجہ پستی میں گرجائے۔اوربفرض محال،ایساہوبھی گیاہوتوپھریہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ نوح نے اُسے عذاب کے وقت تک اپنے ساتھ کیوں رکھا؟اگرکہاجائے کہ انھیں اس بارے میں علم نہ تھاتوسوال پیداہوتاہے کہ خدا نے اُنھیں اِس کی اطلاع کیوں نہ دی؟اوراس غلاظت سے جان چھڑانے کی نصیحت کیوں نہ کی؟اس الزام کوایک اور زاویے سے دیکھیں توبھی اسے سمجھنا بہت مشکل ہوجاتاہے۔ نوح کے منکرین ایمان لانے والوں کوبے وقوف اور ارازل کہتے ہیں اورخودحضرت نوح علیہ السلام کومجنون،کاذب اور گم راہ قراردینے۱۵؂ اورباطل کے ہرہتھیارسے مسلح ہو کر اُن پر پل پڑنے سے ذرابھی نہیں چوکتے ہیں،۱۶؂ مگراُن کی بیوی کے متعلق اس قدر بڑی بات پروہ بالکل خاموش رہتے اوراس بنیادپراُن کے خلاف کوئی طوفان بدتمیزی نہیں اٹھاتے ہیں۔
جہاں تک خیانت کاتعلق ہے، تویہ بات واضح رہنی چاہیے کہ محض یہ لفظ اُن کی عورت پراتنابڑاالزام لگادینے کے لیے ہرگزصریح نہیں ہے۔عربی زبان میں یہ لفظ اصل میں امانت کے مقابلے میں آتااورامین بنادینے کے بعد کسی شخص پرجواعتمادپیداہوتاہے ،اُس کے مجروح ہوجانے پراستعمال کیاجاتاہے۔مذکورہ آیت میں یہ بات توبالکل صاف ہے کہ یہ نوح کی بیوی کی طرف سے اُن کے باہمی اعتمادکو مجروح کرنے پرآیاہے،سوال صرف یہ ہے کہ ان دونوں کے ہاں اس سانحہ کے گزرجانے کی وجہ کیاہوئی؟اس کی وجہ بدچلنی توکسی صورت نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ اس دعوے کے لیے جس درجے کاقرینہ چاہیے ،وہ اشارے کی حدتک بھی کہیں کلام میں موجودنہیں ہے۔ ۱۷؂ لیکن آیت کے شروع میں آنے والے ’ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا‘ (التحریم ۶۶: ۱۰) کے الفاظ، البتہ اس بات کا قرینہ ضرور ہیں کہ اس کی اصل وجہ اُن کی بیوی کی طرف سے سرزدہونے والا کفر ہے۔۱۸؂ اوراس کے قرینہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس آیت میں کفر کرنے والوں کوچونکہ متنبہ کرناپیش نظرہے کہ اُنھیں کسی بڑی شخصیت سے نسبت بھی خداکے عذاب سے نہیں بچا سکتی، اس لیے ضروری ہے کہ کفرہی کے جرم پر بتایاجائے کہ اُن سے پہلے کے لوگوں کوبھی کسی بڑی نسبت نے کوئی فائدہ نہیں دیا۔ سوخیانت کے حقیقی معنی اوراس واضح قرینہ کی روشنی میں آیت کی اصل تفہیم کچھ یوں بنتی ہے:
