شعائر اللہ کى عظمت اور اس کى شرعى حيثيت -

شعائر اللہ کا ذکر قرآن کریم میں سورۃ البقر آیت 158 اور سورۃ المائدہ آیت 2 اور سورۃ الحج آیات : 32،36 میں آیا ہے ۔ 
شعائر اللہ سے کیا مراد ہے ؟ 
سورۃ البقرہ میں صفا اور مروہ کو شعائر کا حصہ قرار دیا ، سورۃ المائدہ میں مختلف شعائراللہ کی بے حرمتی سے منع کیا گیا ، اور سورۃ الحج کی آیت : 32 میں شعائراللہ کی تعظیم کا حکم دیا اور اس کو تقوی کی نشانی قرار دیا ، اور سورۃ الحج کی آیت : 36 میں خاص اونٹ" بدن" کی قربانی کو بھی شعائر اللہ کہا ہے ۔ 

امام شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ حصہ اول باب 7 (شعائر اللہ کی تعظیم واحترام) میں لکھتے ہیں :۔ ’’ شعائر الہیہ سے ہماری مراد وہ ظاہری ومحسوس امور اور اشیاء ہیں جن کا تقرر اسی لیے ہوا ہے کہ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔ ان امورواشیاء کو خدا کی ذات سے ایسی مخصوص نسبت ہے کہ ان کی عظمت وحرمت کو لوگ خود اللہ تعالیٰ کی عظمت وحرمت سمجھتے ہیں۔ اور ان کے متعلق کسی قسم کی کوتاہی کو ذات الٰہی کے متعلق کوتاہی سمجھتے ہیں‘‘۔ پھر آگے چل کر لکھا :۔ بڑے بڑے شعار الٰہیہ چار ہیں!

1-  قرآن حکیم
2- کعبۃ اللہ
3- نبی کریم ﷺ
4-  نماز

 قرآن حکیم میں ہے:۔ ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ (2:158) بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔

 اور والبدن جعلنھا لکم من شعائر اللہ (22:36) اور قربانی کے فربہ جانوروں کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے۔

 شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی تفسیر فتح العزیز میں۔

  کعبہ، عرفہ، مزدلفہ جمار ثلاثہ، صفا، مروہ، منیٰ، جمیع مساجد، ماہ رمضان، اشہر حرم، عید الفطر، عید النحر ایام تشریق۔ جمعہ، اذان، اقامت، نماز ،جماعت، نماز عیدین۔

سب کو شعائر اللہ میں سے گردانتے ہیں۔


بیت اللہ:

 اللہ کے شعائر میں سے سب سے بڑا شعیرہ ہے۔ مقصود اس کی عبادت کرنا نہیں بلکہ عبادت تو اللہ کی جاتی ہے، لیکن چونکہ یہ گھر اللہ کے ساتھ نسبت خاص رکھنے اور مرکز عبادت ہونے کی وجہ سے ایک خاص حیثیت کا مالک ہے۔ 

اس لیے اس کی تقدیس اور اس کا احترام مسلمانوں کے ایمان کا حصہ بن گیا ہے۔ ہم جب بھی اسے دیکھتے ہیں تو جہاں اس کے سامنے سر جھکاتے ہیں وہیں اس کے احترام اور اس کی مرکزیت میں اضافے کے لیے اللہ ہی سے دعائیں مانگتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک مکان ہے، نہایت سادہ، نہایت پروقار، لیکن اس ایک کوٹھے نے دنیائے اسلام کو ایک جہت، ایک مرکزیت، ایک منزل اور ایک شعور میں پرو رکھا ہے۔ ہرسال لاکھوں لوگوں کے دل اس کی وجہ سے اللہ کی محبت سے سرشار ہوتے اور اپنی ذات کی معرفت سے آشنا ہوتے ہیں۔ دنیا کو مختلف طبقوں اور مختلف فرقوں میں بٹی ہوئی اس امت کو ایک جگہ اور ایک رنگ میں دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہی اس گھر کا وہ حقیقی کردار ہے، جس نے اسے اللہ کے شعائر میں ایک اہم حیثیت کا حامل بنادیا ہے۔


اس حوالے سے مولانا سید ابولاعلی مودودی ؒ لکھتے ہیں " ہر وہ چیز جو کسی مسلک یا عقیدے یا طرز فکر و عمل یا کسی نظام کی نمائندگی کرتی ہو وہ اس کا ”شعار“ کہلائے گی، کیونکہ وہ اس کے لیے علامت یا نشانی کا کام دیتی ہے۔ سرکاری جھنڈے، فوج اور پولیس وغیرہ کے یونیفارم، سکے، نوٹ اور اسٹامپ حکومتوں کے شعائر ہیں اور وہ اپنے محکوموں سے، بلکہ جن جن پر ان کا زور چلے، سب سے ان کے احترام کا مطالبہ کرتی ہیں۔ گرجا اور قربان گاہ اور صلیب مسیحیت کے شعائر ہیں۔ چوٹی اور زنار اور مندر برہمنیت کے شعائر ہیں۔ کیس اور کڑا اور کرپان وغیرہ سکھ مذہب کے شعائر ہیں۔ ہتھوڑا اور درانتی اشتراکیت کا شعار ہیں۔ سواستیکا آریہ نسل پرستی کا شعار ہے۔ یہ سب مسلک اپنے اپنے پیرووں سے اپنے ان شعائر کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی نظام کے شعائر میں سے کسی شعار کی توہین کرتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ دراصل اس نظام کے خلاف دشمنی رکھتا ہے، اور اگر وہ توہین کرنے والا خود اسی نظام سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا یہ فعل اپنے نظام سے ارتداد اور بغاوت کا ہم معنی ہے۔


