نظم کلام پر ایک نظر

 انسانی کلام کے دو رنگ بہت نمایاں ہیں  : ایک  منطقی، استدلالی  ،عقلی۔  دوسرا عاطفی ،جذباتی    ۔ اسی طرح تحریر بھی دو طرح کی  ہوتی ہے   علمی  یا  ادبی۔  ہر ایک کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں ، ہر ایک   کے متاثر کرنے کا انداز  بھی مختلف  ہے ۔  علمی تحریر میں زیادہ زور افکار کی درست تعبیر پر ہوتا ہے ،  اس میں  مبالغہ کی گنجائش  نہیں ہوتی ، صرف مجرد حقائق کی ترجمانی کی جاتی ہے ، عبارات  بقدر ضرورت ،  زیادہ لفاظی  نہیں ہوتی ۔ جبکہ ادبی تحریر میں تصورات ، مبالغہ آرائی اور معانی مجازی ،تشبیہ ،استعارات  اورکنایات سے زیادہ کام لیا جاتا ہے  اس میں صرف الفاظ کے معانی پر انحصار  نہیں  ہوتا  ، بلکہ ان تمام  وسائل سے مد لی جاتی ہے جن سے قاری یا سامع  کے ذہن میں کوئی خاص  تصویر ابھرے  جن سےوہ  زیادہ سے زیادہ متاثر ہو ، اسی  سے اندازہ  لگایا جاتا ہے کہ کون سی عبارات ادبی ہیں  اور کون سی علمی  ۔

       دنیا کی  ہر زبان  ، لفظوں  کے مختلف  مجموعہ پر مبنی ہوتی   ہے     ان کو  فقرہ  یا  جملہ   کہاجا تا ہے۔  ان   میں  الفاظ  ایک دوسرے سے اس طرح  مربوط ہو تے ہیں جیسے ہار میں موتیاں ۔  اس ربط یا نظم کی جملوں میں  بڑی اہمیت ہے  ،اسی سے  الفاظ کے معانی کا تعین ہوتا ہے ۔  اگر اس  نظم  یا ربط  میں کوئی نقص ہو گا   تو  کلام   معمہ بن جائے گا ،  اس سے  نہ صرف کلام کا ابلاغ  متاثر ہوگا بلکہ  اس کا  مقصد بھی فوت ہو جاےگا۔

 کسی  کلام کا مطلب  سننے اور پڑھنے والوں پر اس وقت  اچھی طرح واضح ہوتا ہے  جب فقرہ میں   لفظوں کا مقام اور حیثیت  متعین ہو تا ہے  آیا کہ   وہ   فاعل ہے یا مفعول ، متبدا ہے یا خبر ،  حال ہے یا صفت  وغیر ہ  ۔  یہی وجہ ہے کہ اکثر   مفردات کے  معانی  جو  معاجم اور قاموس میں    ہیں     فقروں میں استعمال کے بعد تبدیل  ہوجاتے ہیں ۔

           مثلا جب ہم عر بی کا  یہ جملہ پڑھتے ہیں ( ذھب الطفل الی المدرسۃ : بچہ سکول گیا  )  تو اس کو پڑھتے ہی کئی تصورات نہایت تیز ی سے ہمارے ذہن میں ابھر تے ہیں جیسے ،  طِفل کے لفظ سے  ہمارے ذہن میں  ایک  ننےسے بچے کی تصویر آئے گی  جو  بیگ لیے سکول جا رہا ہے ،  ساتھ ہی مدرسہ کے لفظ سے   ایک عمارت کی تصویر آئے گی  جہاں بہت سارے بچے ہیں، صبح  سمبلی کے لیے قطار بنا رہے ہیں ، اسمبلی سے فارغ  ہوکر کلاس روم کی طرف جارہے ہیں وغیرہ وغیر ہ  ۔ یہ  مختلف تصورات ہیں جو لفظ  طفل اور مدرسہ کے ساتھ جوڑے ہوئے  ہیں اور آخیر میں  ذَھَبَ  کے لفظ سے  بچے کے  سکول جانے کا عمل معلوم ہوتا ہے،  یہ سب  خیالات   اس فقرے کو سن کر یا پڑھ کر   ہمارے ذہن میں نہایت تیزی کے ساتھ جنم لیتے ہیں ۔ اس فقرہ میں : ذھب، طفل، مدرسۃ، ہر ایک لفظ  باہم ملکر ایک پوری تصویر  یا منظر پیش کرتا ہے ۔اس تصویر یا منظر کا  کا ادراک نظم کلام سے ممکن ہوا ۔

       طفل جو فقرہ میں بطور  فاعل ہے ،  مدرسہ نے اس کے معنی کو باکل  متعین کردیا کہ وہ  ایک طفل مکتب ہے ،   اسی طرح ذَھَبَ کا  معنی مدرسہ کے ساتھ ملکر متعین ہوگیا  کہ  مدرسہ جانے کا عمل خاص وقت میں  ظہور پذیر ہوا ہے ۔ بچہ سکول ہی  گیا کہیں اور نہیں گیا ۔ اس کا تعین لفظ  مدرسہ نےکردیا۔ یہ ساری باتیں ہمیں نظم کلام   یا ربط  الفاظ ہی سے معلوم ہوا جو ایک مجموعی صورت میں ہمارے ذہن میں ظاہر ہوئیے  ۔ اگر  (ذھب، طفل، مدرسۃ،) تینوں لفظوں کو الگ الگ سنا یا پڑھا جائے اس کے معنی سے  واقف ہونے کے باوجود کوئی مکمل مطلب ،مفہوم ذہن  میں نہیں آئے گا ۔ یقینا   مذکورہ  مثال سے  واضح ہوا ہوگا کہ کلام میں  نظم  الفاظ  کی کس قدر اہمیت ہے ۔


       اس باب میں اسلاف میں سے  سب سے زیادہ  شہر ت عبدا لقاہر جرجانی ؒ  کو حاصل ہے انہوں  نے اپنی کتاب " دلائل الاعجاز " میں  نظم کلام کے بارے میں  جو کچھ لکھا اس کا خلاصہ یہ ہے  کہ  کلام میں نظم یہ ہے کہ  وہ   علم النحو کے قواعد کے مطابق ہو ،   ان کے نزدیک علم النحو کے  قواعد پر عمل کرنا  ہی نظم کلام ہے  ۔ انہوں نے  نظم کلام کے مختلف  اسالیب کی نشاندہی کی ہے ۔جیسے جملہ استفہامیہ،   جملہ نافیہ اور خبریہ میں  تقدیم  و تاخیر پر بحث کی  ۔ اسی طرح فصل ،  وصل  ، قصر اور اختصاص میں بھی الفاظ کی تنظیم  کے بارے میں  وضاحت کی ہے ۔پھر  سکاکی،خطیب قزوینی ، سبکی نے ان کے مسلک  کی پیروی  کی ، اس کو انہوں نے علم البلاغۃ کا نام دیا، بعد میں مختلف شروحات منظر عام میں آئیں،  ان میں سب سے مشہور شرح " شروح التلخیص " ہے ۔     جملوں  میں الفاظ کی ترتیب کے متعلق علم البلاغہ  میں کئی بحثیں  ملتی ہیں جیسے  فصاحت کلام ،   احوال مسند ،  مسند الیہ اور   احوال افعال ،  فصل و  وصل  کے مسائل ۔ ان تمام موضوعات میں جملوں کے  الفاظ کی خاص ترتیب  کے بارے میں کئی مسائل کا ذکر ملتا ہے ۔  علماء نحو نے بھی انہیں  مسائل کو بیان کیا البتہ انہوں نے  ان  مسائل پر زیادہ توجہ دی  جن کا تعلق جملوں میں  ترتیب کلمات سے ہے ،جیسے  اثبات  ، نفی ، تعجب ، استفہام ، تاکیدو غیرہ میں   تقدیم و تاخیر کی بحث ہے ، اس  طرح کے تمام  فقروں میں  الفاظ کی ایک خاص  ترتیب اور نظم  پائی جاتی ہے ۔