کفرکرنے والوں کونوح اورلوط کی عورتوں کی مثال دیتے ہوئے فرمایاہے کہ وہ ہمارے نیک بندوں کے عقدمیں تھیں۔ اب یہ عقد چونکہ میاں اوربیوی کوایک دوسرے کے لیے امین بناتااوراس طرح اُن کے درمیان میں ایک طرح کااعتمادپیداکردیتاہے ،اس لیے اُن نیک شوہروں کواپنی عورتوں سے بڑی امیدتھی کہ وہ اُن کی دعوت حق کو سبقت کرتے ہوئے قبول کریں گی اوراس کام میں اُن کی مویداور معاون بن جائیں گی، ’فَخَانَتٰھُمَا‘، مگراُنھوں نے اس اعتمادکوزبردست ٹھیس پہنچائی جب ایمان لانے کے بجاے کفرکاارتکاب کیا۔چنانچہ اس کفرکی وجہ سے پیغمبروں کے ساتھ اُن کی نسبتیں بھی اُنھیں کوئی فائدہ نہ دے سکیں اوروہ خداکے عذاب کی گرفت میں آکر رہیں۔اس اعتبار سے دیکھاجائے تویہ لفظ ’خیانت‘ کابالکل وہی استعمال ہے جوذیل کی اس آیت میں ہواہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ.(الانفال ۸: ۲۷) 
’’ایمان والو،اللہ اوراس کے رسول سے خیانت نہ کرو۔‘‘


مطلب ہے کہ تم لوگ ایمان کاقول وقرارکرنے کے بعد خدااوراُس کے رسول کے ساتھ ایک عہدمیں بندھ چکے اور اس معاملے میں امین قرار پاچکے ہو،چنانچہ اس کے تقاضوں کے خلاف جاکراُن سے ہرگزخیانت نہ کرو۔
نوح کی بیوی چونکہ بدچلن تھی،اس لیے عذاب کی لپیٹ میں آنے والاشخص نوح کاحقیقی بیٹانہیں تھا،اس استدلال کے دوسرے جز پر ہم صرف یہ عرض کریں گے کہ یہ کسی بھی صورت میں پہلے جزکاکوئی لازمی نتیجہ نہیں ہے۔ یعنی، اگر مان بھی لیاجائے کہ وہ عورت بدچلن تھی توبھی اِس سے نوح کے بیٹے کی نسبت کا انکار نہیں ہوتا، اس لیے کہ اُس کی بدچلنی کے بعدیہ کہاں سے ثابت ہواکہ اِس کے نتیجے میں اس کے ہاں اولادبھی ہوئی تھی؟اوردوسرے یہ کہ اگر اولاد ہوئی تھی تووہ لازماًبیٹے ہی کی صورت میں ہوئی تھی؟اور مزید یہ کہ اس بات کاکیاثبوت ہے کہ جوشخص عذاب کی لپیٹ میں آیا، وہ اُسی عورت کاجناہوابیٹاتھا؟بلکہ اس بات کابھی آخرکیاثبوت ہے کہ وہ بیٹااس کے عمل بدہی کانتیجہ تھا؟ سو بغیر کسی دقت کے سمجھ لیاجاسکتاہے کہ ان حضرات کے استدلال اوران کے دعویٰ کے درمیان میں بہت سے خلا ہیں جنھیں پرکرنے کے لیے ایک لمبی جست لگائی گئی اوراس کے لیے کئی باتیں خودسے فرض کرلی گئی ہیں۔
بہرحال،ہم اس بحث کوقرآن کے اس بیان پرختم کرتے ہیں جس میں خداے علّام نے کسی اورکی زبان سے نہیں، بلکہ اپنی طرف سے تبصرہ کرتے ہوئے اُسے نوح کابیٹاقراردیاہے۔فرمایاہے:


وَھِیَ تَجْرِیْ بِہِمْ فِیْ مَوْجٍ کَالْجِبَالِ وَنَادٰی نُوْحُ نِ ابْنَہٗ.(ہود ۱۱: ۴۲)

’’وہ کشتی پہاڑوں کی طرح اٹھتی ہوئی موجوں کے درمیان اُن کولے کرچلنے لگی اورنوح نے اپنے بیٹے کوآوازدی۔‘‘

۵۔ آج کے سب انسان کس کی اولاد ہیں؟
عام راے یہ ہے کہ اِس وقت کی تمام انسانی آبادی نوح کے تین بیٹوں،سام،حام اوریافث کی اولاد ہے۔اس راے کاماخذصرف اورصرف تورات کا بیان ہے اوریہ بیان فقط اُسی صورت میں صحیح قرارپاسکتاہے جب دوباتیں مان لی جائیں: ایک یہ کہ طوفان کے نتیجے میں جب پورے کرۂ ارض پرموجودآبادی کوغرق کردیا گیا ہو۔اوردوسرے یہ کہ طوفان کے بعدصرف نوح کی اولادہی بچی ہو۔