35۔ سورہ فاطر : تعارف ، مضامین اور مطالب کا تجزیہ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی ؒ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ 


١۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق


یہ سورۃ سابق سورۃ۔ سورۃ سبا۔ کی توام سورۃ ہے اس وجہ سے دونوں کے عمود میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اس کا بھی اسل مضمون توحید ہی ہے۔ اس کا آغاز خدا کی حمت کے اثبات اور فرشتوں کی الوہیت کے تصور کے ابطال سے ہوا ہے۔ پھر توحید ہی کے تحت رسالت و معاد سے متعلق وہ باتیں بیان ہوئی ہیں جو مقصد انذار کے پہلو سے ضروری اور سورۃ کے مزاج اور اس کے زمانہ نزول سے مناسب رکھنے والی ہیں۔ پچھلی سورۃ میں، یاد ہوگا، جنوں اور ملائکہ کی الوہیت کے تصور کا ابطال فرمایا ہے۔ اس سورۃ میں ملائکہ کی الوہیت کے تصور کی تردیدنسبتہً زیادہ واضح الفاظ میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین عرب ک مزعومہ معبودوں میں سب سے زیادہ اہمیت فرشتوں ہی کو حاصل تھی۔ 

ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ


(١۔ ٣) شکر کا حقیقی سزاوار اللہ ہے۔ وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ اسی نے فرشتوں کو بھی وجود بخشا ہے اور ان کو، اپنی حکمت کے مطابق، جن صلاحیتوں اور قوتوں سے چا ہے بہرہ مند کیا ہے۔ ان کو بذاتِ خود کوئی اختیار و اقتدار حاصل نہیں ہے۔ تمام زورو فضل خدا ہی کے اختیار میں ہے۔ وہ بخشنا چاہے تو کوئی اس کی بخشش کو روک نہیں سکتا اور روکنا چاہے تو کوئی اس سے دلوا نہیں سکتا۔ پس عبادت کا اصلی حقدار وہی ہے۔ اس کے سوا دوسروں کی پوجا محض جہالت و حماقت ہے۔ 

ارشاد باری تعالی : 

الْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۭ يَزِيْدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ( 1) يَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۚ وَمَا يُمْسِكْ ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (2) اَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ ۭ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ڮ فَاَنّٰى تُـؤْفَكُوْنَ ۔ (3) 


(٤۔ ٨) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ اگر تمھاری قوم کے لوگ تمھاری تکذیب کر رہے ہیں تو اپنی پیشرو قوموں کے نقشِ قدم کی پیروی کر رہے ہیں اور وہ لازماً اسی انجام سے دور چار ہوں گے جس سے وہ دو چار ہوئیں۔ ان کے اعمال ان کی نگاہوں میں کھبا دیے گئے ہیں اور یہ اللہ کے قانون کی زد میں آچکے ہیں تو ان کے غم میں اپنے کو گھلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوال کرو۔ 

قریش کو انداز کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس چیز سے تم کو ڈرا رہا ہے وہ ایک امرِ شدنی ہے تو اپنی موجودہ دنیوی کامیابیوں سے کسی دھوکے میں نہ رہو اور شیطان کے پھندوں میں نہ پھنسو، وہ تمھارا کھلا ہوا دشمن ہے تو اپنے دشمن کو دشمن ہی سمجھو۔ بڑا ہی نادان ہے وہ جو اپنے دشمن کو دوست بنا بیٹھے۔

ارشاد باری تعالی : 

وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ﴿٤﴾ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّـهِ الْغَرُورُ ﴿٥﴾ إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴿٦﴾ الَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ ﴿٧﴾ أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا ۖ فَإِنَّ اللَّـهَ يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ﴿٨﴾

(٩۔ ١٠) حشرو نشر کی ایک واضح دلیل کی طرف اشارہ اور یہ تنبیہ کہ جو حشر کے دن خدا کے ہاں تقریب کا طالب ہو وہ جھوٹے سہاروں پر زندگی نہ گزارے۔ اس دن فرضٰ دیویوں دیوتائوں کے بل پر کسی کو تقریب حاصل نہیں ہوگا۔ خدا کے ہاں کام آنے والی چیز کلمہ طیبہ۔ کلمہ توحید۔ ہے اور اس کلمہ طیبہ کو بلندی عمل صالح سے حاصل ہوتی ہے۔ جس کو آخرت کی عزت مطلوب ہو وہ ایمان و عمل صالح کی راہ اختیار کرے۔ اس سے ہٹ کر جو راہیں نکالی گئی ہیں وہ سب فریبِ نفس کی راہیں ہیں اور ان کا انجام ابدی تباہی ہے۔ ا رشاد باری تعالی : 


وَاللَّـهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَٰلِكَ النُّشُورُ ﴿٩﴾ مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَـٰئِكَ هُوَ يَبُورُ ﴿١٠﴾

(١١۔ ١٨) مال و اولاد اور رزق و فضل خدا کا عطیہ ہیں۔ عمر کی زیادتی و کمی خدا کے اختیار میں ہے۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی کسی دوسرے کو کوئی دخل نہیں ہے۔ اس کائنات کے اضداد میں جو توافق ہے وہ اس بات کی کھلی ہوئی شہادت ہے کہ اس میں ایک ہی خدائے قادر و قیوم کی ارادہ کارفرما ہے۔ اس کے سوا جن کو معبود بنایا گیا ہے نہ ان کو کوئی اختیار حاصل ہے اور نہ وہ قیامت کے روز کسی کے کچھ کام آنے والے بنیں گے۔ 

لوگوں کو یہ تنبیہ کہ تمہیں اصل حقیقت سے آگاہ کردیا گیا ہے۔ اگر تم نے اس کی قدرنہ کی تو اپنا ہی بگاڑو گے خدا کا کچھ نہیں بگاڑو گے۔ خدا تمھارا محتاج نہیں ہے کہ بلکہ تمہی خدا کے محتاج ہو۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ تمھاری دعوت انہی لوگوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے جن کے اندر زندگی کی کچھ رق ہے جو بالکل مردی ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔ ان کے لئے جو انجام مقدر ہوچکا ہے وہ اسی سے دوچار ہوں گے۔

وَاللَّـهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا ۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ ۚإِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرٌ ﴿١١﴾ وَمَا يَسْتَوِي الْبَحْرَانِ هَـٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَائِغٌ شَرَابُهُ وَهَـٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ ۖ وَمِن كُلٍّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُونَ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا ۖ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿١٢﴾ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ﴿١٣﴾ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ﴿١٤﴾  يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَاللَّـهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ﴿١٥﴾ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ ﴿١٦﴾ وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ بِعَزِيزٍ ﴿١٧﴾ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ الْمَصِيرُ ﴿١٨﴾


(١٩۔ ٢٨ ) ایمان لانے اور نہ لانے والوں کی تفصیل اور اس کائنات میں جو اختلاف و تضاد پایا جاتا ہے اس کی حکمت کی طرف اشارہ کہ جس طرح اس میں اللہ نے نورو ظلمت کو پیدا کیا ہے اور ان دونوں کی خلقت حکمت و مصلحت پر مبنی ہے اسی طرح ایمان و کفر کا یہ تصادم بھی خدا کی حکمت پر مبنی ہے۔ اس وجہ سے یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ سب ایمان سے بہرہ مند ہوجائیں گے۔ ایمان صرف وہی لائیں گے جن کے اندر علم و معرفت کی روشنی اور اس کی قدر ہے۔ 

وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ﴿١٩﴾ وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ ﴿٢٠﴾ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ ﴿٢١﴾ وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ ﴿٢٢﴾ إِنْ أَنتَ إِلَّا نَذِيرٌ ﴿٢٣﴾ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۚ وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ ﴿٢٤﴾ وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتَابِ الْمُنِيرِ ﴿٢٥﴾ ثُمَّ أَخَذْتُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۖ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ ﴿٢٦﴾ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ ثَمَرَاتٍ مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهَا ۚ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ ﴿٢٧﴾ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَٰلِكَ ۗ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ ﴿٢٨﴾


