سورۃ الضحی: زمانہ نزول، موضوع اور مضمون - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

 نام :  پہلے ہی لفظ والضحٰی کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔


زمانۂ نزول :


اس کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔ روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مدت تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا تھا جس سے حضور سخت پریشان ہوگئے تھے اور بار بار آپ کو یہ اندیشہ لاحق ہو رہا تھا کہ کہیں مجھ سے کوئی ایسا قصور تو نہیں ہوگیا جس کی وجہ سے میرا رب مجھ سے ناراض ہوگیا ہے اور اس نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ اس پر آپ کو اطمینان دلایا گیا کہ وحی کے نزول کا سلسلہ کسی ناراضی کی بنا پر نہیں روکا گیا تھا، بلکہ اس میں وہی مصلحت کارفرما تھی جو روز روشن کے بعد رات کا سکون طاری کرنے میں کارفرما ہے۔ یعنی وحی کی تیز روشنی اگر آپ پر برابر پڑتی رہتی تو آپ کے اعصاب اسے برداشت نہ کرسکتے۔ اس لیے بیچ میں وقفہ دیا گیا تاکہ آپ کو سکون مل جائے۔ یہ کیفیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت کے ابتدائی دور میں گزرتی تھی جبکہ ابھی آپ کو وحی کے نزول کی شدت برداشت کرنے کی عادت نہیں پڑی تھی، اس بنا پر بیچ بیچ میں وقفہ دینا ضروری ہوتا تھا۔ (نزول وحی کا کس قدر شدید بار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعصاب پر پڑتا تھا اس کے لیے دیکھیے مضمون سورۃ مدثر اور مطالعہ کیجیے سورۃ مزمل) بعد میں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر اس بار کو برداشت کرنے کا تحمل پیدا ہوگیا تو طویل وقفے دینے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔


موضوع اور مضمون :


اس کا موضوع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے اور مقصد اس پریشانی کو دور کرنا ہے جو نزول وحی کا سلسلہ رک جانے سے آپ کو لاحق ہوگئی تھی۔ سب سے پہلے روز روشن اور سکون شب کی قسم کھا کر آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ آپ کے رب نے آپ کو ہرگز نہیں چھوڑا ہے اور نہ وہ آپ سے ناراض ہوا ہے۔ اس کے بعد آپ کو خوشخبری دی گئی ہے کہ دعوت اسلامی کے ابتدائی دور میں جن شدید مشکلات سے آپ کو سابقہ پیش آ رہا ہے یہ تھوڑے دنوں کی بات ہے۔ آپ کے لیے ہر بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہوتا چلا جائے گا اور کچھ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی عطا و بخشش کی ایسی بارش کرے گا جس سے آپ خوش ہوجائیں گے۔ یہ قرآن کی ان صریح پیشینگوئیوں میں سے ایک ہے جو بعد میں حرف بحرف پوری ہوئیں، حالانکہ جس وقت یہ پیشینگوئی کی گئی تھی اس وقت کہیں دور دور بھی اس کے آثار نظر نہ آتے تھے کہ مکہ میں جو بےیار و مددگار انسان پوری قوم کی جاہلیت کے مقابلے میں برسر پیکار ہوگیا ہے اسے اتنی حیرت انگیز کامیابی نصیب ہوگی۔


اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا ہے کہ تمہیں یہ پریشانی کیسے لاحق ہوگئی کہ ہم نے تمہیں چھوڑ دیا ہے اور ہم تم سے ناراض ہوگئے ہیں۔ ہم تو تمہارے روز پیدائش سے مسلسل تم پر مہربانیاں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تم یتیم پیدا ہوئے تھے، ہم نے تمہاری پرورش اور خبر گیری کا بہترین انتظام کردیا۔ تم ناواقف راہ تھے، ہم نے تمہیں راستہ بتایا۔ تم نادار تھے، ہم نے تمہیں مالدار بنایا۔ یہ ساری باتیں صاف بتا رہی ہیں کہ تم ابتدا سے ہمارے منظور نظر ہو اور ہمارا فضل و کرم مستقل طور پر تمہارے شامل حال ہے۔ اس مقام پر سورۃ طٰہٰ آیات 37 تا 42 کو بھی نگاہ میں رکھا جائے جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون جیسے جبار کے مقابلہ میں بھیجتے وقت اللہ تعالیٰ نے ان کی پریشانی دور کرنے کے لیے انہیں بتایا ہے کہ کس طرح تمہاری پیدائش کے وقت سے ہماری مہربانیاں تمہارے شامل حال رہی ہیں، اس لیے تم اطمینان رکھو کہ اس خوفناک مہم میں تم اکیلے نہ ہو گے بلکہ ہمارا فضل تمہارے ساتھ ہوگا۔


آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا ہے کہ جو احسانات ہم نے تم پر کیے ہیں ان کے جواب میں خلق خدا کے ساتھ تمہارا برتاؤ کیا ہونا چاہیے، اور ہماری نعمتوں کا شکر تمہیں کس طرح ادا کرنا چاہیے۔