       یہاں پر انگریزی زبان سے ایک مثال پیش کی جاتی ہے جیسے انگریزی زبان کا ایک فقرہ : Business is Business
اس میں معلوم نہیں کہ کون سا لفظ مسند او ر کون سا مسند الیہ ، لیکن جب انگریزی زبان کی   نظم کلام  کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کون سا لفظ مسند اور کون سا مسند الیہ ، کیونکہ قاعدہ کے مطابق مسند الیہ مقدم ہے اور مسند موخر اس لے اس کے بارے میں یہ کہنا درست ہے کہ ہر  زبان خاص قواعد کے پابند ہے ، اس کے الفاظ فقروں میں قواعد کے مطابق مربوط  ہو تے ہیں ۔

علمائے لسانیات کے    تجربہ سے ثابت ہو ا کہ ہمارا حافظہ بھی الفاظ کے ادراک میں  خاص نظم  کے پابند ہے ۔  سب سے پہلے ہمارا حافظہ اعلام(اسم علم)  کا ادراک کرتا  ہے پھر اسماء محسوسہ  جن کا ادراک جلدی کرلیتا ہے۔  اس کے بعد  اسماء مجردہ اور معنویہ جن کے ادراک کے لیے ذہن پر زور  پڑتا ہے۔اسی طرح  جب  ہمارے ذہن  کی تختی سے   الفاظ  کے معانی مٹتے ہیں  تو سب سے پہلے اعلام پھر اسماء محسوسہ پھر مجردہ اور معنویہ  ۔  محققین اس کی وجہ یہ بتا تے ہیں کہ   اسماء محسوسہ کے ادراک کے لیے  ذہن کو  زیادہ تگ ودو کی ضرورت نہیں ہوتی ،   ان کے معانی ہمارے حواس سے جوڑے ہوتے ہیں ۔ جب کہ اسماء معنویہ  اور مجردہ  جن کے معانی فوری ذہن قبول نہیں کرتا  بلکہ ان کے ادراک کے لیے ذہن کو  بیدار کرنا پڑتا ہے۔  اسی  کد و کاوش کے نتیجے میں ان کے معانی    ذہن میں نقش ہو جا تے ہیں ۔  یہی وجہ ہے کہ جن الفاظ  کے معانی کے ادارک کے لیے  زیادہ  غور وفکر سے کام لیا جائے گا وہ زیادہ دیر تک ذہن میں  محفوظ  رہیں  گے۔

       تاہم علماء لسانیا ت کے لئے   حتمی طور پر یہ معلوم کرنا  کہ ہر زبان میں یہ خاص اہتمام کیوں ہے،  جملوں کے الفاظ میں یہ ترتیب اور تنظیم کس لیے ہے، بہت   مشکل ہے ۔  ہر   زبان کی  اپنی اپنی  تاریخ ہے  جس میں وہ  ترقی کرتی ہوئی  ترتیب الفاظ کے ایک خاص نہج  تک پہنچی ۔ اس میں صدیاں بیت گئیں ، لیکن ان تما م  ادوار ،حالات اور معاشرتی وسائل کا جائزہ لینا جنہوں نے اس زبان کے نظم کلام میں حصہ لیا  ممکن نہیں  ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون نگار :

 ابوالبشر احمد طیب ، سابق لیکچرار شعبۂ عربی ،  بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد

حالیہ ، شعبۂ عربی و اسلامیات ،  فیڈرل گورنمنٹ سائنس ڈگری کالج ، واہ کینٹ