ان میں سے پہلی بات کے بارے میں ،جیساکہ ہم نے اوپربیان کیا، قرآن اورتورات سرے سے کوئی دعویٰ ہی نہیں کرتے۔رہی دوسری بات تواس کابیان تورات میں موجودتو ضرور ہے، مگر چند شواہدایسے ہیں جواسے مان لینے میں رکاوٹ ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، قرآن کی رو سے حضرت نوح کی بعثت صرف اُن کی اپنی قوم کی طرف ہوئی تھی اور اصول کے مطابق خدا کے اتارے ہوئے عذاب میں اُسے ہی ہلاک ہونا تھا، نہ کہ آدم کی پوری اولادکو۔اس میں چندایمان والوں کے بارے میں توصراحت سے بیان کردیاگیا ہے کہ اُنھوں نے بھی نوح کی اولادکے ساتھ اس طوفان میں نجات پائی، بلکہ تورات میں بھی ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو اس بات کومان لینے میں حائل ہوجاتی ہیں۔ مثلاً آدم اورنوح کی پیدایش میں تقریباًگیارہ صدیوں کازمانہ ہے اور آدم کے بیٹے،سیت اورنوح کے درمیان میں سات واسطے بھی ہیں کہ جن کی اپنی اولادیں بھی ضرور رہی ہوں گی اور اس پرمستزادآدم کے دوسرے بیٹے،قائن سے چلنے والا ایک سلسلۂ نسل بھی ہے۔ لہٰذا اس قدرطویل زمانہ اور اس دوران میں وجودپانے والی آدم کی مختلف نسلیں،اگران کے ساتھ طوفان کا مقامی ہونااورانسان کی طرف سے کی جانے والی ہجرتوں کااِمکان بھی سامنے رکھاجائے تو یہ باور کرنا انتہائی مشکل ہوجاتاہے کہ طوفان میں صرف نوح کی اولاد ہی بچی ہوگی۔ غرض یہ ہے کہ انسانی آبادی نوح کے تین بیٹوں کی اولادہے،اس راے کی بنیادجن دوباتوں پر اٹھائی گئی ہے، وہ کسی طرح سے بھی ثابت نہیں ہوتیں۔
اگرپوچھاجائے کہ اس راے کے بارے میں قرآن کیاکہتاہے؟توعرض ہے کہ اُس نے اِس معاملے میں کوئی واضح بات نہیں کی۔ البتہ، کوئی شخص ذیل کی آیت میں ’عَلٰٓی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ‘ کے الفاظ سے اشارے کی حدتک یہ استدلال ضرور کر سکتا ہے ۱۹؂ کہ غیراولادنوح سے بھی نسل انسانی آگے بڑھی ہوگی:
قِیْلَ یٰنُوْحُ اھْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَرَکٰتٍ عَلَیْکَ وَعَلٰٓی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ.(ہود ۱۱: ۴۸) 
’’ اے نوح ،اتر جاؤ، ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ اور برکتوں کے ساتھ، تم پر بھی اور اُن امتوں پر بھی جو اُن سے ظہور میں آئیں گی جو تمھارے ساتھ ہیں۔‘‘


ہمارے نزدیک اس وقت کی نسل انسانی کے تین ممکنہ مصادرہوسکتے ہیں: ایک نوح کی کشتی میں سوار تین بیٹے، سام، حام اور یافث۔ دوسرے اسی کشتی میں سواردیگرمومنین۔اورتیسرے مقام نوح سے دوربسنے والی آدم کی اولاد۔ جہاں تک اس راے کے صحیح ہونے کا تعلق ہے تواس کی دلیل میں جس طرح اوپرمذکورہوئے شواہدکوپیش کیا جا سکتا ہے، اسی طرح آج دنیا میں پائی جانے والی مختلف نسلوں کا تجزیہ بھی اس کی ایک دلیل ہوسکتاہے۔

