33۔ سورہ الاحزاب : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


33۔ سورہ الاحزاب کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ
١۔ سورۃ کا عمود، گروپ کے ساتھ اس کا تعلق اور زمانہ نزول
جس طرح سورۃ نور اپنے گروپ کے آکرمیں پورے گروپ کے تکملہ وتتمہ کی حیثیت رکھتی ہے اسی طرح سورۃ احزاب اپنے پورے گروپ کا جو فرقان سے شروع ہواہے، تکملہ و تتمہ ہے۔ یہ گروپ، جیسا کہ ہم واضح کرچکے ہں، قرآن و رسالت کے اثبات میں ہے۔ اس تعلق سے اس سورۃ میں چند باتیں خاص طور پر نمایاں ہوئی ہیں۔
٭ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بحیثیت رسول جو ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی تھی اس کی وضاحت اور بے کوف لومتہ لائم اس کو ادا کرنے کی تاکید۔
٭ انبیاء و رسل کے طبقہ کے اندر آپ کو جو امتیاز خاص اور جو مرتبہ و مقام حاصل ہے اس کا بیان۔
٭ امت کے ساتھ آپ کے تعلق کی نوعیت اور امت پر آپ کے حقوق اور ان کے مقتضیات کی وضاحت۔
٭ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات (رض) کا درجہ امت کے اندر اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ان کے تعلق کی مخصوص نوعیت۔
٭ اس عظیم امانت کا حوالہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر ڈالی گئی ہے اور جس کی وضاحت کے لئے اللہ نے اپنی کتاب نازل فرمائی ہے۔ اس عظیم ذمہ داری کے حقوق و فرائض کی یاد دہانی۔
یہ سورۃ اس دور میں نازل ہوئی ہے جب منافقین و منافقات نے قرآن کی بعض اصلاحات کو بہانہ بنا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف پر اپیگنڈے کی ایک نہایت مکروہ مہم چلا رکھی تھی۔ یہاں تک کہ ازواج مطہرات (رض) کے ذہن کو بھ یانہوں نے مسموم کرنے ی کوشش کی۔ اس میں ان فتنوں کی طرف بھی اشارات ہیں جو مناقین نے غزوہ احزاب کے دوران، جو ٥ ھ ؁ میں واقع ہوا، مسلمانوں کو بددل کرنے کے لئے اٹھائے۔ اسی سلسلہ میں حضرت زید (رض) اور حضرت زینب (رض) کے واقعہ کی اصلی نوعیت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اس اس لئے کہ اس واقعہ کو بھی وقعہ افک کی طرح جس کا ذکر سورۃ نور میں گزر چکا ہے، منافین نے فتنہ انگیزی کا ذریعہ بنا لیا تھا۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(١۔ ٣) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس امر کی تاکید کہ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے آپ پر جو کچھ نازل کیا تھا بے خوف لومتہ لائم اس کی تبلیغ کریں اور کفارو منافقین کے مخالفانہ غوغا کی مطلق پروانہ کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا مددگار و کارساز ہے، اس پر بھروسہ رکھیں۔
(٤۔ ٦) ظہار اور منہ بولے بیٹے کے معاملے میں رسومِ جاہلیت کی اصلاح کہ ان رسوم کو عقل و فطرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مخالفین اس اصلاح کے خلاف کتنا ہی ہنگامہ اٹھائیں، ان کے شوروغوغا کی کوئی پروانہ کی جائے۔ یہ لوگوں کی مند گھڑے بدعات ہیں۔ اللہ تعالیٰ معاشرتی زندگی کی ان تضادات سے پاک کرے اس کو فطرت کو صحیح راپ ہر لانا چاہتا ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کی ہدایت کہ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں سے منسوب کرو۔ اگر ان کے باپوں کا علم نہ ہو تو انکو اپنے واملی کے درجہ میں رکھو، اپنے صلبی بیٹیوں کو درجہ دینے کی کوشش نہ کرو۔ اب تک رسومِ جاہلیت کے زیر اثر جو کچھ ہوا ہے اس سے اللہ تعالیٰ نے درگزر فرمایا لیکن اب، اس وضاحت کے بعد، اس کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ اسلامی معاشرے میں سب سے اونچا درجہ اور سب سے بڑا حق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے۔ اور ازواج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا درجہ امہات المومنین کا ہے۔ باقی اولوالارحام کا باہمی قرب وبعد اس قانون کے مطابق ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں بیان کردیا ہے۔
