34۔ سورہ سبا : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


34۔ سورہ سبا کا تعارف اور مطالب کا  تجزیہ
١۔ سورتوں کا پانچواں گروپ
سورہ سبا س  سے سورتوں کا پانچواں گروپ شروع ہو رہا ہے جو سورۃ حجرات پر ختم ہوتا ہے۔ اس مین ١٣ سورتی ۔۔۔۔ازسباتا االاحقاف ۔۔۔۔مکی ہیں۔ آخر میں تین سورتیں۔۔۔۔ محمد، الفتح، الحجرات۔۔۔۔، مدنی ہیں۔
ب۔ گروپ کا جامع عمود۔
مطالب اگرچہ اس گروپ میں  بھی مشترک ہیں یعنی قرآنی  دعوت کی تینوں اساسات، توحید، قیامت، رسالت، پر جس طرح پچھلے گروپوں میں بحث ہوئی ہے اسی طرح اس میں بھی یہ تمام مطالب زیر بحث آئے ہیں ! البتہ نہج استدلال اور اسلوبِ بیان مختلف اور جامع عمود اس کا اثبات توحید ہے جو اس مجموعہ کی تمام سورتوں میں نمایاں نظر آئے گا۔ دوسرے مطالب اسی کے تحت اور اسی کے تضمنات کی وضاحت کے طور پر آئے ہیں۔
ج۔ سورۃ سبا کا عمود اور اس کے مطالب کا تجزیہ
اس گروپ کی پہلی سورۃ، سورۃ سبا ہے۔ اس کا عمود اثباتِ توحید و قیامت ہے۔ بنیاد اس کی شکر اور اس کے مقضیات پر ہے اور مخاطب مترفین قریش ہیں۔ ذیل میں ہم بالاجمال اس کے مطالب کا تجزیہ پیش کرتے ہیں جس سے اس کے تمام اجزاء کا ربط عمود کے ساتھ واضح ہوجائے گا۔
(١۔ ٩) تمہید، جس میں اللہ تعالیٰ ہی کے سزا اور شکر ہونے کی دعوت ہے۔ اس لئے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے اور آخرت میں بھی تمام اختیار واقتدار اسی کا ہوگا۔ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اس وجہ سے نہ کسی کا کوئی عمل اس سے مخفی رہے گا۔ نہ کوئی کسی کو اپنی باطل سفارش سے چھڑا سکے گا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آخرت نہیں ہے، وہ سخت گمراہی میں ہیں۔ آخرت ایک حقیقت اور خدا کی صفات کا لازمی تقاضا ہے۔ جن کے اندر علم کی رمق ہے وہ جانتے ہیں کہ قرآن جس تو ید و قیامت کی دعوت دے رہا ہے وہ بالکل حق ہے، صرف بے فکرے اور لا ابالی لوگ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ان کی اصلی بیماری یہ ہے کہ انابت اور عبرت پذیری کی صلاحتی ان کے نادر مفقود ہے۔ اگر یہ صلاحیت ان کے اندر ہوتی تو وہ دیکھ لیتے کہ خدا ان کو جب چاہے اور جہاں سے چاہے پکڑ سکتا ہ۔
(١٠۔ ١٤) مترفین قریش کی تنبیہ کے لئے حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیما السال کی مثال کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی تمام نعمتیں عطا فرمائیں لیکن وہ غرور واستکبار میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ اپنے رب کے شکر گزار و فرمانبردار رہے۔ انہوں نے دنیا کے فتنہ میں مبتلا ہو کر شیاطین کی پیروی نہیں کی بلکہ شیاطین سے بھی اپنی پیروی کرائی۔ جو اپنے رب کی فرمانبرداری کرتے ہیں اللہ تعالیٰ شیاطین کو بھی ان کی غلامی میں دے دیتا ہے اور جو اپے رب کی ناشکری کرتے ہیں شیاطین ان پر مسلط ہوجاتے ہیں اور ان کو شیاطین کی غلامی کرنی پڑتی ہے۔
(١٥۔ ٢١ ) ملک سبا کی مثال جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خدا کی نعمتیں پا کر جو قومیں خدا کی ناشکر گزاری کے بجائے طغیان و فساد میں مبتلا ہوجاتی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو نہایت عبرت انگیز سزا دیا کرتا ہے۔ اہل سبا ن اپنے بارے میں ابلیس کے گمان کو سچا ثابت کردیا جس کی پاداش میں اللہ نے ان کو اپنے تمام افضال سے محروم کرکے ایک افسانہ پارینہ بنا دیا۔
(٢٢۔ ٢٧ ) شرک، شرکاء اور شفاعتِ باطل کے عقیدے کی تردید اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کہ اگر یہ مشرکین بے دلیل، محض اپنی انانیت کے غرور میں، اپنی ضد پر اڑے رہنا چاہتے ہیں تو ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کرو۔ تم نے اپنی دعوت پہنچا دی۔ اب ان کا فیصلہ اللہ کرے گا۔ وہ ہر چیز سے باخبر اور ہر معاملے کو دو ٹوک فیصلہ کرنے والا ہے۔
(٢٨۔ ٣٣) مخالفین کے اس مارضہ کا جواب کہ ہم اس وقت تک اس قرآن ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں جب تک وہ عذاب نہ دکھا دیا جائے جس کی ہم کو دھمکی دی جا رہی ہے۔
(٣٤۔ ٣٩) منکرین کے اصل سبب انکار کی طرف اشارہ کہ ان کو اس دنیا میں جو مال و جاہ حاصل ہے اس کو وہ خدا کے منظورِ نظر ہونے کی دلیل بنائے بیٹھے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جس طرح اس دنیا میں وہ کامیاب ہیں اسی طرح آخرت میں بھی (اگر وہ ہوئی) وہی فائز المرام رہیں گے۔ حالانکہ اس دنیا کی نعمتیں اللہ تعالیٰ جس کو دیتا ہے آزمائش کے لے دیتا ہے کہ وہ اس کو پاکر خدا کا شکر گزار بندہ بنتا ہے یا ناشکرا۔ آخرت میں اس کے ساتھ اللہ کا معاملہ اس کے عمل کے مطابق ہوگا۔
ّ٤٠۔ ٤٣ ) یہ تنبیہ کہ اپنے جن معبودوں کی حمایت میں یہ لوگ قرآن اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کے لئے آج آستینیں چڑھائے ہوئے ہیں ان میں سے ملائکہ کا حال یہہوگا کہ جب خدا قیامت کے دن ان سے سوال کرے گا کہ کیا یہ لوگ تمھاری پوجا کرتے رہے ہیں تو وہ اس سے فوراً اظہار برات کریں گے اور جواب دیں گے کہ یہ جنوں کو پوجتے رہے ہیں۔ ہم اس سے بالکل بری ہیں۔

(٤٤۔ ٥٤ ) خاتمہ سورۃ، جس میں پہلے تو اس عطیم احسان کی طرف توجہ دلائی ہے جو اللہ تالیٰ نے اس کتاب کی صورت میں ان لوگوں پر فرمایا جو اس سے پہلے قرآن و کتاب سے بالکل ناآشنا تھے۔ پھر نہایت ناصحانہ انداز میں ان کو معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے فیصلہ کرنے کی دعوت دی اور آخر میں دھمکی دی کہ اگر یہ وقت نکل گیا تو پھر ہمیشہ کے لئے پچھتائو گے لیکن گزرا ہوا وقت ہاتھ میں نہیں آئے گا ۔