4- سورہ نساء - تعارف، مضامین و مطالب کا تجزئیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

الف۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق :

یہ سورۃ اپنی سابق سورۃ، آل عمران کے بعد اس طرح شروع ہوگئی ہے کہ اس کے ابتدائی الفاظ ہی سے نمایاں ہوجاتا ہے کہ یہ آل عمران کا تکملہ و تتمہ ہے۔ آل عمران کی آخری اور نساء کی پہلی آیت پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ جس اہم مضمون پر آل عمران ختم ہوئی ہے اسی مضمون سے سورۂ نساء کی تمہید استوار ہوئی ہے۔

 گویا آل عمران کی آخری آیت يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ہے جس میں مسلمانوں کو فوز و فلاح کی راہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ انفردی و اجتماعی حیثیت سے ثابت قدمی دکھائیں، آپس میں جڑے، دشمن کے مقابل میں ڈٹے اور خدا سے ڈرتے رہیں۔ اب اس سورۃ کو دیکھئے تو اسی اتَّقُوا اللّٰهَ کے مضمون سے شروع ہوگئی ہے۔ (یا ایہا الناس اتقوا ربکم) اور آگے آپس میں جڑے رہنے اور مخالفین کے بالمقابل ثابت قدمی کے لیے جو باتیں ضروری ہیں وہ نہایت وضاحت و تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ 

(سابق اور لاحق سورۃ میں ربط کی یہ صورت صرف انہی دو سورتوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اس کی متعدد نہایت لطیف مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں جو اپنے مواقع پر بیان ہوں گی) 

ثابت قدمی، بالخصوص اجتماعی ثابت قدمی، بغیر مضبوط جماعتی اتصال کے ممکن نہیں ہے اور جماعتی اتصال کوئی اتفاق سے پیداہوجانے والی چیز نہیں ہے بلکہ یہ بنیاد کا بھی محتاج ہے، مثبت تدابیر کا بھی متقاضی ہے اور اس کو ان فتنوں سے محفوظ رکھنے کی بھی ضرورت ہے جو اس کو درہم برہم کرسکتے ہوں۔ چنانچہ اس سورۃ میں وہ ساری چیزیں بیان ہوئیں جو اسلامی معاشرہ اور اس کے فطری نتیجہ اسلامی حکومت کو مستحکم رکھنے اور اس کو انتشار سے بچانے کے لیے ضروری ہیں ۔

اس سورۃ کے مطالب پر ایک سرسری نظر بھی ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ اس کا آغاز اس حقیقت کے اظہار سے ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرہ اس عقیدے پر قائم ہے کہ مرد اور عورت سب کا خالق اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے، اسی نے سب کو ایک آدم و حوا سے وجود بخشا ہے۔ اس وجہ سے خدا اور رِحم سب کے درمیان مشترک ہیں۔ اس کے بعد معاشرے کے سب سے زیادہ کمزور عناصر یتیموں اور عورتوں کے حقوق معین فرمائے ہیں اور ان کو ادا کرنے پر زور دیا ہے۔ پھر اسی تعلق سے وراثت کی تقسیم سے متعلق قانون کی وضاحت فرمائی ہے۔ پھر مسلمانوں کے باہمی حقوق و فرائض پر زور دیتے ہوئے اللہ، رسول اور اولوالامر کی اطاعت پر سب کو مجتمع و متفق رہنے کی تاکید فرمائی، اس لیے کہ اسی چیز پر اسلامی حکومت کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد تفصیل کے ساتھ منافقین کی قلعی کھولی ہے جو اسلامی معاشرے کے اندر ناسور کی حیثیت رکھتے اور مسلمانوں کے اندر ان کے دشمنوں، یہود و نصاری کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اس روشنی میں غور کیجئے تو اس سورۃ میں گویا اس ارتباط باہمی کی بنیادیں استوار کی گئی ہیں جس کی ہدایت پر سابق سورۃ ختم ہوئی تھی ۔

ب۔ سورہ کے مطالب کا تجزیہ :


یہ سورۃ کے عمود اور ماسبق سورۃ کے ساتھ اس کے تعلق کی طرف ایک اجمالی اشارہ تھا۔ اب ہم اس کے مطالب کا تجزیہ بھی کیے دیتے ہیں تاکہ پوری سورۃ کے مضامین پر ایک سرسری نگاہ پڑجائے۔

(آیات 1 تا 6)۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی ہدایت جس نے سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا۔ تمام مرد اور تمام عورتیں ایک ہی آدم و حوا کی اولاد ہیں اس وجہ سے خدا اور رشتہ رحم کا احترام ملحوظ رکھیں۔ انہی دو بنیادوں پر اسلامی معاشرہ کی عمارت قائم ہے ۔

یتیموں کے حقوق ادا کرنے کی تاکید اور اس بات کی ممانعت کہ زور آور سرپرست اپنے رشتہ دار یتیموں کے اچھے مال اپنے برے مال سے بدلنے یا اپنے مال کے ساتھ ملا کر اس کو ہڑپ کرنے کی تدبیریں کریں۔ یتیموں کے حقوق کے تحفظ کے نقطہ نظر سے ان کی ماؤں سے نکاح کی اجازت اور اس کے لیے چار تک کی قید، عدل اور ادائے مہر کے شرائط کے ساتھ تعدد ازواج کی رخصت۔

سرپرستوں کو اس بات کی ہدایت کہ وہ اس وقت تک یتیموں کے مال و جائداد ان کے حوالہ نہ کریں جب تک ان کے اندر معاملات کا سوجھ بوجھ نہ پیدا ہوجائے لیکن اس دوران میں ان کی ضروریات اور ان کی دلداری کا پورا خیال رکھیں۔ جب ان میں معاملات کی سوجھ بوجھ پیدا ہوجائے تو ان کا مال ان کے حوالہ کردیا جائے۔ اس تولیت کے دوران میں اگر کوئی سرپرست غریب ہو تو یتیم کے مال میں سے بقدر کفاف لے سکتا ہے لیکن اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ یتیم کے بڑے ہوجانے کے اندیشے سے اس کے بڑے ہونے سے پہلے ہی اس کی ساری املاک و جائداد ٹھکانے لگا دینے کی کوشش کرے ۔

(7 تا 14)۔ تقسیم وراثت کے ضابطے کی تفصیل تاکہ ضعیف و قوی سب کے حقوق معین ہوجائیں اور معاشرے میں ظلم و حق تلفی اور نزاع و مخاصمت کے دروازے بند ہوجائیں ۔

(15 تا 18)۔ معاشرے کو فواحش سے پاک رکھنے کے لیے ایک ابتدائی حکم اور اس کے تعلق سے اس امر کی وضاحت کہ کن لوگوں کی توبہ قبول ہوتی ہے، کن کی نہیں ؟

(19 تا 21)۔ اس امر کا بیان کہ عورت مالِ وراثت نہیں ہے کہ باپ کی منکوحہ بیٹے کو وراثت میں ملے۔ عورتوں سے اپنا دیا ہوا مال واپس لینے کے لیے ان کو تنگ نہ کیا جائے۔ اگر کوئی شخص ایک عورت کو چھوڑنا اور دوسری سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو محض مال اینٹھنے کے لیے پہلی کو تہمت اور بہتان کا ہدف نہ بنائے ۔

(22 تا 25)۔ باپ کی منکوحہ کے ساتھ بیٹے کو نکاح کی ممانعت اور ان عورتوں کی تفصیل جن کے ساتھ نکاح ناجائز ہے۔ نیز شرائط نکاح کا بیان تاکہ معاشرہ بدکاری و بے حیائی اور ظلم و زیادتی کے مفاسد سے پاک رہے۔ جو لوگ اس وقت آزاد عورتوں سے نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے تھے ان کو مسلمان لونڈیوں سے بعض شرائط کے ساتھ نکاح کی اجازت اور قید نکاح میں آجانے کے بعد اگر ان لونڈیوں سے بدکاری کا صدور ہو تو ان کے لیے تعزیر کا ضابطہ۔

