سورۃ الکافرون : زمانہ نزول، تاریخی پس منظر، موضوع اور مضمون - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

نام : پہلی ہی آیت قل یایھا الکٰفرون کے لفظ الکافرون کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول :


حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت حسن بصری اور عکرمہ کہتے ہیں کہ یہ سورت مکی ہے، حضرت عبد اللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مدنی ہے، اور حضرت عبد اللہ بن عباس اور قتادہ سے دو قول منقول ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مکی ہے اور دوسرا یہ کہ مدنی ہے۔ لیکن جمہور مفسرین کے نزدیک یہ مکی سورت ہے اور اس کا مضمون خود اس کے مکی ہونے پر دلالت کرتا ہے۔


تاریخی پس منظر :


مکۂ معظمہ میں ایک دور ایسا گزرا ہے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اسلام کے خلاف قریش کے مشرک معاشرے میں مخالفت کا طوفان تو برپا ہوچکا تھا، لیکن ابھی قریش کے سردار اس بات سے بالکل مایوس نہیں ہوئے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی نہ کسی طرح مصالحت پر آمادہ کیا جا سکے گا۔

 اس لیے وقتاً فوقتا وہ آپ کے پاس مصالحت کی مختلف تجویزیں لے لے کر آتے رہتے تھے تاکہ آپ ان میں سے کسی کو مان لیں اور وہ نزاع ختم ہوجائے جو آپ کے اور ان کے درمیان رونما ہوچکی تھی۔ اس سلسلے میں متعدد روایات احادیث میں منقول ہوئی ہیں : حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ہم آپ کو اتنا مال دیے دیتے ہیں کہ آپ مکہ کے سب سے زیادہ دولت مند آدمی بن جائیں، آپ جس عورت کو پسند کریں اس سے آپ کی شادی کیے دیتے ہیں، ہم آپ کے پیچھے چلنے کے لیے تیار ہیں، آپ بس ہماری یہ بات مان لیں کہ ہمارے معبودوں کی برائی کرنے سے باز رہیں۔ اگر یہ آپ کو منظور نہیں، تو ہم ایک اور تجویز آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں جس میں آپ کی بھی بھلائی ہے اور ہماری بھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا ایک سال آپ ہمارے معبودوں لات اور عزیٰ کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اچھا، ٹھہرو، میں دیکھتا ہوں کہ میرے رب کی طرف سے کیا حکم آتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی درجہ میں بھی اس تجویز کو قابل قبول کیا معنی قابل غور بھی سمجھتے تھے، اور آپ نے معاذ اللہ کفار کو یہ جواب اس امید پر دیا تھا کہ شاید اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی منظوری آ جائے۔ بلکہ دراصل یہ بات بالکل ایسی ہی تھی جیسے کسی ماتحت افسر کے سامنے کوئی بےجا مطالبہ پیش کیا جائے اور وہ جانتا ہو کہ اس کی حکومت کے لیے یہ مطالبہ قابل قبول نہیں ہے، مگر وہ خود صاف انکار کر دینے کے بجائے مطالبہ کرنے والوں سے کہے کہ میں آپ کی درخواست اوپر بھیجے دیتا ہوں، جو کچھ وہاں سے جواب آئے گا وہ آپ کو بتا دوں گا۔ اس سے فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ ماتحت افسر اگر خود ہی انکار کر دے تو لوگوں کا اصرار رہتا ہے لیکن اگر وہ بتائے کہ اوپر سے حکومت کا جواب ہی تمہارے مطالبہ کے خلاف آیا ہے تو لوگ مایوس ہوجاتے ہیں۔ بہرحال اس پر وحی نازل ہوئی "قل یایھا الکٰفرون ۔۔۔ اور یہ کہ "ان سے کہو، اے نادانو! کیا تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ اللہ کے سوا میں کسی اور کی عبادت کروں" (الزمر، آیت 64) حوالہ ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی۔ ابن عباس (رض) کی ایک اور روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا "اے محمد، اگر تم ہمارے معبود بتوں کو چوم لو تو ہم تمہارے معبود کی عبادت کریں گے۔" اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ حوالہ عبد بن حمید سعید بن میناء (ابو البحتری کے آزاد کردہ غلام) کی روایت ہے کہ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن المطلب اور امیہ بن خلف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے اور آپ سے کہا "اے محمد، آؤ ہم تمہارے معبود کی عبادت کرتے ہیں اور تم ہمارے معبودوں کی عبادت کرو اور ہم اپنے سارے کاموں میں تمہیں شریک کیے لیتے ہیں۔ اگر وہ چیز جو تم لے کر آئے ہو اس سے بہتر ہوئی جو ہمارے پاس ہے تو ہم تمہارے ساتھ اس میں شریک ہوں گے اور اپنا حصہ اس سے پا لیں گے۔ اور اگر وہ چیز جو ہمارے پاس ہے اس سے بہتر ہوئی جو تم لائے ہو تو تم ہمارے ساتھ اس میں شریک ہو گے اور اس سے اپنا حصہ پا لو گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ وحی نازل فرمائی قل یایھا الکٰفرون حوالہ ابن جریر و ابن ابی حاتم۔ ابن ہشام نے بھی سیرت میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ وہب بن منبہ کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اگر آپ پسند کریں تو ایک سال ہم آپ کے دین میں داخل ہوجائیں اور ایک سال آپ ہمارے دین میں داخل ہوجایا کریں حوالہ عبد بن حمید۔ ابن ابی حاتم ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک ہی مجلس میں نہیں بلکہ مختلف اوقات میں مختلف مواقع پر کفار قریش نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس قسم کی تجویزیں پیش کی تھیں اور اس بات کی ضرورت تھی کہ ایک دفعہ دو ٹوک جواب دے کر ان کی اس امید کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دین کے معاملے میں کچھ دو اور کچھ لو کے طریقے پر ان سے کوئی مصالحت کرلیں گے۔


