اللہ کے سادہ دین میں کھود کرید کا نتیجہ

 حضرت موسیٰ ؑ  کے زمانہ میں بنی اسرائیل میں قتل کا ایک واقعہ ہوا۔ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کے واسطہ سے ان کو یہ حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس کا گوشت مقتول پر مارو، مقتول اللہ کے حکم سے قاتل کا نام بتا دے گا۔ یہ ایک معجزاتی تدبیر تھی جو چند مقاصد کے لیے اختیار کی گئی : 

1۔ مصر میں لمبی مدت تک قیام کرنے کی وجہ سے بنی اسرائیل مصری تہذیب اور رسوم سے متاثر ہوگئے۔ مصری قوم گائے کو پوجتی تھی۔ چنانچہ مصریوں کے اثر سے بنی اسرائیل میں بھی گائے کے مقدس ہونے کا ذہن پیدا ہوگیا۔ جب مذکورہ واقعہ ہوا تو اللہ نے چاہا کہ اس واقعہ کے ذیل میں ان کے ذہن سے گائے کے تقدس کو توڑا جائے۔ چنانچہ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے گائے کے ک ذبح کی تدبیر اختیار کی گئی۔ 

2۔ اسی طرح بنی اسرائیل نے یہ غلطی کی تھی کہ فقہی خوض اور بحث کے نتیجہ میں خدا کے سادہ دین کو ایک بوجھل دین بنا ڈالا تھا۔ چنانچہ مذکورہ واقعہ کے ذیل میں ان کو یہ سبق دیا گیا کہ اللہ کی طرف سے جو حکم آئے اس کو سادہ معنوں میں لے کر فوراً اس کی تعمیل میں لگ جاؤ۔ کھود کرید کا طریقہ اختیار نہ کرو۔ اگر تم نے ایسا کیا کہ حکم کی تفصیلات جاننے اور اس کے حدود کو متعین کرنے کے لیے موشگافیاں کرنے لگے تو تم سخت آزمائش میں پڑجاؤگے۔ اس طرح ایک سادہ حکم شرائط کا اضافہ ہوتے ہوتے ایک سخت حکم بن جائے گا جس کی تعمیل تمہارے لیے بے حد مشکل ہو۔ 

3۔ اس واقعہ کے ذریعہ بنی اسرائیل کو بتایا گیا ہے کہ دوسری زندگی اسی طرح ایک ممکن زندگی ہے جیسے پہلی زندگی۔ اللہ ہر آدمی کو مرنے کے بعد زندہ کردے گا اور اس کو دوبارہ ایک نئی دنیا میں اٹھائے گا ۔


تذکیر القرآن ، سورۃ البقرۃ،  تفسیر آیات 67 تا 73، مولانا وحید الدین خاں )