اسلام کے ابلاغ اور تشہیر میں زبان کی اہمیت


اسلام میں زبا ن کو تقدس کا درجہ حاصل نہیں ( یا زبان کی پرستش نہیں کی جا تی ) مسلمانوں نے دین کی تفہیم اور تشریح کے لے ہمیشہ نئے الفاط کا استعمال کیا ہے ۔ جب بھی ان کو نئے معنی اور مفہوم کی ضرورت پڑی انہوں نے نئے الفاظ استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ۔ بلکہ اللہ تعالی نے تو یہاں تک فرمایا کہ ہم نے ہر نبی کو اس کی قوم کی زبان میں بھیجا تاکہ وہ اللہ کے پیغام کو واضح کر سکے ۔ 


وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمۡ ؕ فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۴﴾ (ابراہیم )


‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (احکام خدا) کھول کھول کر بتا دے۔ پھر خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔ ‏

یعنی ہم جس قوم سے، جس معاشرے سے، جس دور میں بات کریں اس کی زبان ہی میں بات کو بہتر طور پر کہی اور سمجھا ئی جا سکتی ہے ۔مسلمان ایران گئے وہا ں اللہ کے ساتھ ساتھ خدا کا لفظ استعمال ہو تا تھا انہوں نے اس پر اصرار نہیں کیا کہ ہم لازما (اللہ ) کا لفظ استعمال کریں گے ۔ بلکہ خدا کا لفظ اختیار کرلیا ۔ اسی طرح " صلوۃ" کے لے" نماز" کا لفظ ۔ جیسے جیسے ضرورت پڑی تو شریعت اور تصوف اور فقہ کے الفاظ استعمال کیے گے ۔ اگرچہ یہ الفاظ دوسری زبان کے ہیں ۔اس کے باجود علماء اسلام نے ان کو وضع کیا تاکہ دین کی بات پھیل سکے ۔