نظم قرآن اور فراہی مکتبۂ فکر کا سر سری جائزہ

نظم قرآن اور فراہی مکتبہ فکر کا سرسری جائزہ 
عرب اپنی فصاحت و بلاغت پہ نازاں تھے۔ ساری دنیا ان کے لیےگونگی تھی۔ وہ اسی زعم میں تھے کہ آسمان سے ایک کلام کا ظہور ہوا۔ اس کلام کے شان جلالت نے ان عربوں کو عجمی بنا دیا۔ لبید جیسا مسجود ِشعراء نے شاعری سے توبہ کر لی۔ سیدنا عمر فاروق نے شعر کی فرمایش کی تو کہا: ''کیا بقرہ اور آل عمران کے بعد بھی؟'' عربوں کے سامنے جب قرآن مجید زبان و بیان کے ایک معجزہ کے طور پر نمودار ہوا۔ تو ان کے اسالیب کلام بدل گئے۔ شاعری اور خطبات کے قدیم پیمانے بے اثر ہو گئے۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک صحیفۂ ادب نبوت و رسالت کا معجزہ ٹھہرا۔ چلنج دیا گیا کہ اس جیسا کوئی کلام لا سکتے ہو تو لادیکھاؤ۔


قرآن مجید کے اعجاز کو بہت سے اہل علم نے نمایاں کیا۔ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے عجائب قیامت تک ختم نہیں ہوں گے۔ ہمیں اس کی مثالیں، تاریخ کے ہر دور میں ملتی ہیں۔ اس معجزے کا ایک پہلو ایسا تھا جسے علماء نے نظم قرآن کا نام دیا۔ بر صغیر کے علماء میں سے مولانا حمید الدین فراہی نے پہلی مرتبہ اس کو ایک علمی حقیقت کے طور پر پیش کیا ۔ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید آج اس ترتیب کے ساتھ موجود نہیں ہے جس میں یہ نازل ہوا۔ جب کوئی آیت یا آیات نازل ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت فرماتے کہ انھیں فلاں سورہ میں فلاں آیت سے پہلے یا بعد لکھ دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس نئی ترتیب میں حکمت کیا تھی؟ مختلف مواقع پر نازل ہونے والی آیات جب اللہ ہی کے حکم سے ایک مربوط کتاب میں ڈھلیں تو اس کی ترتیب اور تنظیم میں کیا حکمت پوشیدہ تھی ؟بلاشبہ یہ بھی قرآن کے زبان و بیان کا ایک معجزہ ہے ، مولانا فراہی نے اس کو ایک زندہ حقیقت طور پر پیش کیا ، قرآنیا ت کی دنیا میں انہوں ایک بہت بڑا علمی کارنامہ انجام دیا ۔

اس بارے میں مولانا فراہی کا پہلا نکتہ نظر یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور سورتوں میں ربط ہے۔ یہ ربط اسے ایک ایسی دیدہ زیب عمارت بنا دیتا ہے جس میں کوئی ایک اینٹ بھی کسی دوسرے جگہ لگائی جاتی تو عمارت کا حسن مجروح ہوتا۔


دوسرا یہ کہ قرآن مجید زبان و بیان کا ایک معجزہ ہے۔ یہ اگرچہ عرب کے اسالیب کلام کو پیش نظر رکھتا ہے، لیکن اس کا اپنا ایک آہنگ بھی ہے۔ ان اصولوں کو انہوں نے قرآن کے فہم پر اطلاق کیا اس کے مطابق ایک تفسیر لکھنے کا ارادہ کیا۔ وہ چند آخری سورتوں کی تفسیر ہی لکھ پائے کہ 1930 ء میں اللہ کو پیارے ہوگئے ۔


پھر یہاں سے سے مولانا فراہی کے شاگرد رشید مولانا امین اصلاحی کا دور شروع ہوتا ہے ۔ انہوں نے اپنے استاد سے جو کچھ سیکھا، اس کا حاصل ''تدبرقرآن'' کی صورت میں سامنے آیا۔ اس میں پہلی بار یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے آئی کہ قرآن مجید کا نظم کیا ہے؟ اس کی سورتوں اور آیات میں کیا ربط ہے؟ اسالیب بیان کس طرح اصل موضوع کلام تک رہنمائی کرتے ہیں؟ قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے اصل وسائل کون سے ہیں ، داخلی وسائل کیا ہیں اور کیوں فہم قرآن میں ان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ، کیوں وہ خارجی وسائل کا محتاج نہیں ہے؟ ان حقائق کی روشنی میں مولانا نے اس نظم اور اسالیب کلام کو اپنی تفسیر ''تدبر قرآن'' کی نو جلدوں میں اطلاق کیا ۔ پھر جاوید احمد غامدی نے یہ نظم اور اسالیب کلام قرآن کے ترجمے میں پیش کیا ۔یہ پہلا ترجمۂ قرآن ہے جو نظم کلام کی رعایت سے کیا گیا۔ ترجمہ میں اس با ت کا خیال رکھا گیا کہ ترجمہ پڑھنے والے کو قرآن مجید ایک مربوط کلام کے طورپر محسوس ہو ۔ جاوید احمد غامدی صاحب کا مولانا اصلاحی سے وہی رشتہ ہے جو خود مولانا کا اپنے استاد فراہی سے تھا۔ اس ترجمے کی تین جلدیں شائع ہو چکی ہیں مزید دوجلدوں کی اشاعت باقی ہے۔


مولانا فراہی کے مطابق قرآن مجید میں سورتوں کا ایک خاص نظام ہے۔ اسی طرح ہر سورہ کا ایک معین نظم کلام ہے، الگ الگ متفرق ہداہات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس کا ایک مرکزی موضوع ہے اس کی تمام آیتیں اس موضوع سے متعلق ہوتی ہیں ۔ آیتوں کے ربط کی طرح سورتوں کا بھی ایک باہمی نظم ہے ۔ تمام سورتیں آپس میں توام یعنی جوڑے جوڑے ہیں ، ہرسورہ اپنا ایک جوڑا رکھتی ہے ۔ البتہ اس سے مستثنی چند سورتیں ہیں جس میں سے سورہ فاتحہ پورے قرآن پاک کے لیے بمنزلہ دیباچہ اور باقی تتمہ اور تکملہ یا خاتمہ کے طور پر ہیں ۔ اس طرح قرآن کی سورتوں کے کل سات ابواب یا گروپ ہیں ۔مولانا اصلاحی کے نزدیک سورۂ حجر کی آیت ٨٧ (ولقد آتینٰک سبعا من المثانی والقرآن العظیم) "اور ہم نے آپ کو سات مثانی دیے ہیں یعنی یہ قرآن عظیم عطاکیا ہے " انہیں سات گروپ یا ابواب کی طرف اشارہ ہے ۔ 


1۔ سورتوں کا پہلا گروپ 



اس گروپ میں کل چار سورتیں ہیں ۔ سورہ بقرہ ، سورہ آل عمران ، سورہ نساء ، اور آخر ی سورہ مائدہ ہے ۔

سورہ بقرہ اس گروپ کی پہلی سورہ ہے اس سورۃ کا بیشتر حصّہ ہجرت مدینہ کے بعد مدنی زندگی کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوا ہے، اور کمتر حصّہ ایسا ہے جو بعد میں نازل ہوا اور مناسبت مضمون کے لحاظ سے اس میں شامل کردیا گیا۔ اس کا مرکزی مضمون دعوت ایمان ہے۔اس میں قرآن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ اس میں اصل خطاب تو یہود سے ہے۔ لیکن ضمناً اس میں جگہ جگہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو، مسلمانوں کو، اور بنی اسمعیل کو بھی مخاطب کیا گیا ہے۔ یہود کو مخاطب کر کے ان کے ان تمام مزعومات کی تردید کی گئی ہے جن کے سبب سے وہ اپنے آپ کو پیدائشی حقدارِ امامت و سیادت سمجھے بیٹھے تھے اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانا اپنی توہین سمجھتے تھے جو ان کے خاندان سے باہر امی عربوں میں پیدا ہوا ۔

اس کے بعد دوسری سورہ آل عمران ہے، مفسرین کے نزدیک یہ سن ٩ ہجری میں وفد نجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوئی ۔ اس کا اس گروپ کے سابق سورۃ بقرہ سے نہایت گہرا ربط ہے۔ ان دونوں کا موضوع ایک ہی ہے۔ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اثبات۔ لوگوں پر عموماً اور اہل کتاب پر خصوصاً۔ دونوں میں یکساں شرح و بسط کے ساتھ دین کی اصولی باتوں پر بحث ہوئی ہے۔ دونوں کا قرآنی نام بھی ایک ہے ہے یعنی ’’ الف لام میم‘‘۔دونوں شکلاً بھی ایک ہی تنے سے پھوٹی ہوئی دو بڑی بڑی شاخوں کی طرح نظر آتی ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان کو شمس و قمر سے تشبیہ دی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ دونوں حشر کے دن دو بدلیوں کی صورت میں ظاہر ہوں گی۔ اہل بصیرت سمجھ سکتے ہیں کہ وصف اور تمثیل میں یہ اشتراک بغیر کسی گہری مناسبت کے نہیں ہوسکتا۔ دونوں مین زوجین کی سی نسبت ہے۔ ایک میں جو بات مجمل بیان ہوئی ہے، دوسری میں اس کی تفصیل بیان ہوگئی ہے۔ اس طرح ایک میں جو خلا رہ گیا ہے، دوسری نے اس کو پر کردیا ہے۔ گویا دونوں مل کر ایک اعلیٰ مقصد کو اس کی مکمل شکل میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتی ہیں ۔