(٢٩۔ ٣٨) ان علمائے اہل کتاب کی تحسین و حوصلہ افزائی جو تمام بگاڑ اور فساد کے باوجود اللہ کی کتاب پر قائم ہیں اور اس بات کی طرف اشارہ کہ جس طرح ان کو تورات پر قائم رہنے کی سعادت حاصل ہوئی اسی طرح قرآن پر بھی ایمان لانے کی ان کو سعادت حاصل ہوگی اس لئے کہ یہ انہی پیشن گوئیوں کامصداق ہے جو اس کی بابت تورات اور دوسرے صحیفوں میں وارد ہوئی ہے۔ تورات کے بعد اس قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے امیوں پر عظیم احسان فرمایا ہے کہ اس کے ذریعہ سے اس نے ان کو دنیا کی امامت بخشی ہے بشرطیکہ وہ اس کی قدر کریں۔ پھر فرمایا کہ اگرچہ ان میں ناقدرے اور ناشکرے بھی ہیں لیکن ساتھ ہی ان میں معقولیت پسند اور نیکی کی راہوں میں سبقت کرنے والے بھی ہیں۔ اس طرح کے لوگ اس پر ایمان لائیں گے رہے وہ لوگ جو اس نعمت کی ناقدری کریں گے تو وہ اس انجام سے دو چار ہوں گے جو اس طرح کے لوگوں کے لئے اللہ کے ہاں مقدر ہے۔ ارشاد  فرمایا : 

إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّـهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ ﴿٢٩﴾ لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ ﴿٣٠﴾ وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ ﴿٣١﴾ ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ ﴿٣٢﴾ جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ ﴿٣٣﴾ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ۖ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ ﴿٣٤﴾ الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِن فَضْلِهِ لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ ﴿٣٥﴾ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُم مِّنْ عَذَابِهَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ ﴿٣٦﴾ وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ ﴿٣٧﴾ إِنَّ اللَّـهَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴿٣٨﴾

(٣٩۔ ٤١ ) قریش کو تہدید و وعید کہ تم دنیا میں پہلی قوم نہیں ہو بلکہ پچھلی قوموں کے جانشین ہواس وجہ سے خدا نے جس میزانِ عدل سے ان کو تولا کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس سے تم کو نہ تولے۔ خدا کے ہاں الگ الگ ترازو اور الگ الگ باٹ نہیں ہے بلکہ سب کے لئے ایک ہی میزن ہے۔ تمھاری سرکشی کے باوجود خدا جو ڈھیل تمہیں دے رہا ہے اس کو اپنی کامیابی نہ سمجھو بلکہ یہ تمھارے خسارہ میں اضافہ ہے۔ خدا حلیم و غفور ہے اس وجہ سے تمہیں مہلت دے رہا ہے لیکن جب وہ پکریگا تو تمھارے یہ فرضی دیوی دیوتا تمھاری کوئ مدد نہیں کرسکیں گے۔ آسمان و زمین خدا کے تھامے تھمے ہوئے ہیں تمھارے ان دیوتائوں نے ان کو نہیں تھام رکھا ہے۔ ارشاد فرمایا : 

هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ ۚ فَمَن كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهُ ۖ وَلَا يَزِيدُ الْكَافِرِينَ كُفْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ إِلَّا مَقْتًا ۖ وَلَا يَزِيدُ الْكَافِرِينَ كُفْرُهُمْ إِلَّا خَسَارًا ﴿٣٩﴾ قُلْ أَرَأَيْتُمْ شُرَكَاءَكُمُ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا فَهُمْ عَلَىٰ بَيِّنَتٍ مِّنْهُ ۚ بَلْ إِن يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُم بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا ﴿٤٠﴾  إِنَّ اللَّـهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا ﴿٤١﴾

(٤٢۔ ٤٥ ) قریش کو یہ یاددہانی کہ رسول کی بعثت سے پہلے تو تم اس ولولہ کا اظہار کرتے تھے کہ اگر تمھارے اندر کسی رسول کی بعثت ہوئی تو تم دنیا کی سب سے زیادہ ہدایت یافتہ قوم بنو گے لیکن جب رسول آیاتو رات دن اس کے خلاف سازشوں میں سرگرم ہو اور خدا کے اسی قہر کو دعوت دے رہے ہو جو رسولوں کی تکذیب کرنے والوں پر ہمیشہ نازل ہوا۔ یاد رکھو کہ اگر خدا کسی قوم کو فوراً پکڑنا چاہے تو کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا لیکن اس نے ہر قو م کے فیصلہ کے لئے ایک خاص وقت مقرر کر رکھا ہے۔ 

وَأَقْسَمُوا بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِن جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَىٰ مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَّا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا ﴿٤٢﴾ اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ۚ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَحْوِيلًا ﴿٤٣﴾ أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۚ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعْجِزَهُ مِن شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا ﴿٤٤﴾وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّـهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ وَلَـٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا ﴿٤٥﴾