نسخ کی حقیقت اور اس کی ضرورت ، مولانا امین احسن اصلاحی

نسخ کی حقیقت اور اس کی ضرورت - مولانا امین احسن اصلاحی ؒ 
 نسخ کی حقیقت  اور اس کی ضرورت :
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَآ اَوْ مِثْلِهَا ۭ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ  ١٠٦؁
جو کوئی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں یا اس کو نظر انداز کراتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس کے مانند دوسری لاتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

نسخ کا مفہوم : نسخ کے اصل معنی ہٹانے اور مٹانے کے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے ’’ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ‘‘ (پس اللہ مٹا دیتا ہے اس چیز کو جو شیطان داخل کردیتا ہے۔ پھر اللہ اپنی آیتوں کو محکم کرتا ہے) (الحج : 52)۔ یہاں یہ ایک قانون کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرا قانون لانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ انساء کے معنی فراموش کردینے کے ہیں ۔
یہود کی وسوسہ اندازی کی تردید : یہود مسلمانوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالتے تھے کہ جب قرآن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا پیغمبر اور تورات کو خدا کی کتاب تسلیم کرتا ہے تو پھر تورات کے احکا م کے ردوبدل کے کیا معنی ؟ کیا خدا اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کو خود اپنے ہی ہاتھوں بدلتا ہے۔ کیا اب تجربہ کے بعد خدا پر اپنی غلطیاں واضح ہورہی ہیں اور وہ ان کی اصلاح کر رہا ہے ؟ اس قسم کے اعتراضات اٹھا کر یہود مسلمانوں کو قرآن اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدگمان کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ قرآن نے یہ ان کا جواب دیا ہے کہ تورات کا جو قانون منسوخ کیا جاتا ہے اس سے بہتر قانون اس کی جگہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح تورات کے جو احکام یہود نے فراموش کردیے تھے، ان کی تجدید کی جاتی ہے اور اگر تجدید نہیں کی جاتی بلکہ ان کو نظر انداز کرایا جاتا ہے تو ان سے ملتے جلتے احکام دیے جاتے ہیں۔ یعنی اس تبدیلی سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایک تو خوب سے خوب تر کی طرف بڑھا رہا ہے، دوسرے دین کی جو دولت ضائع کردی گئی تھی اس کی جگہ دین کے خانہ کو نئی دولت سے معمور کر رہا ہے۔ ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے جو قابل اعتراض قرار دی جا سکتی ۔


اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ: یہ خطاب عام ہے۔ ان لوگوں سے بھی جو یہ وسوسہ اندازی کر رہے تھے اور ان لوگوں سے بھی جو اس وسوسہ اندازی سے متاثر ہو رہے تھے۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہود کو شریعت دے کر اپنی قدرت اور اپنے اختیار سے مستعفی نہیں ہوبیٹھا تھا کہ اب نہ تو وہ دنیا میں کسی کو شریعت دے گا، نہ اس میں کسی قسم کی ترمیم و تبدیلی کرے گا اور نہ اب وہ اس کی تجدید کرے گا اگرچہ یہ اس کو بالکل ہی برباد کر کے رکھ دیں۔ بلکہ وہ بدستور اپنے تمام اختیارات کا مالک ہے اور اپنی حکمت کے مطابق ان کو ہمیشہ استعمال کرتا رہا ہے اور کرے گا ۔
نسخ کا مسئلہ جو اس آیت میں بیان ہوا ہے وہ مزید وضاحت کا محتاج ہے۔ ہم اس کے بعض پہلوؤں پر یہاں روشنی ڈالیں گے اور اس سلسلہ میں استاذ امام مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے فکر سے بھی استفادہ کریں گے۔