”شعائر اللہ“ سے مراد وہ تمام علامات یا نشانیاں ہیں جو شرک و کفر اور دہریت کے بالمقابل خالص خدا پرستی کے مسلک کی نمائندگی کرتی ہوں۔ ایسی علامات جہاں جس مسلک اور جس نظام میں بھی پائی جائیں مسلمان ان کے احترام پر مامور ہیں، بشرطیکہ ان کا نفسیاتی پس منظر خالص خدا پرستانہ ہو، کسی مشرکانہ یا کافرانہ تخیل کی آلودگی سے انہیں ناپاک نہ کردیا گیا ہو۔ کوئی شخص خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، اگر اپنے عقیدہ و عمل میں خدائے واحد کی بندگی و عبادت کا کوئی جزء رکھتا ہے، تو اس جزء کی حد تک مسلمان اس سے موافقت کریں گے اور ان شعائر کا بھی پورا احترام کریں گے جو اس کے مذہب میں خالص خدا پرستی کی علامت ہوں۔ اس چیز میں ہمارے اور اس کے درمیان نزاع نہیں بلکہ موافقت ہے۔ نزاع اگر ہے تو اس امر میں نہیں کہ وہ خدا کی بندگی کیوں کرتا ہے، بلکہ اس امر میں ہے کہ وہ خدا کی بندگی کے ساتھ دوسری بندگیوں کی آمیزش کیوں کرتا ہے۔


یاد رکھنا چاہیے کہ شعائر اللہ کے احترام کا یہ حکم اس زمانہ میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں اور مشرکین عرب کے درمیان جنگ برپا تھی، مکہ پر مشرکین قابض تھے، عرب کے ہر حصے سے مشرک قبائل کے لوگ حج و زیارت کے لیے کعبہ کی طرف جاتے تھے اور بہت سے قبیلوں کے راستے مسلمانوں کی زد میں تھے۔ اس وقت حکم دیا گیا کہ یہ لوگ مشرک ہی سہی، تمہارے اور ان کے درمیان جنگ ہی سہی، مگر جب یہ خدا کے گھر کی طرف جاتے ہیں تو انہیں نہ چھیڑو، حج کے مہینوں میں ان پر حملہ نہ کرو، خدا کے دربار میں نذر کرنے کے لیے جانور یہ لیے جارہے ہوں ان پر ہاتھ نہ ڈالو، کیونکہ ان کے بگڑے ہوئے مذہب میں خدا پرستی کا جتنا حصہ باقی ہے وہ بجائے خود احترام کا مستحق ہے نہ کہ بےاحترامی کا۔
 (تفہیم القرآن ، جلد 1 ص 438 حاشیہ نمبر 5)

اس سلسلے میں مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں " مثلاً قربانی حقیقتِ اسلام کا ایک مظہر ہے۔ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو بالکلیہ اپنے رب کے حوالہ کردے۔ اپنی کوئی محبوب سے محبوب چیز بھی اس سے دریغ نہ رکھے۔ اس حقیقت کا عملی مظاہرہ جس طرح حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کی قربانی کر کے فرمایا، وہ تاریخ انسانی کا ایک بے نظیر واقعہ ہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی یادگار میں جانوروں کی قربانی کو ایک شعیرہ کے طور پر مقرر فرما دیا تاکہ اس کے ذریعہ سے لوگوں کے اندر اسلام کی اصل حقیقت برابر تازہ ہوتی رہے۔ 

اسی طرح حجر اسود ایک شعیرہ ہے۔ یہ پتھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد سے اس روایت کا ایک نشان ہے کہ اس کو بوسہ دے کر یا اس کو ہاتھ لگا کر بندہ اپنے رب کے ساتھ اپنے عہد بندگی اور اپنے میثاق اطاعت کی تجدید کرتا ہے۔ چنانچہ بعض حدیثوں میں اس کو یمین اللہ (خدا کا ہاتھ) سے تعبیر کیا گیا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ جب اس کو ہاتھ لگاتا ہے تو گویا وہ خدا کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر اس سے تجدید بیعت کرتا ہے۔ اور جب اس کو بوسہ دیتا ہے تو گویا یہ اس کی طرف سے خدا کے ساتھ عہد محبت و وفاداری کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح جمرات بھی شعائر اللہ میں سے ہیں۔ یہ نشانات اس لیے قائم کیے گئے ہیں کہ حجاج ان پر کنکریاں مار کر اپنے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ بیت اللہ کے دشمنوں اور اسلام کے دشمنوں پر، خواہ وہ ابلیس کی ذریات سے تعلق رکھنے والے ہوں یا انسانوں کے کسی گروہ سے، لعنت کرتے ہیں اور ان کے خلاف جہاد کے لیے ہر وقت مستعد ہیں۔ 