۶۔ سیدنا ابراہیم کیا واقعی حضرت نوح کی نسل سے ہیں؟

سیدناابراہیم حضرت نوح کی اولادمیں سے ہیں،یہ بات بائیبل،قرآن مجیداورمسلمانوں کے علم میں بالکل واضح اور تاریخ کی ایک مانی ہوئی حقیقت ہے۔اس پرآج کے دورمیں اگربعض اہل علم کی طرف سے ’’انکشاف ‘‘کے نام سے سوال نہ اٹھادیاگیاہوتاتوہم کبھی بھی اس پربات نہ کرتے۔اس انکشاف میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن تورات کے برعکس، سیدناابراہیم کوحضرت نوح کے بجاے اُن کے کسی ساتھی کی اولادقراردیتاہے۔ 
اس سے پہلے کہ ہم اصل حقیقت کوقرآن میں سے واضح کریں،ہم چاہتے ہیں کہ قرآن کے اُس اندازکوواضح کردیں جو تورات کے بیان کی اصلاح یااُس کی تردیدکرتے ہوئے وہ عام طور پر اپنایا کرتا ہے۔ مثلاً ہم جانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تورات کابیان یہ ہے کہ اُنھوں نے معجزہ دکھاتے ہوئے جب اپناہاتھ باہر نکالا تو وہ کوڑھ سے برف کے مانند سفید تھا۔ ۲۰؂ قرآن نے جب یہ واقعہ بیان کیا توبڑے ہی واضح اندازمیںیہ کہتے ہوئے اس کی اصلاح کی: ’تَخْرُجْ بَیۡضَآءَ مِنْ غَیۡرِ سُوْٓءٍ‘،۲۱؂ یعنی یہ ہاتھ بغیرکسی بیماری کے سفیدہوتاتھا۔اسی طرح تورات میں بیان ہواہے کہ خداوندنے چھ دن میں زمین وآسمان کی تخلیق کی اورساتویں دن آرام کیا۔۲۲؂ قرآن نے یہ کہتے ہوئے بڑی صراحت سے اس کی تردید کی: ’وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ‘ ۲۳؂ کہ ہمیں کوئی تکان لاحق نہیں ہوئی۔ بلکہ اگر کوئی غلطی بہت زیادہ سنگین ہواورلوگوں میں اس کا عام رواج بھی ہوچکاہواور قرآن کواس کے جواب میں واقعی کوئی انکشاف کرناہو تواس کے لیے وہ محض اشارے کنایے میں اورمحض ضمیروں کی دلالت سے بات نہیں کرتا، بلکہ انکشاف ہی کے طریقے سے اسے بیان کرتا ہے ۔ مثال کے طورپر، یہود سیدنا مسیح علیہ السلام کو قتل کرنے کا دعویٰ کرتے تھے، انجیلوں میں بھی یہی کچھ نقل کردیاگیاتھا، اوراسے کم وبیش ہر مسیحی فرقے میں مان لیاگیا ، یہاں تک کہ نزول قرآن کے وقت اسے گویاایک مسلمہ کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی؛اس پرقرآن نے اصل حقیقت کاانکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے اور دیکھ لیاجاسکتاہے کہ کتنے زوردارطریقے سے بتایا ہے: ’وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ‘ (اُنھوں نے نہ اُس کوقتل کیااورنہ اُسے صلیب دی،بلکہ معاملہ اُن کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا)، یعنی پہلے اُن کی بات کی ہر دو پہلو سے تردید کی اورپھران کوجہاں سے غلطی لگی تھی ،اس بنیاد کی بھی وضاحت کی، بلکہ پھر سے دہرا کر اصل بات کو موکد کیا: ’وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا م‘۲۴؂ کہ اِنھوں نے ہرگزاُس کوقتل نہیں کیا ۔غرض یہ ہے کہ تورات کے بیان کی تردید کرتے ہوئے قرآن کواگریہ بتاناہوتاکہ وہ نوح کے بجاے کسی اورکی اولاد ہیں تووہ اپنے معروف طریقے کے مطابق ہی بتاتا، نہ کہ اس طرح بتاتا کہ اسے جاننے کے لیے بڑے باریک اورمنطقی استدلال کی ضرورت آن پڑتی۔