فرمایا ہے ’’ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَآ اَوْ مِثْلِهَا‘‘ (جو آیت (حکم) بھی ہم منسوخ کرتے ہیں یا اس کو نظر انداز کراتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے مانند دوسری لاتے ہیں)۔ سیاق و سباق اور نظم کلام کی روشنی میں ہم نے اس آیت کا تعلق صرف ادیان سابقہ سے مانا ہے۔ اہل کتاب نے یہ اعتراض جو اٹھایا تھا کہ قراان جب ہماری کتابوں کو آسمانی تسلیم کرتا ہے تو ان کی تعلیمات کو منسوخ کیوں کرتا ہے، قرآن نے یہ ان کے اس اعتراض کا جواب دیا ہے۔ اب آئیے اس جواب کی نوعیت پر غور کیجیے اور دیکھیے کہ یہ ہر پہلو سے معقول اور اطمینان بخش ہے یا نہیں۔ آیت پر تدبر کرنے سے جواب کے دو پہلو واضح طور پر سامنے آتے ہیں۔
(1) ایک تو یہ کہ یہ نسخ خوب سے خوب تر کی طرف عروج اور ترقی کے نقطۂ نظر سے ہے۔ بالفاظ دیگر یہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کی تکمیل ہے جو اس نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ سے فرمایا تھا کہ وہ اپنا آخری نبی بھیجے گا جو اللہ کی شریعت کو کامل کرے گا، تمام طیبات کو حلال کرے گا، تمام خبائث کو حرام ٹھہرائے گا اور لوگوں کو ان بہت سی پابندیوں سے آزاد کرے گا، جو اس وقت ان پر ہیں۔ اس حقیقت کو واضح طور پر ذہن نشین کرنے کے لیے مندرجہ ذیل امور پیش نظر رکھیے۔
(الف) یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت درجہ بدرجہ ترقی کرتی ہوئی اس نقطۂ کمال تک ہپنچی ہے جس نقطۂ کمال پر وہ قرآن حکیم میں نظر آتی ہے۔ اس تدریجی ترقی کے لیے جو چیز مقتضی ہوئی ہے وہ انسان کی فطرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ وہ تدریجی تربیت ہی کے ذریعہ سے اس مقام تک پہنچ سکتا تھا جس مقام پر پہنچ کر وہ خدا کے دین کامل کا اہل بن سکا ہے۔ اس مقام پر پہنچنے سے پہلے تک اس کو جو دین ملا وہ بنیادی طور پر تھا تو اسلام ہی لیکن اپنی ظاہری شکل و صورت یا بالفاظ دیگر اپنی شریعت کے اعتبار سے بہت کچھ انہی سانچوں پر ڈھلا ہوا تھا جو سانچے اس عہد کے ذہنی، عقلی اور اجتماعی و تمدنی تقاضوں سے مناسبت رکھتے تھے۔ تدریجی تربیت کے ذریعہ سے جب اس کی فطرت کے تمام مضمرات واضح ہوگئے اور اس کی عقل بلوغ کو پہنچ گئی، محسوسات ور سوم کی قیدوں اور قومی و قبائل تنگنائیوں سے آزاد ہو اس نے سونچنا سمجھنا شروع کیا تب اللہ تعالیٰ نے اس کو اسلام اس شکل و صورت اور اس کے شریعت کے لباس میں دیا جو غھیک ٹھیک اس کی فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ کوئی چیز نہ اس سے کم ہے نہ اس سے زیادہ۔ یہ ترقی اس امر کی مقتضی ہوئی کہ پچھلی شریعتوں کی بہت سی چیزیں بدلیں اور اسلام میں وہ اپنی ان شکلوں میں نمودار ہوں جو ان کی بالکل معیاری اور فطری شکلیں ہیں۔
 (ب) تورات کے بہت سے احکام کی ظاہر شکل بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہ جس وقت نازل ہوئے تھے خام حالت میں تھے، ان کو پختہ ہونے کے لیے کسی اور فصل و موسم کا انتظار تھا۔ اسلام کے ظہور نے ان کے لیے وہ منتظر موسم فراہم کیا اور وہ پختگی کو پہنچے۔ مثلاً شراب ان کے ہاں صرف عبادت خانہ کے ذمہ داروں کے لیے حرام تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک اشارہ تھا اس بات کی طرف کہ یہ چیز تقوی وطہارت کے منافی ہے اور ایک دن آئے گا کہ یہ سب کے لیے حرام ہو کر رہے گی۔ چنانچہ اسلام نے اس کی حرمت کے سلسلہ میں پہلا قدم اس مقام سے اٹھایا کہ نماز کے اوقات میں اس کو حرام ٹھہرایا۔ پھر بتدریج اس کو بالکل حرام کردیا۔ روایات بلکہ قرآن کے اشارات سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اندر جو لوگ زیادہ ذہین اور روحِ دین کے ذوق آشنا تھے وہ پہلا ہی حکم سن کر ہوا کا رخ پہچان گئے اور اسی وقت سے وہ شراب سے بالکل تائب ہوگئے۔ اسی طرح کھانے پینے کی دوسری چیزوں کی حلت و حرمت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض چیزیں یا تو بنی اسرائیل کے خاص قومی ذوق کے تحت ان کے لیے حرام ٹھہرائی گئیں، یا ان کے بے جا قسم کے سوالات کی سزا کے طور پر مثلاً اونٹ یا ذبیحہ کے بعض حصوں کی چربی۔ یہ حرمتیں اپنی ہیئت ہی سے ظاہر کر رہی تھیں کہ یہ عارضی اور وقتی ہیں، ایک دن آئے گا کہ اس قسم کی تمام پابندیاں فطرت انسانی کے منافی ہونے کے سبب سے اٹھ جائیں گی۔ چنانچہ دین فطرت نے ’’ الیوم احل لکم الطیبت‘ (اب تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں) کا عام اعلان کر کے اس قسم کی تمام پابندیوں کو منسوخ کردیا۔ تورات سے اس قسم کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن مقصود یہاں تفصیل بلکہ ایک حقیقت کی طرف صرف اشارہ ہے۔