اس گروپ کی تیسری سورہ نساءہے ۔ یہ متعدد خطبوں پر مشتمل ہے جو غالباً سن ٣ ہجری کے اواخر سے لے کر سن ٤ ہجری کے اواخر یا سن ٥ ہجری کے اوائل تک مختلف اوقات میں نازل ہوئے ہیں۔(تفہیم القرآن ،سید ابوالاعلی مودودی ) یہ آل عمران کے بعد اس طرح شروع ہوتی ہے کہ اس کے ابتدائی الفاظ ہی سے نمایاں ہوجاتا ہے کہ یہ آل عمران کا تکملہ و تتمہ ہے۔ آل عمران کی آخری اور نساء کی پہلی آیت پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ جس اہم مضمون پر آل عمران ختم ہوئی ہے اسی مضمون سے سورۂ نساء کی تمہید استوار ہوئی ہے۔ گویا آل عمران کی آخری آیت يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ہے، جس میں مسلمانوں کو فوز و فلاح کی راہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ انفردی و اجتماعی حیثیت سے ثابت قدمی دکھائیں، آپس میں جڑے، دشمن کے مقابل میں ڈٹے اور خدا سے ڈرتے رہیں۔ اب اس سورۃ کو دیکھئے تو اسی اتَّقُوا اللّٰهَ کے مضمون سے شروع ہوگئی ہے۔ (یا ایہا الناس اتقوا ربکم) اور آگے آپس میں جڑے رہنے اور مخالفین کے بالمقابل ثابت قدمی کے لیے جو باتیں ضروری ہیں وہ نہایت وضاحت و تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ سابق اور لاحق سورۃ میں ربط کی یہ صورت صرف انہی دو سورتوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اس کی متعدد نہایت لطیف مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔ 

اس پہلے گروپ کی آخری سورہ مائدہ ہے۔ یہ صلح حدیبیہ کے بعد سن ٦ ہجری کے اواخر یا سن ٧ ہجری کے اوائل میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ سے، آخری امت کی حیثیت سے، اپنی آخری اور کامل شریعت پر پوری پابندی کے ساتھ قائم رہنے اور اس کو قائم کرنے کا عہد و پیمان لیا ہے۔ اس سے پہلے یہ عہد و پیمان اہل کتاب سے لیا گیا تھا لیکن وہ، جیسا کہ پچھلی سورتوں سے واضح ہوا، اس کے اہل ثابت نہ ہوئے اس وجہ سے معزول کیے گئے اور ان کی جگہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو دی اور اس کو اپنی آخری اور مکمل شریعت کا حامل اور امین بنایا۔ اب اس سورۃ مائدہ میں عہد و پیمان لیا جا رہا ہے کہ تم پچھلی امتوں کی طرح خدا کی شریعت کے معاملے میں خائن اور غدار نہ بن جانا بلکہ پوری وفاداری اور کامل استواری کے ساتھ اس عہد کو نباہنا، اس پر خود بھی قائم رہنا، دوسروں کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کرنا اور اس راہ میں پوری عزیمت و پامردی کے ساتھ تمام آزمائشوں اور تمام خطرات کا مقابلہ کرنا۔

2۔ دوسرا گروپ 


سورۂ مائدہ پر، سورتوں کا پہلا گروپ مکمل ہوجاتا ہے ۔ سورہ انعام سے دوسرا گروپ شروع ہوجاتا ہے۔ اس میں بھی پہلے گروپ کی طرح چار سورتیں ہیں۔ انعام، اعراف، انفال، براءت۔ انعام اور اعراف مکی ہیں، انفال اور براءت مدنی۔ انعام و اعراف دونوں میں خطاب اہل مکہ سے ہے۔ انعام میں توحید، معاد اور رسالت کے بنیادی مسائل زیر بحث آئے ہیں اور اصل دینِ ابراہیم کی وضاحت کی گئی ہے۔ بنائے استدلال تمام تر عقل و فطرت اور آفاق و انفس کے شواہد پر ہے یا پھر ان مسلمات پر جن کو اہل عرب تسلیم بھی کرتے تھے اور جو صحیح بھی تھے ۔


اعراف میں انذار کا پہلو غالب ہے۔ اس میں قریش پر واضح کی گئی ہے کہ کسی قوم کے اندر ایک رسول کی بعثت کے مقتضیات و تضمنات کیا ہوتے ہیں، اس باب میں اللہ تعالیٰ کے قاعدے اور ضابطے کیا ہیں، اگر کوئی قوم اپنے رسول کی تکذیب پر جم جاتی ہے تو اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں، اس معاملے میں تاریخ کی شہادت کیا ہے اور اگر وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی اس روش سے باز نہ آئے تو اسے اپنے لیے کس روزِ بد کا انتظار کرنا چاہیے ۔

