قرآن کریم کی زبان عربی کا مستقبل

دنیا اب سمیٹ کر ایک محلہ بن گئی ہے ۔ اس سے بین الاقوامی تعلقات کو فروغ ملا ۔ انسانوں کے باہمی تعصبات میں کمی آئی ۔انسان ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہو گیا ۔زبانوں کو فروغ ملا، ہر ایک دوسرے کی زبان سے واقف ہونے لگا ۔ تہذیب وثقافت کے دائرے مٖٹنے لگے ۔ انسان عمل وفکرہر چیز میں باہمی متحد ہونے لگے۔  تمام ناقص مذاہب کے دائرے ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہوگئے۔

اب ایک عالم گیر تہذیب، ایک عالم گیر مذہب اور ایک عالم گیر زبان بین الانسان کی ضرورت محسوس ہورہی ۔ جو ہرلسانی ضروریا ت کو پورا کر ے ۔ ہر فکر وعمل کو انسانی فطرت کےمطابق بنادے ۔  یقینا یہ کا م دین اسلام اور عربی زبان اور قرآن کریم اور سیرت النبی ﷺ کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔  اس کے علاوہ کو ئی اور ذریعہ، انسانی اتحاد کے لے ناممکن ہی نہیں بلکہ باعث انتشار ہے۔ 

تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں عربی زبان، قرآن وسیرت النبی ﷺ نے دنیا کو ایک مثالی نظام حیات دیا جس کے اثرات انسانی زندگی میں نظر آئے ۔ 

عربی ایک فطری کامل اور محفوظ زبان ہے ۔ اس حوالے سے دنیا کی کوئی زبان اس کے مقابل کھڑی نہیں ہوسکتی ۔  یہ دنیا کی واحد زبان ہے جس میں مختصر اسلوب میں باریک سے باریک معنی کے اظہار اور نازک سے نازک مسئلہ کی توضیح وتشریح  اور ہر جدید تقاضوں کو بھی خوبی سے انجام دینے کی پوری صلاحیت ہے ۔ 

ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ دیگر زبانوں کے سوا عربی زبان انسان کے تمام فطری جذبات ،احساسات کو بیان کر نے کا واحد ذریعہ ہے ۔  کیونکہ اس میں سامی زبان کی باقیات کے ساتھ ساتھ تمام انسانی زبانوں کی خوبیاں بھی موجود ہیں ۔ 

اس سے اس بات پر یقین آتا ہے کہ اللہ نے چونکہ اس زبان میں اپنے آخری پیغام کو پیش کر نا تھا اس لے اس کی حفاظت کی ، اس کو مٹنے نہ دیا ۔ جس طرح قرآن مجید قیامت تک محفوظ ہے عربی زبان بھی محفوظ ہو گئی۔ اس کا مستقبل اللہ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لے محفوظ کر دیا ۔

اس وقت سوچ نے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لے آخری کتاب قرآن مجید اور معلم کتاب اور شریعت اسلام کو عربی زبان سے کیوں وابستہ کیا ؟ ہر مسلمان کے نام ، عبادت ، رسم رواج سب کے ساتھ عربی زبان کا تعلق ہے ۔ عربی نہ صر ف زبان کی حد تک بلکہ ہر مسلمان کی روح میں بسی ہوئی ہے ۔ 

 قرآن کی تلاوت 7/24 وقت عام ہو نے کی وجہ سے مسلسل پھیلتی اور ترقی کرتی جا رہی ہے ۔