(ج) تکیل و ترقی کی اس ضرورت کی طرف حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام نے نہایت غیر مبہم الفاظ میں اشارہ بھی فرمایا تھا۔ مثلا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ :
 ’’ خداوند تیرا خدا تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اس کی سننا۔ یہ تیری اس درخواست کے مطابق ہوگا جو تونے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو اپنے خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہو تاکہ میں مر نہ جاؤں اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں۔ میں ان کے لیے انہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا‘‘۔ (تثنیہ 18: 15-20)۔
ان آیات میں جہاں ایک طرف نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا صریح الفاظ میں وعدہ ہے وہیں اس بات کی طرف اشارہ بھی ہے کہ دین کی تکمیل آپ ہی کے ذریعہ سے ہوگی، حورب کے مقام میں بنی اسرائیل نے خود اس امر کا اظہار کردیا تھا کہ وہ اب مزید شریعت کا بوجھ اٹھانے کی طاقت اپنے اندر نہیں پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراف ضعف کی تحسین فرمائی اور وعدہ فرمایا کہ وہ ان کے بھائیوں میں سے حضرت موسیٰ کی مانند ایک دوسرا نبی برپا کرے گا اور اس کے ذریعہ سے اپنے دین کی تکمیل فرمائے گا۔
اس سے زیادہ واضح الفاظ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس حقیقت کو ظاہر فرمایا۔ ملاحظہ ہو :
 ’’ مگر اب میں اپنے بھیجنے والے کے پاس جاتا ہوں اور تم میں سے کوئی مجھ سے نہیں پوچھتا کہ تو کہا جاتا ہے بلکہ اس لیے کہ میں نے تم سے یہ باتیں کہیں تمہارا دل غم سے بھر گیا۔ لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے۔ کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا۔ لیکن اگر جاؤں گا تو اس کو تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ وہ آکر دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھہرائے گا۔ گناہ کے بارے میں اس لیے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتے۔ راستبازی کے بارے میں اس لیے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھ پھر نہ دیکھو گے۔ عدالت کے بارے میں اس لیے کہ دنیا کا سردار مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔ مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے۔ مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا، اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا‘‘ (یوحنا 16:5-14)۔
 ان آیات میں ’’ مددگار‘‘ اور ’’ سچائی کا روح‘‘ یا بعض دوسرے ترجموں میں ’’ معزی‘‘ اور ’’ وکیل‘‘ کے الفاظ جو وارد ہوئے ہیں، ان کا مصداق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا اور کون ہوسکتا ہے ؟ حضور ہی کے اوپر یہ بات منطبق ہوسکتی ہے کہ ’’ وہ تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا‘‘ اور حضور ہی کی یہ شان ہوسکتی ہے کہ ’’ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا‘‘ بعینہ یہی بات قرآن مجید میں ان الفاظ میں وارد ہوئی ہے کہ ’’ ماینطق عن الہوی ان ھو الا وحی یوحی‘‘ (وہ یہ اپنے جی سے نہیں کہتا بلکہ یہ وحی ہے جو اس کی طرف کی جاتی ہے) اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ پیشین گوئی فرمائی کہ نبی موعود وہی کچھ کہے گا جو خداوند خدا اس کے منہ میں ڈالے گا اور جو خبر وہ دے گا اس میں وہ سچا ٹھہرے گا۔
