قرآن کریم پر اعتراضات کا سلسلہ اس کے زمانۂ نزول ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ مشرکینِ مکہ نے جو اسلام دشمنی میں پیش پیش تھے، اس پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے۔ کبھی اسے گھڑی ہوئی کہانیاں (اساطیر) قرار دیا تو کبھی شعر، کہانت یا جادو کہا۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد یہود کی جانب سے بھی برملا اسلام دشمنی کا اظہار ہونے لگا اور وہ بھی قرآن پر مختلف اعتراضات کرنے لگے۔ قرآن نے ان تمام اعتراضات کا مدلّل جواب دیا اور ان سے اپنی براء ت کااعلان کیا۔ بعد کے زمانوں میں بھی قرآن کریم پر اعتراضات و الزامات کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ ہردور میں اعدائے اسلام نے قرآن کو نشانہ بنایا اور اس کی تعلیمات پر تنقید و ملامت کے تیر برسائے۔ اس سلسلے میں خصوصیت سے مستشرقین (Rrientalists) کا نام لیا جاسکتا ہے، جنھوں نے قرآنیات کے میدان میں اہم علمی کام انجام دیے ہیں، لیکن ان کے پس پردہ ان کی اسلام دشمنی کارفرما رہی ہے اور انھوں نے قرآن کی حقیقی تعلیمات کو مسخ کرنے اور اس کی جانب بے بنیاد باتیں منسوب کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔۱؎
ہندوستان میں بھی اسلام کے مخالفین کی جانب سے قرآن پر اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں عیسائی مشنریاں پیش پیش رہی ہیں اور ہندو انتہا پسندوں نے بھی کافی سرگرمی دکھائی ہے۔ آئندہ سطور میں قرآن پر ہندو انتہا پسندوں کے اعتراضات کا جائزہ لینا مقصود ہے۔
ہندو معترضین میں ایک نمایاں نام سوامی دیانند سرسوتی (۱۸۲۴-۱۸۸۳ئ) کا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب سیتارتھ پرکاش میں جہاں دیگر مذاہب : یہودیت اور عیسائیت پر اعتراضات کیے ہیں وہیں ایک باب اسلام پر اعتراضات کرنے کے لیے بھی خاص کیا ہے۔ انھوں نے بہ کثرت قرآنی آیات نقل کرکے ان کے من مانے معانی و مفاہیم بتائے ہیں اور اسلام کو ایک جارحیت پسند اور غیر عقلی مذہب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ۲؎
اسلام اور قرآن پر بہت سے اعتراضات شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اکھل بھارت ہندو مہاسبھا نے ’’دیش میں دنگے کیوں ہوتے ہیں؟‘‘ کے عنوان سے ایک فولڈر شائع کیا تھا، جس میں قرآن کی چوبیس (۲۴) آیتوں یا ان کے ا جزاء کو نقل کرکے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ قرآن مسلمانوں کو دوسرے دھرموں کے لوگوں سے جھگڑا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اور کہا گیا تھا کہ جب تک ان آیتوں کو قرآن سے نکالا نہیں جاتا دیش کے دنگوں کو روکا نہیں جاسکتا‘‘۔ ۳؎
انہی الزامات کے تحت کلکتہ ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا اور قرآن پر پابندی عائد کروانے کی کوشش کی گئی تھی، مگر فاضل ججوں نے دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے خارج کردیا۔
عموماً ہندو شدّت پسندوں کی جانب سے قرآن کریم کے سلسلے میں جو اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں، آئندہ سطور میں ان کا تذکرہ کرکے ان کا جائزہ لینے اور صحیح نقطۂ نظر واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ قرآن نے اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے لفظ ’کافر‘ استعمال کیا ہے۔ ان میں ہندو بھی شامل ہیں۔ اس لفظ میں بغض، نفرت اور حقارت کا مفہوم شامل ہے۔ کافروں کے بارے میں قرآن میں جو باتیں کہی گئی ہیں، ان سے دنیا میں جس طرح کا معاملہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے او رمرنے کے بعد دوسری دنیا میں ان کے ساتھ جیسا معاملہ کیے جانے کی خبر دی گئی ہے، انھیں پڑھ کر مسلمانوں کے دلوں میں ان سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور ان سے دوٗر رہنے اور ہر طرح کا تعلق منقطع رکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لفظ ’کافر‘ کا یہی مفہوم ہے؟
عربی زبان میں لفظ کفر کے اصل معنیٰ چھپانے اور ڈھانکنے کے ہیں۔ عربوں کے کلام میں اس مادہ سے جتنے الفاظ آئے ہیں سب میں یہ معنیٰ کسی نہ کسی شکل میں ضرور پایا جاتا ہے۔ ماہر لغت ابن درید الازدی نے لکھا ہے:
اصل الکفر التغطیۃ علی الشئ ۴؎
(کفر کی اصل ہے کسی چیز کو ڈھانک لینا)
اسی لیے اہل عرب لفظ کافر کا اطلاق ان چیزوں پر کرتے ہیں جو کسی چیز کو ڈھانپ لیں۔ مثلاً ان کے کلام میں درج ذیل چیزوں کے لیے اس لفظ کا استعمال ملتا ہے:
