سورہ الم نشرح : زمانہ نزول، موضوع اور مضمون - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ


نام :  پہلے ہی فقرے کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔


زمانۂ نزول :


اس کا مضمون سورۃ ضحیٰ سے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ یہ دونوں سورتیں قریب قریب ایک ہی زمانے اور ایک جیسے حالات میں نازل شدہ معلوم ہوتی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ مکۂ معظمہ میں والضحیٰ کے بعد نازل ہوئی۔


موضوع اور مضمون :


اس کا مقصد و مدعا بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے۔ نبوت سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی ان حالات سے سابقہ پیش نہ آیا تھا جن کا سامنا نبوت کے بعد دعوت اسلامی کا آغاز کرتے ہی یکایک آپ کو کرنا پڑا۔ یہ خود آپ کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم تھا جس کا کوئی اندازہ آپ کو قبل نبوت کی زندگی میں نہ تھا۔ اسلام کی تبلیغ آپ نے کیا شروع کی کہ دیکھتے دیکھتے وہی معاشرہ آپ کا دشمن ہوگیا جس میں آپ پہلے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ وہی رشتہ دار، دوست، اہل قبیلہ اور اہل محلہ آپ کو گالیاں دینے لگے جو پہلے آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے۔ مکہ میں کوئی آپ کی بات سننے کا روادار نہ تھا۔ راہ چلتے آپ پر آوازے کسے جانے لگے۔ قدم قدم پر آپ کے سامنے مشکلات ہی مشکلات تھیں۔ اگرچہ رفتہ رفتہ آپ کو ان حالات، بلکہ ان سے بدرجہا زیادہ سخت حالات کا مقابلہ کرنے کی عادت پڑگئی، لیکن ابتدائی زمانہ آپ کے لیے نہایت دل شکن تھا۔ اسی بنا پر آپ کو تسلی دینے کے لیے پہلے سورۃ ضحیٰ نازل کی گئی اور پھر اس سورت کا نزول ہوا۔


اس میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپ کو بتایا ہے کہ ہم نے آپ کو تین بہت بڑی نعمتیں عطا کی ہیں جن کی موجودگی میں کوئی وجہ نہیں کہ آپ دل شکستہ ہوں۔ ایک شرح صدر کی نعمت، دوسری یہ نعمت کہ آپ کے اوپر سے ہم نے وہ بھاری بوجھ اتار دیا جو نبوت سے پہلے آپ کی کمر توڑے ڈال رہا تھا۔ تیسری رفع ذکر کی نعمت جو آپ سے بڑھ کر تو درکنار آپ کے برابر بھی کبھی کسی بندے کو نہیں دی گئی۔


اس کے بعد رب کائنات اپنے بندے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اطمینان دلاتا ہے کہ مشکلات کا یہ دور، جس سے آپ کو سابقہ پیش آ رہا ہے، کوئی بہت لمبا دور نہیں ہے بلکہ اس تنگی کے ساتھ ہی ساتھ فراخی کا دور بھی لگا چلا آ رہا ہے۔ یہ وہی بات ہے جو سورۃ ضحیٰ میں اس طرح فرمائی گئی تھی کہ آپ کے لیے ہر بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہوگا اور عنقریب آپ کا رب آپ کو وہ کچھ دے گا جس سے آپ کا دل خوش ہوجائے گا۔


آخر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ابتدائی دور کی ان سختیوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت آپ کے اندر ایک ہی چیز سے پیدا ہوگی اور وہ یہ ہے کہ جب آپ مشاغل سے فارغ ہوں تو عبادت کی مشقت و ریاضت میں لگ جائیں اور ہر چیز سے بےنیاز ہو کر صرف اپنے رب سے لو لگائیں۔ یہ وہی ہدایت ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سورۃ مزمل میں بھی دی گئی ہے۔