تورات اور انجیل کی انہی پیشین گوئیوں کی طرف سورۃ اعراف کی مندرجہ ذیل آیتوں میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔
قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ۔ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأغْلالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔
 فرمایا کہ رہا میرا عذاب تو میں اس کو نازل کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں اور میری رحمت تو ہر چیز پر محیط ہے سو میں اس کو لکھ رکھوں گا ان لوگوں کے لیے جو مجھ سے ڈرتے رہیں گے، زکوۃ دیتے رہیں گے اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے۔ یعنی جو پیروی کریں گے اس رسول اور نبی امی کی جس کو لکھا ہوا پاتے ہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں، وہ ان کو حکم دیتا ہے نیکی کا اور روکتا ہے برائی سے اور ان کے لیے جائز کرتا ہے تمام پاکیزہ چیزوں کو اور حرام ٹھہراتا ہے ناپاک چیزوں کو، اور ان سے دور کرتا ہے ان کے بوجھ اور ان پابندیوں کو جو ان پر پہلے سے تھیں، پس جو ایمان لائے اس پر اور جنہوں نے اس کی تائید اور مدد کی اور اس روشنی کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتاری گئی، وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں (اعراف :156-157)
(2)۔ نسخ بغرض تجدید دین : جواب کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ نسخ تجدید و احیائے دین کے تقاضے کے تحت ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کو جو شریعت ملی تھی اس کے کچھ حصہ کو، جیسا کہ قرآن مجید میں تصریح ہے، انہوں نے فراموش کردیا تھا۔ اس فراموش کردہ حصہ میں سے جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے ضروری ٹھہرایا اس دین کامل کے ذریعہ سے اس کی تجدید فرما دی تاکہ دین کے خزانہ سے جو دولت پاسبانوں کی غفلت اور نالائق سے ضائع ہوگئی تھی، وہ از سرِ نو محفوظ ہوجائے اور اگر اس کے کسی حصہ کو حکمت الٰہی نے ضروری نہیں ٹھہرایا بلکہ اس کی حکمت کا تقاضا یہی ہوا کہ اس حصہ کو نظر انداز کردیا جائ، تو اس کی جگہ اس کے ہم پایہ و ہم مرتبہ دوسرے احکام عنایت فرمائے۔
یہاں انساء کا جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ فراموش کرادینے کے معنی میں ہے۔ آیت زیر بحث میں اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ نسبت اسی طرح کی ہے جس طرح قرآن مجید میں دوسری جگہ فرمایا ہے ’’ فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبہم‘‘ (جب وہ کج ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کج کردیے) یہ اسلوب بیان اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے ساتھ یہ معاملہ اپنے قانون حکمت کے مطابق کیا اور اس لیے کیا کہ وہ اپنی شریعت کے معاملہ میں اپنی بے پروائی کے سبب سے اسی چیز کے مستحق تھے۔ لیکن چونکہ شریعت الٰہی تمام انسانیت کا مشترک سرمایہ ہے، اس وجہ سے جس طرح اس کے وقتی احکام کی اسلام کے دائمی اور اعلی احکام کے ذریعہ سے تکمیل کی گئی، اسی طرح اس کے فراموش کردہ اور ضائع شدہ احکام کی ان کے مماثل احکام کے ذریعہ سے قرآن میں تجدید کی گئی ۔
(3)۔ تطہیر شریعت : نسخ کی یہ ضرورت تکمیل دین اور تجدید شریعت کے پہلو سے بیان ہوئی اور یہ ایسی واضح ہے کہ یہود اور نصاری کے لیے اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی، لیکن قرآن مجید نے نسخ کے صرف انہی دو پہلوؤں کے بیان پر اکتفا نہیں فرمایا ہے، بلکہ ایک تیسرے پہلو سے بھی اس کی ضرورت بیان فرمائی ہے۔ یہ پہلو دین و شریعت کی تطہیر کا پہلو ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کی شریعت کو ان بدعتوں اور ملاوٹوں سے پاک کرنا جو اہل بدعت اور خواہش پرستوں نے ان میں ملا دی ہوں۔ اس کا ذکر سورۃ حج کی اس آیت میں ہوا ہے جس کا حوالہ ہم اوپر دے آئے ہیں۔ فرمایا ہے ’’ فینسخ اللہ ما یلقی الشیطان ثم یحکم اللہ آیتہ‘‘ (پس اللہ مٹا دیتا ہے اس چیز کو جو شیطان داخل کردیتا ہے، پھر اللہ اپنی آیات کو محکم کرتا ہے)۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ نسخ رد بدعات اور ابطالِ باطل کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اشرار و مفسدین نے آسمانی صحیفوں اور الٰہی شریعتوں میں جو بدعتیں اور من گھڑت چیزیں ملائیں، انبیاء (علیہ السلام) نے ان سے دین کو پاک و صاف کیا اور اس کی اصل تعلیمات کو از سر نو زندہ کر کے ان کو قائم کیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جو انبیاء علیہم السلام تشریف لائے ان کی اکثریت انہی انبیا پر مشتمل تھی جو کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے۔ بلکہ ان میں سے بیشتر کا مشن صرف یہی تھا کہ وہ پہلے سے نازل شدہ شریعت کو بدعتوں اور تحریفات سے پاک کر کے اس کو اس کی اصلی حالت پر لوٹا دیں۔ اس امت میں یہ خدمت اللہ و رسول کی طرف سے علما کے سپرد کی گئی ہے کہ وہ برابر دین کو بدعات و تحریفات سے پاک کرتے اور امت کو کتاب و سنت کی طرف لوٹاتے رہیں ۔
پچھلی شریعتوں میں اس قسم کے جو اضافے کیے گئے اور اسلام نے جن کو منسوخ کر کے ان کی اصل حقیقت پیش کی، یہاں ہم ان کی چند مثالیں ذکر کرتے ہیں تاکہ اس پہلو سے نسخ کی جو ضرورت و اہمیت ہے وہ اچھی طرح واضح ہو کر سامنے آجائے ۔
عقائد و ایمانیات کے باب میں یہود اور نصاریٰ نے جس قسم کی لغویات کا اضافہ کیا اور قرآن نے جس کی اصلاح کی ان میں سے ان کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا تین کا تیسرا ہے یا مثلاً یہ کہ یہود اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے اس بات کا اقرار لے رکھا ہے کہ جب تک کوئی نبی وہ قربانی پیش نہ کرے جس کو کھانے کے لیے آسمان سے آگ اترے اس وقت تک وہ اس پر ایمان نہ لائیں یا یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ میں برص کی بیماری تھی۔ قرآن مجید نے اس قسم کی تمام باتوں کی تردید کر کے اصل حقائق واضح فرمائے۔ اسی طرح یہود نے اپنی بدکارانہ زندگی کو جائز ٹھہرانے کے لیے اکثر انبیاء علیہم السلام سے متعلق نہایت بے ہودہ قسم کی روایات اپنے صحیفوں میں شامل کردیں جو ان کے اخلاق کو بالکل مجروح کردینے والی تھیں۔ قرآن مجید نے ان ابیاء کو اس قسم کے تمام اتہامات سے بری کر کے ان کی زندگیوں کو ان کے اصلی رنگ میں پیش کیا۔ اعمال کے باب میں ان لوگوں نے جس قسم کی بدعتیں کیں ان کی بعض مثالیں اس سورۃ میں گزر چکی ہیں اور بعض کا ذکر آگے آرہا ہے۔ مثلاً ان کا وہ رویہ جو انہوں نے اپنی قوم کے قیدیوں کے بارہ میں اختیار کیا، یا جو روش انہوں نے سود کے معاملہ میں اختیار کی۔ نصاری نے خنزیر اور گردن مروڑے ہوئے جانور کو جائز کرلیا۔ اسی طرح ان لوگوں نے تاریخ اور واقعات کو بھی مسخ کر کے اپنی خواہشات کے رنگ میں پیش کیا۔ مثلاً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور خانہ کعبہ کی تاریخ کے اکثر حصہ پر پردہ ڈال دیا گیا تاکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعلق بیت اللہ سے ثابت نہ ہوسکے اور اس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق پیشین گوئیوں کو مسخ کیا جا سکے۔ حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ سے متعلق بیانات میں بھی اسی مقصد کے تحت بہت سے تصرفات کیے گئے۔ قرآن مجید نے ان تمام تحریفات کا پردہ چاک کیا اور اصل حقائق بے نقاب کیے۔ استاذ امام نے رسالہ ذبیح میں ان چیزوں پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ آگے ہم بھی مناسب مواقع سے بعض مفید باتوں کی طرف اشارے کریں گے۔