رات: کہ وہ اپنی تاریکی سے تمام چیزوں کو ڈھانپ لیتی اور لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ کردیتی ہے۔
سمندر: کہ وہ بڑی سے بڑی چیز کو اپنے اندر چھپا لیتا ہے۔
بڑی وادی: کہ اس میں پہنچ کر لوگ دوسروں کی نگاہوں سے چھپ جاتے ہیں۔
دریا: کہ وہ اپنے اندر چھوٹی بڑی چیزوں کو چھپا لیتا ہے۔
گہرا بادل: کہ وہ ستاروں، چاند اور سورج کو چھپا لیتا ہے۔
کسان: کہ وہ زمین میں بیج ڈال کر اسے چھپا دیتا ہے۔
زِرَہ: کہ وہ فوجی کے جسم کو چھپا لیتی ہے۔
دور دراز کا علاقہ جہاں کسی کا گزر نہ ہو: کہ وہاں رہنے والے عام لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ ۵؎
اسی طرح عربی زبان میں ’کفر‘ ناشکری کے معنٰی میں بھی آتا ہے۔ اس میں بھی اس کے اصلی معنیٰ پائے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ جو شخص کسی کی ناشکری کرتا ہے وہ گویا اپنے محسن کے احسان کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ جمھرۃ اللغۃ میں ہے:
وکفر فلان النعمۃ اذا لم یشکرہا ۔ ۶؎
(فلاں نے نعمت کا کفر کیا، یعنی اس پر شکریہ ادا نہیں کیا)
البتہ عربی زبان میں لفظ ’کفر‘ کا غالب استعمال، اسلام وایمان کے بالمقابل ایک اصطلاح کے طور پر ہوتا ہے، ماہرین لغت نے اس کی صراحت کی ہے۔ ازدی نے لکھا ہے: الکفر ضد الاسلام ۷؎ جوہری اور فیروزآبادی کہتے ہیں: الکفر ضد الایمان۔ ۸؎
قرآن کریم میں لفظ ’کفر‘ کااستعمال مختلف لغوی معانی کے لیے بھی ہوا ہے اورایمان کے بالمقابل اصطلاح کے طور پر بھی۔ ایک مقام پر وہ اصل لغوی معنیٰ (چھپانے) میں آیا ہے۔ دنیاوی زندگی کو لہو و لعب قرار دیتے ہوئے اس کی یہ مثال بیان کی گئی ہے:
کَمَثَلِ غَیْْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ۔ (الحدید؍ ۲۰)
(اس کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے …)
اس آیت میں کسانوں کے لفظ ’کفار‘ لایا گیا ہے۔ کسان کو ’کافر‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کھیتی کے دوران بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے۔
بعض مقامات پر اس کا استعمال شکر کے بالمقابل ناشکری کے معنیٰ میں ہوا ہے:
فَاذْکُرُونِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُواْ لِیْ وَلاَ تَکْفُرُونِ۔ (البقرۃ؍ ۱۵۲)
(لہٰذا مجھے یاد رکھو، میں تمھیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، ناشکری نہ کرو)
إِنَّا ہَدَیْْنٰہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِراً وَإِمَّا کَفُوراً ۔ (الدھر؍ ۳)
(ہم نے اسے راستہ دکھایا، اب خواہ وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا)
اور چوں کہ ناشکری نعمت کے انکار کو مستلزم ہے،اس لیے بعض مقامات پر یہ انکار اور براء ت کے معنیٰ میں آیاہے:
إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللَّہِ أَوْثَاناً مَّوَدَّۃَ بَیْْنِکُمْ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُم بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُم بَعْضاً۔ (العنکبوت؍ ۲۵)
(تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنالیا ہے۔ مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کروگے)
اس مضمون کی بہت سی آیات ہیں۔ یہاں بہ طور مثال دو آیتیں درج کی جاتی ہیں :
وَمَن یَّتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالإِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ۔ (البقرۃ؍ ۱۰۸)
(جس شخص نے ایمان کی روش کو کفر کی روش سے بدل لیا وہ راہ راست سے بھٹک گیا)
أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ۔ (البقرۃ؍ ۸۵)
(کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟)
مفسرین اور ماہرینِ لغت نے صراحت کی ہے کہ لفظ ’کافر‘ میں وہ تمام معانی پائے جاتے ہیں جن کے لیے اس کا عربی زبان میں استعمال ہوتا ہے۔ علامہ ابن الجوزیؒ نے لکھا ہے:
’’لغت میں کفر کے معنیٰ چھپانے کے ہیں۔ کافر کو کافر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ حق پر پردہ ڈال دیتا ہے‘‘۔ ۹؎
جوہری فرماتے ہیں:
’’کافر کو کافر اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کے احسانات کا انکار کرتا ہے اور اس کی نعمتوں کو چھپا لیتاہے‘‘۔۱۰؎
ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ’’ایسے ہر شخص کو جو اسلام کی اساسیات پر ایمان نہ رکھتا ہو، کافر نہیں کہا جاسکتا، یہ لفظ ’غیر مسلم‘ کے مترادف نہیں ہے۔ کافر اسی شخص کو کہا جاسکتا ہے جس تک اسلام کی دعوت پہنچائی جائے اور اس پر اتمام حجت کردی جائے، اس کے باوجود وہ اسلام قبول نہ کرے۔ اتمام حجت کے بعد بھی متعین طور پر کسی کو کافر نہیں کہا جاسکتا‘‘۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ لفظ کافر کااستعمال ایمان اور اسلام کے بالمقابل ہوا ہے۔ جو شخص بھی اللہ کے دین کو نہ مانے اور اسلامی عقائد کو تسلیم نہ کرے وہ کافر ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں لفظ کفر کی نسبت یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی طرف کی گئی ہے۔ ۱۱؎
اسلام اصولی طور پر دین حق کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان فرق کرتا ہے، تاکہ اس کے احکام کے نفاذ کے معاملے میں دونوں کے ساتھ الگ الگ برتاؤ کیا جاسکے۔ دین حق کے ماننے والوں کو ان احکام کا پابند بنایا جاسکے اور نہ ماننے والوں کو ان کی پابندی سے مستثنیٰ رکھا جاسکے۔ اس لفظ کے ذریعے نہ غیر مسلموں سے نفرت کا اظہارکیا گیا ہے اور نہ اس میں لغوی طور پر بغض و نفرت ، حقارت اور ذلّت کے معانی پائے جاتے ہیں۔
ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ قرآن میں جہنم کے عذاب کاتذکرہ تفصیل سے کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اسلام قبول نہیں کریں گے انھیں وہ عذاب دیا جائے گا ، مثال کے طور پر وہ ان جیسی آیات کا حوالہ دیتے ہیں:
إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِآیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْہِمْ نَاراً کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنَاہُمْ جُلُوْداً غَیْْرَہَا لِیَذُوقُواْ الْعَذَابَ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَزِیْزاً حَکِیْماً۔ (النسائ؍ ۵۶)
(جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کردیا ہے، انھیں بالیقین ہم آگ میں جھونگیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے، تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتا ہے)
فَلَنُذِیْقَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا عَذَاباً شَدِیْداً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَسْوَأَ الَّذِیْ کَانُوا یَعْمَلُونَ۔ ذٰلِکَ جَزَآئُ أَعْدَآء اللّٰہِ النَّارُ لَہُمْ فِیْہَا دَارُ الْخُلْدِ جَزَآئً مبِمَا کَانُوا بِآیٰتِنَا یَجْحَدُونَ۔ (حم السجدۃ؍ ۲۷-۲۸)
(ان کافروں کو ہم سخت عذاب کا مزہ چکھا کر رہیں گے اور جو بدترین حرکات یہ کرتے رہے ہیں ان کا پورا پورا بدلہ دیں گے۔ وہ دوزخ ہے جو اللہ کے دشمنوں کو بدلے میں ملے گی۔ اسی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کا گھر ہوگا۔ یہ ہے سزا اس جرم کی کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے)
وہ کہتے ہیں کہ ان آیات کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں غیر مسلموں کے بارے میں نفرت و حقارت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
کافروں کو آخرت میں دی جانے والی جو سزائیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے قانونِ عدل و انصاف کے عین مطابق ہیں۔ یہ سزائیں اہل ایمان کے دلوں میں کافروں سے نفرت و حقارت نہیں، بلکہ ہم دردی پیدا کرتی ہیںاور انھیں آمادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے ان بھائیوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی جدّو جہد کریں۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس دنیا میں پیدا کیا اور انھیں بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ ان کاتقاضا ہے کہ وہ اس پر ایمان لائیں اور اس کے ا حکام بجالائیں۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ حقیقت میں بڑے ناشکرے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللّٰہِ ہُمْ یَکْفُرُونَ۔ (النحل؍ ۷۲)
(پھر کیا یہ لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں)
جو لوگ اللہ کو چھوڑکر یا اس کے ساتھ دیوی دیوتاؤں کو پوجتے ہیں ،جو حقیقت میں نہ انھیں کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ، وہ اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا رویّہ بغاوت کے مترادف ہے ۔ ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو باغیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں اور اس کے احکام سے روگردانی کرتے ہیں۔ یہ اللہ کی نگاہ میں مجرم ہیں۔ اس نے ان کے لیے آخرت میں ایسی ہی سزائیں تجویز کر رکھی ہیں جن کے وہ مستحق ہیں:
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِباً أَوْ کَذَّبَ بِآیٰتِہِ إِنَّہُ لاَ یُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ۔ (یونس؍ ۱۷)
(پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا، جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے، یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے۔ یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پاسکتے)
یہ دنیا دارالامتحان ہے اور آخرت دارالجزائ۔ یہاں انسان جیسے کام کرے گا اس کا بدلہ آخرت میں پائے گا۔ جو لوگ دنیا میں اللہ کے باغی اور مجرم بن کر رہیں اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کریں انھیں آخرت میں سخت سزائیں دی جائیں گی۔ فرماں بردار اور نافرمان، اطاعت گزار اور سرکش، نیک اور مجرم دونوں کے انجام میں فرق کرنا عین تقاضائے انصاف ہے، لیکن یہ فرق آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالیٰ کرے گا۔ اس سے دنیا میں غیر مسلموں کے انسانی حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ اس سے اہل ایمان کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت و حقارت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ہندوؤں کو قرآن میں ناپاک اور گندا کہا گیا ہے۔ اس تعبیر سے ان کے خلاف نفرت اور حقارت کا اظہار ہوتا ہے۔ معترضین کا اشارہ اس آیت کی طرف ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَـذَا۔ (التوبۃ؍۲۸)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مشرکین نجس ہیں، لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں)
اس آیت میں نجاست سے مراد جسمانی اور مادّی گندگی نہیں ہے، بلکہ عقیدہ کی خرابی اور شرک کی آلودگی ہے۔ اس پر تمام مفسّرین اور علماء کا اتفاق ہے۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: مشرکین نجس ہیں۔ اس سے مراد عقیدے کی نجاست اور گندگی ہے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ ان کے اعضاء پیشاب پاخانہ جیسی چیزوں کی طرح نجس ہیں‘‘۔ ۱۲؎
اسلام عقیدے کے معاملے میں کوئی مداہنت اور روٗ رعایت نہیں کرتا۔ وہ توحید کا علم بردار اور شرک کے سخت خلاف ہے۔ اس کے نزدیک شرک ایک گندگی ہے، جس سے اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے والے کا ذہن آلودہ ہوجاتا ہے۔ وہ اس گندگی کو ناپسند کرتا اور انسانوں کو اس سے پاک صاف رکھنا چاہتا ہے۔ اللہ کے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید کے علم بردار تھے۔ انھوں نے اللہ واحد کی عبادت کے لیے خانۂ کعبہ کی تعمیر کی تھی، لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ان کے پیرو شرک میں مبتلا ہوگئے تھے۔ وہ اللہ کی عبادت کے ساتھ ہزاروں دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرنے لگے تھے۔ خانۂ کعبہ کی دیواروں میں انھوں نے مورتیاں نصب کررکھی تھیں اور اس کے اندر اور مسجد حرام میں تین سو ساٹھ بت رکھ چھوڑے تھے۔ ۸ ہجری میں فتح مکہ کے بعد جب وہاں کا اقتدار توحید پرستوں کے ہاتھ میں آیا تو یہ امر فطری تھا کہ وہ توحید کے مرکز کو مظاہر شرک سے پاک کردیں، چنانچہ فتح مکہ کے اگلے سال حج کے موقع پر اعلانِ عام کردیا گیا کہ خانۂ کعبہ اللہ کا گھر ہے اور مسجد حرام کو مقدس مقام کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے شرک کی آلودگیوں میں مبتلا لوگوں کو آئندہ یہاں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔
جہاں تک کافروں اور مشرکوں کے ظاہر کا تعلق ہے اسلام نہ تو انھیں گندا قرار دیتا ہے اور نہ اس کی بنیاد پر ان سے الگ تھلگ یا دوٗر رہنے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے اصحاب کفار و مشرکین کے درمیان رہتے تھے، ان سے آپ کا ملنا جلنا رہتا تھا، وہ مسجد میں آتے تھے ، آپؐ اور آپؐ کے اصحاب ان کے برتنوں سے پینے اور وضو کرنے کے لیے پانی لیتے تھے، ان کا بنایا ہوا کھانا کھاتے تھے اور ان کے تیار کیے ہوئے کپڑے پہنتے تھے، لیکن کبھی ایسا نہیں کہ جن چیزوں پر ان کا ہاتھ لگتا ہو یا جو چیزیں ان کے بدن کے کسی حصے سے مَس ہوتی ہوں انھیں دھوئے جانے کا آپؐ نے حکم دیا ہو۔
حضرت حسنؓ بیان کرتے ہیں کہ قبیلۂ ثقیف کا وفد آیا تو اسے مسجد نبوی میں ٹھہرایا گیا۔ بعض صحابہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول یہ لوگ تو مشرک ہیں‘‘ (شاید ان کی مراد یہ تھی کہ ان کی وجہ سے مسجد ناپاک ہوجائے گی) آپؐ نے فرمایا:
إن الارض لا ینجّسہا شئ ۱۳؎
(زمین اس جیسی کسی چیز سے ناپاک نہیں ہوتی)
