متقین کی خصوصی صفات

انفاق، کظم الغیظ ، عفو اور احسان متقین کی خصوصی صفات ہیں 


وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ ، الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ( سورہ آل عمران : آیات: 133- 134)

" اور مغفرت کی طرف جو تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے، دوڑو اور جنت کی طرف (دوڑو) جس کا عرض سارے آسمان اور زمین ہیں، اور جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو فراغت اور تنگی (دونوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کے ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے،"


1- ’’ ینفقون فی السرآء والضرآء ‘‘
۔ یعنی راہ حق میں، دین کی خدمات میں خرچ کرتے رہتے ہیں، بیہودہ مقاصد کے لیے ہو مال خرچ کرنا ، ظاہر ہے کہ شریعت میں ہرگز پسندیدہ نہیں۔ ’’ فی السرآء والضرآء ‘‘۔ یعنی ہر حال اور ہر صورت میں دین اور امت کی مالی ضرورتوں سے متعلق خرچ کرتے ہیں، یہ نہیں کہ خوش حال ہوئے تو مسرفانہ عیش پرستیوں میں پڑکر نیک کاموں سے ہاتھ ہی روک لیا یا تنگدست ہوئے تو ناشکری میں آکر اپنی بساط بھر بھی خرچ کرنے سے رک گئے ۔



2- الکظمین الغیظ ‘‘
۔ کظم کہتے ہیں غصہ کے ضبط کرجانے کو، تو یہ لوگ وہ ہوئے جو غصہ سے مغلوب نہیں ہوجاتے، بلکہ اس سے مقابلہ کرکے اسے زیر کرلیتے ہیں، اور اپنے اوپر قابو رکھتے ہیں، بعض اہل تحقیق نے یہ خوب لکھا ہے کہ یہاں فاقدمن الغیظ ارشاد نہیں ہوا ہے یعنی مدح اس کی نہیں آئی ہے کہ غصہ سرے سے آتا ہی نہیں ہو، بلکہ اس کی آئی ہے کہ اسے قابو میں رکھا جائے، اور عقل جذبات کے اوپر حاکم رہے، غصہ پیدا ہوتا ہے حرارت طبعی یا حمیت سے، اسے سرے سے فنا کردینا ہرگز اسلام کو مقصود نہیں، مقصود اسے صرف حدود کے اندر رکھنا ہے، غصہ مطلق صورت میں ہرگز ممنوع نہیں، نہ شرعا معصیت نہ عقلا مضر، بلکہ اگر حدود کے اندر ہے اور محل مناسب پر پیدا ہو تو عیب نہیں ہنر ہے، غصہ کے ضبط کرجانے کی فضیلتیں حدیث نبوی میں بہ کثرت وارد ہوئی ہیں، مثال کے لیے صرف ایک حدیث ملاحظہ ہو، من کظم غضبا وھو یقدر علی انفاذہ ملأاللہ قلبہ امنا و ایمانا۔ (قدرت نفاذ کے باوجود جو شخص اپنے غصہ کو روک لے جائے اللہ اس کا قلب امن و ایمان سے لبریز کردے گا۔



3- ’’ العافین عن الناس ‘‘
۔ یعنی لوگوں کے قصوروں، اور خطاؤں کو معاف بھی کردیتے ہیں، یہی نہیں کہ باوجود قدرت واستطاعت عطا وار سے انتقام نہیں لیتے، بلکہ اسے معاف بھی کردیتے ہیں، یہ درجہ کا ظمین الغیظ سے بلند تر ہے، وہ اگر محض ایک سلبی کیفیت تھی، تو یہ ایک ایجابی مرتبہ ہے۔



4- ’’ المحسنین ‘‘۔
محسنین کا درجہ کا ظمین وعافین دونون سے بلند تر ہے۔ یعنی عفو سے بھی آگے بڑھ کر یہ اور حسن سلوک سے پیش آتے ہیں، اخلاقی تعلیم کے موقع پر قرآن نے اکثر تدریج کو پیش نظر رکھا ہے، اور اس کی بہترین مثال یہ آیت ہے، تینوں مقامات فضیلت کے ہیں لیکن یہ تیسرا مقام فاضل ترین ہے۔ محدث بیہقی نے سیدنا حضرت علی بن حسین (رض) سے متعلق روایت نقل کی ہے کہ آپ کو ایک جاریہ وضو کرا رہی تھی کہ لوٹا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر آپ پر گرا۔ غصہ آنا امر طبعی تھا۔ جاریہ نے فورا الفاظ قرآنی ’’ الکظمین الغیظ ‘‘۔ اپنی زبان سے اداکئے۔ آپ کا غصہ دور ہوگیا، پھر جاریہ نے ’’ العافین عن الناس ‘‘۔ پڑھا، آپ نے فرمایا ’’ میں نے معاف کردیا ‘‘۔ اب جاریہ کی زبان پر ’’ واللہ یحب المحسنین ‘‘۔ آیا آپ نے فرمایا ’’ جامیں نے تجھے آزاد کردیا ‘‘۔ ( بحوالہ تفسیر روح المعانی ) رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی تو خیر، من وعن قرآن کے سانچہ میں ڈھلی ہوئی تھی ہی۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق قرب وقرابت رکھنے والے بھی کس درجہ نفوس قدسیہ کے مالک بن چکے تھے ۔


پروفیسر آرنلڈ وغیرہ فرنگی فاضلوں نے کہا ہے کہ عرب جیسی تندخو، جنگجو، جدل پیشہ قوم کے سامنے حلم وضبط، صلح وآشتی کے ایسے معیار پیش کرنا، اور پھر اس تعلیم کو کامیاب بنانا بجائے خود ایک اعجاز ہے۔



( ماخوذ از تفسیر ماجدی سورہ آل عمران 133-1334 ، مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ )