25۔ سورہ فرقان : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

25۔ سورہ فرقان کا تعارف :
ا۔ سورتوں کے چوتھے گروپ پر ایک اجمالی نظر
سورہ فرقان سے سورتوں کا چوتھا گروپ شروع ہو رہا ہے۔ اس میں آٹھ سورتیں … فرقان، شعراء، نمل، قصص، عنکبوت، روم، لقمان، سجدہ … مکی ہیں، آخر میں صرف ایک سورۃ … احزاب …مدنی ہے۔ سورتوں کے جوڑے جوڑے ہونے کا اصول دوسرے گروپوں کی طرح اس میں بھی مرعی ہے۔ البتہ سورۃ احزاب کی حیثیت خلاصہ بحث یا سورۃ نور کی طرح تکملہ و تتمہ کی ہے۔ اسلامی دعوت کے تمام ادوار دعوت، ہجرت، جہاد … اور تمام بنیادی مطالب توحید، رسالت، معاد اس میں بھی زیر بحث آئے ہیں البتہ اسلوب، انداز اور مواد استدلال دوسرے گروپوں سے اس میں ی فی الجملہ مختلف نظر آئے گا ۔
اس گروپ کا جامع عمود اثبات رسالت ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قرآن کے وحی الٰہی ہونے کے خلاف قریش اور ان کے حلیفوں نے جتنے اعتراضات و شبہات اٹھائے اس گروپ کی مختلف سورتوں میں، مختلف اسلوبوں سے، ان کے جواب میں دیئے گئے ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کا اصل مرتبہ و مقام بھی واضح فرمایا گیا ہے۔ اسی کے ضمن میں قرآن پر ایمان لانے والوں کو، مرحلہ امتحان سے گزرنے کے بعد، دنیا اور آخرت دونوں میں، فوز و فلاح کی بشارت دی گی ہے اور جو لوگ اس کی تکذیب پر اڑے رہیں گے۔ اتمام حجت کے بعد، ان کو ان کے انجام سے آگاہ کیا گیا ہے ۔
یہ پورے گروپ پر ایک اجمالی نظر ہے۔ اب ہم اللہ کا نام لے کرگروپ کی ایک ایک سورۃ کی الگ الگ تفسیر شروع کرتے ہیں ۔
ب - سورۃ کا عمود
اس سورۃ کا عمود قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دفاع ہے۔ مخالفین نے جو شبہات و اعترضات، قرآن اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف اٹھائے وہ اس میں نقل کر کے ان کے جواب دیئے گئے ہیں۔ ساتھ ہی مخالفین کے اعتراض و انکار کے اصل محرکات کا بھی پتہ دیا گیا ہے اور قرآن کی جن باتوں سے وہ خاص طور پر متوحش تھے، مثلاً دعوت توحید یا انذار عذاب، وہ مزید دلائل سے مبرہن کی گی ہے ۔
ج -  سورہ کے مطالب کا تجزیہ
 (9-1) قرآن کا نزول سب سے بڑی برکت والی ہستی کی طرف سے سب سے بڑی برکت و رحمت کا نزول ہے لیکن توحید اور قیامت کے منکرین اس کو افتراء اور سازش قرار دے رہے ہیں۔ ان باتوں کا حوالہ جو مخالفین آنحضرت صلعم اور قرآن سے برگشتہ و بدگمان کرنے کے لئے لوگوں میں پھیلاتے تھے ۔
(34-10) مخالفین کے اعتراضات و مطاعن کا جواب، اور اس مخالفت کے پس پردہ محرک کی طرف اشارہ، پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کو صبر و استقامت کی تلقین اور تکذیب کرنے والوں کے انجام بدکا بیان ۔
(44-35) رسولوں اور ان کے مکذبین کی تاریخ کی طرف ایک اجمالی اشارہ جس سے مقصود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو صبر و استقامت کی تلقین ہے کہ جو لوگ اس کتاب کی تکذیب کر رہے ہیں یہ نہ خیال کرو کہ یہ سننے سمجھنے والے لوگ ہیں۔ یہ چوپایوں سے بھی زیادہ لایعقل اور اپنی خواہشوں کے غلام ہیں۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ تم ان پر حجت تمام کر دو۔ یہ اسی راہ پر چلیں گے جس پر چل رہے ہیں اور اس انجام سے دوچار ہوں گے جو ان کے لئے مقدر ہے تم اپنے فرض کی ادائیگی کے ذمہ دار ہو، ان کے رخ موڑ دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔
(60-45) قرآن کی دعوت کے اساسی مسائل … توحید اور معاد … کے اثبات میں آفاق کے بعض دلائل کی طرف اشارہ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس امر کی تلقین کہ مخالفین کے مطالبہ معجزات سے بے پروا ہو کر اسی قرآن کے ذریعے سے ان پر اتمام حجت کرو۔ اس قرآن میں گوناگون اسالیب سے وہ ساری باتیں واضح کر دی گئی ہیں جن کا واضح ہونا تمام حجت کے نقطہ نظر سے ضروری ہے۔ اگر لوگ اس کو نہیں مانتے تو تمہارا کام صرف انذار و تبشیر ہے۔ تم اپنا فرض ادا کر کے ان کو ان کے حال پر چھوڑو، ان بے سروپا اعتراضات کو کوئی اہمیت نہ دو جو انہوں نے محض کی مخالفت کے لئے بطور بہانہ ایجاد کئے ہیں۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ وہ ہر چیز سے آگاہ ہے۔ وہ ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کیر گا جس کا وہ مستحق ہے ۔
(77-61) اس دنیا کے روز و شب تذکیر و تنبیہ کے لئے کافی ہیں بشرطیکہ انسان یاد دہانی حاصل کرنا اور اپنے رب کا شکر گزار بندہ بننا چاہئے جن لوگوں کے اندر انابت اور اخشیت ہوتی ہے وہ اس طرح اکڑا نہیں کرتے جس طرح یہ متمردین اکڑ رہے ہیں بلکہ ان کی روش ان سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ خدا کے ذاکر و شاکر بندوں کی صفات کا بیان۔ آخر میں متمردین قریش کو تنبیہ کہ تمہیں جو اس درجہ اہمیت دی گئی اور تمہارے لئے تعلیم و دعوت کا یہ اہتمام کیا گیا تو اس لئے نہیں کہ تمہارے بغیر خدا کا کوئی کام بند ہے یا بند ہوجائے گا بلکہ مقصود صرف تمہاری صلاح و فلاح تھی۔ اب اگر تم خدا کی اس نعمت کی قدر نہیں کر رہے ہو تو وہ چیز لازماً پیش آ کے رہے گی جو اس ناقدری کا لازمی نتیجہ ہے ۔مطالب کے اس تجزیہ سے سورۃ کا عمود اور نظام اچھی طرح واضح ہوگیا ہے۔