انفال میں مسلمانوں کو اپنی کمزوریاں دور کر کے اللہ اور رسول کی اطاعت پر مجتمع ہونے اور کفارِ قریش سے جہاد پر ابھارا ہے۔ قریش کے متعلق صاف صاف یہ اعلان فرمایا ہے کہ ان کو بیت اللہ پر قابض رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس وراثتِ ابراہیمی کے حق دار مسلمان ہیں نہ کہ قریش۔ مسلمانوں کو ہدایت دی ہے کہ تم ان سے مرعوب نہ ہو، اب ان کے لیے ذلت اور عذاب کا وقت آ چکا ہے۔ اگر یہ اپنی روش سے باز نہ آئے تو منہ کی کھائیں گے اور دنیا و آخرت دونوں میں کوئی بھی ان کو پناہ دینے والا نہیں ہوگا۔

سورۃ براءت میں کھلم کھلا قریش کو الٹی میٹم ہے۔ ان کے لیے صرف دو راہیں کھلی چھوڑی گئی ہیں۔ اسلام یا تلوار۔ مسلمانوں کو ان سے ہر قسم کے روابط قطع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جو مسلمان رشتہ و قرابت کی بنا پر ان سے در پردہ تعلق رکھتے تھے ان کو سخت سرزنش کی گئی ہے اور ان کے سامنے بھی واضح طور پر دو شکلیں رکھ دی گئی ہیں، یا تو اپنے آپ کو نفاق کی تمام آلائشوں سے پاک کر کے سچے اور پکے مسلمان بن جائیں یا پھر اسی انجام سے دو چار ہونے کے لیے تیار ہوجائیں جو اللہ و رسول کے ان دشمنوں کا ہونے والا ہے ۔

اس روشنی میں معلوم ہوا کہ ان چاروں سورتوں میں نہایت گہری حکیمانہ ترتیب ہے۔ انعام میں قریش پر اتمامِ حجت ہے، اعراف میں ان کو انذار ہے، انفال میں مسلمانوں کو جہاد کی تیاری کی ہدایت اور بیت اللہ کی تولیت سے قریش کی معزولی کا فیصلہ ہے۔ براءت میں قریش کو الٹی میٹم اور منافقین کو آخری تہدید ہے۔ 

پہلے گروپ میں اصل بحث اہل کتاب سے تھی، قریش سے اگر کہیں خطاب ہوا تھا تو ضمناً۔ اس کے بر عکس اس گروپ میں اصل خطاب قریش سے ہے۔ اہل کتاب کا اس میں ذکر آیا ہے تو ضمناً۔ مواد استدلال میں بھی مخاطب کے اختلاف کے لحاظ سے بنیادی فرق ہے۔ اس گروپ میں بیشتر استدلال عقل و فطرت اور آفاق و انفس کے شواہد سے ہے اور پہلے گروپ میں اہل کتاب کے تعلق سے وہ ساری چیزیں استدلال کے طور پر استعمال ہوئی ہیں جن کو اہل کتاب مانتے تھے۔ پہلے گروپ میں اہل کتاب کو امامت کے منصبت سے معزول کیا گیا ہے اور ان کی جگہ مسلمانوں کو دی گئی ہے۔ اس گروپ میں قریش کو بیت اللہ کی تولیت سے معزول کیا گیا ہے اور اس کی خدمت امت مسلمہ کے سپرد کی گئی ہے ۔


3۔ تیسرا گروپ 



سورۃ توبہ پر سورتوں کا دوسرا گروپ، جیسا کہ ہم نے واضح کیا ہے، تمام ہوجاتا ہے ، اب سورۃ یونس سے تیسرا گروپ شروع ہوتا ہے جو سورۃ نور پر ختم ہوجا تا ہے، اس میں 14 سورتیں:۔ یونس، ہود، یوسف، رعد، ابراہیم، حجر، نحل، بنی اسرائیل، کہف، مریم، طہ، انبیاء، حج اور مومنون مکی ہیں، آخر میں صرف سورۃ نور مدنی ہے۔ سورتوں کے جوڑے جوڑے ہونے کا اصول، جس طرح پچھلے دونوں گروپوں میں آپ نے ملاحظہ فرمایا اسی طرح اس گروپ میں بھی ملحوظ رہے۔ 


