"قرآن سات حرفوں پر اتارا گیا ہے "سے کیا مراد ہے ؟ مولانا امین احسن اصلاحی

"قرآن سات حرفوں  پر اتارا گیا ہے "سے کیا مراد ہے ؟

" حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ (انزل القرآن علی سبعۃ احرف) (قرآن سات حرفوں پر اتارا گیا ہے) سات حرفوں کے معنی اگر یہ لیے جائیں کہ قرآن کے تمام الفاظ سات طریقوں پر پڑھے جا سکتے ہیں تو یہ بات بالبداہت غلط ہے۔ اس صورت میں قرآن ایک معمہ بن کے رہ جائے گا درآنحالیکہ قرآن خود اپنے بیان کے مطابق کتاب مبین ہے اور قریش کی ٹکسالی زبان میں نازل ہوا ہے۔ جو لوگ قرأتوں کے اختلاف کو بڑی اہمیت دیتے ہیں وہ بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ قرآن کے کسی لفظ کی قرأت سات طریقے پر کی گئی ہو۔ ابن جریر (رح) قرأتوں کے اختلاف نقل کرنے میں بڑے فیاض ہیں لیکن مجھے یاد نہیں کہ کسی لفظ کی انہوں نے دو تین سے زیادہ قرأتیں نقل کی ہیں ۔
غور کرنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ قرأتوں کا اختلاف دراصل قرأتوں کا اختلاف نہیں بلکہ بیشتر تاویل کا اختلاف ہے۔ کسی صاحب تاویل نے ایک لفظ کی تاویل کسی دوسرے لفظ سے کی اور اس کو قرأت کا اختلاف سمجھ لیا گیا حالانکہ وہ قرأت کا اختلاف نہیں بلکہ تاویل کا اختلاف ہے ابھی سورۂ تحریم کی تفسیر میں آپ پڑھ آئے ہیں کہ بعض لوگوں نے ( فقد صغت ) کو ( فقد زاغت) بھی پڑھا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس نے بھی یہ پڑھا ہے اس نے یہ قرأت نہیں بتائی ہے بلکہ اپنے نزدیک اس نے ( فقد صغت ) کے معنی بتائے ہیں جس کی غلطی، کلام عرب کے دلائل کی روشنی میں، اچھی طرح ہم واضح کرچکے ہیں ۔
        پھر یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ اگر قرأتوں کا اختلاف ہے بھی تو متواتر قرأت کا درجہ تو صرف اس قرأت کو حاصل ہے جس پر مصحف، جو تمام امت کے ہاتھوں  میں ہے، ضبط ہوا ہے۔ اس قرأت کے سوا دوسری قرائتیں ظاہرہے کہ غور متواتر اور شاذ کے درجہ میں ہوں گے جن کو متواتر قرأت کی موجودگی میں کوئی اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ چنانچہ میں نے اس تفسیر میں اختلاف قرأت سے مطلق تعرض نہیں کیا بلکہ صرف مصحف کی قرأت کو اختیار کیا ہے اور مجھے تاویل میں کہیں تکلف نہیں کرنا پڑا بلکہ ہر جگہ نہایت صاف دل نشین، سیاق و سباق اور نظائر قرآن سے قرین تاویل سامنے آگئی ہے جو اصل مطلوب و مقصود ہے۔ قرائتوں کے اختلاف میں پڑنے کے معنی تو یہ ہیں کہ آپ ان الجھنوں میں پڑنے کے خود خواہاں ہیں جن سے سیدنا ابو بکر اور سیدنا عثمان (رض) نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امت کو محفوظ کرنے کی کوشش فرمائی ۔
بہر حال اس حدیث میں سبعۃ احرف سے سات قرأتیں مراد لینے کا تو کوئی قرینہ نہیں ہے البتہ اگر حرف کو عبارت، بیان اور اسلوب کے معنی میں لیں، جس کی زبان اور لغت کے اعتبار سے پوری گنجائش ہے، تو اس کی تاویل یہ ہوگی کہ قرآن سات اسلوبوں یا عبارتوں میں نازل ہوا ہے اور اس سے اشارہ انہی سات گروپوں کی طرف ہوگا جو قرآن میں ہر تلاوت کرنے والے کو نظر آتے ہیں ۔
ان گروپوں کی نوعیت، جیسا کہ ہم وضاحت کرچکے ہیں، یہ ہے کہ ہر گروپ میں ایک جامع عمود کے تحت قرآنی دعوت کے تمام بنیادی مطالب مختلف اسلوبوں سے اس طرح بیان ہوئے ہیں کہ ہر بات بار بار سامنے آنے کے باوجود پڑھنے والا ان سے کبھی تکان محسوس نہیں کرتا بلکہ طرز بیان اور نہج استدلال کے تنوع، پیش و عقب کی تبدیلی، اطراف و جوانب کے فرق اور لواحق و تضمنات کی گوناگونی کے سبب سے ہر بار وہ ایک نیا لطف و حظ حاصل کرتا ہے۔ قرآن کی اسی خصوصیت کا ذکر بعض حدیثوں میں یوں آیا ہے کہ اہل علم اس سے کبھی آسودہ نہیں ہوتے اور اس کی تازگی پر کبھی خزاں کا گزر نہیں ہوتا۔ یہی ساتوں گروپ مل کر قرآن عظیم کی شکل اختیار کرتے ہیں، جیسا کہ سورۂ حجر کی مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں ہم نے واضح کیا ہے کہ (والقرآن العظیم) میں تفسیر کی ہے ۔"


(تدبر قرآن سورہ ملک )