حضرت عمران بن حصینؓ نبی ﷺ کے ساتھ ایک سفر کا حال بیان کرتے ہیں کہ راستے میں ایک پڑاؤ پر پانی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کچھ صحابہ تلاش کے لیے نکلے۔ ایک غیر مسلم عورت پانی کے دو مشکیزوں کے ساتھ ملی۔ وہ اسے آںحضرت ﷺ کے پاس لے آئے۔ آپؐ نے اور تمام صحابہ نے اس سے پانی لے کر اپنی پیاس بجھائی۔ ۱۴؎
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہم جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتے تھے۔ غیرمسلموں کے کھانے پینے کے جو برتن ہمارے ہاتھ لگتے تھے انھیں ہم استعمال کرتے تھے۔ اس پر آپ ہماری کچھ نکیر نہیں کرتے تھے۔ ۱۵؎
حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ نے ایک مرتبہ آںحضرت ﷺ سے غیر مسلموں کے ان برتنوں کے بارے میں دریافت کیا، جن کے متعلق امکان ہوکہ ان میں وہ خنزیر کا گوشت پکاتے اور شراب پیتے رہے ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر دوسرے برتن موجود ہوں تو ان مشتبہ برتنوں کو نہ استعمال کرو، موجود نہ ہوں تو انہی کو اچھی طرح دھوکر استعمال کرسکتے ہو۔ ۱۶؎
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ مشرکین کی نجاست سے مراد عقیدہ کی خرابی ہے، نہ کہ ظاہری گندگی۔ جہاں تک انسانی تعلقات اور زندگی کے عام معاملات کا سوال ہے ان میں مشرکین کے ساتھ کوئی بھیدبھاؤ نہیں رکھاگیا ہے اور کسی حال میں ایسا رویہ نہیں اختیار کیا گیا ہے، جس سے ان کے سلسلے میں نفرت اور حقارت کا اظہار ہو۔
ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ قرآن میں مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا ہے اور انھیں دشمن کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ دشمنوں کے بارے میں بغض و نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور انھیں نقصان پہنچانے کی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ اس اعتراض پر بہ طور دلیل اس طرح کی آیات پیش کی جاتی ہیں:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْکٰفِرِیْنَ أَوْلِیَآئَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (النسائ؍ ۱۴۴)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑکر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ)
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَآئَ تُلْقُونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَآئَ کُم مِّنَ الْحَقِّ۔ (الممتحنہ؍ ۱)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالاںکہ جو حق تمھارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کرچکے ہیں)
ان آیات پر ان کے صحیح تناظر میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ وہ کافروں کو ’اولیائ‘ نہ بنائیں۔ اولیاء ولی کی جمع ہے۔ اس کا مادہ ’و ل ی‘ اور مصدر ’ولائ‘ ہے۔ ولاء کا مفہوم یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد چیزیں اس طرح یکجا ہوں کہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ ہو جو ان سے مغایر ہو۔ اسی سے استعارۃً یہ لفظ قربت کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ خواہ یہ قربت جگہ کی ہو، یا تعلق کی ، یا مذہب کی، یا دوستی، مدد اور عقیدہ کی۔ جس شخص سے مذکورہ نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کاتعلق ہو اس کے لیے ’ولی‘ اور ’مولی‘ دونوں الفاظ مستعمل ہیں۔ ۱۷؎
لفظ ’مولی‘ کا اطلاق عربی زبان میں بہت سے لوگوں پر ہوتا ہے۔ مثلاً رب، مالک، آقا، محسن، غلام آزاد کرنے والا، مددگار، محبت کرنے والا، تابع داری کرنے والا، پڑوسی، چچازاد بھائی، حلیف، جس سے عہد وپیمان ہو، قرابت دار (داماد)، غلام، آزاد کردہ غلام، جس پر احسان کیا جائے۔ علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ اس لفظ کا استعمال حدیث میں ان میں سے بیش تر معانی میں ہوا ہے۔ ہرجگہ سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی معنیٰ میں آیا ہے۔۱۸؎
مذکورہ بالا آیتوں اوران جیسی دیگر آیتوں میں لفظ ’اولیائ‘ انتہائی قربت کے معنیٰ میں آیا ہے۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:
أولیاء أی خاصتکم وبطانتکم منہم۔ ۱۹؎
(کافروں کو اپنا ولی یعنی بہت قریبی اور رازدار نہ بناؤ)
علامہ زمخشری اس کایہ مفہوم بتاتے ہیں:
لاتتّخذوہم اولیاء تنصرونہم وتستنصرونہم وتؤاخونہم و تصافونہم وتعاشرونہم معاشرۃ المؤمنین۔ ۲۰؎
(کافروں کو اولیاء نہ بناؤ، یعنی ان سے تمھارا معاملہ ایسا نہ ہو کہ تم ان کی مدد کرو، ان سے مدد چاہو، ان سے بھائی چارہ اور خلوص و محبت کے تعلقات رکھو اور ان کے ساتھ اس طرح گھل مل کر رہو جس طرح اہل ایمان باہم رہتے ہیں)
