نزول قرآن سے پہلے عرب کی زبانیں


12 ویں صدی عیسوی میں اندلس میں
لکھا گیا قرآن کا ایک صفحہ 
" اسلام اور عربی زبان کا ایسا لازوال رشتہ ہے کہ وہ کسی  عہد کسی ملک  میں منقطع نہیں ہو سکتا عربی زبان میں قرآن مجید کے نزول نے اس کی ابدیت اور  جہاں گیری پر آخری مہر لگادی ہے " (سید ابوالحسن علی ندوی  ؒ )
قرآن قریش کی زبان میں نازل ہو ا  قرآن مجید میں "بلسان قومہ" اور" عربی مبین" سے  اسی طرف اشارہ ہے ۔
قریش کی زبان  کی خوبی اور فصاحت کے دو سبب ائمہ لغت نے بیان کئے ہیں ۔ پہلا سبب یہ ہے کہ نزول قرآن سے کئی صدی  پہلے تمام عرب میں قریش کا قبیلہ اس لحاظ سے ممتاز تھا کہ اس  کا گذر  تجارتی  ذرائع سے نہ صرف عرب میں بلکہ آس پاس کے ممالک میں بھی ہو تا تھا ۔ اس بناء پر  اس کی زبان میں زیادہ وسعت پیدا ہوگئی  ، بلکہ بین العرب زبان  بن گئی  اس لے  قرآن کے لے ایسی زبان صر ف قریش کی ہوسکتی تھی ۔  دوسرا سبب یہ ہے کہ  حج کے لے تمام  ملک کا سالانہ مجمع صرف مکہ ہی کی سرزمین میں ہو تا تھا عرب کے  ہر  گوشہ سے لو گ یہا ں آتے تھے، عکاظ کا میلہ عرب کے لیے نہ صرف تجارت کا مرکز تھا بلکہ علمی  اکاڈیمی بھی  تھی  جہاں عرب کے معروف شعراء اپنا کلام پیش کر تے ، اس بناء  پر شہر مکہ کی زبان ایک  مشتر ک زبان تھی جو عرب کی تمام زبانوں سے زیادہ  فصیح اور بلیغ تھی ، شعرائے عرب بھی جب لوگ  حج کے لیے سمیٹ کر ایک نقطہ پر جمع ہو جاتے تھے اپنی شاعری کے لے لئے اسی  زبان کو  اختیار کرتے تھے ،جس کوعرب کا ہر عام و خاص  سمجھ سکتا تھا یہی سبب ہے کہ شعرائے عرب کے قصائد کی زبانوں میں اختلافات کے باوجود ایک قسم کی ہم رنگی پائی جاتی ہے  تمام عرب کو مخاطب کرنے کے لئے قرآن کے لیے یہی زبان زیادہ مناسب تھی ۔ قریش کے بارے میں  یہ خیال  درست نہیں کہ وہ   دوسری قوموں سے الگ تھلگ رہتاتھا ۔اس کے برعکس قرآن میں یہ ذکر آتا ہے کہ ہر سال ان کا قافلۂ تجارت  موسم سرما اور گرما میں  بیرون ملک جا تاتھا  بلکہ  جو قوم  دوسری قوموں سے الگ تھلگ رہتی ہے وہ اپنی زبان میں وسیع خیال نازک جذبات کی تعبیر نہیں کرسکتی لیکن قریش کی زبان  لطیف و نازک جذبات او ربلند و عالی خیالات کی تعبیر سےمالا مال ہے ۔زمانہ جاہلیت کے شعراء کا کلام اس کی گواہ ہے۔

     عربی مبین سے کیا مراد ہے ؟ مبین کے معنی ظاہر کرنے والا واضح کرنے والا کھولنے والا اکثر مفسرین نے ان آیتوں میں مبین کے یہی لغوی معانی   مراد لئے ہیں لیکن سید  سلیمان ندی اور دیگر  محققین کا خیال ہے کہ اس سے مراد  وہ  لہجہ ہے جو عرب میں رائج تھا عرب میں نزول قرآن کے وقت  عربی زبان کئی بولیوں اور لہجوں میں منقسم تھی ان میں جو فصیح ترین اور شریں ترین زبان تھی اس کا نام لسان عربی مبین تھا  جیسے اردو کے بہترین اور فصیح ترین زبان کو ہم اردوئے معلی کہتے ہیں ۔ اسی طریقہ سے باوجود اختلافات کے عربی زبان میں ایک خاص مستند اور ٹکسالی زبان تھی جس میں مختلف قبائل کے شعراء اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتے اور باہم  ایک دوسرے سے  گفتگو کرتے تھے اور یہی عربی مبین تھی ۔