(26 تا 28)۔ مسلمانوں کو آگاہی کہ اللہ تعالیٰ ان احکام و ہدایات کے ذڑیعے سے تمہاری رہنمائی ایمان و وعمل صالح اور توبہ و اصلاح کی اس شاہ راہ کی طرف فرما رہا ہے جو اس نے ہمیشہ سے اپنے صالح بندوں کے لیے پسند فرمائی ہے۔ ان احکام و ہدایات میں اس نے وہ سہولت بھی ملحوط رکھی ہے جو لوگوں کی طبعی کمزوری کے پیش نظر ضروری تھی تو خبردار ان نفس پرستوں کے ورغلانے میں نہ آجانا جو تمہیں پاکیزگی کی اس شاہ راہ سے ہٹا کر شہوات کی وادیوں میں بھٹکا دینے کے لیے اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے ہیں۔

(29 تا 31)۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کا مال ناجائز و ذرائع سے کھانے اور ایک دوسرے کا خون بہانے کی ممانعت۔ خدا رحیم ہے اس وجہ سے وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحیم ہوںَ جو لوگ معاشرے میں ظلم و عدوان کی تخم ریزی کریں گے وہ سب جہنم میں جھونک دئیے جائیں گے۔ البتہ جو لوگ بڑے گناہوں سے بچتے رہیں گے، اللہ تعالیٰ ان کے چھوٹے گناہوں سے درگزر فرمائے گا۔

(32 تا 33)۔ شریعت میں عورت اور مرد دونوں کے لیے جو حدود و حقوق معین کردئیے گئے ہیں سب ان کے اندر رہیں۔ اپنے اپنے حدود کے اندر ہر ایک خدا کے ہاں اپنی محنت کا اجر پائے گا۔ اس لیے ایک دوسرے کی ریس اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ خدا نے حقوق بھی معین فرم ادئیے ہیں اور فرائض بھی اور وہ سب کو دیکھ بھی رہا ہے۔

(34 تا 35)۔ خاندان اور معاشرے میں سربراہی اور قوامیت کا مقام مرد کو حاصل ہے۔ اپنی خلقی صفات اور کفالتی ذمہ داریوں کے لحاظ سے وہی اس کے لیے موزوں ہے۔ نیک بیبیاں اس حق کا احترام کرتی ہیں۔ جن عورتوں سے سرکشی کا اندیشہ ہو ان کو ان کے شوہر نصیحت کریں اور اگر ضرورت محسوس کریں تو ایک حد مناسب تک ان کو تنبیہ بھی کرسکتے ہیں اور اگر محسوس ہو کہ فریقین کے اختلاف کی نوعیت کچھ زیادہ شدید ہے تو اس کے لیے یہ تدبیر اختیار کی جائے کہ میاں اور بیوی دونوں کے خاندانوں سے ایک ایک پنچ مقرر کردیا جائے، جو حالات کی اصلاح کی کوشش کریں ۔

(36 تا 40)۔ خدا، والدین، اقربا، یتامی، مساکی، پڑوسی (عام اس سے کہ قرابت مند ہو یا غیر قرابت مند، مستقل ہو یا عارضی اور وقتی) مسافر اور غلام، سب کے حقوق پہچاننے اور ادا کرنے کی تاکید، خدا کو وہی بندے پسند ہیں جو متواضع اور نرم مزاج ہوں، وہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اکڑنے والے، فخر کرنے والے، بخیل اور بخل کا مشورہ دینے والے ہوں، جو اول تو ادائے حقوق میں خرچ ہی نہ کریں اور اگر کریں تو محض ریا و نمائش کے لیے ادائے حقوق اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے گھاٹے میں رہنے والے نہیں۔ ان کے لیے خدا کے ہاں بڑا اجر ہے ۔

(41۔42)۔ ان لوگوں کے حال پر اظہار افسوس جو آخرت سے بالکل بے پروا ہو کر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی پر اڑے ہوئے تھے، ایمان و عمل صالح کی صحیح راہ خود اختیار کرتے تھے نہ دوسروں کو اختیار کرنے دینا چاہتے تھے ۔ْ

(43۔45)۔ خدا کے سب سے بڑے حق، نماز کے بعض آداب و شرائط اور اس کے بعض مفسدات کا بیان اور ان مفسدات کے ازالہ کی تدبیر ۔

(46۔47)۔ یہود کی بعض شرارتوں کا حوالہ جو وہ اسلام اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کی نگاہوں سے گرانے کے لیے کر رہے تھے اور اس شرارت کے آخری نتائج سامنے آنے سے پہلے ان کو توبہ اور اصلاح کی دعوت ۔