گروپ کی پندرھویں سورہ، سورہ نور، بظاہر الگ نظر آتی ہے لیکن اس کی حیثیت، سورۃ مومنون کے تکملہ اور تممہ کی ہے۔ سورۃ مومنون میں اہل ایمان کو دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح کی جو بشارت دی گئی ہے وہ اس خاص اخلاق و کردار کے ساتھ مشروط ہے جو ایمان کا لازمی مقتضی ہے۔ سورۃ نور میں اخلاق کردار کو مزید واضح فرمایا گیا ہے جس سے "خبیثون" اور "خبیثات" کے کافرانہ معاشرے کے مقابل میں "طیبون" اور "طیبات" کا مومنانہ معاشرہ پوری آب و تاب ک ساتھ نگاہوں کے سامنے آگیا ہے اور اس معاشرہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ ہے وہ بھی اس میں نہایت واضح اور قطعی الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے "وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (٥٥ ): "تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلافت بخشے گا جس طرح اس نے ان لوگوں کو خلافت بخشی جو ان سے پہلے گزرے اور ان کے اس دین کو ان کے لیے مستحکم کرے گا جس کو اس نے پسند فرمایا اور ان کی اس خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا" (نور)

اس گروپ کی سورتوں میں سے سورۃ حج کو بعض لوگوں نے مدنی قرار دیا ہے لیکن یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ گروپ کی آخری سورتیں چونکہ ہجرت کے بالکل قریب زمانے کی ہیں اس وجہ سے ان میں کہیں کہیں مدنی دور کی جھلک آگئی ہے۔ لیکن یہ سورتیں اپنے مزاج اور مطالب کے اعتبار سے سب مکی ہیں۔ سورۃ حج کی بعض آیتیں مدنی دور سے تعلق رکھنے والی ضرور ہیں لیکن سورۃ بحیثیت مجموعی مکی ہے۔ کسی مکی سورۃ میں مدنی دور کی بعض آیتیں بطور توضیح یا تکمیل آجانے سے پوری سورۃ پر مدنی ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ ایسی سورتیں قرآن میں بہت ہیں جن میں مدنی دور کی آیات شامل ہیں لیکن یہ سورتیں اپنے بنیادی مطالب اور اپنے مزاج کے اعتبار سے مکی ہی قرار دی گئی ہیں ۔

اس پورے گروپ پر تدبر سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ گروپ کی تمام سورتوں میں مشترک حقیقت، جو مختلف اسلوبوں اور پہلوؤں سے واضح فرمائی گئی ہے، یہ ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے حق و باطل کے درمیان جو کشمکش برپا ہوچکی ہے وہ بالآخر پیغمبر اور اہل ایمان کی کامیابی و فتح مندی اور قریش کی ذلت و ہزیمت پر منتہی ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ اس میں قریش کے لیے انذار اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کے لیے بشارت ہے۔ قریش پر عقل و فطرت اور آفاق و انفس کے دلائل اور تاریخ و نظام کائنات کے شواہد سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ جو حق تمہارے پاس آچکا ہے۔ اگر اس کی مخالفت میں تمہاری یہی روش قائم رہی تو بہت جلد وہ وقت آ رہا ہے جب تم اس کا انجام بد اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے۔ دنیا میں تم سے پہلے جن قوموں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی ہے جو حشر ان کا ہوا ہے اور جن کے عبرت انگیز آثار تمہارے اپنے ملک میں موجود ہیں، وہی حشر تمہارا بھی ہونا ہے۔ 


اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو صبر و استقامت اور تقوی کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ جس حق کو لے کر تم اٹھے ہو انجام کار کی کامیابی اور فیروزمندی اسی کا حصہ ہے۔ آفاق و انفس اور تاریخ اقوام و ملل کے دلائل و شواہد سب تمہارے ہی حق میں ہیں۔ البتہ سنت الٰہی یہ ہے کہ حق کو غلبہ اور کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے آزمائش کے مختلف مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان مرحلوں سے لازماً تمہیں بھی گزرنا ہے۔ اگر یہ مرحلے تم نے عزیمت و استقامت کے ساتھ طے کرلیے تو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی تمہارا ہی حصہ ہے۔ "يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ"۔

4۔ چوتھاگروپ 


سورہ فرقان سے سورتوں کا چوتھا گروپ شروع ہو تا ہے۔ اس میں آٹھ سورتیں ہیں :۔ فرقان، شعراء، نمل، قصص، عنکبوت، روم، لقمان، سجدہ مکی ہیں، آخر میں صرف ایک سورہ ۔۔ احزاب … مدنی ہے۔ سورتوں کے جوڑے جوڑے ہونے کا اصول دیگر گروپوں کی طرح اس میں بھی ہے۔ البتہ سورۃ احزاب کی حیثیت خلاصہ بحث یا سورۃ نور کی طرح تکملہ و تتمہ کی ہے۔ اسلامی دعوت کے تمام ادوار دعوت، ہجرت، جہاد … اور تمام بنیادی مطالب توحید، رسالت، معاد اس میں بھی زیر بحث آئے ہیں البتہ اسلوب بیان اور مواد استدلال دوسرے گروپوں سے اس میں مختلف ہے ۔


