27۔سورہ نمل : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


27۔سورہ نمل کا تعارف  اور مطالب کا تجزیہ :
ا - سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
سابق سورۃ میں یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ یہ قرآن کوئی شاعری اور کہانت میں ہے بلکہ اللہ کا اتارا ہوا کلام ہے لیکن جو لوگ اس پر ایمان نہیں لانا چاہتے وہ اس کے انذار کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ قرآن ان کو جس چیز سے ڈرا رہا ہے جب وہ اس کو دیکھ لیں گے تب اس پر ایمان لائیں گے اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ وہ عذاب کو دعوت دینے کے بجائے رسولوں اور ان کے جھٹلانے والوں کی تاریخ سے سبق حاصل کریں۔ اس سورۃ میں یہ واضح فرمایا کہ اس کتاب کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت و بشارت بنا کر نازل فرمایا ہے لیکن اس پر ایمان وہی لائیں گے جن کے دلوں کے اندر آخرت کا خوف ہے جو لوگ اس دنیا کے عیش و آرام میں مگن ہیں وہ اپنے ان مشاغل سے دستبردار نہیں ہو سکتے جن میں وہ مشغول ہیں۔ ان کے اعمال ان کی نگاہوں میں اس طرح کھبا دیئے گئے ہیں کہ اب کوئ تذکیر و تنبیہ بھی ان پر کارگر نہں ل ہو سکتی۔ پچھلی سورۃ میں بحث کی بنیاد صفات الٰہی میں سے صفات … عزیز و رحیم پر رکھی ہے جن کے تمام پہلوئوں کی وضاحت ہم کرچکے ہیں۔ اس سورۃ کی بنیاد صفات … حکیم و علیم … پر ہے کہ یہ قرآن خدائے حکیم و علیم کا اتارا ہوا ہے تو وہ جو کچھ کرے گا وہ حکمت اور علیم پر مبنی ہوگا۔ پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کو اپنے رب حکیم و علیم پر بھروسہ رکھنا چاہئے کہ وہ ان کو اچھے انجام سے ہمکنار کرے گا ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(6-1) سورۃ کی تمہید، جو سورۃ بقرہ کی تمہید سے ملتی جلتی ہوئی ہے۔ اس میں واضح فرمایا ہے کہ یہ قرآن بجائے خود نہایت واضح اور قعل و دل کو اپیل کرنے والی کتاب ہے، لیکن جو لوگ آخرت کو نہیں ماننا چاہتے وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے۔ وہ جن دلچسپیوں میں منہمک ہیں شیطان نے ان کی نگاہوں میں وہ اس طرح کھبا دی ہیں کہ اب وہ ان کے پیچھے اندھے ہوچکے ہیں۔ وہ اسی طرح بھٹکتے رہیں گے ۔
(14-7) حضرت موسیٰ کی سرگزشت کا ابتدائی حصہ جس میں یہ واضح فرمایا ہے کہ اللہ نے ان کو نہایت واضح نو نشانیوں کے ساتھ فرعون کے پاس رسول بنا کر بھیجا لیکن فرعون اور اس کی قوم نے یہ یقین کرنے کے باوجود کہ یہ خدائی نشانیاں ہیں حضرت موسیٰ کی رسالت تسلیم نہیں کی اور بالآخر وہ ہلاک ہو کر رہے ۔
(44-15) اللہ تعالیٰ کے صالح و مصلح بندوں کا ذکر کہ نعمت ان کو اندھا نہیں بناتی بلکہ جتنا ہی ان نعمتوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اتنی ہی منعمحقیقت کے آگ ان کے ذوتنی اور سرافگندگی بڑھتی جاتی ہے۔ حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہما السلام پر اللہ تعالیٰ کے جو انعامات ہوئے ان میں سے بعض کا حوالہ جن سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نعمت و جاہ اور حکمت و سائنس میں سے جو کچھ ان کو بخشا وہ کسی کو بھی نہیں بخشا لیکن انہوں نے ہر نعمت کو اللہ کا فضل جانا اور یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رکھی کہ یہ نعمتیں دے کر اللہ تعالیٰ ان کا امحتان کر رہا ہے کہ وہ اس کے شکر گزار بندے بنتے ہیں یا ناشکرے ۔