شریعت اسلامی میں نسخ کی نوعیت : مذکورہ بالا تفصیل سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوگئی کہ سورۂ بقرہ کی زیر بحث آیت کا تعلق تمام تر ادیانِ سابقہ سے ہے اور اس میں جس نسخ کا حوالہ ہے اس کی ضرورت اور اس کی حکمت اس قدر واضح ہے کہ کسی انصاف پسند کے لیے اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ رہا یہ سوال کہ اسلامی شریعت میں بھی نسخ ہے یا نہیں تو اس بارے میں ہمارے یہاں تین گروہ ہیں۔ ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو نہ صرف نسخ کے قائل ہیں، بلکہ اس کو بہت زیادہ وسعت دیتے ہیں، دوسرا گروہ اس کا یک قلم منکر ہے۔ تیسرا گروہ اس کا قائل تو ہے لیکن اس کو صرف چند احکامات تک محدود مانتا ہے۔ ان میں سے پہلے گروہ نے اس کے دائرے کو جو بہت زیادہ وسعت دی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نزدیک نسخ کا ایک خاص مفہوم ہے۔ یہ لوگ ان تمام مواقع میں بھی نسخ مان لیتے ہیں، جہاں کوئی بات کسی عام کو خاص یا خاص کو عام کر رہی ہو یا کسی اجمال کو تفصیل کا رنگ دے رہی ہو، حالانکہ اس طرح کے مواقع میں نسخ ماننے سے زیادہ معقول بات یہ ہے کہ عام و خاص اور مجمل و مفصل کے درمیان توفیق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ توفیق نہایت آسانی کے ساتھ پیدا کی جاسکتی ہے۔
جو گروہ نسخ کا یک قلم منکر ہے اس کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے احکام حالات کے تابع ہیں، جو احکام منسوخ ہوئے ہیں وہ صرف اس وجہ سے منسوخ ہوئے ہیں کہ جن حالات کے اندر وہ نازل ہوئے تھے، وہ حالات تبدیل ہوگئے۔ اب اگر وہی حالت دوبارہ پلٹ آئیں تو وہ احکام بھی از سر نو بحال ہوجائیں گے اس وجہ سے جو احکام بظاہر منسوخ ہیں، وہ فی الحقیقت منسوخ نہیں ہیں بلکہ اپنے مخصوص حالات کے اندر بدستور قائم و زندہ ہیں۔ یہ گروہ اپنے نقطہ نظر کی حمایت میں یہ بات بھی پیش کرتا ہے کہ اسلامی شریعت کا ارتقا بتدریج نرمی سے سختی کی طرف ہوا ہے۔ اس وجہ سے جب حالات اس بات کے مقتضی ہوجائیں کہ نرمی کی طرف پلٹا جائے تو یہ پلٹنا اسلامی شریعت کے مزاج کے عین مطابق ہوگا ۔
ہمارے نزدیک اس رائے میں متعدد غلطیاں ہیں۔ اول تو بجائے خود یہ دعویٰ ہی بالکل بے بنیاد ہے کہ اول اول شریعت ہلکی تھی، بعد میں یہ سخت ہوئی ہے، قرآن مجید پر غور کرنے سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض احکام میں اس کا ارتقا اگر نرمی سے سختی کی طرف ہوا ہے۔ مثلاً تحریم شراب اور حکم صیام وغیرہ۔ تو بعض احکام میں سختی سے نرمی کی طرف بھی ہوا ہے۔ مثلاً صلوۃ اللیل اور تعداد مقاتلین کے معاملہ میں۔ اس وجہ سے یہ فارمولا بنا کر کہ شریعت کا ارتقا نرمی سے سختی کی طرف ہوا ہے نسخ کے بارے میں کوئی نتیجہ نکال لینا مغالطہ سے محفوظ نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں اور ہمارے دور میں جو فرق ہے اس کو اس میں ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اسلامی شریعت کی دنیا کو دعوت دی ہے اس وقت اسلام کی تعلیمات لوگوں کے لیے بالکل اوپری اور انوکھی تھیں، آپ کے صحابہ کی تعداد بہت تھوڑی تھی، لوگ جاہلی رسوم و عادات کے اتنے خوگر تھے کہ ان سے ان کے لیے نکلنا آسان نہ تھا۔ برعکس اس کے اس زمانہ میں حالات اس سے بہت مختلف ہیں۔ دنیا میں مسلمان کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ اسلامی احکام و قوانین لوگوں کے لیے کوئی نامانوس اور اجنبی چیز نہیں ہیں، اس وجہ اس زمانہ کو اس زمانہ پر قیاس کر کے ایک کے احکام کو دوسرے پر منطبق کرنا ہمارے خیال میں کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ تیسری یہ کہ اگر حالات کی تبدیلی کے بہانے شریعت کے منسوخات کی طرف پلٹنے کے جواز کو تسلیم کرلیا جائے تو اس سے فتنہ پسند طبائع کے لیے شریعت سے فرار کی ایک ایسی راہ کھل جاتی ہے جس کا بند کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ اس زمانے میں بڑی آسانی کے ساتھ اس دلیل کے سہارے روزہ، نماز، حرمت شراب اور حد زنا وغیرہ کے بارے میں سہولت پسند لوگ ایسے اجتہاد شروع کردیں گے کہ دین کے معاملہ میں امان ہی اٹھ جائے گی۔ چنانچہ ماضی میں بھی گمراہ داعیوں کے ہاتھوں اس کا تجربہ ہوچکا ہے اور آج بھی اس کا تجربہ ہورہا ہے۔ اسی چیز کی آڑ لے کر مبتدعین نے اپنے پیروؤں کے لیے شریعت کی حرام کی ہوئی بہت سی چیزوں کو جائز ٹھہرا دیا۔ اور پھر ان کے اندر سے ان چیزوں کی حرمت کا احساس بھی رخصت ہوگیا ۔
اس امر میں شبہ نہیں کہ بگڑے ہوئے ماحول میں بعض مرتبہ اچھے داعیان دین نے بھی نوواردوں اور نومسلموں کے لیے شریعت کے بعض معاملات میں نرمی برتی ہے۔ لیکن اس نرمی کی وجہ ہرگز یہ نہیں تھی، کہ وہ حالات کی تبدیلی کے تحت شریعت کے منسوخات کے اختیار کرلیتے ہیں۔ اس نوع کی مسامحت حکیمانہ تربیت کا ایک جزو ہے۔ یہ اس توقع پر اختیار کی جاتی ہے کہ بالتدریج اس طرح کے خام لوگوں کی حالت صحبت اور تربیت سے اصلاح پذیر ہوجائے گی۔ تجربہ بتاتا ہے کہ اکثر حالات میں یہ توقع پوری بھی ہوئی ہے۔ بشرطیکہ تربیت کرنے والے خود تقویٰ کی صفات سے متصف رہے ہیں، محض گندم نمائی اور جو فروشی کی دکان نہیں چلاتے رہے۔ اس چیز کو اس امر پر محمول کرنا ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے کہ یہ لوگ حالات کی تبدیلی کے تحت محکمات شریعت کو چھوڑ کر منسوخات کے اختیار کرنے کے قائل تھے ۔
ان وجوہ کی بنا پر ہم نسخ کے باب میں مذکورہ بالا دونوں مسلکوں کو کمزور سمجھتے ہیں۔ اب رہ گیا تیسرا مسلک یعنی ان لوگوں کا مسلک جو قراان کی بعض آیات کو منسوخ مانتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہی مسلک صحیح ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ آیات کون کون سی ہیں، وہ کن آیات سے منسوخ ہوئی ہیں اور ان کے منسوخ ہونے کی علت کیا ہے تو ان سوالوں کے جواب دینے کا یہ موقع نہیں ہے۔ اس کتاب میں اپنے اپنے موقع پر یہ بحثیں اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آئیں گی، یہاں صرف چند اصولی باتیں ذہن نشین کرلیجیے۔ ایک تو یہ کہ قرآن کا کوئی حکم اگر منسوخ ہوا ہے تو قرآن ہی سے منسوخ ہوا ہے اور یہ ناسخ و منسوخ دونوں قرآن مجید میں موجود ہیں۔ قرآن کے کسی حکم کو قرآن کے سوا کوئی دوسری چیز منسوخ نہیں کرسکتی۔ بعض فقہا نے حدیث کو بھی قرآن کے لیے ناسخ مانا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ مسلک صحیح نہیں ہے۔ اس مسلک کا ضعف اس قدر واضح ہے کہ اس کی تردید کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ اس نسخ کا تعلق تمام تر صرف احکام و قوانین سے ہے، عقائد و ایمانیات یا اخلاق و صفات یا واقعات و حقائق سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ عقائد و ایمانیات اور واقعات و حقائق ایسی چیزیں نہیں ہیں جو آج کچھ ہوں اور کل کچھ اور بن جائیں۔ لیکن احکام و قوانین میں اگر کوئی ترمیم و اصلاح خود قانون کا دینے والا کردے تو اس سے قانون کے مقصد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ بلکہ اس سے اصل مقصد کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ تیسری یہ کہ اس نسخ کی ضرورت اس وجہ سے نہیں پیش آئی کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کوئی نقص ہے جس کے سبب سے اس کے نازل کیے ہوئے قانون کو تجربات اور آزمائشوں کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ بلکہ اس کی وجہ صرف بندوں کی بعض فطری خامیاں اور کمزوریاں ہیں، جن کے سبب سے وہ بسا اوقات کسی قانون کے قبول کرنے میں تدریج اور تربیت کے محتاج ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ چونکہ اپنے بندوں پر غایت درجہ مہربان ہے اس وجہ سے اس نے یہ پسند فرمایا کہ وہ اپنے قانون میں اس تدریج و تربیت کو ملحوظ رکھے۔ یہ تدریج اور تربیت قرآن کے ناسخ اور منسوخ احکام پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے، کہ مختلف تقاضوں کے تحت مختلف طرز عمل کی مقتضی ہوئی ہے۔ مثلاً بعض حالات میں یہ اس بات کی مقتضی ہوئی ہے کہ معاشرہ کے ابتدائی حالات کے تقاضوں کی مناسبت سے کسی باب خاص میں کوئی عارضی حکم دیا جائے اور جب معاشرہ اپنے بلوغ کو پہنچ جائے تو اس عارضی حکم کو آخری اور کامل حکم سے بدل دیا جائے۔ مثلاً ابتداء ورثہ کے کے حقوق کے تحفظ کے لیے وصیت کا حکم دیا گیا، بدکاری کے سدباب کے لیے پنچائتی قسم کی تعزیر کی ہدایت کی گئی، انصار و مہاجرین کی اخوت کو اخلاقی اخوت سے بڑھا کر قانونی اخوت کا درجہ دیا گیا۔ لیکن بعد میں جب معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ کی حیثیت سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا تو وراثت کے آخری اور حتمی قانون اور زنا کی معین اور قطعی حد نے ان عارضی قوانین کو منسوخ کر کے خود ان کی جگہ لے لی۔ بعض حالات میں یہ اس امر کی مقتضی ہوئی کہ عام انسانی فطرت کا لحاظ کرتے ہوئے کوئی قانون درجہ بدرجہ اپنی آخری حد پر پنچے، مثلا شراب چونکہ اہل عرب کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی، اس وجہ سے ابتداءً یہ صرف نماز کے اوقات کے لیے حرام ہوئی، روزہ چونکہ عرب جیسے گرم ملک کے لیے بڑی سخت چیز تھا اس وجہ سے شروع شروع میں سفر اور مرض کی صورت میں فدیہ دے دینے کے بھی گنجائش رکھی گئی۔ لیکن بعد میں جب طبائع کو ان چیزوں سے انس ہوگیا تو شراب کے قطعی حرمت کے حکم، ماہ رمضان کی تعداد کی تکمیل کی ہدایت اور فدیہ کی اجازت کی منسوخی نے ان ابواب میں بھی شریعت کو کامل کردیا۔ ان احکام کے بعد صرف اضطرار کے تحت ایک محدود و مشروط اجازت باقی رہ گئی۔ بعض صورتوں میں اس کا اقتضاء یہ بھی ہوا ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سابقہ شریعت کے کسی حکم پر عمل کرنے کے لیے کچھ عرصہ تک آزاد چھوڑ دیا گیا۔ لیکن بعد میں اس اجازت کو منسوخ کر کے اس کی جگہ اسلامی شریعت کا مستقل حکم دے دیا گیا۔ مثلاً قبلہ کے معاملہ میں اس سے مقصود جیسا کہ قرآن میں واضح کیا گیا ہے مسلمانوں کا امتحان لینا تھا کہ کون خدا اور رسول کی وفاداری میں پختہ ہے اور کون اب تک اپنی پچھلی روایات ہی کا اندھا پرستار ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ امتحان تربیت ہی کا ایک جزو ہے۔ اسی طرح بعض حالات میں یہ اس بات کی مقتضی ہوئی کہ معاشرہ کی افرادی قوت کی کمی کی تلافی کے لیے وقتی طور پر بعض ایسے احکام بھی دیے جائیں جو کیفیت کو بڑھانے والے اور قلت تعداد کی حالت میں زیادہ بوجھ اٹھانے کی صلاحیت پیدا کرنے والے ہوں۔ مثلاً ابتداء عام مسلمانوں کو بھی تہجد کی پابندی کا حکم دیا گیا، میدان جہاد میں ایک کو دس کفار کا مد مقابل قرار دیا گیا، جماعتی استحکام و تطہیر کے تقاضوں کے تحت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی راز دارانہ بات کرنے سے پہلے صدقہ کی ہدایت کی گئی۔ بعد میں جب مسلمانوں کی افرادی قوت بڑھ گئی اور تطہیر جماعت کا وقتی مقصد حاصل ہوگیا تو ان چیزوں میں تخفیف کر کے ان کو اسی عام سطح پر کردیا گیا جو پہلے سے ان کے لیے شریعت میں مقرر تھی۔
یہ ہم نے صرف بعض اصولی باتوں کی طرف اشارات کیے ہیں۔ یہاں پیش نظر تمام ناسخ و منسوخ آیات کا استقصا اور ان کے مصالح کی وضاحت نہیں ہے۔ تفصیلی بحث منسوخ آیات کے تحت جیسا کہ عرض کیا گیا اپنے اپنے مقام میں آئے گی ۔
 اس تمام تفصیل سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوگئی کہ خدا کی شریعت قرآن مجید میں اپنے ترقی و کمال کے آخری درجہ پر پہنچ چکی ہے اب اس کے بعد کسی نسخ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس شریعت میں تمام احکام کے ساتھ مشکل اور مجبور کن حالات کے لیے رخصتیں اور رعایتیں بھی بیان کردی گئی ہیں۔ اس وجہ سے حالات کی تبدیلی کے عذر پر منسوخ احکام کی طرف پلٹنے کے لیے بھی کوئی وجہ جواز باقی نہیں رہی، البتہ اہل بدعت کی پیدا کردہ ضلالتوں کے نسخ کام قیامت تک باقی رہے گا اور یہ کام اسلام میں علماء اور مصلحین کے سپر د ہے ۔
(حوالہ : مولانا امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن جلد اول( ص 296، 308)، تفسیر  سورہ بقرہ :آیت 106)