     محدث حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہے کہ حضرت بریدہ سے مروی ہے کہ لسان عربی مبین سے مراد جرہم  کی زبان ہے ۔جرہم قریش کے نانہال مورث اول کا نام ہے جس کے خاندان میں حضرت اسماعیل ؑ نے شادی کی تھی ، اگرچہ محدثین نے  اس روایت پر جرح کی ہے ۔ لیکن یہ روایت اپنے زمانہ کی  ترجمانی کررہی ہے ۔ اسی یا قوت نے معجم میں ( لفظ عرب کے  ذیل میں ) ہشام کلبی کی روایت سے لکھا ہے  چھٹی زبان جوعرب میں اللہ تعالی نے بلوائی اور جو ان  سے پہلے نہ تھی و حضرت اسماعیل کو بلوائی بنو اسماعیل لسان مبین بولے اور یہ چھٹے بزرگ ہیں جو عربی میں بولے ان کی زبان اور تحریر مبین ہے اور یہی زبان آج تمام عرب کی زبانوں پر غالب ہے۔پھر لکھتاہے المبین لمعد بن عدنان " مبین  معد بن عدنان کی زبان ہے ۔ احادیث صحیحہ میں ہے کہ حضرت عثمان نے اپنے عہد میں جب قرآن کی نقلیں کرائیں تو کاتبوں کو حکم دیا کہ جس لغت کے تلفظ اور قراءت میں تمہاریے درمیان اختلاف ہو اس کو قریش کی لغت میں لکھو ۔ کہ قرآن قریش کی زبان میں اترا ہے ۔ (تاریخ ارض القرآن، سید سلیمان ندوی ؒ  )

     مورخین کا اتفاق ہے کہ عربی  زبان سامی زبان کی ایک شاخ ہے ، ان  کے مطابق بنو سام کا اصل مسکن عرب تھا ، اس لحاظ سے قدیم سامی زبان کا اصل مرکز بھی عرب  کا  علاقہ ہے  ۔ اب جدید تحقیقات سے سامی قبائل کا سراغ عرب ، عراق  ، شام  ہر جگہ ملاہے ۔


سامی زبانوں کی جغرافی حدود
     بلاشبہ  شروع میں سام بن نوح  علیہ السلام کا خاندان اوران  کی زبان   ایک   تھی ،  بعد  میں جب یہ  سینکڑوں خاندانوں  اور  قبائل  میں   تبدیل ہوا ،  تو  ان کی زبان بھی   مختلف ہوگئی  ۔ ان میں  سب سے ممتاز  قبیلہ بنوارم  کا  تھا ۔ ان کی حکومت تمام عرب ، عراق ، شام اور مصر تک پھیلی ہوئی تھی ۔ اس لحاظ سے ان ممالک کی قدیم زبان بھی   آرامی  تھی  ۔ السنہ سامیہ کے  محقق تھیوڈ نولڈیکی نے لکھا " یہ زبان (آرامی )عراق اور شام ،عراق اور عر ب میں بولی جاتی تھی بلکہ مصر اور ایران کی زبانوں میں بھی اس کے آثار ملتے  ہیں "( انسائیکلو پیڈ یا بر ٹانیکا  جلد 24 ص 623)

     تورات سے  بھی ثابت ہے کہ بابل (عراق) اور شام دونوں ملک میں قدیم زمانے میں بنو  ارم آباد تھے۔قرآن مجید اور عرب کے اشعار بھی اس کی تصدیق کر تے ہیں ۔  عاد اور ثمود کو و  ہ ارم کہتےتھے ، اس لحاظ سے ان ممالک کی قدیم زبان  آرامی عربی تھی ۔ واضح رہے کہ قدیم عربی زبان سے وہ بعینہ زبان  مراد نہیں جو  نزول قرآن کے وقت عرب میں بولی جاتی تھی اور جو اب تک محفوظ ہے اور نہ ہی آرامی سے وہ آرامی مراد ہے جس میں یہودیوں کی تالمود لکھی گئی ۔ اس  لے عربی زبان کی  ابتدائی  شاخ آرامی  تھی اور قدیم عربی کو   آرامی کہنا چاہیے ۔ حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد ،  اسحاق اور اسماعیل کی زبان بھی آرامی تھی ۔ قبیلہ جرہم جن میں حضرت اسماعیل ؑآبسے تھے ان کی زبان بھی وہ عربی نہ تھی جو نزول قرآن  کے وقت قریش بولتے تھے ۔ اس لے  نسل اسماعیل کے بارے میں  یہ خیال کہ عربی ان کی اصلی زبان نہ تھی بلکہ جرہم کے ساتھ رہ کر انہوں نے سیکھی تھی درست نہیں ۔ قدیم ترین کتبات جن کی زبان آرامی عربی  ہے ان مقامات میں پائے گئے جن میں ثمود  آباد تھا ۔  محققین نے  ان کو " پروٹو عربک " ابتدائی عربی کا  نام دیا ۔ (انسائیکلو پیڈ یا بر ٹانیکا  جلد 24 ص 624)  اس لحاظ سے عاد اور ثمود  امم بائدہ کی زبان   آرامی عربی  تھی ۔

     محققین نے سامی زبان کو متعدد شاخوں میں تقسیم کیا ہے۔
عرب  علاقوں کی   زبانیں  : آرامی ، ثمودی ، مدیانی ، نبطی ، عدنانی ، سبائی ، حمیری ، حبشی ۔
 قدیم عراق بابل کی زبانیں   : آرامی ، کلدانی ، سریانی ۔
شام کے علاقوں کی  زبانیں  : آرامی ، فینقی ، عبرانی ، تدمری ۔
اسی طرح  انہوں نے  عرب کی تمام قوموں کو  تین طبقوں میں تقسیم کیا ہے :عرب بائدہ  ، عرب عرباء یعنی بنو قحطان اور عرب مستعربہ یعنی بنو اسماعیل یہ تینوں طبقے تین مختلف زبانیں  بولتے تھے ، یہ تینوں زبانیں اپنی اصلیت کے روسے عربی ہی   تھی ۔
اس کے ساتھ  انہوں نے عرب کو جغرافیائی لحاظ سے  دو حصوں میں  تقیسم کیا ہے ، جنوبی قبائل اور شمالی قبائل،   بنو قحطان جنوبی عرب کے باشندے تھے جبکہ بنو اسماعیل شمالی عرب کے  رہنے والے تھے ۔

  اس لحاظ سے  ان کی زبان بھی دو شاخوں میں تقسیم ہے ۔ جنوبی عربی او ر شمالی عربی،  ان دونوں میں کئی لحاظ سے  اختلاف ہے ۔  علماء  لسانیات نے ان تمام اختلافات کو مختلف قبائل کی بولیوں  کی طرف منسوب کیا  جیسے جنوبی بولیا یہ تھیں : سبائی،  حمیر ی ، حضرموتی ، مہری ، حبشی ، وغیرہ ،  ان میں سے اکثر بولیاں   نزول قرآن تک بو لی جاتی تھیں ۔ گو بعد کو  حبشی تغیر  کے بعد ایک مستقل زبان بن گئی ۔ شمالی زبانوں کی حدود تدمر ( شام کے قریب ) اور حیرہ (عراق کے قریب ) سے شروع ہوتے ہیں ان کی حسب ذیل شاخیں ہیں  تدمری ، نبطی ، حجازی ، ان میں بھی  الفاظ حروف معانی اور قواعد کا باہم فرق ہے ، دو پہلی زبانوں میں آرامی کا اثر زیادہ نمایا ں ہے تدمری قرآن کی عربی سے الفاظ میں بہت  مختلف  ہے ۔  بلکہ عبرانی کےقریب قریب ہے ۔ نبطی جو اصحاب الحجر کی زبان تھی وہ قرآن کی عربی سے بہت قریب ہے ، نبطی خط بھی قدیم عربی خط  سے مشابہ ہے ۔
 جنوبی اور شمالی زبانوں کے چند اہم  اختلافات حسب ذیل ہیں ۔
1۔ الفاظ کا فرق ، بہت سے ایسے الفاظ ہیں جو جنوبی زبانوں میں مستعمل ہیں وہ شمالی میں نہیں مثلا : المقہ : چاند  ، عرم : بند ، مزندن : لوح ۔
2۔ معانی میں فرق : لفظ ایک ہے لیکن معنی میں تخصیص ، تعمیم یا کسی اور قسم کا فرق ہے مثلا  ذو : جنوبی میں بادشاہ اور شمالی میں اس کے معنی ہیں والا ۔ بیت  قلعہ جبکہ شمالی میں  گھر کے لے  بولا جاتا ہے حضر : شہر اور شمالی میں  مستقل آبادی کو کہتے ہیں ۔
3۔ قواعد کا فرق : مثلا شمالی عرب میں علامت جمع " ن " ہے جنوبی میں " م "  شمالی عربی میں  حرف تعریف" الف" ہے جنوبی میں " میم " ۔

ان زبانوں میں ہر ایک کے قواعد صرف اور نحو و لغت پر ماہرین نے  متعدد کتابیں لکھی ہیں ، چند مشہور  اختلافات  مثلا  یہ کہ شمالی عرب  کے "س" کو جنوبی عرب میں " ت  "او ر" کا ف "کر دیتے تھے جیسے "ناس "کو" نات" اور" علیک "کو "علیش" الف لام تعریف کی جگہ الف میم ، طاب الھوا کی جگہ وہ طاب المھوا اسی طرح  حرف کو کم کردینا،  ماشاء اللہ کو  مشاء اللہ  کہنا ۔
قرآن مجید میں سبائی  حمیر ی زبان  کا ایک لفظ" عرم " سبا کے قصہ میں آیا ہے  حبشی کے کئی لفظ جو  عرب کے عیسائیوں میں اس سبب سے مستعمل تھے کہ جنوبی عرب میں عیسائیت وہیں سے  آئی تھی اس لے  قرآن مجید کی مذہبی زبان میں بھی وہی الفاظ چلے آئے ۔ مثلا : نفاق ، صحف ، برھان ، جیت ، مرج ، مائدہ ، مشکوۃ ، سورۃ ، حواری ، تبع ، استبرق ، ورق  وغیر ہ ۔


نزول قرآن کے وقت عربی زبان اپنے عروج کو پہنچی ہوئی تھی لیکن اس بات کا پتہ لگانا مشکل ہے کہ اس کی ابتدا کس طرح ہوئی  اور کن کن مرحلوں سے گذر کر موجودہ حالت تک پہنچی؟ کیسے پہنچی؟ ان تمام حالات اور عوامل کا جائزہ لینا  مشکل ہے البتہ بعض مستشرقین اور ماہرین  آثار قدیمہ نے یمن شام اور شمالی حجاز  کے  دریافت شدہ  کتبوں سے قدیم عربی زبان سے متعلق بہت سی باتیں معلوم کرلی ہیں ان کتبوں اور نقوش کو قبائل کے  لہجوں کے اختلاف سے  تین گروہوں میں تقسیم کیا  گیا :

1۔ جنوبی عربی لہجہ : اس کے کتبے یمن کے علاقہ قتبان ، معین ، اور سبا  میں ملے ہیں ۔
2۔ شمالی عربی لہجہ : اس کے کتبے حجاز کے شمال میں ثمود کے رہنے کی جگہوں میں ملے ہیں ۔
3۔ آرامی نبطی لہجہ : یہ لہجے مذکورہ بالا لہجوں کے مقابلہ میں نئے ہیں ان لہجوں کے  رسم الخط میں بڑا اختلاف ہے جس سے انداز ہو تا ہے کہ ان سب زبانوں کے   رسم الخط  اور بولیوں میں  اختلاف ہے لیکن بعد  میں یہ اختلاف ختم ہوکر  ایک صاف ستھرا  شیریں لہجہ وجود میں آیا یقنیا  قرآن اسی لہجہ کی طرف عربی مبین  یا بلساقومہ سے اشارہ کر تا ہے ۔ جیسے ابھی ذکر ہوا ہے ۔
عرب قبائل  کے چند مشہور  لہجوں کی  مثالیں یہ ہیں :

1۔ جیسے قبیلہ مازن" ک" کو بدل "ب "کر دیتے تھے اور" ب "کو بدل کر" م "کردیتے تھے " مااسمک" کی جگہ  "باسمک"  اور" بکر " کی جگہ" مکر "بولتے تھےقبیلہ خشعم اورزبید "من"  حرف جار کے" نون "کو حذف کردیتے اور" خرجت من البیت" کی جگہ" خرجت ملبیت" کہتے تھے ۔ آج بھی مصر اور لبنان میں یہ لہجہ معروف ہے ۔
3۔ قبیلہ قضاعہ  عین کے بعدی  ہو تو اس کو ج سے بدل دیتے جیسے  راعی کی جگہ راعج ، قضاعہ والے الراعی خرج معی کو الراعج خرج معج کہتے تھے ، حمیر والے ال کی جگہ ام بولتے تھے جیسے البر کو امبر الصیام کو امصیام یا طاب الھوا کو طاب امھوا کہتے ۔
4۔ قبیلہ ہذیل ح کو ع سے بدل  دیتے  جیسے احل اللہ الحلال  کو اعل اللہ العلال کہتے اسی طرح الحسن کو العسن  کہتے قبیلہ تمیم لفظ کے ابتدائی ہمزہ کو عین سے بدل دیتے جیسے امان کو عمال ان کو عن کہتے تھے ۔
5۔ قبیلہ ربیعہ اور اسد مونث حاضر کے "ک "کو" ش" سے بدل دیتے تھے "علیک "کی جگہ "علیش" کہتے تھے یا عام " ک" کو " ش  "پڑھتے علیک کی جگہ علیش،  قبیلہ طئے آخری حرف کو حذف کردیتے جیسےیا  ابا الحسن کی جگہ یا ابا الحسا کہتے    ۔
6۔ بنو تمیم ہمزہ ابتداء کو عین کر دیتے تھے ، جیسے" اسلم "کو "عسلم "
7۔ بنو ہذیل ج کو عین کردیتے تھے جیسے" جرب"  کو "عرب  "
8۔ بنو قضاعہ ی کو جیم کردیتے تھے جیسے " تمیمی "  تمیمج "
9۔ بنو سعد ع کو ن کہتے تھے جیسے"  اعطی" کو" انطی "
10۔ قریش اور اسد کی زبان میں ہائے مضارع کو فتحہ  یا ضمہ ہو تا ہے  ان کے علاوہ دیگر قبائل کسرہ دیتے تھے ،  یَفعل کو   یِفعل  کہتےتھے ۔
11۔ ربیعہ اور مضر مونث میں کاف خطاب کے بعد ش بڑھا دیتے تھے جیسے " علیک " کی جگہ " علیش "
12۔ ج کو " گ " بولتے تھے یسے جبعہ کو گبعہ ۔
ان اختلافات کے علاوہ شاذ منفرد لغات جو عربی فلسفۂ لغت کی کتابوں میں لکھے گئے ہیں وہ بھی ان ہی زبانوں  کے بقایا ہیں ان ہی وجوہ سے لغویین عرب کا قول ہے ؛ ان  لغۃ العرب  لم تنتہ الینا بکلیتھا و ان الذی جاءنا عن العرب قلیل عن کثیر وان کثیر ا من الکلام  ذھب بذھاب اھلہ ( مزھر سیوطی : ص 43 مصر )
"عرب کی زبان ہم تک مکمل صورت میں نہیں پہنچی جو عربی کے الفاظ ہمارے پاس محفوظ ہیں وہ غیر محفوظ کے مقابلہ میں کم ہیں بہت سے الفاظ ان کے بولنے والوں کےساتھ مرجا نے سے  مٹ چکے ہیں ۔ " 
     اسی طرح شمالی عرب کے مختلف قبائل میں لہجہ تلفظ  اور الفاظ کی حرکات میں اختلاف تھا ، چنانچہ اوائل نزول قرآن تک یہ اختلاف موجود تھے  اس لیے  شعراء عرب کے وہ قصائد اور اشعار جو نزول قرآن سے پہلے سو دوسو  برس کے اندر لکھے گئے ۔ قرآن کی زبان اور جو  اس عہد کے  شعراء کے کلام کی زبان  میں زمین آسمان کا فرق ہے ہم قرآن  کے ایک ایک لفظ کا ترجمہ آسانی سے  کر سکتے ہیں ۔ شعرائے جاہلیت کے  کلام کے حل کرنے کے لئے قدم قدم پر لغت کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
شمالی لہجہ جنوبی لہجہ کے مقابلے میں قدرے نیا  تھا ہمارے پا س قدیم جاہلی شعراء  کا کلام اسی عدنانی لہجہ میں ہے جیسے الاعشی اور طرفہ بن العبید قبیلہ تغلب سے تھے النابغہ الذبیانی اور عنترہ بن شداد العبسی قبیلہ مضر سے تھے یہ دونوں قبیلے عدنانی تھے بعض محققین کا یہ استدلال معقول لگتا ہے کہ عدنانی زبان اپنی اصل سامی کے زیادہ قریب ہے اس کی  دلیل محققین کے خیال میں  یہ ہے کہ یہ قبائل دیگر اہل زبان جیسے عبرانی بابلی اور اشوری کی طرح کبھی کسی کے غلام نہیں  بنے، صحراء نشین ہونے کی وجہ سے حملہ آوروں کی دست درازی سے بچے رہے ۔
عربی زبان میں لاکھوں الفاظ ہیں   آج تک کبھی استعمال میں نہیں آئے اور نہ قرآن  و حدیث میں مستعمل ہوئے اس سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ مختلف قبائل کی زبانوں کے الفاظ کا ایک مخلوط مجموعہ ہے جو قرآن کی عربی کے ماورا ہے ۔ اہل لغت اور مصنفین صرف و نحو نے  ان اختلافات کو بہت کم محفو ظ رکھا ، کتاب سیبویہ ، خصائص ابن جنی ، اوضح المسالک ، مزہر سیوطی میں    شاذ اور خلاف قواعد یا قیاس کے نام  سے ان  شواہد کا تذکرہ ملتاہے   وہ درحقیقت قرآن کی عربی کے قواعد کے خلاف ہوں تو ہوں لیکن اصل عربی زبان  کے وہ خلاف نہ ہوں گے ۔  عام نحو کی کتابوں میں صرف ذو کے متعلق یہ بیان باقی رہ گیا ہے کہ وہ لغت طی میں الذی کے معنی میں ہے ۔
یہ زبان تمام شمالی عرب میں  یمن سے لے کر شام و عراق تک بولی جاتی تھی لیکن حجاز اور نجد کی زبان سب سے بہتر تھی او ر ان میں بھی قبیلہ بنی سعد اور قریش کی زبان اسی لئے آنحضرت ﷺ نے ان دوقبیلوں کے انتساب پر فخر کیا ہے ۔ آپ ﷺ قریش میں پیدا ہوئے تھے اور بنو سعد میں پرورش پائی تھی ۔
قرآن کریم سے جو باتیں عربی زبان نزول قرآن  کے بارے میں  معلوم ہوتی ہیں  یہ ہیں :
1۔ تمام رسولوں کو رسالت کا پیغام اپنی ا پنی کی قومی زبان میں عطا کیا گیا ۔  اسی طرح  محمد رسول اللہ ﷺ کو بھی ، ان کی اپنی قومی زبان عربی میں رسالت کا پیغام دیا گیا ۔ ( إبراهيم: ٤)
2۔ قرآن کی زبان عربی مبین ہے ۔  (النحل: ١٠٣)
3۔ قرآن کو آپ ﷺ کی زبان پر یا آپ ﷺ کی زبان کے ذریعے آسان بنادیا گیا ۔ (مريم: ٩٧)
4۔ قرآن رب العالمین کا اتاراہوا ہے ، اس کو عربی زبان میں  لیکر روح امین(جبریل ؑ)  نازل ہوئے۔ ( الشعراء: ١٩٢ – ٢٠٠)
5۔  قرآن نبی پاک کے قلب اطہر پر اتارا گیا  ۔( الشعراء: ١٩٢ – ٢٠٠)
6۔  قرآن کو عجمی زبان میں نہیں اتارا گیا ۔(النحل: ١٠٣، الشعراء: ١٩٢ – ٢٠٠)
7۔ قرآن عربی لسان میں ہے ۔  (الأحقاف: ١٢)
نبی ﷺ کو قرآن  سن کر یاد کرنے کا حکم دیا گیا   اور زبان کو حرکت دینے سے منع کیا  گیا ہے۔ ( القيامة: ١٦ – ١٩)

9۔ قرآن کو جمع  اور بیان کرنے کی ذمہ  داری خود اللہ تعالی نے لی ہے ۔ ( القيامة: ١٦ – ١٩)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