28۔ سورۃ القصص : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


28۔ سورۃ القصص کا تعارف  اور مضامین کا تجزیہ
ا - سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
یہ سورۃ سابق سورۃ … نمل … کا مثنیٰ ہے۔ اس وجہ سے دونوں کے عمود میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ البتہ اجمال و تفصیل اور اسلوب بیان و نہج استدلال کے اعتابر سے دونوں میں فرق ہے۔ سابق سورۃ میں حضرت مسویٰ کی سرگزشت کا صرف اتنا حصہ اجمالا بیان ہوا ہے جوان کو رسالت عطا کئے جانے اور فرعون کے پاس جانے کے حکم سے متعلق ہے۔ اس سورۃ میں وہ پوری سرگزشت نہایت تفصیل سے بیان ہوتی ہے جو ان کی ولادت با سعادت سے لے کر ان کو تورات عطا کئے جانے تک کے احوال و مشاہدات پر مشتمل ہے۔ سابق سورۃ میں بنی اسرائیل کی طرف صرف ایک مخفی اشارہ تھا، اس سورۃ میں ان کے صالحین و مفسدین دونوں کا رویہ نسبتہ وضاحت سے زیر بحث آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں یہود کھل کر سامنے آگئے تھے ۔
حضرت موسیٰ کی سرگزشت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بعینیہ اسی مقصد سے سنائی گئی ہے جس مقصد سے سورۃ یوسف میں حضرت یوسف کی سرگزشت سنائی گئی ہے کہ اس آئینہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اچھی طرح دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کی حفاظت وصیانت اور اپنی اسکیموں کو بروئے کار لانے کے لئے اپنی کیا شانیں دکھاتا ہے اور آپ کے مخالفین بھی دیکھ لیں کہ اس دعوت کی مخالفت میں بالآخر ان کو کس انجام سے دوچار ہونا ہے ۔
قریش پر اس سورۃ میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ جس طرح اللہ نے حضرت موسیٰ کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا اسی طرح اس نے اس پیغمبر اور اس کتاب کو تمہاری طرف بھیجا ہے تاکہ تم پر اللہ کی ہدایت پوری طرح واضح ہوجائے اور تمہارے پاس گمراہی پر جمے رہنے کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہ جائے ۔
بنی اسرائیل پر یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ اگر یہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ کے رسول نہ ہوتے تو کس طرح ممکن تھا کہ حضرت مسوی کی زندگی کے ان گوشوں سے بھی یہ واقف ہوتے جن سے تم بھی صحیح صحیح اور اس تفصیل سے واقف نہیں ہو ! اور ساتھ ہی اس امر واقعی کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ جو ہدایت، اللہ نے تم پر نازل فرمائی تھی وہ تم نے اختلافات میں پڑ کر گم کر دی اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اپنے اس رسول کے ذریعہ سے اس ہدایت کو از سر نو زندہ کرے اور خلق پر اپنی حجت تمام کرے ۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس میں یہ تسلی دی گئی ہے کہ اس قرآن کو تم نے اللہ سے مانگ کر نہیں لیا ہے بلکہ اللہ نے خود تما پر اس کی ذمہ داریاں ڈالی ہیں تو جب اس نے خود تم پر اس کا بارڈالا ہے تو تم مخالفوں کی مخالفت اور راہ کی مشکلات سے بے پروا ہو کر اپنا فرض انجام دو جس اللہ نے یہ بوجھ تم پر ڈالا ہے وہ خود ہر قدم پر تمہاری رہنمائی و دست گیری فرمائے گا اور تمہیں کامیابی کی منزل پر پہنچائے گا ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(4-1) حضرت مسویٰ کی سرگزشت ان کی ولادت باسعادت کے وقت سے لے کر تورات کے عطا کئے جانے تک (46-44) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف التفات جس میں یہ حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ تم حضرت موسیٰ کی زندگی کے ان مراحل و مقامات سے واقف نہیں تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو ان سے واقف کیا کہ تمہارے ذریعہ سے اللہ کی ہدایت و شریعت دنیا میں پھر زندہ ہو۔ یہ اللہ کا تمہارے اوپر بھی فضل ہے اور تمہاری اس قوم پر ھبی جس کے اندر اب تک کوئی رسول نہیں آیا تھا۔ اللہ نے یہ چاہا کہ ان کو کوئی سزا دینے سے پہلے تمہارے ذریعہ سے ان پر اپنی حجت تمام کر دے ۔
(55-47) قریش کی طرف سے اس دعوت حق کی مخالفت اور اشرار یہود کی شہ پر یہ مطالبہ کہ اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو اس طرح کے معجزے کیوں نہیں دکھاتے جس قسم کے معجزے حضرت موسیٰ نے دکھائے ؟ اس معارضہ کا مسکمت جواب اور ساتھ ہی ان اچھے اہل کتاب کی تحسین جو اپنی قوم کے تمام غوغا کی علی الرغم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کی دعوت کی تاکید کر رہے تھے ۔
(61-52) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور قریش کے اس اندیشہ کا جواب کہ اگر وہ اس دعوت کو قبول کرلیں گے تو اس سے ان کی تمام سیاست و معیشت تباہ ہوجائے گی ۔
(75-62) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور قریش کے اس اندیشہ کا جواب کہ اگر وہ اس دعوت کو قبول کرلیں گے تو اس سے ان کی تمام سیاست و معیشت تباہ ہوجائے گی ۔
(75-62) ان شرکاء و شفعار کی بے حقیقتی کی وضاحت جن کو مشرکین اپنی تمام کامیابیوں کا ذریعہ سمجھتے اور ڈرتے تھے کہ اگر ان کو انہوں نیچھوڑا تو ان پر تباہی آجائے گی ۔
(84-76) ایک یہودی سرمایہ دار کے انجام کا بیان جس سے مقصود اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ نعمتیں جو بھی ملتی ہیں سب خدا کی طرف سے ملتی ہیں لیکن بدبخت لوگ ان کو اپنی قابلیت کا ثمرہ اور اپنے فرضی معبودوں کا فضل و کرم سمجھتے ہیں ۔

(88-85) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر و عزیمت کی تلقین کہ تم اپنے موقف حق پر ڈٹے رہو۔ مخالفین کے غوغا کی پروا نہ کرو۔ جس خدا نے تم پر قرآن کی دعوت کی ذمہ داری ڈالی ہے وہ تمہاری راہ کی ہر مشکل آسان کرے گا ۔