36۔ سورہ یس: تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

١۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق


سورہ یس اور گروپ کی پچھلی دونوں سورتوں کے عمود میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ پچھلی سورتوں میں توحید امعاد اور رسالت کے جو مطالب زیر بحث آئے ہیں انہی پر اس میں بھی بحث ہوئی ہے۔ البتہ تفصیل واجمال اور نہج استدلال کے اعتبار سے فرق ہے۔ پچھلی سورۃ بعض مطالب اس میں تاریخی اور فطری دلائل سے اچھی طرح محکم و مدلل کر دیے گئے۔ اس کا آغاز اثباتِ رسالت کے اسی مضمون سے ہوا ہے جس پر سابق سورۃ تمام ہوئی ہے۔ اور فلسفہ دین کے نقطہ نظر سے غور کیجئے تو یہ حقیقت بھی واضح طور پر نظر آئے گی کہ اس کی بنیاد بھی، پچھلی سورتوں کی طرح، شکر اور اس کے مقتضیات ہی پر ہے۔ آگے ہم سورۃ کے مطالب کا تجزیہ پیش کرتے ہیں جس سے اس کا عمود اور نظام ان شاء اللہ اچھی طرح واضح ہوجائے گا۔


ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ


(١۔ ١٢) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اثبات اور آپ کو تسلی کہ یہ پر حکمت قرآن خود اس بات کی سب سے بڑی شہادت ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور لوگوں کو صراطِ مستقیم کی طرف دعوت دے رہے ہیں۔ یہ قرآن، خدائے عزیز و رحیم کی طر ف سے، ان لوگوں پر ایک عظیم احسان ہے جو اب تک خدا کی تعلیم و ہدایت سے بالکل محروم ضلالت میں بھٹک رہے تھے۔ یہ محض ان کی بدقسمتی ہیکہ استکبار کے سبب سے یہ اس کو جھٹلا رہے ہیں۔ ان کی پچھلی روایات اور ان کی مستقبل کی آرزوئیں ان کے لئے حجاب بنی ہوئی ہیں اس وہ سے نہ یہ ماضی سے کوئی سبق لے رہے ہیں اور نہ مستقل کا کچھ دھیان کر رہے ہیں۔ آپ ایسے بے فکروں کے لئے زیادہ پریشان نہ ہوں۔ جو خدا سے ڈریں اور نصیھت کو سنیں ان کو مغفرت اور اجرِ عظیم کی بشارت دیجئے۔ جو یہیں سنتے ان کا معاملہ ہمارے حوالے کیجئے۔ ان کا اگلہ پچھلا سب ہمارے رجسڑ میں درج ہے۔ ہم ان سے نمٹ لیں گے۔

(١٣۔ ٣٢) قریش کی عبرت کے لئے ایک بستی کی مثال جس کے باشندوں کے انداز کے لئے اللہ تعالیٰ نے دو رسول بھیجئے جب انہوں نے ان کی نہیں سنی تو اللہ نے ایک تیسرے بندے کو ان رسولوں کی تائید کے لئے اٹھایا۔ لیکن انہوں نے اس کی بھی کوئی پروا نہیں کی۔ ان کی تنبیہ کے لئے اس دوران میں جو نشانیاں ظاہر ہوئیں لوگوں نے ان کو ان رسولوں کی نحوست قرار دیا اور اس جرم میں ان کو سنگسار کردینے کی دھمکی دی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب سے اس بستی کو ہلاک کردیا۔
(٣٣۔ ٤٤ ) اس کائنات میں خدا کی قدرت، حکمت، پروردگاری اور رحمت کو جو نشانیاں ہیں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ اور اس امر کا بیان کہ یہ ساری نشانیاں اللہ تعالیٰ کے شکر کو واجب کرتی ہیں جس کا لازمی تقاضا توحید ہے اور ساتھ ہی یہ حشر و نشر اور جزاء و سزا کو مستلزم ہیں۔

(٤٥۔ ٥٠ ) اس امر کیا بیان کہ جب لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا جاتا ہے اور اس سے بچنے کے لئے اللہ کی راہ میں انفاق کی دعوت دی جاتی ہے تو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جن کو خدا نے اپنے فضل سے محروم رکھا ہم اپنا مال ان پر کیوں خرچ کریں ! انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدا کو جب عذاب لانا ہوگا تو اس کے لئے اسے کوئی تیاری نہیں کرنی پڑے گی بلکہ وہ چشم زدن میں آجائے گا جس کے بعد کسی کو لب ہلانے کی فرصت نصیب نہیں ہوگی۔
(٥١۔ ٦٥ ) قیامت کی تصویر اور اس دن ایمان لانے والوں اور اس کے جھٹلانے والوں کا جو حال ہوگا اس کی تفصیل۔

(٦٦۔ ٦٨ ) عذاب کا مطالبہ کرنے والوں کو یہ تنبیہ کہ سمع و بصر کی جو صلاحیتں خدا نے بخشی ہیں ان سے فائدہ اٹھائو اور اپنی عقل سے کام لو۔ اگر ان صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھایا یا تو خدا ان کو مسخ بھی کرسکتا ہے اور یہ کام خد اکے لئے ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔

(٦٩۔ ٨٣) خاتمہ سورۃ جس میں ابتدائے سورۃ کے مضمون کو ایک نئے اسلوب سے لیا ہے۔ توحید اور قیامت کی بعض نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ تمھارا کام زندوں کو جگانا ہے۔ جو لوگ اخلاقی اعتبار سے مردہ ہوچکے ہیں ان پر تمھارا کلام کارگر نہیں ہوسکتا ۔