اس گروپ کا جامع عمود اثبات رسالت ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قرآن کے وحی الٰہی ہونے کے خلاف قریش اور ان کے حلیفوں نے جتنے اعتراضات و شبہات اٹھائے اس گروپ کی مختلف سورتوں میں، مختلف اسلوبوں سے، ان کے جواب دیئے گئے ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کا اصل مرتبہ و مقام بھی واضح فرمایا گیا ہے۔ اسی کے ضمن میں قرآن پر ایمان لانے والوں کو، مرحلہ امتحان سے گزرنے کے بعد، دنیا اور آخرت دونوں میں، فوز و فلاح کی بشارت دی گی ہے اور جو لوگ اس کی تکذیب پر اڑے رہیں گے۔ اتمام حجت کے بعد، ان کو ان کے انجام سے آگاہ کیا گیا ہے ۔

5۔ پانچواں گروپ 



سورہ سبا سے سورتوں کا پانچواں گروپ شروع ہو جا تاہے جو سورۃ حجرات پر ختم ہوتا ہے۔ اس مین ١٣ سورتی ۔۔۔۔ازسباتا االاحقاف ۔۔۔۔مکی ہیں۔ آخر میں تین سورتیں، محمد، الفتح، الحجرات، مدنی ہیں۔ 


مطالب اگرچہ اس گروپ میں بھی مشترک ہیں یعنی قرآنی دعوت کی تینوں اساسات، توحید، قیامت، رسالت، پر جس طرح پچھلے گروپوں میں بحث ہوئی ہے اسی طرح اس میں بھی یہ تمام مطالب زیر بحث آئے ہیں ! البتہ نہج استدلال اور اسلوبِ بیان مختلف اور جامع عمود اس کا اثبات توحید ہے جو اس مجموعہ کی تمام سورتوں میں نمایاں نظر آئے گا۔ دوسرے مطالب اسی کے تحت اور اسی کے تضمنات کی وضاحت کے طور پر آئے ہیں۔ 


6 ۔ چھٹاگروپ


سورہ ق سے سورتو کا چھٹا گروپ شروع ہوتا ہے۔ اس میں کل سترہ سورتیں ہیں۔ جن میں سے سات سورتیں … ق ذریات، طور، قمر، رحمان اور واقعہ … بالترتیب مکی ہیں۔ صرف سورۃ رحمان کو بعض مصاحف میں مدنی ظاہر کیا گیا ہے، لیکن اس کی تفسیر سے واضح ہوتا ہے کہ یہ رائے بالکل بے بنیاد ہے۔ پوری سورۃ کا مدنی ہونا تو درکنار اس کی کوئی ایک آیت بھی مدنی نہیں ہے۔ 

سورہ واقعہ کے بعد دس سورتیں … حدید، مجادلہ، حشر، ممتحنہ، صف، جمعہ، منافقون، تغابن، طلاق اور تحریم … مدنی ہیں ۔

اس گروپ کا جامع عمود بعث اور حشر و نشر ہے۔ اس کی تمام مکی سورتوں میں یہ مضمون ابھرا ہوا نظر آئے گا۔ اگرچہ قرآن کے بنیادی مطالب، دوسرے گروپوں کی طرح، اس میں بھی زیر بحث آئے ہیں لیکن وہ اسی جامع عمود کے تحت آئے ہیں۔ علی ہذا القیاس جو مدنی سورتیں اس میں شامل ہیں وہ بھی اسی اصل کے تحت ہیں۔ بعث اور حشر و نشر پر ایمان کا لازمی نتیجہ اللہ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت ہے۔ مدنی سورتوں میں اسی تسلیم و اطاعت کے وہ مقتضیات بیان ہوئے ہیں جن کے بیان کے لئے زمانہ نزول کے حالات داعی ہوئے ہیں ۔


مکی سورتوں میں تمام رد وقدح کفار قریش کے عقائد و مزعومات پر ہے اور وہی ان میں اصلاً مخاطب بھی ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے اگر خطاب ہے تو بطور التفات و تسلی ہے۔ مدنی سورتوں میں خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے ہے اور خاص طور پر ان لوگوں کی کمزوریاں زیر بحث آئی ہیں جو اللہ و رسول پر ایمان کے مدعی تو بن بیٹھے تھے لیکن ایمان کے تقاضوں سے ابھی اچھی طرح آشنا نہیں ہوئے تھے۔ انہی کے ضمن میں اہل کتاب بھی زیر بحث آئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس دور میں اہل کتاب بھی قریش کی حمایت اور اسلام کی مخالفت کے لئے میدان میں اتر آئے تھے، دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر منافقین کا گروہ جو گھس آیا تھا وہ بیشتر انہی اہل کتاب کے زیر اثر تھا ۔

