30۔ سورۃ الروم : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


30۔ سورۃ  الروم  کا تعار ف اور مطالب کا تجزیہ
١۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
یہ سورۃ، سابق سورۃ۔ عنکبوت۔ کا مثنی ہے اور دونوں کا قرآنی نام بھی ایک ہی یعنی الم ہے۔ اس وجہ سے دونوں کے عمود میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ پچھلی سورۃ میں ظاہری حالات کے علی الرغم مسلمانوں کو نصرتِ الٰہی اور غلبہ کی بشارت دی گئی ہے اور اس بشارت کی بنیاد اس حقیقت پر رکھی گئی ہے کہ اس کارخانۂ کائنات کو اللہ تعالیٰ نے بالحق پیدا کیا ہے۔ وہ وحدہ لاشریک ہے۔ تمام امرونہی اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ اس دنیا میں بھی اپنے رسول اور اپنے ساتھیوں کو غلبہ بخشے گا اور اس دنیا کے بعد آخرت بھی ہے جس میں اس کے کامل حق و عدل کا ظہور ہوگا۔ اس وقت باطل یکسر نابود ہوجائے گا اور حق و اہل حق کو ابدی بادشاہی حاصل ہوگی۔
یہ مسائل مشرکین مکہ اور مسلمانوں کے درمیان زیرِ بحث ہی تھے کہ اسی اثناء یعنی ٢١٤؁ء میں پڑوس کے ملک یعنی شام اور فلسطین میں یہ انقلاب پیش آیا کہ مجوسیوں نے حملہ کرکے رومیوں کو وہاں سے بے دخل کردیا۔ رومی چونکہ نصرانیت کے پیرو تھے اس وجہ سے دین و عقیدہ کے اعتبار سے وہ مسلمانوں سے قریب تھے اور اس قربت کے سبب سے قدرتی طور پر مسلمانوں کو ان سے ہمدردی تھی۔ اس کے برعکس مجوسیدین شرک کے پیرو تھے اس وجہ سے مشرکین کی تمام ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں۔ مجوسیوں کے ہاتھوں رومیوں کی اس شکست سے مشرکین مکہ کو بڑی شہ ملی۔ اس کی آر میں انہوں نے قرآن کی ان تمام باتوں کا مذاق اڑانا شروع کردیا جو ان کی خواہشوں کے خلاف تھیں۔ مثلاً یہ کہ مسلمان جو یہ کہتے ہیں کہ دینِ توحید ہی حق ہے یا مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوگا یا قیامت آنے والی ہے جس میں حق کا بول بالا ہوگا، یہ سب باتیں ان کی محض لا یعنی ہیں۔ اگر ان کی یہ باتیں سچی ہوتیں تو بھلا مجوسیوں کو رومیوں پر کس طرح غلبہ حاصل ہوتا ! یہ واقعہ تو اس بات کی صاف شہادت ہے کہ ہمارا ہی دین و عقیدہ اور ہمارا ہی نظر یۂ زندگی صحیح ہے اور ہم ہی غالب و حاکم رہیں گے۔
قرآن نے اس سورۃ میں اسی واقعہ کو بنیاد بنا کر ان تمام حقائق کو ازسرِ نو مبرہین کیا ہے جن کو مشرکین نے مشتبہ بنانے کی کوشش کی۔
اس سورۃ کا نظام سمجھنے کے لئے اگرچہ یہ تمہید بھی کافی ہے لیکن ہم سہولت کے لئے مطالب کا تجزیہ بھی کیے دیتے ہیں۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(٧٠١) رومیوں اور مجوسیوں کے واقعہ کی طرف ایک اجمالی اشارہ اور اس حقیقت کا اظہار کہ اس دنیا میں قوموں کے ردّو و بدل کے جو واقعات پیش آتے ہیں وہ اتفاقی واقعات کے طور پر نہیں پیش آتے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایک مبنی برعدل سنت کے تحت ظہور میں آتے ہیں لیکن اس سنت تک ان لوگوں کی نگاہیں نہیں پہنچ سکتیں جو صرف اس دنیا کے ظواہر کو دیکھنے کے عادی ہیں۔
ّ(١٨٠٨) اس دنیا کے نظام اور اس کی تاریخ پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اس حقیقت کا اعتراف کرے گا کہ اس کے خالق نے اس کو کھیل تماشہ نہیں بنایا ہے اس وجہ سے یہ لازماً جزا و سزا پر منتہی ہوگی۔ قوموں کی تاریخ سے بھی یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ ان کے کردار کے مطابق معاملہ کیا ہے اس وجہ سے قیامت ناگزیر ہے۔ جو لوگ اس کا انکار کر رہے ہیں وہ ایک بدیہی حقیقت کا انکار کر رہے ہیں۔ جب قیامت آئے گی تو اس دن اہلِ ایمان کو فلاح حاصل ہوگی اور اہلِ کفر نامراد ہوں گے۔ جن لوگوں نے شرکاء و شفعاء بنا رکھے ہیں وہ نہایت ہی غلط سہارے پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قیامت کے دن یہ شفعاء بالکل بے حقیقت ثابت ہوں گے۔ عبادت و اطاعت کا اصلی حقدار اللہ ہے۔ اسی کی حمدو تسبیح اس کائنات کی ہر چیز کر رہی ہے۔ اس وجہ سے انسانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ صبح و شام اسی کی تسبیح کریں۔
(١٩۔ ٢٩ ) قیامت اور توحید کے آفاقی وانفسی دلائل
(٣٠۔ ٤٥ ) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ (رض) کو اصل دینِ فطرت پر قائم رہنے اور اسی کی دعوت دینے کی تاکید۔ اس دین کی بنیاد نماز اور زکوٰۃ پر ہے۔ جن لوگوں نے اس دین فطرت کو بگاڑا ہے ان کو زجرو تنبیہ کہ اب ان کے محاسبہ کا وقت آگیا ہے، وہ پچھلی قوموں کی تاریخ سے سبق ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ تم صبر کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہو اور فیصلہ کے دن کا انتظار کرو۔
(٤٦۔ ٦٠ ) اللہ تعالیٰ کے وعدۂ نصرت کے ظہور کے جو دلائل و آثار تاریخ و آفاق میں موجود ہیں ان کی طرف اشارہ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ تم اپنی دعوت انہی لوگوں کے دلوں میں اتار سکتے ہو جو سننے سمجھنے والے ہیں۔ اس وجہ سے ان لوگوں کے رویہ سے بددل نہ ہو جو اندھے بہرے بن چکے ہیں۔ سوچنے سمجھنے والوں کے لئے یہ قرآن کافی ہے۔ باقی رہے ضدی اور ہٹ دھرم تو ان کو کوئی معجزہ بھی قائل نہیں کرسکتا۔ تم صبر کے ساتھ اپنا کام کئے جائو۔ اللہ کا وعدہ نصرت پورا ہو کر رہے گا ۔