موضوع اور مضمون :



اس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مذہبی رواداری کی تلقین کے لیے نازل نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ آج کل کے بعض لوگ خیال کرتے ہیں، بلکہ اس لیے نازل ہوئی تھی کہ کفار کے دین اور ان کی پوجا پاٹ اور ان کے معبودوں سے قطعی براءت، بیزاری اور لا تعلقی کا اعلان کردیا جائے اور انہیں بتا دیا جائے کہ دین کفر اور دین اسلام ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں، ان کے باہم مل جانے کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بات اگرچہ ابتداءً قریش کے کفار کو مخاطب کر کے ان کی تجاویز مصالحت کے جواب میں کہی گئی تھی، لیکن یہ انہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے قرآن میں درج کر کے تمام مسلمانوں کو قیامت تک کے لیے یہ تعلیم دے دی گئی ہے کہ دین کفر جہاں جس شکل میں بھی ہے ان کو اس سے قول اور عمل میں براءت کا اظہار کرنا چاہیے اور بلا رو رعایت کہہ دینا چاہیے کہ دین کے معاملے میں وہ کافروں سے کسی قسم کی مداہنت یا مصالحت نہیں کرسکتے۔ اسی لیے یہ سورت اس وقت بھی پڑھی جاتی رہی جب وہ لوگ مر کھپ گئے تھے جن کی باتوں کے جواب میں اسے نازل فرمایا گیا تھا، اور وہ لوگ بھی مسلمان ہونے کے بعد اسے پڑھتے رہے جو اس کے نزول کے وقت کافر و مشرک تھے، اور ان کے گزر جانے کے صدیوں بعد آج بھی مسلمان اس کو پڑھتے ہیں کیونکہ کفر اور کافری سے بیزاری و لا تعلقی ایمان کا دائمی تقاضا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگاہ میں اس سورت کی کیا اہمیت تھی، اس کا اندازہ ذیل کی چند احادیث سے کیا جا سکتا ہے : حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) کی روایت ہے کہ میں نے بارہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فجر کی نماز سے پہلے اور مغرب کی نماز کے بعد کی دو رکعتوں میں قل یایھا الکٰفرون اور قل ھو اللہ احد پڑھتے دیکھا ہے۔ (اس مضمون کی متعدد روایات کچھ لفظی اختلافات کے ساتھ امام احمد، ترمذی، نسائی ابن ماجہ، ابن حبان اور ابن مردویہ نے ابن عمر (رض) سے نقل کی ہیں)۔ حضرت خباب (رض) کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا کہ جب تم سونے کے لیے اپنے بستر پر لیٹو تو قل یایھا الکٰفرون پڑھ لیا کرو" حوالہ ابو یعلٰی طبرانی حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ بن جبل سے فرمایا سوتے وقت قل یایھا الکٰفرون پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ شرک سے براءت ہے حوالہ بیہقی فی الشعب فروہ بن نوفل اور عبد الرحمٰن بن نوفل، دونوں کا بیان ہے کہ ان کے والد نوفل بن معاویہ (رض) الاشجعی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیجیے جسے میں سوتے وقت پڑھ لیا کروں۔ آپ نے فرمایا قل یایھا الکٰفرون آخر تک پڑھ کر سو جایا کرو، کیونکہ یہ شرک سے براءت ہے حوالہ مسند احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ابی شیبہ، حاکم، ابن مردویہ، بیہقی فی الشعب۔ ایسی ہی درخواست حضرت زید بن حارثہ کے بھائی حضرت جبلہ بن حارثہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی تھی اور ان کو بھی آپ نے یہی جواب دیا تھا حوالہ مسند احمد، طبرانی