علی ہذا القیاس بیت اللہ بھی ایک شعیرہ بلکہ سب سے بڑا شعیرہ ہے جو پوری امت کا قبلہ اور توحید و نماز کا مرکز ہے۔ اس کے ارد گرد طواف کر کے اور اپنی نمازوں اور اپنی تمام مسجدوں کا اس کو قبلہ قرار دے کر ہم اس حقیقت کا اظہار کرتے ہیں کہ جس خدائے واحد کی عبادت کے لیے یہ گھر تعمیر ہوا ہم اسی کے بندے، اسی کی طرف رخ کرنے والے، اسی کے عبادت گزار اور اسی کی شمع توحید پر پروانہ وار نثار ہیں۔

اسی طرح صفا اور مروہ بھی اللہ تعالیٰ کے شعائر میں سے ہیں۔ ان کے شعائر میں سے ہونے کی وجہ عام طور پر تو یہ بیان کی جاتی ہے کہ انہی دونوں پہاڑیوں کے درمیان حضرت ہاجرہ نے حضرت اسمعیل کے لیے پانی کی تلاش میں تک و دو کی تھی لیکن استاذ امام(مولانا حمید الدین فراہی) کا رجحان اس بات کی طرف ہے کہ اصل قربان گاہ مروہ ہے۔ یہیں حضرت ابراہیم نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں فرمانبردارانہ اور غلامانہ سرگرمی دکھائی اس وجہ سے سے ان دونوں پہاڑیوں کو شعائر میں سے قرار دے دیا گیا اور ان کی سعی کی یادگار ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دی گئی ۔


شعائر سے متعلق چند اصولی باتیں۔

مزید لکھتے ہیں " ان شعائر سے متعلق چند اصولی باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔

 ایک یہ کہ یہ شعائر، اللہ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ ہیں۔ کسی دوسرے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے طور پر کسی چیز کو دین کے شعائر میں سے قرار دے دے اور جو چیز شعائر میں داخل ہے اس کو شعائر کی فہرست سے خارج کردے۔ دین میں اس قسم کے من مانے تصرفات سے شرک و بدعت کی راہیں کھلتی ہیں۔ جن قوموں نے اپنے جیسے شعائر قرار دیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے اس طرح شرک و بت پرستی کی راہیں کھول دی۔

دوسری یہ کہ جس طرح شعائر،  اللہ کے مقرر کردہ ہیں اسی طرح اسلام میں ان شعائر کی تعظیم کے حدود بھی خدا اور رسول ہی کے مقرر کردہ ہیں۔ جس شعیرہ کی تعظیم کی جو شکل شریعت میں ٹھہرا دی گئی ہے وہی اس حقیقت کے اظہار کی واحد شکل ہے جو اس شعیرہ کے اندر مضمر ہے، اس سے سرِ مو انحراف نہ صرف اس شعیرہ کی حقیقت سے انسان کو محروم کردینے والی بات ہے بلکہ اس سے شرک و بدعت کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔  فرض کیجیے کہ حجر اسود ایک شعیرہ ہے۔ اس کی تعظیم کے لیے اس کو حالت طواف میں بوسہ دینے یا اس کو ہاتھ لگا کر ہاتھ کو چوم لینے یا اس کی طرف اشارہ کرنے کی شکلیں کود دین کے لانے والے کی طرف سے مقرر کردی گئی ہیں۔ اگر کوئی شخص تعظیم کی صرف انہی شکلوں پر قناعت نہ کرے بلکہ تعظیم شعائر اللہ کے جوش میں وہ اس پتھر کے آگے گھٹنے ٹیکنے لگے یا اس کے سامنے نذریں پیش کرنے لگے یا اس پر پھول نثار کرنے لگے یا اس طرح کی کوئی اور حرکت کرنے لگے تو ان باتوں سے وہ نہ صرف یہ کہ اس حقیقت سے بالکل دور ہوجائے گا جو اس شعیرہ کے اندر مضمر ہے بلکہ وہ شرک و بدعت میں بھی مبتلا ہوجائے گا۔

 تیسری یہ کہ ان شعائر میں اصل مطمح نظر وہ حقیقتیں ہوا کرتی ہیں جو ان کے اندر مضمر ہوتی ہے۔ ان حقیقتوں کے اظہار کے لیے یہ شعائر گویا قالب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے ملت کی زندگی کے لیے سب سے زیادہ ضروری کام یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں یہ حقیقتیں برابر زندہ اور تازہ رکھی جائیں۔ اگر یہ اہتمام سرد پڑجائے تو دین کی اصل روح نکل جاتی ہے، صرف قالب باقی رہ جاتا ہے پھر آہستہ آہستہ لوگوں کی اصل توجہ صرف قوالب پر مرکوز ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دین صرف ایک مجموعہ رسوم بن کے رہ جاتا ہے۔ 

--------------------------------------------
( تدبر قرآن، جلد 2 سورۃ المائدہ، آیت :2)