ان حالات کو بھی نگاہ میں رکھنا ضروری ہے جن میں مسلمانوں کو کافروں سے انتہائی قربت کا تعلق رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ مسلمان سخت حالات سے گزر رہے تھے۔ ان کے خلاف ان کے دشمنوں نے جنگ برپا کررکھی تھی اور انھیں بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے تھے۔ یہود و نصاریٰ کا رویّہ بھی کھلی دشمنی پر مبنی تھا۔ وہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کا ساتھ دے رہے تھے۔ ایک تیسرا گروہ منافقین کا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو ظاہر میں اسلام کا دم بھرتے تھے اور انھوں نے خود کو مسلمانوں میں شامل کررکھا تھا، لیکن حقیقت میں وہ کافروں کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کو کوئی کامیابی ملتی تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹتے تھے اور انھیں کچھ نقصان پہنچتا تو خوشیاں مناتے تھے۔ یہ سارے لوگ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر متحد تھے۔ ایسے حالات میں اپنے دشمنوں سے قریبی تعلق رکھنا ان کے لیے انتہائی خطرناک تھا۔ یہ چیز دینی حیثیت سے بھی ضرر رساں تھی اور سیاسی اعتبار سے بھی۔ اسی لیے قرآن نے الگ الگ ہر گروہ کے بارے میں وضاحت سے مسلمانوں کو تاکید کی کہ ان سے ’ولایت‘ کا تعلق نہ رکھیں۔ کفّار کے بارے میں کہا:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْکٰفِرِیْنَ أَوْلِیَاء مِنْ دُوْنِِ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (النسائ؍ ۱۴۴)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ)
یہود و نصاریٰ سے تعلقات کے بارے میں بھی یہی حکم دیا:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَآئَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَآئَ بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ۔ (المائدۃ؍ ۵۱)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے)
منافقین کے بارے میں فرمایا:
وَدُّواْ لَوْ تَکْفُرُونَ کَمَا کَفَرُواْ فَتَکُونُونَ سَوَآء فَلاَ تَتَّخِذُواْ مِنْہُمْ أَوْلِیَآء ۔ (النسائ؍ ۸۹)
(وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہوجاؤ، تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہوجائیں، لہٰذا ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ)
اس معاملہ میں قرآن نے اس حد تک تاکید کی کہ جن لوگوں کے باپ اور بھائی دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے ہیں اور انھوں نے ایمان پر کفر کو ترجیح دی ہے، ان سے بھی قربت کا ویسا تعلق نہ رکھا جائے، جیسا کہ اہل ایمان کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ مبادا ان کے واسطے سے ان کے اسرار کفار تک نہ پہنچ جائیں:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ آبَآء کُمْ وَإِخْوَانَکُمْ أَوْلِیَآء إَنِ اسْتَحَبُّواْ الْکُفْرَ عَلَی الإِیْمَانِ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَأُوْلٰـئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُونَ۔ (التوبۃ؍ ۲۳)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ، اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے)
قرآن کریم کی بعض آیات میںان اسباب کی وضاحت کردی گئی ہے جن کی بناپر مسلمانوں کے علاوہ دوسروں سے انتہائی قربت کا تعلق رکھنے سے منع کیا گیا ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الَّذِیْنَ اتَّخَذُواْ دِیْنَکُمْ ہُزُواً وَلَعِباً مِّنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتٰبَ مِن قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ أَوْلِیَآئَ ۔ (المائدۃ؍ ۵۷)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھارے پیش رَو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمھارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنالیا ہے، انھیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ)
سورۂ ممتحنہ میں ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاء ۔ (آیت؍ ۱)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ)
اسی سورت میں آگے ہے:
إِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلٰئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُونَ۔ (آیت؍ ۹)
(وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں)
