32۔سورۃ السجدۃ : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


32۔سورۃ السجدۃ کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ
١۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
یہ سورۃ سابق سورہ…لقمان…کا مثنیٰ ہے۔ دونوں کے عمود میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ قرآنی نام بھی دونوں کا ایک ہی یعنی الم ہے۔ تمہید بھی دونوں کی ایک ہی نوع کی ہے۔ اس کا آغاز اس مضمون سے ہوتا ہے کہ یہ کتاب خداوند عالم کی تاری ہوئی کتاب ہے۔ اس کو اتار کر اللہ تعالیٰ نے ان امی عربوں پر عظیم احسان فرمایا ہے جن کے اندر اب تک کوئی منذر نہیں آیا تھا۔ وہ انتہائی ناشکرے ہوں گے اگر انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اس کے کتاب الٰہی ہونے کے دعوے کو افترار قرار دیا۔ اس کے کتاب الٰہی ہونے میں ذرا شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بعد کلام کا رُخ قرآن کے ان دعاوی کے اثبات کی طرف مڑ گیا ہے جو خاص طور پر مخالفین کی وحشت کا باعث تھے اور جن کے سبب سے وہ اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ آخر میں تورات کا حوالہ ہے کہ اسی طرح کی کتاب، اللہ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پر بھی اتاری تھی جس کی فرعون اور اس کی قوم نے مخالفت کی اور اس کا نہایت برا انجام ان کے سامنے آیا۔ اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ جس طرح تورات کے حاملین کو صبر کے امتحانوں سے گزرنے کے بعد کامیابی حاصل ہوئی اسی طرح تم کو اور تمھارے ساتھیوں کو بھی صبر کے امتحان سے گزرنا پڑے گا۔ اگر تم ان مراحل سے کامیابی سے گزر گئے تو فتح تمہی کو حاصل ہوگی، تمھارے یہ مخالفین بالآخر پامال ہو کر رہیں گے۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(١۔ ٣) یہ قرآن اللہ کی اتاری ہوئی کتاب ہے۔ اس کے کتابِ الٰہی ہونے میں ذرا شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا کی طرف اس کی نسبت ایک افتراء وہے وہ آگاہ رہیں کہ یہ افتراء نہیں بلکہ یہ بالکل حق ہے اور اس کا مقصد لوگوں کو انداز کرنا ہے جن کے اندر کوئی منذراب تک نہیں آیا تھا۔ اگر انہوں نے اس کی قدر نہ کی تو ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو ان قوموں کا ہوچکا ہے جنہوں نے خدا کے منذروں کی تکذیب کی۔
(٤۔ ٩) یہ دنیا کوئی بازیچہ اطفال نہیں بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے نہایت اہتمام سے پیدا کیا ہے اور پیدا کرکے اس نے اس کو چھوڑ نہیں دیا ہے بلکہ براہِ راست وہ اس کا انتظام فرما رہا ہے۔ تمام احکام سی کی طرف سے صادر ہوتے اور پھر اسی کے حضور میں پیش ہوتے ہیں۔ اس کا کوئی دوسرا شریک و شفیع نہیں ہے۔ وہ خود تمام غائب و حاضر کا جاننے والا ہے۔ اس نے انسان کو بہترین صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے لیکن بہت تھوڑے لوگ ہیں جو ان صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے اور خدا کے شکر گزار بنتے ہیں۔
(١٠۔ ١٤) منکرین قیامت کے شبہات کا جواب اور ان کے اصل محرکِ انکار کی طرف اشارہ۔ قیامت کے دن ان کا جو حال ہوگا اس کی تصویر اور اس امر کا بیان کہ اس دن کسی کا قرارء و اعتراف کسی کے لئے کچھ نافع نہ ہوگا۔ حقائق کو آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ان کا ماننا معتبر ہوتا تو اللہ تعالیٰ سب کو ایمان ہی پر پیدا کرتا، پھر یہ عقل و تمیز کی صلاحیتیں دینے اور ان کے امتحان کی کیا ضرور ت تھی !
(١٥۔ ٢٢ ) قرآن پر ایمان لانے والوں کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کہ جو لوگ استکبار سے پاک ہیں اور جن کی نگاہوں میں حق کی عزت ہے وہ اس پر ایمان لائیں گے۔ یہ لوگ اس کی آیات سن کر اپنے سر جھکا دیتے ہیں، راتوں میں اٹھ اٹھ کر اپنے رب کو یاد کرتے اور اس کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنکھوں کی جو ٹھنڈک چھپا رکھی ہے آج ان کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرمانبردار بندوں اور نافرمانوں کے ساتھ ایک ہی معاملہ نہیں کرے گا۔ ان نافرمانوں کو آخرت میں جو سزا ہونی ہے وہ تو ہوگی ہی، اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ ان کو سز ادے گا تاکہ وہ متنبہ ہونا چاہیں تو متنبہ ہوجائیں ۔
(٢٣۔۔۔ ٦ ٢) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ تم سے پہلے اللہ نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو بھی کتاب دی تھی تو جن لوگوں نے اس کو جھٹلایا خدا نے ان سے انتقام لیا۔ اسی طرح اس کتاب کے جھٹلانے والوں سے بھی وہ لازماً انتقام لے گا اور جس طرح بنی اسرائیل کے اندر سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو امامت کا منصب بخشا جو حق پر ثابت قدم رہے اسی طرح وہ تمھارے ساتھیوں کو بھی خلق کی رہنمائی کے منصب پر سرفراز فرمائے گا اگر وہ حق پر مضبوطی سے جمے رہے۔ حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں کی تاریخ کی طرف اجمالی اشارہ کہ تاریخ کی شہادت اسی حقیقت کو ثابت کر رہی ہے بشرطیکہ لوگوں کے پاس سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھیں ہوں۔
(٢٧۔ ٣٠) کفارکو وعید کہ وہ اہلِ حق کے غلبہ کی اس بشارت کو بہت بعید از امکان چیز سمجھتے ہیں اور مذاق سے پوچھتے ہیں کہ یہ فتح کب ظاہر ہوگی ! ان کو جواب کہ جب یہ چیز ظاہر ہوگی تو اس وقت اس کو ماننا ان لوگوں کے لیے ذرا بھی نافع نہ ہوگا جوآج اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس قسم کے کج فہموں سے اعراض کی ہدایت کہ اگر یہ لوگ فیصلہ کے دن ہی کے متنظر ہیں تو تم بھی ان کا پیچھا چھوڑو اور اسی ک انتظار کرو۔