ہمارے نزدیک قرآن اس معاملے میں تورات کی پوری موافقت کرتاہے اورواضح طورپربیان کرتاہے کہ ابراہیم واقعتانوح ہی کی اولاد ہیں۔ارشاد ہوتاہے:
اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ. ذُرِّیَّۃًم بَعْضُھَا مِنْ م بَعْضٍ.(آل عمران ۳: ۳۳۔ ۳۴)
’’ اِ س میں شبہ نہیں کہ اللہ نے آدم اور نوح کو، اور ابراہیم اور عمران کے خاندان کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اُن کی رہنمائی کے لیے) منتخب فرمایا۔ یہ ایک دوسرے کی اولاد ہیں۔‘‘


’’ایک دوسرے کی اولاد ہیں‘‘، اس جملے کایہ مطلب، ظاہر ہے کہ نہیں لیا جا سکتا کہ ان میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کا باپ بھی ہے اور اولاد بھی، بلکہ اس کاایک ہی مطلب بنتاہے اوروہ یہ ہے کہ یہ سب لوگ ایک ترتیب سے ایک دوسرے کی اولاد ہیں، یعنی نوح آدم کی اولاد ہیں، آل ابراہیم نوح کی اور آل عمران ابراہیم کی۔۲۵؂
________
۱؂ مریم ۱۹: ۵۸۔
۲؂ نوح ۷۱: ۲۳۔
۳؂ المومنون ۲۳ کی آیت ۲۷ میں جانوروں کو سوار کرنے کے لیے ’فَاسْلُکْ‘ کا لفظ آیاہے۔ یہ لفظ اپنے اندرمفعول کے لیے ایک طرح کے تسلط اور غلبے کامفہوم رکھتا ہے۔ لہٰذا ہمیں باربار خیال ہوتا ہے کہ اسے لانے میں بھی یہ اشارہ موجودہے کہ کشتی میں صرف اُن مخصوص جانوروں کوبٹھایاجائے جولوگوں کے زیرتصرف اوراُن کے قابومیں ہوں۔ 
۴؂ بائیبل میں بیان کردہ کشتی کی لمبائی اگرصحیح مان بھی لی جائے جو ۵۱۰ فٹ، یعنی تقریباًفٹ بال کے ڈیڑھ میدان کے برابربنتی ہے توبھی اس میں دنیابھرکے جانوروں کا سماجاناکسی طرح ممکن نہیں۔ اور اگر قرآن کابیان سامنے رکھاجائے جوکسی بڑے جہاز کا تصور دینے کے بجاے اسے کچھ تختوں اورکیلوں سے بنی ہوئی کشتی قراردیتاہے تویہ بات مان لینااور بھی مشکل ہو جاتا ہے (کتاب پیدایش ۶: ۱۵۔ القمر ۵۴: ۱۳)۔
۵؂ کتاب پیدایش ۶: ۲۱۔
۶؂ ہود ۱۱: ۳۶۔
۷؂ ان تمام تصریحات کے لیے ترتیب سے یہ آیات دیکھ لی جاسکتی ہیں: ’اَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ‘( ہود اا: ۲۶)۔ ’وَلَا تَکُنْ مَّعَ الْکٰفِرِیْنَ‘ (ہود اا: ۴۲)۔ ’وَنَجِّنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘ (الشعراء ۲۶: ۱۱۸) اور ’وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا‘ (نوح ۷۱: ۲۸)۔ ’رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا‘ (نوح ۷۱: ۲۶)۔ ’وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَ‘ (ہود ۱۱: ۳۷)۔ ’فَاَنْجَیْنٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ فِی الْفُلْکِ‘ (الاعراف ۷: ۶۴)۔ ’اِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیْنَ‘ (ہود ۱۱: ۴۹)۔ ’وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ‘ (ہود ۱۱: ۴۴)۔
۸؂ المومنون ۲۳: ۲۷۔
۹؂ یہاں سوال پیداہوتاہے کہ نوح کے بیٹے نے کشتی میں سوارہونے سے یک سرانکارکیا،مگرانھوں نے پھربھی اس کے متعلق یہ کیوں کہاکہ وہ تومیرے اُن اہل میں سے تھاجس کے بارے میں عذاب کافیصلہ نہیں ہوا تھا۔ اس کے جواب میں ہماری راے یہ ہے کہ اُن کا بیٹا چونکہ منافق تھا،اس لیے وہ اُس کے ظاہر کے اعتبارسے خداسے التجاکررہے تھے۔جوحضرات ہماری اِس راے کے تفصیلی دلائل اوراس کے مقابل آراپرمحاکمہ دیکھنا چاہیں، وہ ہمارے ایک مضمون ’’نوح کابیٹا‘‘ کی مراجعت کرسکتے ہیں: ماہنامہ اشراق، مارچ ۲۰۱۵ء۔
۱۰؂ آل عمران ۳: ۱۶۱۔
۱۱؂ الانفال ۸: ۶۷۔
۱۲؂ النور ۲۴: ۱۱۔ ۱۸۔
۱۳؂ الاحزاب ۳۳: ۵۹۔
۱۴؂ الاحزاب ۳۳: ۳۲۔ ۳۴۔
۱۵؂ منکرین کی یہ تمام ہذیات ان آیات میں دیکھ لی جاسکتی ہیں: ہود ۱۱: ۲۷۔ القمر ۵۴: ۹۔ ہود ۱۱: ۲۷۔ الاعراف ۷: ۵۹۔
۱۶؂ المومن ۴۰: ۵۔
۱۷؂ اس کی مثال میں سیدنا یوسف کاواقعہ پیش کیاجاسکتاہے جہاں ’ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ‘ (یوسف ۱۲: ۵۲) میں ’خیانت‘ کا لفظ جب اس معنی میں لیاگیاہے تواس کی وجہ سیاق وسباق میں صراحت سے بیان ہوااُس کاقرینہ ہے۔
۱۸؂ یہاں سوال پیداہوتاہے کہ اگراُس عورت کی بدچلنی سے حضرت نوح کی اخلاقی برتری میں فرق آسکتاتھا تواُس کے کفر کرنے سے ایساکیوں نہیں ہوا؟عرض ہے کہ یہ اس لیے نہیں ہواکہ کفر، چاہے اپنی حقیقت میں غیراخلاقی امر ہو،مگرمنکرین کے نزدیک یہ صرف علم اورعقیدے کامعاملہ ، بلکہ اُن کے قومی تفاخرکی ایک نمایاں علامت تھا۔
۱۹؂ ہم نے اسے واضح دلیل کے بجاے اشارہ اس لیے قرار دیا ہے کہ ’عَلٰٓی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ‘ کے الفاظ اس بات کے لیے ہرگز صریح نہیں ہیں کہ نوح کے تمام ساتھیوں سے امتیں پیدا ہوں گی، بلکہ اُن میں سے صرف بعض سے بھی اگرامتیں پیداہونا ہوتیں توبھی اِن الفاظ کااستعمال بالکل درست ہوتا۔ 
۲۰؂ کتاب خروج ۴: ۶۔
۲۱؂ طٰہٰ ۲۰: ۲۲۔
۲۲؂ خروج ۲۰: ۱۱۔ 
۲۳؂ ق ۵۰: ۳۸۔
۲۴؂ النساء ۴: ۱۵۷۔
۲۵؂ اس پر یہ سوال نہیں اٹھایاجاسکتاکہ اس میں توآل ابراہیم کونوح کی اولاد بتایا گیا ہے، نہ کہ ابراہیم کو، اس لیے کہ ابراہیم کی اولاداگر نوح کی اولادہے توخودابراہیم توبطریق اولیٰ نوح کی اولاد ہیں۔

____________