7 ۔ ساتواں گروپ 


سورۂ ملک سے سورتوں کا ساتواں یعنی آخری گروپ شروع ہو تا ہے۔ اس گروپ میں بھی سورتوں کی ترتیب اسی طرح ہے ۔ پہلے مکی سورتیں ہیں آخر میں چند سورتیں مدنی ہیں اور یہ مدنی سورتیں مکی سورتوں کے ساتھ اسی طرح مربوط ہیں جس طرح فرع اپنی اصل سے مربوط ہوتی ہے۔ اس گروپ کی چند سورتوں کے مکی یا مدنی ہونے کے بارے میں اختلاف ہے اس وجہ سے یہاں یہ بتانا مشکل ہے کہ کہاں سے کہاں تک اس کی سورتیں مکی ہیں اور کہاں سے کہاں تک مدنی۔ تاہم اجمالی رائے یہ ہے کہ سورۂ ملک سے سورۂ کافرون تک ٤٣ سورتیں مکی ہیں اور سورۂ نصر سے سورۂ ناس تک پانچ سورتیں مدنی ۔

اس گروپ میں بھی دوسرے گروپوں کی طرح قرآنی دعوت کے تمام اساسات توحید، رسالت اور معاد زیر بحث آئی ہیں اور دعوت کے تمام مراحل کی جھلک بھی اس میں موجود ہے۔ لیکن اس پورے گروپ کا اصل مضمون انذارہے۔ اس کی بیشتر سورتیں مکی زندگی کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہیں اور ان میں انذار کا انداز وہی ہے جس انداز میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوہ صفا پر چڑھ کر انذار فرمایا تھا۔ اس انذار کے تقاضے سے اس میں قیامت اور احوال قیامت کی بھی پوری تصویر ہے اور اس عذاب کو بھی گویا قریش کی نگاہوں کے سامنے کھڑا کردیا گیا ہے جو رسول کی تکذیب کر دینے والوں پر لازماً آیا کرتا ہے۔ استدلال میں بیشتر آفاق کے مشاہدات، تاریخ کے مسلمات اور انفس کی بینات سے کام لیا گیا ہے اور کلام کے زور کا بالکل وہی حال ہے جس کی تصویر مولانا حالی (رح) نے اپنے اس شعر میں کھینچی ہے۔ ع

۔۔۔وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی عرب کی زمین جس نے ساری ہلا دی۔۔۔۔

ان سورتوں نے سارے عرب میں ایسی ہلچل برپا کر دی کہ ایک شخص بھی قرآن کی دعوت کے معاملے میں غیر جانبدار نہیں رہ گیا بلکہ وہ یا تو اس کا جانی دشمن بن کر اٹھ کھڑا ہوا یا سچا فدائی اور ان دونوں کی کشمکش کا نتیجہ بالآخر اس غلبہ حق کی شکل میں نمودار ہوا جس کا ذکر ہر گروپ کی آخری سورتوں میں ہوا ہے ۔ 

کیا یہ تقسیم ازروئے قرآن منصوص ہے؟



ساتویں گروپ کے اجمالی تعارف کے اختتام پر سورۂ حجر کی آیت ٨٧ (ولقد اتینک سبعا من المثانی والقرآن العظیم) کا پھر حوالہ دیا جا تا ہے کہ یہ تقسیم ازروئے قرآن منصوص ہے۔ ایک یہ کہ قرآن نے کسی خاص سورۃ کو سبع مثانی نہیں کہا ہے بلکہ ( کتابا متشابھا مثانی ) کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ پورا قرآن سبع مثانی ہے ۔


دوسری یہ کہ مثانی کسی بار بار دہرائی ہوئی چیز کو نہیں بلکہ اس چیز کو کہتے ہیں جو جوڑا جوڑا ہو۔ تیسری یہ کہ قرآن کی سورتوں کی ترتیب سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ یہ سات گروپوں میں تقسیم ہیں اور ہر سورہ اپنے ساتھ اپنا ایک جوڑا بھی رکھتی ہے جیسے اوپر ذکرہوا ۔ یہاں اس بات کی یاددہانی سے مقصود یہ ہے کہ قرآن کے آخری گروپ میں پہنچنے کے بعد قاری بہتر طریقہ سے یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ یہ رائے کچھ وزن رکھتی ہے یا نہیں اور قرآن کی اس ترتیب کے سامنے آنے سے فکر و نظر کے نئے دروازے کھلتے ہیں یا نہیں ؟


