سورۃ الاخلاص : زمانہ نزول، موضوع اور مضمون فضیلت اور اہمیت - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

نام :  الاخلاص اس سورۃ کا محض نام ہی نہیں ہے بلکہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے، کیونکہ اس میں خالص توحید بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید کی دوسری سورتوں میں تو بالعموم کسی ایسے لفظ کو ان کا نام قرار دیا گیا ہے جو ان میں وارد ہوا ہو، لیکن اس سورۃ میں لفظ اخلاص کہیں وارد نہیں ہوا ہے، اس کو یہ نام اس کے معنی کے لحاظ سے دیا گیا ہے، جو شخص بھی اس کو سمجھ کر اس کی تعلیم پر ایمان لے آئے گا وہ شرک سے خلاصی پا جائے گا۔

زمانہ نزول :


اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے، اور یہ اختلاف ان روایات کی بنا پر ہے جو اس کے سبب نزول کے بارے میں منقول ہوئی ہیں۔ ذیل میں ہم ان کو سلسلہ وار درج کرتے ہیں ۔


(١) حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ (طبرانی)


(٢) ابو العالمیہ نے حضرت ابی بن کعب کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل فرمائی (مسند احمد، ابن ابی حاتم، ابن جریر، ترمذی، بخاری فی التاریخ، ابن المنذر، حاکم، بیہقی) ترمذی نے اسی مضمون کی ایک روایت ابو العالیہ سے نقل کی ہے جس میں حضرت ابی بن کعب کا حوالہ نہیں ہے اور اسے صحیح تر کہا ہے۔


(٣) حضرت جابر بن عبداللہ کا بیان ہے کہ ایک اعرابی نے (اور بعض روایات میں ہے کہ لوگوں نے) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (ابو یعلی، ابن جریر، ابن المنذر، طبرانی فی الاوسط، بیہقی، ابو نعیم فی الحلیہ)


(٤) عکرمہ نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ یہودیوں کا ایک گروہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا جس میں کعب بن اشرف اور حیی بن اخطب وغیرہ شامل تھے اور انہوں نے کہا " اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں بتائیے کہ آپ کا وہ رب کیسا ہے جس نے آپ کو بھیجا ہے"۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ (ابن ابی حاتم، ابن عدی، بیہقی فی الاسماء والصفات)


ان کے علاوہ مزید چند روایات ابن تیمیہ نے اپنی تفسیر سورۃ اخلاص میں نقل کی ہیں جو یہ ہیں :


(٥) حضرت انس کا بیان ہے کہ خیبر کے کچھ یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا " اے ابو القاسم، اللہ نے ملائکہ کو نور حجاب سے، آدم کو مٹی کے سڑے ہوئے گارے سے، ابلیس کو آگ کے شعلے سے، آسمان کو دھوئیں سے، اور زمین کو پانی کے جھاگ سے بنایا، اب ہمیں اپنے رب کے متعلق بتائیے (کہ وہ کس چیز سے بنا ہے)"۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے کہا اے محمد، ان سے کہیے هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ۔


(٦) عامر بن الطفیل نے حضور سے کہا " اے محمد، آپ کس چیز کی طرف ہمیں بلاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اللہ کی طرف۔ عامر نے کہا " اچھا تو اس کی کیفیت مجھے بتائیے۔ وہ سونے سے بنا ہوا ہے یا چاندی سے یا لوہے سے" ؟ اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔


(٧) ضحاک اور قتادہ اور مقاتل کا بیان ہے کہ یہودیوں کے کچھ علماء حضور کے پاس آئے اور انہوں نے کہا " اے محمد، اپنے رب کی کیفیت ہمیں بتائیے، شاید کہ ہم آپ پر ایمان لے آئیں۔ اللہ نے اپنی صفت توراۃ میں نازل کی ہے۔ آپ بتائیے کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟ کس جنس سے ہے؟ سونے سے بنا ہے یا تانبے سے، یا پیتل سے یا لوہے سے، یا چاندی سے؟ اور کیا وہ کھاتا اور پیتا ہے؟ اور کس سے اس نے دنیا وراثت میں پائی ہے اور اس کے بعد کون اس کا وارث ہوگا ؟" اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔


(٨) ابن عباس کی روایت ہے کہ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد سات پادریوں کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے حضور سے کہا " ہمیں بتائیے آپ کا رب کیسا ہے، کس چیز سے بنا ہے"؟ آپ نے فرمایا میرا رب کس چیز سے نہیں بنا ہے، وہ تمام اشیاء سے جدا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔


ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مواقع پر مختلف لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس معبود کی ماہیت اور کیفیت دریافت کی تھی جس کی بندگی و عبادت کی طرف آپ لوگوں کو دعوت دے رہے تھے، اور ہر موقع پر آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کو جواب میں یہی سورت سنائی تھی۔ سب سے پہلے یہ سوال مکہ میں قریش کے مشرکین نے آپ سے کیا اور اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔ اس کے بعد مدینہ طیبہ میں کبھی یہودیوں نے، کبھی عیسائیوں نے، اور کبھی عرب کے دوسرے لوگوں نے حضور سے اسی نوعیت کے سوالات کیے اور ہر مرتبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ ہوا کہ جواب میں یہی سورت آپ ان کو سنا دیں۔ ان روایات میں سے ہر ایک میں یہ جو کہا گیا ہے کہ اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی تھی، اس سے کسی کو یہ خیال نہ ہونا چاہیے کہ یہ سب روایتیں باہم متضاد ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی مسئلے کے بارے میں اگر پہلے سے کوئی آیت یا سورۃ نازل شدہ موجود ہوتی تھی تو بعد میں جب کبھی حضور کے سامنے وہی مسئلہ پیش کیا جاتا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت آجاتی تھی کہ اس کا جواب فلاں آیت یا فلاں سورۃ میں ہے، یا اس کے جواب میں وہ آیت یا سورۃ لوگوں کو پڑھ کر سنا دی جائے۔ احادیث کے راوی اس چیز کو یوں بیان کرتے ہیں کہ جب فلاں معاملہ پیش آیا، یا فلاں سوال کیا گیا تو یہ آیت یا سورۃ نازل ہوئی۔ اس کو تکرار نزول سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی ایک آیت یا سورۃ کا کئی مرتبہ نازل ہونا۔


پس صحیح بات یہ ہے کہ یہ سورۃ دراصل مکی ہے بلکہ اس کے مضمون پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مکہ کے بھی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے جب اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بیان میں قرآن کی مفصل آیات ابھی نازل نہیں ہوئی تھیں، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت الی اللہ کو سن کر لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ آخر آپ کا وہ رب ہے کیسا جس کی بندگی و عبادت کی طرف آپ لوگوں کو بلا رہے ہیں۔ اس کے بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ سورت ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مکہ میں جب حضرت بلال کا آقا امیہ بن خلف ان کو دھوپ میں تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر ایک بڑا سا پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیتا تھا تو وہ اَحَدٌ اَحَدٌ پکارتے تھے۔ یہ لفظ احد اسی سورۃ سے ماخوذ تھا۔

موضوع اور مضمون :


شان نزول کے بارے میں جو روایات اوپر درج کی گئی ہیں ان پر ایک نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توحید کی دعوت لے کر اٹھے تھے اس وقت دنیا کے مذہبی تصورات کیا تھے۔ بت پرست مشرکین ان خداؤں کو پوج رہے تھے جو لکڑی، پتھر، سونے، چاندی وغیرہ مختلف چیزوں کے بنے ہوئے تھے۔ شکل، صورت اور جسم رکھتے تھے۔ دیویوں اور دیوتاؤں کی باقاعدہ نسل چلتی تھی۔ کوئی دیوی بےشوہر نہ تھی اور کوئی دیوتا بےزوجہ نہ تھا۔ ان کو کھانے پینے کی ضرورت بھی لاحق ہوتی تھی اور ان کے پرستار ان کے لیے اس کا انتظام کرتے تھے۔ مشرکین کی ایک بڑی تعداد اس بات کی قائل تھی کہ خدا انسانی شکل میں ظہور کرتا ہے اور کچھ لوگ اس کے اوتار ہوتے ہیں۔ عیسائی اگرچہ ایک خدا کو ماننے کے مدعی تھے، مگر ان کا خدا بھی کم از کم ایک بیٹا تو رکھتا ہی تھا، اور باپ بیٹے کے ساتھ خدائی میں روح القدس کو بھی حصہ دار ہونے کا شرف حاصل تھا۔ حتی کہ خدا کی ماں بھی ہوتی تھی اور اس کی ساس بھی۔ یہودی بھی ایک خدا کو ماننے کا دعوی کرتے تھے، مگر ان کا خدا بھی مادیت اور جسمانیت اور دوسری انسانی صفات سے خالی نہ تھا، وہ ٹہلتا تھا، انسانی شکل میں نمودار ہوتا تھا، اپنے کسی بندے کشتی بھی لڑ لیتا تھا۔ اور ایک عدد بیٹے (عزیر) کا باپ بھی تھا۔ ان مذہبی گروہوں کے علاوہ مجوسی آتش پرست تھے اور صابئی ستارہ پرست۔ اس حالت میں جب اللہ وحدہ لا شریک کو ماننے کی دعوت لوگوں کو دی گئی تو ان کے ذہن میں یہ سوالات پیدا ہونا ایک لازمی امر تھا کہ وہ سب ہے کس قسم کا جسے تمام ارباب اور معبودوں کو چھوڑ کر تنہا ایک ہی رب اور معبود تسلیم کرنے کی دعوت دی جارہی ہے۔ قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے ان سوالات کا جواب چند الفاظ میں دے کر اللہ کی ہستی کا ایسا واضح تصور پیش کردیا جو تمام مشرکانہ تصورت کا قلع قمع کردیتا ہے اور اس کی ذات کے ساتھ مخلوقات کی صفات میں سے کسی صفت کی آلودگی کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہنے دیتا۔

فضیلت اور اہمیت :


یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگاہ میں اس سورت کی بڑی عظمت تھی اور آپ مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو اس کی اہمیت محسوس کراتے تھے، تاکہ وہ کثرت سے اس کو پڑھیں اور عوام الناس میں اسے پھیلائیں، کیونکہ یہ اسلام کے اولین بنیادی عقیدے (توحید) کو چار ایسے مختصر فقروں میں بیان کردیتی ہے جو فورا انسان کے ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور آسانی سے زبانوں پر چڑھ جاتے ہیں۔ احادیث میں کثرت سے یہ روایات بیان ہوئی ہیں کہ حضور نے مختلف مواقع پر مختلف طریقوں سے لوگوں کو بتایا کہ یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد، طبرانی وغیرہ میں اس مضمون کی متعدد احادیث ابو سعید خدری، ابوہریرہ، ابو ایوب انصاری، ابو الدرداء، معاذ بن جبل، جابر بن عبداللہ، ابی بن کعب، ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط، ابن عمر، ابن مسعود، قتادہ بن النعمان، انس بن مالک اور ابو مسعود (رض) سے منقول ہوئی ہیں۔ مفسرین نے حضور کے اس ارشاد کی بہت سی توجیہات بیان کی ہیں۔ مگر ہمارے نزدیک سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ قرآن مجید جس دین کو پیش کرتا ہے اس کی بنیاد تین عقیدے ہیں۔ ایک توحید، دوسرے رسالت، تیسرے آخرت۔ یہ سورۃ چونکہ خالص توحید کو بیان کرتی ہے اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا۔


حضرت عائشہ کی یہ روایت بخاری و مسلم اور بعض دوسری کتب حدیث میں نقل ہوئی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک صاحب کو ایک مہم پر سردار بنا پر بھیجا اور اس پورے سفر کے دوران میں ان کا مستقل طریقہ یہ رہا کہ ہر نماز میں وہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ۔ پر قرأت ختم کرتے تھے۔ واپسی پر ان کے ساتھیوں نے حضور سے اس کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے تھے۔ ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس میں رحمان کی صفت بیان کی گئی ہے اس لیے اس کا پڑھنا مجھے بہت محبوب ہے۔ حضور نے یہ بات سنی تو لوگوں سے فرمایا اخبروہ ان اللہ تعالیٰ یحبہ " ان کو خبر دے دو کہ اللہ تعالیٰ انہیں محبوب رکھتا ہے"۔


اسی سے ملتا جلتا واقعہ بخاری میں حضرت انس سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ انصار میں سے ایک صاحب قبا میں نماز پڑھاتے تھے اور ان کا طریقہ یہ تھا کہ ہر رکعت میں پہلے قُلْ هُوَ اللّٰهُ پڑھتے، پھر کوئی اور سورت تلاوت کرتے۔ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور ان سے کہا کہ یہ تم کیا کرتے ہو کہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ پڑھنے کے بعد اسے کافی نہ سمجھ کر کوئی اور سورت بھی اس کے ساتھ ملا لیتے ہو؟ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یا تو صرف اسی کو پڑھو اور یا اسے چھوڑ کر کوئی اور سورت پڑھو۔ انہوں نے کہا میں اسے نہیں چھوڑ سکتا۔ تم چاہو تو میں تمہیں نماز پڑھاؤں ورنہ امامت چھوڑ دوں۔ لیکن لوگ ان کی جگہ کسی اور کو امام بنانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ آخر کار معاملہ حضور کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپ نے ان سے پوھا کہ تمہارے ساتھی جو کچھ چاہتے ہیں اسے قبول کرنے میں تم کو کیا امر مانع ہے؟ تمہیں ہر رکعت میں یہ سورت پڑھنے پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟ انہوں نے عرض کیا مجھے اس سے بہت محبت ہے۔ آپ نے فرمایا حبک ایاھا ادخلک الجنۃ " اس سورت سے تمہاری محبت نے تمہیں جنت میں داخل کردیا"۔