(53-45) مفسدین فی الارض کے انجام کو واضح کرنے کے لئے قوم ثمود کی مثال کا حوالہ پچھلی سورۃ میں بھی ان کے فساد فی الارض کا ذکر گزر چکا ہے۔ اس سورۃ میں اس کی مزید وضاحت ہوئی ہے کہ ان کی جمعیت بہت بھاری تھی۔ ان کے نو نہایت جنگجو قبائل تھے اور یہ برابر جنگ و فساد میں سرگرم رہتے تھے۔ حضرت صالح نے ان کی اصلاح کی کوشش کی لیکن انہوں نے صرف یہ کہ ان کی بات سنی نہیں بلکہ ان کے قتل کے بھی در پے ہوگئے۔ بالآخر ان پر اللہ کا فیصلہ کن عذاب آیا اور ان کی پرشوکت تعمیرات، جن پر ان کو ناز تھا، کھنڈروں کی شکل میں تبدیل ہو گئں ا۔ ان کھنڈروں کے آثار قریش کی عبرت کے لئے موجود تھے ۔
(58-54) قوم لوط کی سرگزشت کی طرف اجمالی اشارہ حضرت لوط نے ان کے اخلاقی فساد کی اصلاح کی کوشش فرمائی اور اس کے برے انجام سے ان کو ڈرایا لیکن وہ ان کی بات سننے کے بجائے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اپنے اندر سے نکال دینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ یہ لوگ بڑے پارسا بنتے ہیں کہ ہمیں نصیحت کرنے اٹھے ہیں۔ بالآخر ان پر بھی خدا کا عذاب آیا جس نے ان کو نیست و نابود کر کے رکھ دیا۔ ان کے آثار پر سے بھی قریش کو اکثر گزرنے کے مواقع ملتے رہتے تھے ۔
(68-59) اس کائنات کی گونگاوں نشانیوں اور نعمتوں میں سے ایک ایک کی طرف اشارہ کر کے مخاطبوں سے سوال کہ ان میں سے کس چیز کو تم خدا کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کرسکتے ہو ؟ جب ان میں سے کسی چیز کو بھی خدا کے سوا کسی اور کی طرفمنسوب نہیں کرسکتے تو آخر اللہ کے سوا دوسری چیزوں کی کیوں پرستش کرتے ہو اور ان کے پل پر اللہ اور اس کے رسول سے کیوں لڑنے اٹھ کھڑے ہوئے ہو ! آخر میں اس بات کی طرف اشارہ کہ جہاں تک شرک اور آگاہ کا تعلق ہے ان کے حق میں تو کوئی دلیل یہ پیش نہیں کرسکتے لیکن آخرت کے معاملے میں یہ سخت تضاد فکر میں مبتلا ہیں۔ اس کو یہ محض اگلوں کا افسانہ کہتے ہیں اور یہی چیز درحقیقت ان کی ساری سرکشی کا سبب ہے ۔
(93-69) خاتمہ سورۃ جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گی ہے کہ نہ ان کے حال پر غم کرو، نہ ان کی چالوں سے پریشان ہو۔ اگر یہ عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ جو مہلت ملی ہوئی ہے اس پر اللہ کا شکر کرو، اپنی شامت نہ بلائو تم اپنا فرض ادا کر دو۔ اگر یہ نہیں سنتے تو تمہارا کام مردوں اور بہروں کو سناتا نہیں ہے۔ تم یہ اعلان کر دو کہ مجھے اسی قرآن کے سنانے کی ہدیات ہوئی ہے۔ جو اس پر ایمان لائے گا اس کا نفع اسی کو پہنچے گا اور جو اس کا انکار کرے گا اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے۔ میں صرف ایک منذر ہوں۔ لوگوں پر کوئی داروغہ مقرر کر کے نہیں بھیجا گیا ہوں ۔