(48۔57)۔ یہود اپنی پاکی و برتری کے جھوٹے دعوے کر کے مسلمانوں کو گرانے کی جو کوشش کر رہے تھے، یہاں تک کہ مشرکین کو بھی ان پر ترجیح دیتے تھے، اس کی تردید کہ یہ ساری باتیں محض ان کے حسد کا نتیجہ ہیں لیکن ان کے حسد کے علی الرغم اللہ تعالیٰ نے نبی خاتم اور ان کی امت کے لیے یہ فیصلہ فرما لیا ہے کہ وہ ان کو کتاب و حکمت اور ایک عظیم حکومت عطا فرمائے گا اور یہ حاسد یہود ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے۔ یہ حکومت گویا اسلام معاشرے کا قدرتی ثمرہ ہے ۔

(58۔59)۔ مسلمانوں کو اس بات کی نصیحت کہ اب اہل کتاب سے چھین کر شریعت الٰہی کی یہ امانت تمہارے سپرد جو کی جا رہی ہے تو تم یہود کی طرح اس امانت میں خیانت کرنے والے نہ بن جانا بلکہ اس کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے والے بننا اور ہر حال میں عدل پر قائم رہنا۔ نیز اللہ اور رسول اور اپنے اولو الامر کی اطاعت کرتے رہنا، نیز اللہ اور رسول اور اپنے اولوالامر کی اطاعت کرتے رہنا، اس کے بغیر اس امانت کی ذمہ داریاں ادا نہیں ہوسکتیں اور اگر کسی امر میں اختلاف واقع ہو تو ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو اللہ ور سول ہی کی طرف لوٹانا تاکہ اس نزاع کا صحیح فیصلہ ہوسکے اور وہ تمہارے شیرازے کو درہم برہم نہ کرنے پائے ۔

(60 تا 70)۔ منافقین کو ملامت کہ وہ اللہ اور رسول کی اطاعت پر مجتمع ہونے کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے میل جول رکھتے ہیں اور اس کو بڑی دانش مندانہ سیاست سمجھتے ہیں حالانکہ اس وقت تک ان کا ایمان ہی معتبر نہیں ہے جب تک وہ پورے طور پر اپنے آپ کو پیغمبر کے حوالہ نہ کردیں اور ہر معاملے میں ان کی اطاعت نہ کریں ۔

(77۔76)۔ مسلمانوں کو اپنی مدافعت اور دار الکفر میں گھرے ہوئے مظلوم مسلمانوں کی آزادی کے لیے جہاد کی تاکید۔ ان منافقین کو ملامت جو جہاد سے جی چراتے تھے، مسلمانوں کی ہمتیں پست کرتے تھے، مال غنیمت میں حصہ داری کے تو متمنی و مدعی تھے لیکن خطرہ کوئی بھی مول لینے کے لیے تیار نہ تھے ۔

(77۔80) منافقین کی اس متضاد روش پر ملامت کہ جب تک جہاد کا حکم نہیں ہوا تھا اس وقت تک تو وہ اپنی منافقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جہاد کے لیے بڑی بے قراری کا اظہار کرتے تھے لیکن اب کہ جہاد کا حکم دے دیا گیا تو جس طرح خدا سے ڈرنا چاہئے، اس طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ اسلام کے دشمنوں سے ڈرتے ہیں۔ حالانکہ موت سے کہیں بھی مفر نہیں۔ ان کی کج فہمی کا یہ حال کہ اگر کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کو تو خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن اگر کوئی ابتلا پیش آجائے تو اس کو پیغمبر کی بے تدبیری کا نتیجہ قرار دیتے ہیں حالانکہ خیر و شر سب خدا ہی کی طرف سے ہے البتہ شر جو پیش آتا ہے تو ان کے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آخر میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ جو تمہاری اطاعت کریں وہی درحقیقت خدا کی اطاعت کرنے والے ہیں، جو تمہاری اطاعت سے گریز اختیار کریں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کرو، تم پر ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔

(81۔ ۔85)۔ منافقین کی روش کی مزید تفصیل کہ جب پیغمبر کے سامنے ہوتے ہیں تب تو ان کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرتے ہیں لیکن جب وہاں سے ہٹتے ہیں تو ہر بات میں مین میکھ نکالنا شروع کردیتے ہیں حالانکہ پیغمبر جو کچھ بھی کہتے ہیں سب خدا ہی کی طرف سے ہے۔ قرآن کی کامل ہم آہنگی شاہد ہے کہ اس میں کوئی چیز بھی غیر اللہ کی طرف سے نہیں ہے ۔
پھر منافقین کی اس شرارت کی طرف اشارہ کہ اگر ان کو امن یا خطرے کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو سنسنی پیدا کرنے کے لیے اس کو فوراً پھیلا دیتے ہیں حالانکہ صحیح روش یہ ہے کہ اس کو رسول اور ارباب حل و عقد کے سامنے پیش کرتے تاکہ وہ اس پر غور کر کے اس کے تدارک کے لیے صحیح قدم اٹھاتے لیکن یہ مسلمانوں کے دل بٹھانے کے لیے یہ شرارت کرتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جو کسی حق کی تائید میں کوئی کلمہ خیر کہے گا تو اس کو اس میں سے حصہ ملے گا اور جو کسی حق کی مخالفت میں کلمہ شر زبان سے نکالے گا تو اس کو اس میں سے حصہ ملے گا۔

(86۔87)۔ منافقین کی مزکورہ بالا روش کے باوجود مسلمانوں کو یہ ہدایت کہ معاشرہ کے اندر ان کو نکّو بنانے کی کوشش نہ کیا جائے بلکہ ظاہری سلوک ان کے ساتھ وہی رکھا جائے جو مسلمانوں کے ساتھ ہونا چاہئے۔ یعنی ان کے ساتھ سلام کلام باقی رکھا جائے ۔

(88۔ ۔91)۔ جو منافقین دار الکفر میں پڑے ہوئے ہیں اور جن کی ساری ہمدردیاں کفار کے ساتھ ہیں، دار الاسلام کے مسلمانوں کو ان کے ساتھ اس وقت تک دوستی و حمایت کا تعلق پیدا نہیں کرنا چاہئے جب تک وہ دار الکفر کو چھوڑ کر دار الاسلام کی طرف ہجرت نہ کر آئیں، اگر وہ ہجرت نہ کریں تو ان کے ساتھ بھی اسی طرح جنگ جائز ہے جس طرح دشمن کے ساتھ۔ اس سے صرف وہ مستثنی ہوں گے جن کا تعلق یا تو کسی ایسی قوم سے ہے جن کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہے یا جن کے متعلق یہ عہم ہے کہ یہ اپنی کمزوری کی وجہ سے نہ تو اپنی قوم کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنا چاہے۔ نہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر اپنی قوم سے لڑنے کی ہمت رکھتے۔ مگر جن کے متعلق معلوم ہے کہ ان کے اوپر خود ان کی قوم کا یا دوسرے کفار کا دباؤ پر جائے گا تو وہ مسلمانوں سے لڑنے کے لیے آمادہ ہوجائیں گے تو وہ دشمن ہی کے حکم میں ہیں، ان سے جنگ جائز ہے۔

(92۔ ۔94)۔ دار الحرب میں پڑے ہوئے مسلمانوں کے جان و مال کے احترام سے متعلق بعض احکام ۔

(95۔ ۔100)۔ دار الحرب کے مسلمانوں کو ہجرت اور جہاد کی تاید تاکہ وہ کفر کے ماحول سے نکل کر اسلامی معاشرہ میں آئیں اور اپنے ایمان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اسلام اور مسلمانوں کو قوت بہم پہنچائیں۔

(101۔ ۔104)۔ جہاد کے لیے ہر وقت مستعد رہنے کے حکم کے تعلق سے خطرے کی حالت میں نماز کا طریقہ ۔

(105۔ ۔126)۔ ان مسلمانوں کو تنبیہ جو کھلے ہوئے منافقین کے معاملے میں بھی مداہنت برتتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ان کی طرف سے مدافعت کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ فرمایا کہ پیغمبر کے خلاف منافقین کی سرگوشیاں اور سرگرمیاں اور اسلام کی راہ چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کرنے کی کوشش کوئی معمولی جرم نہیں ہے۔ یہ چیز اپنی فطرت کے لحاظ سے شرک ہے اور شرک کو اللہ تعالیٰ کبھی معاف فرمانے والا نہیں ہے۔ خدا کے ہاں جھوٹی آرزوئیں کام آنے والی نہیں ہیں بلکہ ایمان اور عمل صالح کام آنے والا ہے ۔

