38۔ سورہ ص : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی


38۔ سورہ ص  کا تعارف  اور مطالب کا تجزیہ
ا - سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
اس گروپ کی پچھلی سورتوں کی طرح اس سورۃ کی بنیاد بھی توحید ہی پر ہے۔ اس میں یہ حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ قرآن قریش کے لئے ایک عظیم یاد دہانی ہے لیکن یہ محض اپنے کبرو غرور اور شرک پرستی کے جوش و جنون میں اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور اس انجام سے بالکل بے پرواہ ہیں جس سے قرآن ان کو آگاہ کر رہا ہے۔ یہ اس انجام کو دیکھ کر اس پر ایمان لائیں گے ۔
ب - سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(211-1 یہ قرآن لوگوں کے لئے یاد دہانی ہے لیکن لوگ کبر و غرور کی بنا پر اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان سے پہلے کتنی قومیں گزر چکی ہیں جنہوں نے اللہ کی یاد دانی کے معاملے میں یہی روش اختیار کی اور وہ ہلاک ہوئیں یہی بھی انہی کی طرح اس وقت ایمان لائیں گے جب پانی سر سے گزر چکے گا ان لوگوں پر بات شاق گزری ہے کہ انہی کے اندر کا ایک شخص اللہ کے رسول کی حیثیت سے، ان کو شرک کے انجام سے ڈرائے چنانچہ وہ پورے جوش کے ساتھ اپنے معبودوں اور دین آبائی کی حمایت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور رسول کو ساحر و کذاب قرار دے رہے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کی تمام نعمتوں کا اجارہ دار اپنے آپ کو سمیٹے بیٹھے ہیں۔ اس وجہ سے اس خبط میں مبتلا ہیں کہ اگر اللہ کو کوئی کتاب اتارنی ہوتی تو وہ انہی کے اندر کے کسی رئیس پر اتارتا نہ کہ (نعوذ باللہ) محمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے ایک تلاش آدمی پر ! گویا آسمان و زمین کی خدائی انہی کے اتھ میں ہے۔ انہیں پ تہ نہیں ہے کہ جب خدا کی پکڑ میں آجائیں گے تو کسی کی کچھ پیش نہیں جائے گی ۔
(16-12) ماضی کی بعض سرکش قوموں کا حوالہ جنہوں نیح اللہ کے رسولوں کے ساتھ یہی متکبر انہ روش اختیار کی اور بالآخر کیفرکردار کو پہنچیں۔ اسی ذیل میں قریش کو تنبیہ کہ خدا کی قہر کو دعوت نہ دو۔ تم اس کی ایک ڈانٹ کی بھی تاب نہیں لا سکتے ۔
(26-17) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر و استقامت کی تلقین اور حضرت دائود (علیہ السلام) کی زندگی کے بعض واقعات کا حالہ کہ اللہ نے ان ان کو بے مثال قوت و حشمت دی لیکن وہ اس سے کسی گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہوئے بکلہ ان کی دولت و شوکت میں جتنا ہی اضافہ ہوتا گیا اتنی ہی ان کی شکر گزاری اور انابت میں بھی ترقی ہوتی گئی۔ وہ دوسروں کے واقعات سے متنبہ ہو کر اپنی زندگی کی اصلاح کے لئے سبق حاصل کرتے۔ ان کی حکومت ایک عادلانہ حکومت تھی۔ انہوں نے خدا کی زمین میں حق و عدل قائم کیا۔ استکابر میں مبتلاہو کر اس میں فساد نہیں برپا کیا۔
29-27) ایک برمحل تنبیہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا بازیچہ اطفال نہیں بتائی ہے۔ اس کو جو لوگ بازیچہ اطفال سمجھتے ہیں وہ آخرت کے منکر ہیں۔ اگر آخرت نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس دنیا کے خالق کی نظر میں مصلح اور مفسد، متقی اور فاجر دونوں یکساں ہیں۔ ایک حکیم خالق کے متعلق یہ بات تصور بھی نہیں کی جا سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب اسی لئے اتاری ہے کہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں، اس کی دلیلیوں سے یاد دہانی حاصل کریں اور اس قسم کی مہلک غلط فہمیوں سے نکلیں ۔
(400-30) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دولت و حشمت اور ان کے شکر و انابت کے بعض واقعات کا حوالہ بالکل اسی مقصد سے جس مقصد سے اوپر حضرت دائود (علیہ السلام) کے بعض واقعات کا حوالہ گزرا ہے ۔
(49-41) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے بعض انبیاء علیہم السلام کا اجمالی حوالہ کہ راہ حق میں ان کو جو سعوبتیں پیش آئیں انہوں نے خندہ پیشانی اور استقلال کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا جس کے صلہ میں اللہ نے ان کو دنیا اور آخرت دونوں میں سرخروئی عطا فرمائی ۔
(64-50) اس حقیقت کا اظہار کہ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے اس وجہ سے لازماً اس کے بعد ایک فیصلے کے دن آئے گا جس میں متقی اور فاجر دونوں اپنے اپنے اعمال کی جزا یا سزا پائیں گے۔ اسی جزا و سزا کی وضاحت ۔

(88-65) خاتمہ سورۃ جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ی اعلان کہ میں ایک منذر ہوں۔ اللہ واحد و قہار کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے۔ میں جس بات ک خبر دے رہا ہوں وہ ایک امرشدنی ہے اور جو لوگ بربنائے استکبار اس کی تکذیب کر رہے ہیں۔ وہ ابلیس کی پیروی کر رہے ہیں اور وہ اسی انجام سے دوچار ہوں گے جو ابلیس اور اس کے پیروئوں کے لئے مقدر ہے ۔