ا - سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
یہ سورۃ سابق سورۃ … سورۃ فرقان … کے مثنیٰ کی حیثیت رکھتی ہے اس وجہ سے دونوں کے عمود میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کا اثبات ہے لیکن نہج استدلال اور اسلوب بیان اس کا سابق سورۃ سے مختلف ہے ۔
سابق سورۃ میں جن انبیائے کرام کی سرگزشتوں کی طرف اجمالی اشارہ فرمایا گیا تھا اس میں ان کی تفصیل بیان کر دی گئی ہے ۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قریش کا ہن اور شاعر ہونے کا جو الزام لگاتے تھے اس میں اس الزام کی خاص طور پر تردید فرمائی ہے ۔
اس میں ہر پیرے کے بعد آیات ان فی ذلک لایۃ ط وما کان اکثرھم مومنین وان ربک لھو العزیز الرحیم بطور ترجیح آٹھ بار وارد ہوئی ہیں۔ اس ترجیح سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ آپ کی صداقت کے ثبوت کے لئے آپ سے کسی نشانی عذاب کا مطالبہ کر رہے تھے وہ اس میں خاص طور پر مخاطب ہیں۔ ان کو تاریخ کے حقائق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ رسولوں اور ان کے مکذبین کی تاریخ سے سبق لیں۔ ان لوگوں کی روش کی تقلید نہ کریں جو خدا کے عذاب میں گرفتار ہوئے ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
سورہ کے مطالب پر بھی ایک اجمای نظر ڈال لیجیے تاکہ عمود کے ساتھ اس کے مختلف اجزاء کا تعلق اور اس کا مجموعی ربط و نظام اچھی طرح واضح ہوجائے ۔
(9-1) تمہید، جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر قرآن کے مخالفین اس پر ایمان نہیں لا رہے ہیں، کسی نشانی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو آپ اس چیز سے پریشان نہ ہوں۔ اگر اللہ چہے گا تو کوئی ایسی نشانی اتار دے گا جو ان سب کی گردنیں قرآن کے آگے جھکا دے گی لیکن قرآن کی صداقت کسی خارجی نشانی کی محتاج نہیں ہے۔ یہ اپنی صداقت کی دلیل خود اپنے اندر ہی رکھتا ہے۔ اگر یہ لوگ اس کو جھٹلاتے ہیں تو جن خطرات سے قرآن ان کو آگاہ کر رہا ہے وہ سب ایک ایک کر کے پیش آ کر رہیں گے۔ اس کائنات میں نشانیوں کی کمی نہیں ہے لیکن جو لوگ ایمان نہیں لانا چاہتے ان کے لئے کوئی نشانی کارگر نہیں ہوتی۔ ان لوگوں کو خدا جب چاہے پکڑ سکتا ہے، وہ عزیز و غایت ہے، کوئی اس کے ارادے میں مزحم نہیں ہوسکتا لیکن وہ نہایت رحیم بھی ہے اس وجہ سے لوگوں کی سرکشی کے باوجود ان کو مہلت دیتا ہے ۔
(68-10) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی سرگزشت جس میں وہ واقعات اجمالاً بیان ہوئے ہیں جو فرعون کے پاس جانے کے حکم سے لے کر اس کی غرقابی تک پیش آئے۔ سرگزشت کے آخر میں انہی آیات کی ترجیح ہے جن کا حوالہ اوپر گزر چکا ہے ۔
(104-69) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت توحید کا حوالہ جو انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو دی۔ اسی ذیل میں ان لوگوں کے انجام کا بیان ہے جو اپنے مزعومہ شرکاء و شفعاء کے بل پر آخرت سے بے پروا ہیں۔ آخر میں آیات ترجیح ہیں ۔
(122-105) حضرت نوح کی دعوت اپنی قوم کو اور قوم کا متکبرانہ جواب اور انجام کا راس کی غرقابی۔ آخر میں آیات ترجیح
(140-123) حضرت ہود (علیہ السلام) کی دعوت اپنی قوم عاد کو قوم کی طرف سے ان کی متکبرانہ تکذیب اور اس کے نتیجہ میں عذاب الٰہی کا ظہور … آخر میں آیات ترجیح
(159-141) حضرت صالح کی دعوت قوم ثمود کو قوم ثمود کی تکذیب اور اس کا انجام … آخر میں آیات ترجیح ۔
(175-160) حضرت لوط (علیہ السلام) کی دعوت، ان کی قوم کا رویہ اور اس کا انجام … آخر میں آیات ترجیح
( 191-176) حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی دعوت کے ساتھ اہل مدین کا سلوک اور بالآخر ان کا حشر۔ اس سرگزشت کے آخر میں بھی انہی آیات کی ترجیح ہے جن کا حوالہ اوپر گزر چکا ہے ۔
(227-192) خاتمہ سورۃ جس میں تمہید کے مضمون کی پوری وضاحت فرما دی گئی ہے۔ اس کی تفصیلات تفسیر میں آئیں گی۔ یہاں اجمالاً مندرجہ ذیل امور ذہن میں رکھیے ۔
(ا) قرآن کا منبع وحی الٰہی ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت روح الامین کے ذریعہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے ۔
(ب) اس کا عربی مبین میں نازل ہونا اہل عرب پر اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم احسان ہے۔ اگر انہوں نے اس کی قدر نہ کی تو یہ ان کی انتہائی محرومی و بدبختی ہے ۔
(ج) اس کے دلائل پچھلے انبیاء کے صحیفوں میں موجود ہیں اور علمائے اہل کتاب ان سے واقف ہیں ۔
(د) یہ کفار کے لئے انذا رو تنبیہ ہے تاکہ مواخذہ سے پہلے ان کو اچھی طرح آگاہ کردیا جائے تو جو لوگ اس کی تکذیب پر اڑے ہوئے ہں وہ اس کے نتائج دور تک سوچ لیں ۔
(ھ) اس کو جنوں اور شیطانوں کی وحی قرار دینا محض خرد باختگی ہے۔ شیاطین جس قسم کے لوگوں پر اترتے ہیں۔ ان کی علامات کی طرف اشارہ ۔
(و) یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے بلکہ اللہ کا کلام ہے۔ قرآن اور شعر، پیغمبر اور شاعر میں امتیاز کرنے والی بعض کسوٹیوں کی طرف اشارہ ۔