پہلی آیت میں بتایا گیا کہ ان لوگوں نے تمھارے دین کو مذاق اور کھیل بنارکھا ہے، اس کو وہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ دوسری آیت میں کہا گیا کہ وہ تمھارے دشمن ہیں اور تیسری آیت میں یہ وضاحت کی گئی کہ وہ محض دین کی وجہ سے تم سے جنگ کررہے ہیں، تمھیں تمھارے وطن سے نکالا ہے یا اس میں مدد کی ہے۔ یہ اسباب بجا طور پر اس بات کے متقاضی تھے کہ ان سے قریبی تعلق نہ رکھا جائے۔
یہی مضمون ایک دوسری آیت میں یوں مذکور ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَۃً مِّن دُونِکُمْ لاَ یَأْلُوْنَکُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ أَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ أَکْبَرُ۔ (آل عمران؍ ۱۱۸)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ۔ وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتے۔ تمھیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے)
اس آیت میں لفظ ’بطانۃ‘ کے استعمال میں بڑی بلاغت پائی جاتی ہے۔ بطانۃ کپڑے کے اندرونی حصے کو کہتے ہیں، جو جسم سے متصل ہوتا ہے۔ بہ طور استعارہ اس کا اطلاق اس شخص پر کیا جاتا ہے جسے آدمی اپنا گہرا دوست اور ہم دم وہم راز بنالے۔ ۲۱؎ ْ
اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے علاوہ دوسروں سے اتنا قریبی تعلق استوار نہ کرلو کہ ان پر اپنے راز منکشف کردو۔ اس لیے کہ وہ لوگ تمھارے بہی خواہ نہیں ہیں، تمھیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور تم سے دشمنی اور نفرت ان کے رویّے سے عیاں ہے۔
قریبی تعلق سے ممانعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو عام غیر مسلموں کے ساتھ انسانی تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا ہے، بلکہ ممانعت صرف ایسا تعلق رکھنے کی ہے جس سے اسلامی ریاست کے سیاسی و عسکری راز دشمنوں پر افشا ہوجائیں اور مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہوجائے۔ یہ ممانعت صرف ان لوگوں سے ہے جو مسلمانوں کے ساتھ برسر جنگ ہوں یا ان کے دشمنوں کے مددگار بنے ہوئے ہوں۔ رہے وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ساتھ مصروفِ جنگ نہ ہوں اور نہ ان کا طرز عمل عداوت اور ظلم و ستم پر مبنی ہو، ان کے ساتھ عدل و انصاف کرنے، اچھے تعلقات رکھنے اور بھلا برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَا یَنْہٰکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُم مِّنْ دِیَارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۔ (الممتحنۃ؍ ۸)
(اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو، جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے)
غیر مسلموں سے تعلقات کے سلسلے میں یہ ایک بہت اہم آیت ہے۔ اس میں دو الفاظ آئے ہیں: ’أَنْ تَبَرُّوْہُمْ‘ اور ’تُقْسِطُوْا إِلَیْْہِمْ‘۔ برّ سے مراد ہے حسن سلوک اور صلہ رحمی کرنا ۲۲؎ اس میں زیادہ سے زیادہ حسن سلوک کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے (البرّ: التوسّع فی الاحسان الیہ) ۲۳؎ تُقْسِطُوْا إِلَیْْہِمْ کے معنیٰ بعض مفسرین نے یہ بیان کیے ہیں کہ ان کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرو، جب کہ بعض دیگر مفسرین اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ صلہ رحمی کے طور پر اپنے مال کا کچھ حصہ انھیں دو (ان تعطوہم قسطاً من اموالکم علی وجہ الصلۃ)۲۴؎۔
بعض مفسرین اس آیت کو منسوخ قرار دیتے ہیں، لیکن اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت محکم یعنی غیر منسوخ ہے (وقال اکثر اہل التاویل ہی محکمۃ) ۲۵؎۔
امام قرطبیؒ نے لکھا ہے:
ہذہ الآیۃ رخصۃ من اللہ تعالیٰ فی صلۃ الذین لم یعادوا المؤمنین ولم یقاتلوہم۔ ۲۶؎
(اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی اجازت دی ہے جنھوں نے مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہیں کی اور ان سے جنگ نہیں کی)
امام رازیؒ فرماتے ہیں:
قال اہل التأویل: ہذہ الآیۃ تدلّ علی جواز البرّ بین المشرکین و المسلمین، وان کانت الموالاۃ منقطعۃ۔ ۲۷؎
(مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان نیکی اور حسن سلوک کا معاملہ جائز ہے، اگرچہ ان کے درمیان موالات (یعنی قریبی تعلق رکھنا) ممنوع ہے۔)
اس سے واضح ہوا کہ غیر مسلموں سے ہر طرح کے تعلق سے منع نہیں کیا گیا ہے، بلکہ ممانعت صرف ’ولایت‘ یعنی مخصوص قسم کے قریبی تعلق کی ہے۔ جہاں تک عام انسانی اور سماجی تعلقات رکھنے کی بات ہے وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:
