دنیا اور آخر ت کی زندگی کا تقابل

اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ وَّزِيْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ۭ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا ۭوَفِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۙ وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٌ ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ  ۔ 
(سورہ الحدید: 20-21)

کہ دنیوی زندگی محض ایک کھیل کو داور (ظاہری) خوشنمائی اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال واولاد میں ایک دوسرے پر اپنی برتری جتلانا ہے، ف ٢٧۔ گویا کہ مینہ ہے کہ اس کی پیداوار کاشتکاروں کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر خشک ہوجاتی ہے سو تو اسے زرد دیکھتا ہے، پھر وہ چورا چورا ہوجاتی ہے، ۔ اور آخرت میں عذاب شدیدبھی ہے اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی بھی، اور دنیوی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے۔"

اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ وَّزِيْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ۭ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا ۭ
 ان آیات میں  مال پرست دنیا دار کو تذکیر و تنبیہ ہے کہ اس دنیا کی زندگی، یعنی لہو و لہب، زینت و آرائش کا شوق، مال و اولاد کی تکثیر کی بھاگ دوڑ اور معیار زندگی اونچا کرنے کا باہم مقابلہ، جن میں جو وہ ہر وقت ڈوبے ہوئے ہو تے ہیں ، یہ کوئی خوش انجام سرگرمی نہیں ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ بارش اچھی ہوجائے جس سے فصل لہلہا اٹھے اور اس کو دیکھ کرنا شکرے لوگ پھولے نہ سمائیں لیکن پھر اس پر کوئی ایسی افتاد آ پڑے کہ وہ سوکھ کر زرد ہوجائے پھر ریزہ ریزہ ہوجائے۔ یہی حشر تمہاری ان تمام سرگرمیوں کا ہونا ہے جو تم اس دنیا کے حاصل کرنے اور اس میں ایک دوسرے پر باری لے جانے کے لیے کر رہے ہو، ان میں سے کوئی چیز بھی باقی رہنے والی نہیں ہے ۔

وَفِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۙ وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٌ ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ  ۔ 

  ان آیات میں یہ بتا یا  کہ تم نے اپنی نادانی سے اس دنیا کی لذات کو زندگی کا مقصود اپنی تمام مساعی کا حاصل اور گول قرار دے رکھا ہے حالانکہ یہ دنیا محض ایک سرمایہ غرور اور دھوکے کی ٹٹی ہے۔ اصل گول تو آخرت ہے اور وہاں دو چیزوں میں سے ایک سے سابقہ پیش آنا ہے۔ ایک طرف عذاب شدید ہوگا، دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی، اگر کوئی شخص اس دنیا کے مطامع کو قربان کر کے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور خوشنودگی کے حصول کا حوصلہ نہیں کر پائے گا تو وہ لازماً اس کے عذاب شدید سے دو چار ہوگا ۔
 ایک خاص نکتہ اس آیت میں تالیف کلام عام مفسرین کے نزدیک تو اس طرح ہے کہ وہ ( انما الحیوۃ الدنیا) کو مبتداء اور اس کے بعد کی ساری عبارت کو خبر قرار دیتے ہیں لیکن میرے نزدیک ( انما الحیوۃ الدنیا) کے بعد ( لعب ولھو و زینۃ و تفاخر بینکم وتکاثر فی الاموال والاولاد) کے الفاظ بطور بدل بیان آئے ہیں اور ( کمثل غیث) الایۃ اس مبتداء کی خبر ہے۔ اس اسلوب کلام کی مثالیں قرآن مجید میں بہت ہیں، مثلاً (لنسفعا بالناصیۃ ناصیۃ کاذبۃ خاطۃ ) (العلق : ٩٦، ١٥، ١٦) ( ہم اس کی چوٹی پکڑ کر گھسیٹیں گے، جھوٹی، نابکار، گنہگار چوٹی) اس تالیف کلام سے معنی میں بڑا فرق پیدا ہوجائے گا۔ مفسرین کے نزدیک تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا کی زندگی محض لہو و لہب، زینت و آرائش اور تفاخر و تکاثر ہے۔ میرے نزدیک مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی یعنی لعو و لہب، زینت آرائش اور تفاخر کی تمثیل یوں ہے جس طرح۔ ۔۔ ۔۔ مفسرین کی تاویل کی رو سے یہ دنیا اور اس کی زندگی بحیثیت مجموعی ایک قابل نفرس و لعنت چیز ٹھہرتی ہے اور اس سے اسی رہبانی تصور کی تایید نکلتی ہے جس کی قرآن نے پوری شدت سے آگے اسی سورۃ میں تردید کی ہے اور اگر وہ تاویل لی جائے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے تو اس سے دنیا بحیثیت مجموعی نہیں بلکہ اس کا صرف وہ پہلو قابل نفرت قرار پائے گا جس پر کفارو منافقین ریجھتے ہیں اور جو ان کو جہنم میں لے جانے کا سبب بنتا ہے ۔
فلسفہ دین کے نقطہ نظر سے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ دنیا اور اس کی زندگی بجائے خود لعنت نہیں ہے بلکہ اس کے لعنت یا رحمت ہونے کا تعلق انسان کے رویہ سے ہے۔ اگر انسان ان حدود کے اندر زندگی گزارے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں تو اس دنیا کی حیات چند روزہ اس کے لیے آخرت کی ابدی بادشاہی کی ضامن ہے اور اگر وہ ان حدود سے بے پروا ہو کر اس کو خود معبود بنا بیٹھے اور اس کی لذتوں میں کھو جائے تو یہ اس کے لیے ابدی لعنت بن جاتی ہے، اس آیت میں اس کے اسی پہلو سے ہوشیار کیا گیا ہے ۔
 ایک اور نکتہ۔ آیت میں لفظ کفار بھی قابل غور ہے۔ اس کے معنی مفسرین نے عام طور پر ’ زراع‘ یعنی کسانوں کے لیے ہیں لیکن دل اس پر نہیں جمتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لفظ اس معنی میں معروف نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جس مادے سے ہے اس کے اندر یہ معنی لینے کی گنجائش بھی ہے لیکن محض اتنی بات ایک ایسے لفظ کو جو ایک اصطلاح کی حیثیت سے، ایک خاص مفہوم میں قرآن میں کثرت سے استعمال ہوا ہے، ایک ایسے شاذ معنی میں لینے کے لیے کافی نہیں ہے جس معنی میں اس کی کوئی اور مثال قرآن میں نہیں ہے۔ سورۃ ٔ فتح کی آیت ( فاستوی علی سوقہ یعجب الزراع لیغیظ بھم الکفار) (٢٩ ) ( پس وہ کھیتی اپنے تنوں پر کھڑی ہوگئی کسانوں کے دلوں کو لبھاتی ہوئی کہ ان سے کافروں کے دل آزادہ ہوں) میں دونوں لفظ اپنے اپنے خاص معنوں میں استعمال ہوئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں اپنے معانی میں معروف و متعین ہیں۔ اس وجہ سے میرا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہاں کفار اپنے اصل مفہوم ہی میں ہے۔ چونکہ اس تمثیل میں پیش نظر منکرین آخرت ہی کے رویہ کو نمایاں کرنا ہے اس وجہ سے فرمایا کہ اس دنیا کی عارضی رونقیں منکرین آخرت کے دلوں کو لبھا لیتی ہیں وہ انہی کے اندر پھنس کے رہ جاتے ہیں اور بالآخر اس عذاب سے دو چار ہوتے ہیں جو اس قسم کے محروم القسمت لوگوں کے لیے مقدر ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ تمثیل و تشبیہ میں بعض اوقات ایسے الفاظ داخل کر دیئے جاتے ہیں جن سے مقصود ان لوگوں کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے جو اس تشبیہ یا تمثیل میں پیش نظر ہوتے ہیں۔ اس طرح کی بعض چیزوں کی طرف ہم پیچھے اشارہ کرچکے ہیں۔ ان پر نگاہ رکھنا ضروری ہوتا ہے ورنہ تشبیہ یا تمثیل کا اصل حسن ظاہر نہیں ہوتا، یہاں یہ لفظ استعمال کر کے ان لوگوں کا سراغ دے دیا گیا ہے جو تمثیل میں پیش نظر ہیں ۔ 

( تدبر قرآن ، مولانا امین احسن اصلاحی )