(٧۔ ٨) اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر نبی سے اس بات کا مضبوط عہد کرلیا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کے دین کی دعوت دیں۔ اس معاملہ میں نہ کسی کا پاس کا پاس و لحاظ کریں نہ کسی کی مخالفت کی پروا تاکہ یہ چیز کھرے اور کھوٹے، مخلص اور منافق کے درمیان امتیاز کی کسوٹی نے ور ہر شخص اپنے عمل کے مطابق جزا یا سزا پائے۔
(٩۔ ٢٧ ) غزوہ احزاب کے واقعات پر اجمالی تبصرہ جس سے مقصود دونوں کے اندر اس اعتماد علی اللہ اور توکل کو راسخ کرنا ہے جس کی تعلیم پہلی آیت میں دی گئی ہے۔ باوجودیکہ کفار اپنی تمام پارٹیوں کی مجتمعہ قوت کے ساتھ، مدینہ پر پل پڑے تھے اور منافین نے بھی اپنی رشتہ دوایوں اور سازشوں سے مسلمانوں کے قدم اکھاڑ دینے کے لے پورا زور لگا یا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی غیبی فوجوں سے مسلمانوں کی مدد کی اور دشمنوں کو ذلیل و خواہ ہو کر پسپا ہونا پڑا۔ اسی طرح اگر مسلمان مخالفوں کی مخالفت علی الرغم اللہ کے دین پر قائم اور اس کے رسول کے وفا ار و جان نثار رہے تو اللہ تعالیٰ ہر محاذ پر ان کی مدد فرمائے گا۔
(٢٨۔ ٣٥) مسلمانوں کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت پر مجتمع کرنے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج (رض) کی خطاب کرکے ان پر ان کی منصبی ذمہ داریاں واضح فرمائی گئی ہیں کہ رسول کے ساتھ نسبت رکھنے کے سبب سے ان کے درجے بھی بہت اونچے ہیں اگر وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گی، اور ان کے لئے سزا بھی بڑی ہی سخت ہے اگر ان سے کوئی حکم عدولی صادر ہوئی۔ ان کا اصلی فریضہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و وفاداری اور اس کتاب وحکمت کی روشنی کو پھیلانا ہے جس کی تعلیم ان کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مل رہی ہے۔ اس وجہ سے ان کے شایانِ شان بات یہ ہے کہ وہ وقار کے ساتھ اپنے گھروں میں بیٹھیں اور ان منافقین و منافقات کے اثر سے اپنے کو بچائیں جو ان کی کریم النفسی سے فائدہ اٹھا کر ان کے دلوں میں محبت دنیا کی تخم ریزی کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اہلِ بیت نبوت کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک اور صرف کتاب و حکمت کی تعلیم و دعوت کے لئے خاص رکھے۔
(٢٦۔ ٤٠ ) حضرت زید (رض) اور حضرت زینب (رض) کے واقعہ کی طرف ایک اجمالی اشارہ جس میں سب سے پہلے یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ جب کسی معاملہ میں اللہ و رسول کوئی فیصلہ صادر فرما دیں تو کسی مومن یا مومنہ کے لئے اس میں کسی چون و چرا کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ اللہ و رسول کا حق سب سے بڑا ہے۔ اس کے بعد حضرت زید (رض) کے واقعہ کا حوالہ ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) کے ساتھ ان کا نکاح کرکے ان کی عزت افزائی چاہی لیکن وہ نباہ نہ کرسکے اور آپ کی طرف سے بامرا اد کے جانے کے باوجود انہوں نے طلاق دے چھوڑی۔ یہ نکاح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی نے کرایا تھا جس کے بعد منافقین اور منافقات برابر حضرت زینب (رض) کو یہ طعنہ دیتے رہے تھے کہ محمد و نے یہ سخت ظلم کیا ہے کہ ایک معزز گھرانے کی خاتون کا عقد ایک آزاد کردہ غلام سے کردیا ہے۔ ان طعنوں کے باوجود حضرت زینب (رض) نہایت صبر وشکر کے ساتھ حجرت زید (رض) کے ساتھ نباہ کرتی رہیں۔ لیکن حضرت زید (رض) نے محض اپنے ذاتی احساس کی بنا پر، جس کی تفصیل تفسیر میں آئے گی، ان کو طلاق دے دی۔ اس سے فطری طور پر حضرت زینب (رض) کو مزید صدمہ پہنچا۔ ان کے اس زخم کے اندمال کی واحد شکل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ نظر آئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ان کو اپنے حبالہء عقد میں لے لیں لیکن اس سے ایک اور فتنہ کے اُٹھ کھڑے ہونے کا اندیشہ تھا۔ حضرت زید (رض) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متنبی کی حیچیت سے متعارف تھے اور متنبی عرب جاہلیت میں حقیقی بیٹوں کی منزلت میں سمجھا جاتاتھا۔ حضرت زینب (رض) کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح کو مخالفین فتنہ انگیزی کا ذریعہ بناتے کہ اس شخص نے اول تو ایک شریف زادی کا نکاح اپنے ایک آزاد کردہ غلام سے کیا جس کو اپا متنبی بنا رکھا تھا اور اب اپنے متنبی کی بیوی سے خود نکاح رچا لیا۔ علاوہ ازیں، ازواج کے باب میں چار تک کی تحدید کا حکم نازل ہوچکا تھا اس وجہ سے بھی آپ اس معاملے میں متردور ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان تمام اندیشوں سے بے پروا ہو کر یہ نکاح کرلیں تاکہ آپ کے عمل سے جاہلیت کی اس رسمِ بد کی اصلاح ہو۔
(٤١۔ ٤٨ ) مسلمانوں کو یہ ہدایت کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رکھیں۔ نبی و کی بعثت کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت ان پر نازل ہوئی تاکہ انہیں کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکل کر ایمان واسلام کی روشنی میں آنا نصیب ہو۔ اگر اس روشنی کی انہوں نے قدر کی تو ان کو دنیا اور آخرت دونوں کی سعادت حاصل ہوگی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فریضہ منصبی کی یاددہانی کہ آپ خلق کے لئے اللہ کے دین کی شہادت دینے والے ہیں، جو اس کو قبول کریں ان کو جنت کی بشارت دیں، جو اس کو رد کریں ان کو دوزخ سے آگاہ کردیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے داعی اوعر خلق کو کفر وشرک کی تاریکیوں سے نکالنے کے لئے چراغ ہدایت ہیں۔ اس فرض کی ادائیگی میں آپ برابر سرگرم رہیں۔ کفار و منافقین کی مخالفتوں اور ان کی ایزا رسانیوں کو خاطر میں نہ لائیں۔
(٤٩۔ ٥٢ ) اس امر کا اعلان کہ آپ کی تمام ازواج آپ کے لئے جائز ہیں۔ آپ پر چار کی قید اور وہ پابندیاں نہیں ہیں جو عام امت کے لئے قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔ البتہ بعض دوسری پابندیاں ہیں جو عام امت پر نہیں ہیں۔ اس خصوصیت کے بعض مصالح کی طرف اشارہ۔ ازواج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس فیصلہ الٰہی کی تعمیل کی ہدایت۔ منافقین کو تنبیہ کہ وہ ازواجِ نبی (رضی اللہ عنہم) کے معاملے میں ریشہ دوانیاں کرکے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اذیت کا سبب نہ بنیں۔
(٥٣۔ ٦٢ ) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں میں بدون اجازت داخل ہونے کی ممانعت۔ گھروں سے باہر نکلنے کی صورت میں آپ کی ازواج اور عام مسلمان خواتین کے لئے پردے کی ہدایت تاکہ منافقین کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذا رسانی اور مسلمان خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا کوئی موقع نہ ملے۔ اس سلسلہ منافین کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذا رسانی اور مسلمان خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا کوئی موقع نہ ملے۔ اس سلسلہ میں منافقین کو یہ آخری دھمکی کہ اگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو بہت جلد ان کے قلع قمع کے لئے آخری ہدایات نازل ہوجائیں گی اور پھر ان کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔
(٦٣۔ ٧٣) خاتمہ ٔ سورۃ جس میں پہلے قیامت کی یاددہانی ہے کہ اس کو بہت دور نہ سمجھو۔ وہ سر پر آئی کھڑی ہے۔ اس دن کوئی کسی کے کام آنے والا نہ بنے گا۔ گمراہ لیڈر اور گمراہ پیرو سب ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے۔
منافقین کو تنبیہ کہ ان یہود کی روش کی تقلید نہ کرو جنہوں نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو قدم قدم پر ایذا دی۔ بالآخر اللہ نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو عزت ووقار سے اٹھایا اور ان لوگوں پر لعنت کردی جنہوں نے ان کو ایذا دی۔ صحیح روش یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور رسول کی ہر بات پر سمعنا و اطعنا، کہو۔ اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال کو سدھارے گا، تمھارے گناہوں کو بخشے گا۔ یہی راہِ فوزِ عظیم کی راہ ہے۔

آخر میں اس عظیم عہد و امانت کی یاددہانی جس کا اہل تمام مخلوقات میں سے صرف انسان بنایا گیا ہے۔ اسی عہد و امانت پر انسان کے تمام شرف کا انحصار ہے۔ اگر وہ اس کے حقوق ادا کرسکے تو اس زیادہ اونچا کوئی نہی اور اگر وہ اس میں ناکام ہوجائے تو پھر اس سے بڑا بدقسمت بھی کوئی نہیں ۔