بے حسّی کا مرض

 خدا کے حکم کے بارے میں جو لوگ بحثیں اور تاویلیں کریں ان کے اندر دھیرے دھیرے بے حسی کا مرض پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کے دل سخت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ خدا کا نام سب سے بڑی ہستی کا نام ہے۔ آدمی کے اندر ایمان زندہ ہو تو خدا کا نام اس کو ہلا دیتا ہے۔ بولنے سے زیادہ اسے چپ لگ جاتی ہے۔ مگر جب دلوں میں جمود اور بے حسی آتی ہے تو خدا کی باتوں میں بھی اسی قسم کی بحثیں اور تاویلیں شروع کردی جاتی ہیں جو عام انسانی کلام میں کی جاتی ہیں۔ اس قسم کا عمل ان کی بے حسی میں اور اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے دل پتھر کی طرح سخت ہوجاتے ہیں۔ اب خدا کا تصور ان کے دلوں کو نہیں پگھلاتا، وہ ان کے اندر تڑپ پیدا نہیں کرتا۔ وہ ان کی روح کے اندر ارتعاش پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتا ۔

پتھروں کا ذکر یہاں تمثیل کے طور پر کیا گیا ہے۔ خدا نے اپنی کائنات کو اس طرح بنایا ہے کہ وہ آدمی کے لیے عبرت و نصیحت کا سامان بن گئی ہے۔ یہاں کی ہر چیز خاموش مثال کی زبان میں اسی مرضی رب کا عملی نشان ہے۔ جو مرضی رب قرآن میں الفاظ کے ذریعہ بیان کی گئی۔ 

پتھروں کے ذریعہ خدا نے اپنی دنیا میں جو تمثیلات قائم کی ہیں ان میں سے تین چیزوں کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ 

پہاڑوں پر ایک مشاہدہ یہ سامنے آتا ہے کہ پتھروں کے اندر سے پانی کے سوتے بہتے رہتے ہیں جو بالآخرمل کردریا کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ اس انسان کی تمثیل ہے جس کے دل میں اللہ کا ڈر بسا ہوا ہو اور وہ آنسوؤں کی صورت میں اس کی آنکھ سے بہہ پڑتا ہو۔ 

دوسری مثال اس پتھر کی ہے جو بظاہر خشک چٹان معلوم ہوتا ہے۔ مگر جب توڑنے والے اس کو توڑتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نیچے پانی کا بڑا ذخیرہ موجود تھا۔ اسکے بعد اس پر ایک حادثہ گزرا۔ اس حادثہ نے اس کی روح کو ہلا دیا۔ وہ آنسوؤں کے سیلاب کے ساتھ خدا کی طرف دوڑ پڑا ۔

پتھروں کی دنیا میں تیسری مثال ہبوط (لینڈ سلائڈ) کی ہے۔ یعنی پہاڑوں کے اوپر سے پتھر کے ٹکڑوں کا لڑھک کر نیچے آجانا۔ یہ اس انسان کی تمثیل ہے جس نے کسی انسان کے مقابلہ میں غلط رویہ اختیار کیا۔ اس کے بعد اس کے سامنے خدا کا حکم پیش کیا گیا۔ خدا کا حکم سامنے آتے ہی وہ ڈھے پڑا۔ انسان کے سامنے وہ جھکنے کے لیے تیار نہ تھا۔ مگر جب انسان کا معاملہ خدا کا معاملہ بن گیا تو وہ عاجزانہ طور پر اس کے آگے گر پڑا ۔

( تذکیر القرآن ، تفسیر سورۃ البقرہ آیت : 74، مولانا وحید الدین خاں )