حصول تقویٰ مومن کی زندگی کا اصل ہدف ہے

ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی 

ارشاد باری تعالی ہے :

 وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ۔ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآء وَالضَّرَّآء وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ  وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔
 (اور مسابقت کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے عرض کی طرح ہے، جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں کشادگی میں بھی اور تنگی میں بھی اور غصے کو پی جانے والے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ خوب کاروں کو دوست رکھتا ہے) ( سورہ آل عمران : ١٣٣ تا ١٣٤)

 اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت جس شخص کی طبیعتِ ثانیہ بن جائے اس شخص کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ سود کھائے یا سودی کاروبار کرے۔ اسی طرح یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمان اللہ یا اس کے رسول کی اطاعت نہ کرے بلکہ ہر حرام چیز سے بچتے ہوئے اور ہرحکمِ الٰہی اور حکم رسول کی اطاعت کرتے ہوئے ان کے سامنے دو ہی باتیں رہنی چاہئیں کہ میں اپنے امکان کی حد تک وہ کیا کوششیں بروئے کار لاؤں  جس کی وجہ سے مجھے بخشش نصیب ہوجائے۔ اس کے لیے صحابہ اور تابعین نے اس کے بارے میں جو کچھ بھی فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر صاحب ایمان کو اسبابِ مغفرت کے حصول کی کوششیں کرنی چاہئیں۔ البتہ صحابہ و تابعین کے یہاں اس کی تعبیرات مختلف ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس کی تفصیل ادائیگیِ فرائض سے فرمائی۔ حضرت ابن عباس ( رض) نے اسلام سے، ابو العالیہ نے ہجرت سے، انس ابن مالک ( رض) نے تکبیر اولیٰ سے، حضرت سعید بن جبیر نے ادائے اطاعت سے، ضحاک نے جہاد سے، عکرمہ نے توبہ سے کی۔ ان تمام اقوال کا حاصل اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ مغفرت سے مراد وہ تمام اعمالِ صالحہ ہیں جو مغفرت الٰہی کا باعث اور سبب ہوتے ہیں۔
 ایک مومن کا ہدف اور ذہنی افق پروردگار نے بہت بلند رکھا ہے۔ تمام اعمالِ صالحہ کے نتیجے میں بخشش اور مغفرت سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہو سکتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمھارا اصل ہدف تو جنت ہے۔ جنت کے حصول کا دارومدار چونکہ مغفرت پر ہے اس لیے مغفرت کو پہلے ذکر فرمایا گیا۔ ہمارے تمام اعمالِ صالحہ مل کر بھی جنت کی قیمت نہیں بن سکتے۔ لیکن اللہ کی سنت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسی بندے کو نوازتا ہے جو اعمالِ صالحہ کرتا ہے بلکہ جس کو اعمالِ صالحہ کی توفیق ملتی ہے یوں تو ہر نیکی عمل صالح کہلاتی ہے، لیکن ضرورت کے مطابق عمل صالح جنت کا سزاوار بناتا ہے۔ جس کی دعوت خود شریعت دیتی ہے اور جس کی پکار اسلام کے تقاضے ہوتے ہیں۔ نماز کتنا بڑا عمل ہے لیکن ایک بھوکا شخص جس کی جان پر بنی ہے اس کے لیے جس عمل صالح کو پکارا جائے گا وہ نماز نہیں بلکہ سخاوت و فیاضی ہے اور اعلائے کلمتہ الحق اور دین کی بقا کے لیے عبادت نہیں بلکہ جان و تن کی قربانی درکار ہوتی ہے۔ ایک ایسی جنت جس کی وسعتوں کے سامنے زمین و آسمان کی وسعتیں حقیر ہوجائیں ایسی جنت کا اللہ کے بندوں کو عمل صالح کے عوض میں ملنااللہ کی ایسی عطا اور بخشش ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔

کہنے کو تو یہ عظیم نعمت جسے جنت کہا جاتا ہے ایمان اور عمل صالح کے عوض میں نصیب ہوگی لیکن یہ بات ضرور ذہن میں رہنی چاہیے کہ ایمان اور اعمالِ صالحہ جب تک ایک خاص حد تک ترقی نہ کر جائیں اور ایک خاص شکل اختیار نہ کرلیں اس وقت تک جنت کا حصول ایک خواہش کے سوا اور کچھ نہیں۔ وہ صورت خاص جس تک اعمالِ صالحہ کو پہنچنا اور اسے اختیار کرنا ہے اس کا نام تقویٰ ہے اور اس کے اختیار کرنے والوں کو متقی کہا جاتا ہے۔ تقویٰ قرآن کریم کی ایک ایسی اصطلاح ہے کہ جس کو قرآن کریم نے سب سے زیادہ استعمال کیا ہے اور دنیوی اور اخروی نعمتوں کا دارومدار اسی صفت کو بنایا ہے اور جب ہم اس کی حقیقت پر غور کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ درحقیقت قرآن و سنت کی تمام تعلیمات کادر ست اور روح اور عملی تشکیل کا نام ہے۔ آدمی جیسے جیسے اس میں ڈوبتا جاتا ہے اور دل و دماغ کو اس کے حوالے کرتا جاتا ہے ویسے ویسے تقویٰ کی کیفیت اس میں اترتی چلی جاتی ہے۔ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے جب آدمی کا ذوق اور اس کا مزاج تقویٰ کا رنگ اختیار کرلیتا ہے۔ اس کی پسند و ناپسند کے زاویے اسی کے سائے میں ڈھلتے ہیں اور اس کی روحانی کیفیات پر تقویٰ ایک سایہ بن کر چھا جاتا ہے۔ اس کے دل و دماغ کی رعنائیاں اسی کے نور سے روشن ہوتی اور اس کے جسم و جان کی قوتیں اسی کے عشق سے توانا ہوتی ہیں۔ دنیا اور دولت دنیا ایک مومن کو ہزار بہکانے کی کوشش کریں لیکن وہ تقویٰ کی قوت سے ان سارے بہکاؤوں پر غالب آجاتا ہے۔ کبھی وہ اللہ کا خوف بن کر دل میں اترتا ہے، کبھی اللہ کی محبت بن کر دل میں جاگزیں ہوجاتا ہے۔ غرضیکہ ایک مومن اللہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ سے پکڑتا ہے۔ اس کا سب کچھ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اس طرح وقف ہوجاتا ہے کہ دوری کے فاصلے مٹ جاتے ہیں۔ ایک مومن کے اپنے ارادے اور اپنی ترجیحات اللہ کے دین کی ترجیحات پر قربان ہوجاتی ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے متقی لوگوں کی چند صفات بیان فرمائی ہیں۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ایک مومن کی زندگی جسے تقویٰ سے تعبیر کیا جا سکے وہ اگلی آیت میں بیان کردہ صفات ہی پر مشتمل نہیں ہوتی بلکہ اس میں وہ صفات بھی پائی جاتی ہیں جو قرآن نے جا بجا ذکر فرمائی ہیں۔ لیکن ان آیات کا موضوع چونکہ جہاد و قتال ہے اس لیے اس موضوع کی مناسبت سے چند صفات کا ذکر فرمایا گیا ہے کیونکہ خیر و شر کے معرکے میں کوئی جہاد بھی انفاق کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ بالخصوص ایسی صورت میں جبکہ خیر و شر کا معرکہ پوری اجتماعی زندگی پر حاوی ہوچکا ہو اور ایک نئی امت تشکیل پذیر ہو اور کفر اپنے پاؤں تلے سے زمین نکلتے ہوئے دیکھ کر آخری حرکت مذبوحی کرنے پر تل گیا ہو اور حالات ایک فیصلہ کن معرکے کی طرف بڑھ رہے ہوں تو ایسی صورت حال میں انفاق فی سبیل اللہ یقینا دیں کی پہلی طلب اور سب سے بڑی نیکی بن جاتا ہے اور اس کے لیے جو لازمی صفات ہیں ان کی اہمیت بھی نہایت ترقی کر جاتی ہے۔

اسی لیے اس آیت کریمہ میں سب سے پہلی صفت انفاق ہی کو بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا کہ متقی وہ لوگ ہیں جو ہر طرح کے حالات میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ وہ تنگ دست ہوں تو پیٹ کاٹ کر اور خوشحال ہوں تو دوسروں سے آگے بڑھ کر خرچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دور صحابہ میں ہمیں دونوں طرح کی مثالیں نظر آتی ہیں۔ حضرت عثمان ( رض) ایک غنی آدمی تھے۔ مال و دولت کے مالک بھی تھے اور دل اس سے بھی بڑھ کر غنی تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب جنگِ تبوک کے لیے انفاق کی اپیل فرمائی تو حضرت عثمانِ غنی ( رض) نے ایک طرف تو اشرفیوں کی ایک بڑی تعداد پیش کی اور دوسری طرف سینکڑوں آدمیوں کے لیے سواری اور اسلحۂ جنگ مہیا کیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں نے دیکھا کہ آپ منبر پر تشریف فرما ہیں اور دونوں ہاتھوں سے اشرفیاں ایک دوسرے پر الٹ پلٹ رہے ہیں اور ساتھ یہ فرما رہے ہیں کہ ’’ عثمان ! آج کے بعد تمھیں تمھارا کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچا سکے گا‘‘ اور دوسری طرف غریب صحابہ کو دیکھئے کہ ان کے پاس کھانے کا سامان تک نہیں لیکن وہ کسی سے پیچھے بھی نہیں رہنا چاہتے۔ وہ دن بھر اور رات کا ایک حصہ مزدوری کرتے ہیں اور جو انھیں مزدوری میں چھوہارے ملتے ہیں وہ ایک پوٹلی میں باندھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں نہایت معذرت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ پوٹلی وصول فرما کر اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ صحابہ کو حکم دیتے ہیں کہ ’’ مسلمانوں نے اللہ کے راستے میں جو مال دیا ہے جس سے صحن مسجد میں ایک ڈھیر لگ گیا ہے۔ یہ کھجوریں اس ڈھیر کے اوپر پھیلا دو تاکہ اللہ تعالیٰ اس اخلاص کی برکت سے جس سے کھجوریں لائی گئی ہیں سارے ڈھیر کو قبول فرمالے۔‘‘ اسی سلسلے میں ہم ایک اور انفاق بھی دیکھتے ہیں جس کی مثالیں امتوں میں کم کم ملیں گی کہ حضرت صدیقِ اکبر ( رض) ڈھیروں سامان لے کر حاضر ہوتے ہیں اور جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھتے ہیں کہ ’’ گھر میں کیا چھوڑا ہے؟ اور یہاں کیا لے کر آئے ہو؟‘‘ تو صدیقِ اکبر ( رض) عرض کرتے ہیں ’’ گھر میں جو کچھ تھا وہ خدمت میں حاضر کردیا ہے اور گھر میں اللہ اور اس کے رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ اقبال نے نہایت سادہ انداز میں اس واقعے سے متأثر ہو کر ایسا لافانی شعر کہا ہے کہ جس کی مثال شاید کہیں مل سکے :
 پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
 صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس
 گھر میں دولت کی ریل پیل ہو تو اللہ کی رضا کے لیے بقدرِ ہمت دینا تقویٰ ہے۔ لیکن تقویٰ کے مدارج ہیں۔ ہر درجہ اپنی جگہ اجر و ثواب کا حامل ہے۔ لیکن سب سے افضل تقویٰ وہ ہے جسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مثال دے کے واضح فرمایا کہ ’’ سب سے افضل صدقہ اس شخص کا ہے جو خود ایک بے مایہ آدمی ہے۔ گھر میں بھوک ناچتی ہے لیکن پھر بھی وہ پیٹ کاٹ کر اپنے ایک ایسے عزیز کی ضرورت پوری کرتا ہے جو اس کا دشمن ہے اور اس کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتا۔‘‘ ایسی مثالیں اگرچہ بہت کم ملتی ہیں، لیکن عہد صحابہ میں ایسی مثالیں موجود ہیں جس نے ایک مومن کے ذہنی افق کو بہت روشن کردیا ہے اور ہدف کو بہت بلند کردیا ہے۔ بھوکے رہ کر مہمان کو کھانا کھلانا اور فاقہ کر کے مہمان کے سامنے سب کچھ رکھ دینا اور پیاسا رہ کر دوسروں کو پانی پلانا حتیٰ کہ دوسروں کی جان بچانے کے لیے خود زخمی حالت میں جان دے دینایہ وہ اعلیٰ مثالیں ہیں جس نے انسانیت کا سر بہت اونچا کردیا ہے۔ یہاں انہی مثالوں کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔

دوسری صفت اس آیت کریمہ میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ لوگ غصہ پی جانے والے ہیں۔ یہ بظاہر کہنے کو ایک معمولی بات معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت میں انسانی سیرت و کردار کی تعمیر میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ایک شخص جب اللہ کے راستے میں دوسرے شخص کو دیتا ہے تو بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ لینے والا انفاق کی اس مقدار پر قناعت کرنے کی بجائے اور زیادہ مانگتا ہے اور پھر اس پر بے جا اصرار کرتا ہے اور بعض دفعہ ناخوشگوار جملوں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں دینے والے کا برہم ہوجانا عین فطری بات ہے۔ ایسے وقت میں غصے کا ضبط کرنا اور پی جانا آسان نہیں ہوتا۔ اگر غصے کا اظہار کیا جائے تو نیکی برباد ہوجاتی ہے اور اگر غصہ ضبط کیا جائے تو اس کے لیے بہت صبر چاہیے جو آسانی سے میسر نہیں آتا۔ اسی وجہ سے اللہ والوں کے سوا اور کسی میں ہمیں ایسی مثالیں نہیں ملتیں۔
 قرونِ اولیٰ میں انسانیت چونکہ بے حد ترقی کرگئی تھی اس لیے ایسی مثالیں ملنا مشکل نہیں۔ لیکن پھر بھی ایسی عام بھی نہیں کہ ہر گلی کو چے میں دکھائی دیں۔ سیدنا حسن بن علی ( رض) کا تذکرہ نگاروں نے اسی حوالے سے ایک واقعہ لکھا ہے کہ گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے اور دسترخوان بچھ چکا تھا۔ آپ نے غلام کو کھانا لانے کے لیے کہا۔ اس نے کھانا لانا شروع کیا۔ نہ جانے اس کا کیسے پائوں الجھا کہ گرم گرم شوربے کا پیالہ اس کے ہاتھ سے چھوٹا اور سیدنا حسن ( رض) کی کمر پر گرا۔ یقینا آپ کی کمر پر آبلے پڑے ہوں گے یا کھال ادھڑ گئی ہوگی۔ آپ نے تکلیف کی شدت سے بے کل ہو کر غصے سے اس غلام کی طرف دیکھا۔ وہ غلام بھی چونکہ خاندانِ نبوت کا پروردہ تھا، حکمتِ دین کو بھی جانتا تھا اور افرادِ خاندان کے مزاج کو بھی۔ اس نے فوراً اس آیت کا پہلا جملہ پڑھا وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظ (متقی لوگ غصے کو پی جایا کرتے ہیں) آپ نے فوراً نگاہیں جھکا لیں اور غصہ پی گئے۔ اس نے دیکھا کہ موقع غنیمت ہے تو فوراً دوسرا جملہ پڑھا وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ (اور وہ لوگوں کو معاف کردیا کرتے ہیں) آپ ( رض) نے فرمایا جا میں نے تجھے معاف کیا۔ اس خوش نصیب نے دیکھا کہ لوہا گرم ہے ہلکی سی چوٹ بھی کام دے جائے گی اس نے آخری جملہ پڑھا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (اور اللہ نیکی اور احسان کرنے والے کو پسند کرتا ہے) حضرت حسن ( رض) نے فرمایا جا میں نے تجھے آزاد کیا۔ وہ غلام آپ کو بے حد محبوب تھا اس کی ادائیں اور خصلتیں نہایت پیاری تھیں۔ آپ اسے کسی قیمت پر چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن اس انداز سے اس غلام کو آزادی مل گئی۔ بجائے اس کے کہ اسے اس کی غلطی کی سزا ملتی اس نے نہ صرف سزا سے معافی حاصل کی بلکہ غلامی سے بھی آزادی مل گئی۔
 دوسروں کی غلطیوں پر غصہ پی جانا اور پھر درگزر کرنا اور پھر مزید احسان بھی کرنا یہ وہ صفات ہیں جو اعلیٰ انسانی کردار کی بنیادیں ہیں۔ اشتعال اور غصہ انسان کی فطرت ہے، یہ بے لگام ہوجائے تو اس سے بڑی برائی کوئی نہیں اور اگر اس پر قابو پا لیا جائے تو اس سے بڑی خوبی کوئی نہیں۔ انفاق فی سبیل اللہ کے ساتھ اگر یہ خصلت بھی شامل ہوجائے تو پھر انسان ایسی خوبیوں کا مالک بن جاتا ہے جنہیں اہل جنت کی خوبیاں کہا جاتا ہے اور سود خوری جن خصائل کو پیدا کرتی ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ عادتیں اور وہ خصلتیں جنم لیتی ہیں جو انسانی معاشرے کے لیے لعنت اور سزا سے کم نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسانی سیرت و کردار کی تعمیر میں ایسی خصلتوں کا ذکر فرمایا جو ایک طرف انسانیت کا نمونہ ہیں اور دوسری طرف سیاق کلام کا تقاضا بھی۔

ہماری ان گزارشات سے یہ نہ سمجھا جائے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے لیے مال کی بڑی مقدار ضروری ہے اور نہ یہ بات کہ انفاق میں صرف مال ہی دیا جاسکتا ہے اور کوئی چیز نہیں دی جاسکتی۔ اسی طرح معاف کرنے اور احسان کرنے کا دائرہ بھی بڑا وسیع ہے اسے بھی محدود نہیں کرنا چاہیے۔ انفاق کے بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہاں تک فرمایا :
 اِتَّقُوا النَّارَ وَلَوْبِشِقٍ تَمْرَۃٍ وَ رُدُّوا السَّآئِلَ وَلَوْ بِظِلْفَ شَاۃٍ
 (تم جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچائو اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا صدقہ میں دے کر ہی ہو اور سائل کو خالی واپس نہ کرو اور کچھ نہیں تو بکری کے پائوں کی کھری ہی دے دو)
 انفاق کے سلسلے میں امام رازی ( رح) نے اپنی تفسیر میں ایک عجیب روایت نقل کی ہے کہ ایک روزو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو صدقہ دینے کی ترغیب دی تو جن کے پاس سونا چاندی تھا انھوں نے وہ صدقہ دے دیا۔ ایک شخص کھجور کے چھلکے لایا کہ میرے پاس اور کچھ نہیں وہی صدقہ کر دیے گئے۔ ایک اور شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے پاس کوئی چیز صدقہ کرنے کے لیے نہیں ہے۔ البتہ ! میں اپنی قوم میں عزت دار سمجھا جاتا ہوں میں اپنی عزت کو خیرات کرتا ہوں کہ آئندہ کوئی مجھے کتنا ہی برا بھلا کہے میں اس سے ناراض نہیں ہوں گا۔ اندازہ فرمایئے ! انفاق فی سبیل اللہ کے تصور نے کہاں کہاں اصلاح و تعمیر کا حق ادا کیا ہے اور جہاں تک عفو و درگزر کا تعلق ہے اس کی وسعتیں بھی بے کنار ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ خلق عظیم کے منصب پر فائز تھے اور آپ معلم اخلاق بنا کر بھیجے گئے تھے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عفو و درگزر اور احسان کے حوالے سے بھی وہ بلند پایہ تعلیم دی گئی جس کی مثال پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پروردگار نے ارشاد فرمایا :
 صِلْ مَنْ قَطَعَکَ وَاعْفُ عَنْ ظَلَمَکَ وَاَحْسِنْ اِلٰی مَنْ اَسَآئَ اِلَـیْکَ
 (جو شخص آپ سے قطع تعلق کرے آپ اس سے ملیں اور جو آپ پر ظلم کرے آپ اس کو معاف کر دیں اور جو آپ کے ساتھ برائی کرے آپ اس پر احسان کریں)
 رسولِ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اخلاقی سطح تو اس قدر بلند ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے بھی بڑی ہمت چاہیے۔ البتہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کی برکت سے یہی اخلاق و اوصاف اپنے اپنے مرتبے کے مطابق آپ کے خدام میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرما دیئے ہیں۔ امامِ اعظم ابو حنیفہ ( رح) کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے بھرے بازار میں امام اعظم کی شان میں گستاخی کی اور گالیاں دیں۔ حضرت امام نے بجائے جواب دینے کے غصہ کو ضبط فرمایا اور خاموشی سے گھر تشریف لے گئے۔ گھر پہنچ کر ایک خوان میں کافی درہم و دینار رکھ کر اس کے گھر تشریف لے گئے۔ دروازے پر دستک دی۔ یہ شخص باہر آیا تو اشرفیوں کا یہ خوان اس کے سامنے رکھتے ہوئے فرمایا ’’ آج آپ نے مجھ پر بڑا احسان فرمایا اپنی نیکیاں مجھے دے دیں، میں اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لیے یہ تحفہ پیش کر رہاہوں۔‘‘ یہ کیسے ممکن تھا کہ اس واقعے کا اثر نہ ہوتا۔ اس شخص نے آپ سے معافی مانگی اور آئندہ کے لیے اپنی بد اخلاقی سے تائب ہوگیا، حتیٰ کہ آپ کے شاگردوں میں رہ کر ایک بڑے عالم کی عزت حاصل کی۔
 حاصل کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں حقوق العباد میں سے چند حقوق کا ذکر فرمایا اور اسے حقوق اللہ پر اس لیے مقدم رکھا کہ اللہ کی ذات کریم بھی ہے اور بے نیاز بھی۔ انسان اگر اس کے حقوق میں کوتاہی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگڑتا اور پھر اسے معاف کر دینے میں کوئی دشواری بھی پیش نہیں آتی۔ اس لیے جیسے ہی آدمی حقوق اللہ کی کوتاہیوں کی معافی چاہتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے درگزر سے کام لیا جاتا ہے۔ لیکن جہاں تک حقوق العباد کا تعلق ہے اس کا معاملہ بڑا نازک ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا تاوقتیکہ متأثر ہونے والا معاف نہ کرے۔ اس لیے حقوق العباد کے بعد حقوق اللہ کا ذکر کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ انسان انسانوں میں رہے اور پھر اس سے کبھی کسی غلطی کا صدور نہ ہو۔ جنگلوں میں بسنے والے جوگی بھی غلطیوں سے بالکل مبرا نہیں ہوتے۔ لیکن اسلام تو انسانوں کو انسانوں میں رہ کر اعلیٰ سیرت و کردار کا مرقع دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ انسان سے اس بات کی توقع نہیں رکھتا کہ وہ کبھی غلطی نہ کرے بلکہ وہ انسان کو انسان کی حدود میں رکھ کر ایسے خصائل کا مرقع دیکھنا چاہتا ہے جس پر فرشتے بھی رشک کریں۔ چنانچہ اگلی آیت کریمہ میں ایک ایسی ہی تصویر کھینچی گئی ہے۔


(  تفسیر روح القرآن ،  سورہ آل عمران : 133-134 ، ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی )