مومن اللہ ہی پر بھروسہ رکھتا ہے۔

اس دنیا میںہر چیز پر اسباب کا پردہ ڈال دیا گیا ہے مگر مومن اللہ ہی پر بھروسہ رکھتا ہے۔


اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ تاہم یہاں ہر چیز پر اسباب کا پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ واقعات بظاہر اسباب کے تحت ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر حقیقۃً وہ اللہ کے حکم کے تحت ہو رہے ہیں۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری اسباب میں نہ اٹکے بلکہ ان کے پیچھے کام کرنے والی قدرتِ خداوندی کو دیکھ لے۔ غیر مومن وہ ہے جو اسباب میں کھوجائے اور مومن وہ ہے جو اسباب سے گزر کر اصل حقیقت کو پا لے۔ ایک شخص مومن ہونے کا مدعی ہو مگر اسی کے ساتھ اس کا حال یہ ہو کہ زندگی و موت اور کامیابی و ناکامی کو وہ تدبیروں کا نتیجہ سمجھتا ہو تو اس کا ایمانی دعوی معتبر نہیں۔ غیر مومن کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آئے تو وہ اس غم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ میں نے فلاں تدبیر کی ہوتی تو میں حادثہ سے بچ جاتا۔ مگر مومن کے ساتھ جب کوئی حادثہ گزرتا ہے تو وہ یہ سوچ کر مطمئن رہتا ہے کہ اللہ کی مرضی یہی تھی۔ جو لوگ دنیوی اسباب کو اہمیت دیں وہ اپنی پوری زندگی دنیا کی چیزوں کو فراہم کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ "مرنے" سے زیادہ "جینا" ان کو عزیز ہوجاتا ہے۔ مگر پانے کی اصل چیز وہ ہے جو آخرت میں ہے۔ یعنی اللہ کی جنت و مغفرت۔ اور جنت وہ چیز ہے جس کو صرف زندگی ہی کی قیمت پر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ آدمی کا وجود ہی جنت کی واحد قیمت ہے۔ آدمی اگر اپنے وجود کو نہ دے تو وہ کسی اور چیز کے ذریعہ جنت حاصل نہیں کرسکتا۔

اہل ایمان کے ساتھ جس اجتماعی سلوک کا حکم پیغمبر کو دیا گیا ہے وہی عام مسلم سربراہ کے لیے بھی ہے۔ مسلم سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نرم دل اور نرم گفتار ہو۔ یہ نرمی صرف روز مرہ کی عام زندگی ہی میں مطلوب نہیں ہے بلکہ ایسے غیر معمولی مواقع پر بھی مطلوب ہے جب کہ اسلام اور غیر اسلام کے تصادم کے وت لوگوں سے ایک حکم کی نافرمانی ہو اور نتیجہ میں جیتی ہوئی جنگ ہار میں بدل جائے۔ سربراہ کے اندر جب تک یہ وسعت اور بلندی نہ ہو طاقت ور اجتماعیت قائم نہیں ہوسکتی۔ غلطی خواہ کتنی ہی بڑی ہو، اگر وہ صرف ایک غلطی ہے، شرپسندی نہیں ہے تو وہ قابل معافی ہے۔ سربراہ کو چاہیے کہ ایسی ہر غلطی کو بھلا کر وہ لوگوں سے معاملہ کرے۔ حتی کہ وہ لوگوں کا اتنا خیر خواہ ہو کہ ان کے حق میں اس کے دل سے دعائیں نکلنے لگیں۔ اس کی نظر میں لوگوں کی اتنی قدر ہو کہ معاملات میں وہ ان سے مشورہ لے۔ جب آدمی کو یہ یقین ہو کہ جو کچھ ہوتا ہے خدا کے کئے سے ہوتا ہے تو اس کے بعد انسانی اسباب اس کی نظر میں ناقابل لحاظ ہوجائیں گے ۔
اللہ تعالی نے اس حقیقت کو سورہ آل عمران کی  درج ذیل آیات میں بیان فرمایا:

یا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لإخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الأرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَوْ كَانُوا عِنْدَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (١٥٦) وَلَئِنْ قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (١٥٧)وَلَئِنْ مُتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لإلَى اللَّهِ تُحْشَرُونَ (١٥٨)  فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (١٥٩)إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (١٦٠)  
"اے ایمان والو! تم ان لوگوں کے مانند نہ ہوجانا جنھوں نے انکار کیا۔ وہ اپنے بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں، جب کہ وہ سفر یا جہاد میں نکلتے ہیں اور ان کو موت آ جاتی ہے، کہ اگر وہ ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے۔ تاکہ اللہ اس کو ان کے دلوں میں سبب حسرت بنادے۔ اور اللہ ہی جلاتا ہے اور مارتا ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ اور اگر تم اللہ کی راہ میں مارے جاؤ یا مرجاؤ تو اللہ کی مغفرت اور رحمت اس سے بہتر ہے جس کو وہ جمع کر رہے ہیں ۔ اور تم مر گئے یا مارے گئے بہرحال تم اللہ ہی کے پاس جمع کئے جاؤ گے۔
یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان کے لئے نرم ہو۔ اگر تم تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے بھاگ جاتے۔ پس ان کو معاف کردو اور ان کے لئے مغفرت مانگو اور معاملات میں ان سے مشورہ لو۔ پھر جب فیصلہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ بیشک اللہ ان سے محبت کرتا ہے جواس پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔"

(حوالہ ، تفسیر  تذکیر القرآن ، مولانا وحید الدین خان  ، سورہ آل عمران : 156-160 )