31۔ سورہ لقمان : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


31۔ سورہ لقمنٰ کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ
١۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
دونوں سابق سورتوں…العنکبوت اور الروم…کی طرح اس سورۃ کا قرآن نام بھی الم ہی ہے۔ یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ ان کے عمود و مضمون میں فی الجملہ اشتراک ہے۔ اس سورۃ کی تمہید میں بھی بتایا گیا ہے کہ کس قسم کے لوگ اس برکت ورحمت سے فائدہ اٹھائیں گے اور کون لوگ اس سے محروم رہیں گے۔
سابق سورۃ میں یہ حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ یہ قرآن اس دینِ فطرت کے دعوت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اور اس دعوے پر آفاق وانفس کے دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ اس سورۃ میں آفاق وانفس کے دلائل کے ساتھ ساتھ عرب کے مشہور حکیم…لقمان…کے نصائح کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کا مقصودِ اہل عرب پر یہ واضح کرنا ہے کہ ان کے اندر جو صحیح فکر و دانش رکھنے والے لوگ گزرے ہیں انہوں نے بھی انہی باتوں کی تعلیم دی ہے جن باتوں کی تعلیم یہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دے رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عقل سلیم (Common Sense) انہی باتوں کے حق میں ہے جو قران میں بیان ہوئی ہیں، نہ کہ ان باتوں کے حق میں جن کی وکالت قرآن کے مخالفین کر رہے ہیں۔ یہ اس بات کا نہایت واضح ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اصل فطرت یہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ سوچنے سمجھنے والے لوگ ان حقائق تک کس طرح پہنچتے ؟
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ مغربی فلاسفہ جب اخلاقیات پر بحث کرتے ہیں تو اس کی بنیاد وہ عقلِ عام کے معروف اخلاقی مسلمات (Common Sense Ethics) ہی پر رکھتے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کہ یہ اخلاقی مسلمات کہاں سے پیدا ہوگئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ یہ کہ وہ ایک حکیم فاطر اور فطرۃ اللہ کو تسلیم کرنے سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔ اس حقیقت سے گزریر کی سزا ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ دی کہ ان کا سارا فلسفۂ معین کر سکیں اور نہ وہ یہ بتا سکے کہ کیوں انسان کو نیکی کرنی چاہیے اور کیوں بدی سے بچنا چاہیے۔ سود مندی، لذت، خوشی اور فرض برائے فرض وغیرہ کی قسم کے جتنے نظریات بھی انہوں نے ایجاد کیے سب پادر ہوا ثابت ہوئے اور خود انہی نے ان کے بخے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ قرآن نے نہ صرف اخلاقیات کی بلکہ پورے دین کی بنیاد فطرت پر رکھی ہے اور یہ فطرت چونکہ ایک حکیم فاطر کی بنائی ہوئی ہے اس وجہ سے کسی کے لئے اس سے انحراف جائز نہیں ہ۔ جو شخص اپنے فطرت سے انحراف اختیار کرے گا وہ اپنے آپ کو تباہ اور پنے فاطر کو ناراض کریگا۔ انسان کی رہنمائی کے لئے اس کی فطرت اپنے اندر حقائق و معارف کا خزانہ رکھتی ہے لیکن انسان اپنے ماحول سے متاثر ہو کر بگڑ بھی سکتا ہے اور اپنے اختیار سے غلط فائدہ اٹھا کر اپنی فطرت کی خلاف ورزی بھی کرسکتا ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ے اپنے نبیوں اور اپنی کتابوں کے ذریعے سے فطرت کے تمام مضمرات واضح کردیے تاکہ کسی کے لئے کسی التباس واشتباہ کی گنجائش باقی نہ رہ جائے۔ بلکہ ہر شخص فطرت کی سیدھی راہ پر چل کر دنیا کی فورزو فلاح اور آخرت میں اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرسکے۔
اس سورۃ میں لقمان کی حکمت کے حوالے سے مقصود، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، قرآن کی تائید میں ایک ایسے حکیم کی شہادت پیش کرنا ہے جس نے زندگی کے حقائق پر غور کیا تھا اور جو قرآن کے مخالفین کے نزدیک بھی نہایت رہی بلند پایا اور واجب الاحترام حکیم سمجھا جاتا رہا ہے۔ ساتھ ہی اس میں قرآن کی دعوت کی تائید میں آفاق وانفس کے دلائل ایک نئے اسلوب سے پیش کیے گئے ہیں۔


ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
یہ کتاب ایک پُر حکمت کتاب ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت و رحمت بن کر نازل ہوئی ہے لیکن اس کا فیض انہی لوگوں کو پہنچے گا جو اپنی فطرت کی صلاحتیں زندہ رکھنے، اور ان سے کام لینے والے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو اس حکیمانہ کلام پر مخالفین کی مز خوف باتوں کو ترجیح دیتے اور اس سے متکبرانہ اعراض کررہے ہیں تو وہ اپنے اس اشکبار کی پاداش میں ذلت کے عذاب سے دور چار ہوں گے، عزت و سرفرازی صرف اس پر ایما لانے والوں ہی کو حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ شدنی ہے اس لئے کہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب خدا ہی کی مخلوق ہے، کسی اور کی اس میں کوئی حصہ داری نہیں ہے۔ جولوگ مدعی ہیں کہ اس میں کسی اور کی بھی حصہ داری ہے وہ دکھائیں کہ ان کے معبودوں نے کیا پیدا کیا ہے۔
(١٢۔ ١٩) لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی ہے اس کا حوالہ، جس سے مقصود یہ دکھانا ہے کہ اہلِ عرب جس کی حکمت پر فخر کرتے اور جس کی روایات ان کے لٹریچر میں موجود ہیں، اس نے بھی اپنے بیٹے کو انہی باتوں کی نصیحت کی تھی جن کی دعوت یہ حکیمانہ کتاب دے رہی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عقلِ سلیم اسی دعوت کے حق میں ہے۔ جو لوگ اس کی مخالفت کررہے ہیں وہ درحقیقت عقلِ سلیم اور فطرت سلیم سے جنگ کر رہے ہیں۔ اس میں ان لوگوں کے لئے خاص طور پر تنبیہ ہے جو اس دور میں، جیسا کہ سورۃ عنکبوت میں گزر چکا ہے، اپنے بیٹھوں کواسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے ان پر ظلم کر رہے تھے۔ گویا قرآن نے یہ دکھایا ہے کہ لقمان اپنے بیٹے کو جن باتوں پر کاربندہونے کے لئے اس دل سوزی سے نصیحت کرتے تھے آج انہی باتوں سے روکنے کے لئے باپوں کی طرف سے بیٹوں پر ستم ڈھائے جا رہے ہیں۔
(٢٠۔ ٢٤ ) تمہید کے مضمون کی تائید کہ جتنی ظاہری و باطنی نعمتیں انسان کو ملی ہوئی ہیں وہ ہیں تو سب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ، اس حقیقت سے کسی کے لئے انکار کی گنجائش نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود بہت سے نادان لوگ اللہ کی توحید کے باب میں جھگڑرہے ہیں حالانکہ نہ ان کے پاس کوئی دلیل ہے، نہ کسی حکیم یا کسی پیغمبر کی رہنمائی اور نہ کسی کتاب الٰہی کی روشنی اور جب ان کو اللہ کی کتاب کی پیروی کی دعوت دی جاتی ہے تو بڑے پندار کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے چریقے کی پیروی کرتے رہیں گے اگرچہ ان کے باپ دادا شیطان کی پیروی کرتے رہے ہوں۔ خدا کے ساتھ تعلق کی مضبوط رسی صرف ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو خدا کی اتاری ہوئی کتاب کی پیروی کریں اس لئے کہ بالآخر تمام امور کا فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہے۔ آخر میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ ایسے سرپھرے لوگوں کا غم کھانے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ایک دن ان لوگوں کا انجام ان کے سامنے رکھ دے گا۔
(٢٥۔ ٣٠) مخالفین کی تردید میں خود ان کے اعتراضات کا حوالہ کہ یہ لوگ خود اپنے مسلمان کے لوازم کو تسلیم کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ ان کو اعتراف ہے کہ تمام آسمان و زمین کا خالق اللہ ہی ہے تو جب وہی خالق ہے تو شکر اور عبادت کا حقدار اس کے سوا کوئی اور کس طرح ہوسکتا ہے ؟ ہر چیز اسی کے قبضہ و تصرف میں ہے۔ وہ ہر ایک سے بے نیاز ہے۔ وہ کسی کے ہاتھ بٹانے کا محتاج نہیں اور وہ خود ستودہ صفات ہے اس وجہ سے اس کی نظر عنایت کو متوجہ کرنے کے لئے کسی کی سفارش کی حاجت نہیں۔ اس کی قدرت و حکمت کی اتنی نشانیاں اس کائنات میں موجود ہیں کہ مگر زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور تمام سمندر، مزید سات سمندروں کے اضافے کے ساتھ، روشنائی بن جائیں جب بھی اس کی تمام نشانیوں کو قلم بند کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے تمام خلق کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا ویساہی ہے جیسا ایک جان کو پیدا کردینا۔ رات اور دن سب اسی کے حکم سے گردش کرتے ہیں اور وہ ہر چیز سے پوری طرح باخبرہے۔ اگر اس کائنات کے نظام میں کسی اور کا بھی دخل ہوتا تو یہ درہم برہم ہو کے رہ جاتا۔

(٣١۔ ٣٤) کشتی کی تمثیل سے مخالفین کو تنبیہ کہ ذرا میں اترانے والے اور ذرا میں مایوس ہوجانے والے زنبو بلکہ نعمت میں شکر کرنے والے اور مصیبت میں صبر کرنے والے ہو۔ آج جو کچھ تمہیں حاصل ہے اس کا حق یہ ہے کہ اپنے رب کے شکرگزار بنو اور اس دن کو یاد رکھو جس دن نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کے کام آسکے گا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کے۔ اس دن کا آنا ایک امر قطعی ہے۔ محض اس بنیاد پر اس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ آج تمہیں اس کے ظہور کے وقت نہیں معلوم ہے۔ زندگی کی کتنی حقیقتیں ہیں جن کے ظہور کے وقت کسی کو معلوم نہیں لیکن کوئی عاقل ان کوانکار نہیں کرتا۔ حقیقی علیم و خبیر صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