29۔ سورہ العنکبوت : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


29۔ سورہ العنکبوت کا تعارف اور مضامین کا تجزیہ
ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
اس سورۃ کا آغاز ان لوگوں کو مخاطب کرکے ہوا ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے جرم میں ستائے جا رہے تھے۔ خاص کر نوجوان اور غلام، سورۃ کے نزول کے دور میں، اپنے باپوں اور آقائوں کے ہاتھوں بڑی سخت آزمائش کے دور سے گزر رہے تھے۔ قدرتی طور پر اس صورتِ حال نے کمزور ارادے کے لوگوں کے اندر بہت سے سوالات قرآن اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت سے متعلق پیدا کردیے۔ جن کا برسرِ موقع جواب دیا جانا ضروری ہوا۔ تاکہ مظلوموں اور کمزوروں کی ہمت افزائی بھی ہو اور جو لوگ خدا کی ڈھیل کو اپنی فتح سمجھ کر ظلم وستم میں بالکل بے باک ہوتے جا رہے تھے ان کو بھی تنبیہ ہو۔
حالات کے تقاضے سے اس میں ہجرت کی طرف بھی اشارات ہیں اور مظلوم مسلمانوں کو یہ رہنمائی دی گئی ہے کہ انہیں بہرحال ظلم کے آگے سپر نہیں ڈالنی چاہیے۔ اگر حق کی خاطر انہیں اپنے وطن کو چھوڑ نا پڑجائے توا سکے لئے بھی انہیں تیار رہنا چاہیے۔ نہ خدا کی زمین تنگ ہے اور نہ اس کے خزانہ رزق میں کمی ہے۔ جو لوگ خدا کی راہ میں ہجرت کریں گے خدا ان کے لئے خود اپنا دامنِ رحمت پھیلائے گا اور ان کی ساری ضروریات کا کفیل ہوگا۔
پچھلی سورۃ میں اہل کتاب کی مخالفت کی طرف بعض اشارات گزرے ہیں۔ اس سورۃ میں ان کی مخالفت کھل کر سامنے آگئی ہے اور اس وجہ سے مسلمانوں کو یہ رہنمائی بھی دی گئی ہے کہ اہل کتاب کے ساتھ بحث میں ان کو کیا روش اختیار کرنی چاہیے۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(١۔ ٧) اس حقیقت کی طرف اشارہ کہ حق کی راہ میں آزمائشیں لازماً پیش آتی ہیں۔ یہی پہلے بھی ہوا ہے اور یہی آئندہ بھی ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سنت ہے۔ اسی سے مومن و منافق میں امتیاز ہوتا ہے۔ البتہ آج جن لوگوں کو اللہ نے ڈھیلی دے رکھی ہے اور اس بات کو یاد رکھیں کہ وہ خدا کی گرفت سے باہر نہیں نکل سکتے اور جو لوگ ظلم و ستم کا ہدف بنے ہوئے ہیں وہ یہ یقین رکھیں کہ آج ایمان کی راہ میں جو دکھ وہ جھیل رہے ہیں ان سے کہیں بڑھ کر وہ اس کا صلہ پانے والے ہیں۔
(٧۔ ١٣) والدین اور بزرگوں کی اطاعت کے حددد کی وضاحت کہ ان کی اطاعت خدا کی اطاعت کے تحت ہے اس وجہ سے اگر کسی کے ماں باپ اس سے خدا کی نافرمانی کا مطالبہ کریں توا س معاملے میں ان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ خدا کے ہاں کوئی دوسرے کے اعمال کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ ہر شخص کو اپنے اعمال کی جواب دہی کو خود کرنی ہے۔
ّ١٤۔ ٤٠ ) حضرت نوح ( علیہ السلام)، حضرت ابراہیم ( علیہ السلام)، حضرت لوط ( علیہ السلام) اور مدین، عاد، ثمود، قارون، فرعون اور ہامان کے واقعات کی طرف اجمالی اشارہ جس سے مقصود انہی باتوں کی تاریخ کی روشنی میں مدلل کرنا ہے جو تمہید میں مذکورہ ہوئی ہیں۔ یعنی
٭ حق کی راہ میں امتحان کے مراحل سے گزرنا اللہ تعالیٰ کی ایک مقرر کردہ سنت ہے۔
٭ حق کے مقابل میں رشتوں، قرابتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سب سے بڑا حق اللہ کا ہے۔
٭ جو لوگ اللہ کے بندوں اور بندیوں کو فتنوں میں ڈالتے ہیں وہ خدا کی گرفت سے باہر نہیں جاسکتے۔
(٤١۔ ٤٥ ) ان لوگوں کے زور و اثر کی تمثیل جو دوسرے سہاروں کے بل پر خدا کے حریف بن کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ فرمایا کہ ان لوگوں کی تمام سعی و تدبیر کی مثال مکڑی کے جالے کی ہے جس سے زیادہ کمزور اور بے بنیاد تعمیر کوئی بھی نہیں ہے۔ ان کے مزعومہ شرکاء وشنعار کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ دنیا کوئی بازیچہ اطفال نہیں ہے بلکہ ایک غایت و حکمت کے ساتھ خدا نے اس کو بنایا ہے اور وہ غایت و حکمت ایک دن لازماً ظہور میں آئے گی۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کہ تم تمام مخالفتوں سے بے پروا ہو کر لوگوں کو اللہ کی کتاب سنائو اور نماز کا اہتمام کرو۔ اسی نماز کے اندر اہلِ ایمان کے لئے تمام شرورآفات سے امان اور یہی طاقت کی اصلی خزانہ ہے۔
(٤٦۔ ٥٢ ) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر اہل کتاب کے بعض اعتراضات کو جواب۔ ان کے ساتھ بحث میں مسلمانوں کو جو روش اختیار کرنی چاہیے اس کی ہدایت۔ اچھے اہل کتاب کی تحسین۔ جو لوگ کسی معجزہ کا مطالبہ کر رہے تھے ان کو جواب۔
(٥٣۔ ٥٥ ) عذاب کے لئے جلدی مچانے والوں جو جواب اور اس بات میں اللہ تعالیٰ کی جو سنت ہے اس کی وضاحت۔
(٥٦۔ ٦٠ ) جو مسلمان ایمان لانے کے جرم میں کفار کے ہاتھوں ستائے جا رہے تھے ان کو ہجرت کی ہدایت اور دنیا وآخرت دونوں میں ان کو فوز و فلاح کی بشارت۔

ّ(٦١۔ ٦٩ ) خاتمۂ سورۃ جس میں خود مشرکین کے مسلّمات سے ان پر توحید کے باب میں حجّت قائم کی گئی ہے اور ساتھ ہی ان کی ملامت کی گئی ہے کہ اس سرزمین میں تمہیں امن و رفاہیت تو خدا کے حرم کی بدولت حاصل ہوئی لیکن تم خدا کی نعمت ک ناشکری کر رہے ہو اور عین خدا کے حرم میں میں بیٹھ کر اپنے خود تراشیدہ معبودوں کے گن گار رہے ہو۔ ان کی اس ناشکرکی کا جو انجام ان کے سامنے آنے والا ہے اس کا بیان اور اہلِ حق کو خدا کی مددو نصرت کی بشارت جوا س تاریک ماحول میں حق کا نور پھیلانے کے لئے جدوجہد کر رہے تھے ۔