(127۔ ۔130)۔ ابتدائے سورۃ میں جو احکام، یتیموں، ان کی ماؤں اور عورتوں سے متعلق بیان ہوئے ان کے متعلق بعد میں پیدا ہونے والے بعض سوالوں کے جواب ۔

(131۔ ۔147)۔ مسلمانوں کو پوری سختی کے ساتھ اس بات کی تاکید کہ جو کچھ حکم دیا جا رہا ہے اس پر بے چون و چرا عمل کرو، اس سے گریز و فرار کی راہیں نہ اختیار کرو اور منافقین کی کفر دوستی سے پوری شدت کے ساتھ اظہار بیزاری اور یہ تنبیہ کہ منافقین اور کفار دونوں کا ٹھکانا جہنم ہے ۔

(148۔ ۔149)۔ مسلمانوں کو اس بات کی نصیحت کہ ہر چند منافقین ہر ملامت کے سزا وار ہیں لیکن بے ضرورت بد زبانی و سخت کلامی ان کے ساتھ جائز نہیں ہے ۔

(150۔ ۔162)۔ اہل کتاب بالخصوص یہود کو، جو اس مرحلے میں طرح طرح کی سازشوں اور مختلف قسم کے اعتراضات سے مخالفت کے محاذ کو تقویت پہنچا رہے تھے سرزنش اور ان کے اعتراضات کے جواب

(163۔ ۔175)۔ قرآنی دعوت کے مرتبہ و مقام کی وضاحت اور اہل کتاب بالخصوص نصاری کو دعوت و نصیحت کہ اس روشنی کی، جو اللہ نے اتاری ہے، قدر کریں اور اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے نہ پھریں۔

(176)۔ ایک آیت مبینہ جو شروع میں بیان کردہ احکام کی وضاحت کے طور پر نازل ہوئی ۔

مذکورہ بالا تجزیے پر تدبر کی نگاہ ڈالیے تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ آیت 40 تک تو معاشرہ سے متعلق احکام وقوانین بیان ہوئے ہیں اور ضمناً کہیں کہیں اس ردّ عمل کی طرف بھی اشارہ ہوگیا ہے جو ان احکام کا کا مخالفین پر ہوا لیکن آیت 40 کے بعد کلام کا رخ بالتدریج اسلامی نظامِ حکومت کی اساسات کی وضاحت اور اسلام کے مخالفین کی طرف مڑ گیا ہے اور اس رویے پر تفصل کے ساتھ تنقید کی گئی ہے جو اس نظامِ حق کی مزاحمت کے لیے اہل کتاب اور منافقین نے اختیار کیا۔ منافقین اس میں خاص طور پر زد میں آئے ہیں۔ اس کی وجہ، جیسا کہ ہم نے سورۃ کے دیباچہ میں ظاہر کی، یہ ہے کہ معاشرے اور حکومت کے استحکام کے نقطہ نظر سے اس مارِ آستین گروہ کی بیخ کنی ضروری تھی ۔

قرآن مجید کے متعلق یہ بات یاد رکھیے کہ یہ صرف فقہی احکام کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ دعوت کا صحیفہ بھی ہے۔ اس وجہ سے اس کے لیے اس رد عمل سے تعرض ناگزیر ہے جس سے ان احکام کی تعلیم کے دوران میں سابقہ پیش آیا۔ چنانچہ قرآن ہر جگہ ان احکام کے پہلو بہ پہلو ان حالات سے بھی بحث کرتا ہے جو مخالفین نے اس وقت بالواسطہ یا بلا واسطہ پیدا کیے اور ان سے بحث کرنا تعلیم و دعوت کے نقطہ نظر سے نہایت ضروری ہے۔ لیکن جو لوگ قرآن کی اس خصوصیت سے واقف نہیں ہیں وہ اس بات سے حیران ہوتے ہیں کہ ان فقہی احکام کے ساتھ منافقین و معاندین کے اس تفصیلی ذکر کا کیا موقع تھا ۔

----------------------------

(بحوالہ : تدبر قرآن از امین احسن اصلاحی )