حدیث میں سبعۃ احرف سے کیا مراد ؟


قرآن کی اسی حقیقت کی طرف وہ حدیث بھی اشارہ کر رہی ہے جو حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ (انزل القرآن علی سبعۃ احرف) (قرآن سات حرفوں پر اتارا گیا ہے) سات حرفوں کے معنی اگر یہ لیے جائیں کہ قرآن کے تمام الفاظ سات طریقوں پر پڑھے جا سکتے ہیں تو یہ بات بالبداہت غلط ہے۔ اس صورت میں قرآن ایک معمہ بن کے رہ جائے گا حالانکہ قرآن خود اپنے بیان کے مطابق کتاب مبین ہے اور قریش کی ٹکسالی زبان میں نازل ہوا ہے۔ جو لوگ قرأتوں کے اختلاف کو بڑی اہمیت دیتے ہیں وہ بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ قرآن کے کسی لفظ کی قرأت سات طریقے پر کی گئی ہو۔ ابن جریر ؒ قرأتوں کے اختلاف نقل کرنے میں بڑے فیاض ہیں لیکن کسی لفظ کی انہوں نے دو تین سے زیادہ قرأتیں نقل نہیں کی ۔

غور کرنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ قرأتوں کا اختلاف دراصل قرأتوں کا اختلاف نہیں بلکہ بیشتر تاویل کا اختلاف ہے۔ کسی صاحب تاویل نے ایک لفظ کی تاویل کسی دوسرے لفظ سے کی اور اس کو قرأت کا اختلاف سمجھ لیا گیا حالانکہ وہ قرأت کا اختلاف نہیں بلکہ تاویل کا اختلاف ہے جیسے سورۂ تحریم کی تفسیر میں ہیں کہ بعض لوگوں نے ( فقد صغت ) کو ( فقد زاغت) بھی پڑھا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس نے بھی یہ پڑھا ہے اس نے یہ قرأت نہیں بتائی ہے بلکہ اپنے نزدیک اس نے ( فقد صغت ) کے معنی بتائے ہیں جس کی غلطی، کلام عرب کے دلائل کی روشنی میں، اچھی طرح واضح ہو تی ہے ۔

پھر یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ اگر قرأتوں کا اختلاف ہے بھی تو متواتر قرأت کا درجہ تو صرف اس قرأت کو حاصل ہے جس پر مصحف، جو تمام امت کے ہاتھوں میں ہے، ضبط ہوا ہے۔ اس قرأت کے سوا دوسری قرائتیں ظاہرہے کہ غیر متواتر اور شاذ کے درجہ میں ہوں گے جن کو متواتر قرأت کی موجودگی میں کوئی اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ قرائتوں کے اختلاف میں پڑنے کے معنی تو یہ ہیں کہ ہم ان الجھنوں میں پڑنے کے خود خواہاں ہیں جن سے سیدنا ابو بکر اور سیدنا عثمان (رض) نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امت کو محفوظ کرنے کی کوشش فرمائی ۔ 

بہر حال اس حدیث میں سبعۃ احرف سے سات قرأتیں مراد لینے کا تو کوئی قرینہ نہیں ہے البتہ اگر حرف کو عبارت، بیان اور اسلوب کے معنی میں لیں، جس کی زبان اور لغت کے اعتبار سے پوری گنجائش ہے، تو اس کی تاویل یہ ہوگی کہ قرآن سات اسلوبوں یا عبارتوں میں نازل ہوا ہے اور اس سے اشارہ انہی سات گروپوں کی طرف ہوگا جو قرآن میں تلاوت کرنے والے کو نظر آتے ہیں ۔

ان سات گروپوں کی نوعیت یہ ہے کہ ہر گروپ میں ایک جامع عمود کے تحت قرآنی دعوت کے تمام بنیادی مطالب مختلف اسلوبوں سے اس طرح بیان ہوئے ہیں کہ ہر بات بار بار سامنے آنے کے باوجود پڑھنے والا ان سے کبھی تکان محسوس نہیں کرتا بلکہ طرز بیان اور نہج استدلال کے تنوع، پیش و عقب کی تبدیلی، اطراف و جوانب کے فرق اور لواحق و تضمنات کی گوناگونی کے سبب سے ہر بار وہ ایک نیا لطف و حظ حاصل کرتا ہے۔ قرآن کی اسی خصوصیت کا ذکر بعض حدیثوں میں یوں آیا ہے کہ اہل علم اس سے کبھی آسودہ نہیں ہوتے اور اس کی تازگی پر کبھی خزاں کا گزر نہیں ہوتا۔ یہی ساتوں گروپ مل کر قرآن عظیم کی شکل اختیار کرتے ہیں، جیسا کہ سورۂ حجر کی مذکورہ بالا آیت کی تفسیر سے واضح ہے ۔(والقرآن العظیم) ا سی کی طرف اشارہ ہے ۔ واللہ اعلم بمراد کتابہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حوالہ جات : 

1- " تدبر قرآن"، (مولانا امین احسن اصلاحی )، 

2-"اصول و مبادی" ،( جاوید احمد غامدی ) 

3- "تفہیم القرآن "(مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ )