مدینہ کے لوگ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وسلم پر ایمان لائے تھے ان کے اس قدر جلد آپ کو پہچان لینے اور آپ کو مان لینے کا ایک سبب یہ تھا کہ وہ اپنے یہودی پڑوسیوں سے اکثر سنتے رہتے تھے کہ ایک آخری نبی آنے والے ہیں۔ اس بنا پر نبی آخر الزماں کی آمد کی خبر ان کے لیے ایک مانوس خبر تھی۔ یہ مسلمان طبعی طور پر اس امید میں تھے کہ جن یہودیوں کی باتیں سن کر ان کے دل کے اندر قبول اسلام کا ابتدائی جذبہ ابھرا تھا وہ یقیناً خود بھی آگے بڑھ کر اس پیغمبر کا ساتھ دیں گے۔ چنانچہ وہ پرجوش طور پر ان یہودیوں کے پاس اسلام کا پیغام لے کر جاتے اور ان کو دعوت دیتے کہ وہ آپ پر ایمان لا کر آپ کا ساتھ دینے والے بنیں ۔
مگر مسلمانوں کو اس وقت سخت دھچکا لگتا جب وہ دیکھتے کہ ان کی امیدوں کے برعکس یہود ان کی دعوت پر لبیک کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسکے نتیجہ میں ایک اور نزاکت پیدا ہو رہی تھی۔ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رقابت اور عناد رکھتے تھے وہ مسلمانوں سے کہتے کہ پیغمبر اسلام کا معاملہ اتنا یقینی نہیں جتنا تم لوگوں نے سمجھ لیا ہے۔ اگر وہ اتنا یقینی ہوتا تو یہ یہودی علماء ضرور ان کی طرف دوڑ پڑتے۔ کیونکہ وہ آسمانی کتابوں کے بارے میں تم سے زیادہ جانتے ہیں ۔
مگر کسی بات کو قبول کرنے کے لیے اس بات کا جانناکافی نہیں ہے۔ بلکہ اس بات کے بارے میں سنجیدہ ہونا ضروری ہے۔ یہود کا حال یہ تھا کہ انہوں نے خود اپنے پاس کی ان کتابوں میں تبدیلیاں کر ڈالیں جن کو وہ آسمانی کتابیں مانتے تھے۔ اپنی مقدس کتابوں میں وہ جس بات کو اپنی خواہش کے خلاف دیکھتے اس میں تاویل یا تحریف کرکے اس کو اپنی خواہش کے مطابق بنا لیتے۔ وہ اپنے دین کو اپنے دنیوی مفادات کے تابع بنائے ہوئے تھے۔ جو لوگ اپنے عمل سے اس قسم کی غیر سنجیدگی کا ثبوت دے رہے ہوں وہ اپنے سے باہر کسی حق کو ماننے پر کیسے راضی ہوجائیں گے ۔
کوئی بات خواہ کتنی ہی برحق ہو، اگر آدمی اس کا انکار کرنا چاہے تو وہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی تاویل ڈھونڈھ لے گا۔ اس تاویل کی آخری صورت کا نام تحریف ہے۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے معاملہ کی سنگینی آدمی کے دل سے نکل جاتی ہے۔ وہ خدا کے حکم کو سنتا ہے مگر لفظی تاویل کرکے مطمئن ہوجاتا ہے کہ اس کا اپنا معاملہ اس حکم کی زد میں نہیں آتا۔ وہ خدا کو مانتا ہے مگر اس کی بے حسی اس کو ایسے ایسے کاموں کے لیے ڈھیٹ بنا دیتی ہے جو کوئی ایسا آدمی ہی کرسکتا ہے جو نہ خدا کو مانتا ہو اور نہ یہ جانتا ہو کہ اس کا خدا اس کو دیکھ رہا ہے اور اس کی باتوں کو سن رہا ہے ۔
(تذکیر القرآن ، سورۃ البقرۃ تفسیر آیات : 75 تا 77، مولانا وحید الدین خاں )