الاحسان والہبۃ مستثناۃ من الولایۃ۔ ۲۸؎
(غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور انھیں کچھ دینا ’ولایت‘ میں شامل نہیں ہے)
امام رازیؒ نے لکھا ہے:
’’مومن کے کافر کو ’ولی‘ بنانے کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
۱- وہ اس کے کفر کو پسند کرتا ہو، اس کے باوجود اس سے دوستانہ تعلقات رکھتا ہو۔
۲- اس کو برسر باطل سمجھنے کے باوجود رشتہ داری یا قلبی تعلق کے سبب اس کی طرف مائل ہو، اس کا تعاون ، حمایت اور نصرت کرتا ہو۔
۳- دنیاوی معاملات میں اچھے تعلقات کا اظہار کرتا ہو۔
اول الذکر دو صورتیں ممنوع ہیں، تیسری صورت ممنوع نہیں ہے‘‘۔ ۲۹؎
۵- مخالفوں سے لڑنے اور انھیں قتل کرنے کے احکام
ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے قرآن پر ایک بڑا، بلکہ شاید سب سے بڑا اعتراض اس کے تصور جہاد پر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کافروں اور مشرکوں سے جنگ کریں، ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیں، ان کے لیے گھات لگائیں اور انھیں جہاں پائیں قتل کریں۔ بہ طور دلیل یہ آیات پیش کی جاتی ہیں:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُم مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْاْ فِیْکُمْ غِلْظَۃً۔ (التوبۃ؍ ۱۲۳)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جنگ کرو ان کافروں سے جو تمھارے پاس ہیں اور چاہیے کہ وہ تمھارے اندر سختی پائیں)
فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُواْ لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ۔ (التوبۃ؍ ۵)
(۔۔۔ تو مشرکوں کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو)
یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْْہِمْ وَمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔ (التحریم؍ ۹)
(اے نبی، کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ، ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے)
قَاتِلُوہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّہُ بِأَیْْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنصُرْکُمْ عَلَیْْہِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ۔ (التوبۃ؍ ۱۴)
(ان سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے گا اور انھیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلے میں تمھاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا)
قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتٰبَ حَتَّی یُعْطُواْ الْجِزْیَۃَ عَن یَدٍ وَہُمْ صٰغِرُونَ۔ (التوبۃ؍ ۲۹)
(جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں)
اس طرح کی آیات پیش کرکے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جب تک یہ آیات ہیں اس وقت تک مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان بقائے باہم ممکن نہیں۔
یہ غلط فہمی درحقیقت جنگ کے بارے میں قرآن کے احکام و تعلیمات کو صحیح تناظر میں نہ دیکھنے اور متعلقہ آیات کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹاکر پڑھنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ اس موضوع پر متعدد پہلوؤں سے غور کرنے کی ضرورت ہے:
(الف) اسلام جبر واکراہ کا مخالف ہے۔ قرآن میں یہ بات بہت زور دے کر کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے سامنے حق و اضح کردیا ہے، ساتھ ہی انھیں ارادہ و اختیار کی آزادی بخشی ہے کہ وہ چاہیں تو اسے قبول کرکے دائرۂ اسلام میں آجائیں اور چاہیں تو کفر کی روش پر قائم رہیں:
إِنَّا ہَدَیْْنٰہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِراً وَإِمَّا کَفُوراً ۔ (الدھر؍ ۳)
(ہم نے اسے راستہ دکھادیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا)
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّکُمْ فَمَن شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَن شَآئَ فَلْیَکْفُرْ۔ (الکہف؍ ۲۹)
(صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے ۔ اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے)
(ب) جب مسلمانوں کو حد سے زیادہ ستایا جانے لگا تب انھیں اجازت دی گئی کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا جواب دے سکتے ہیں:
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ۔ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ یَّقُولُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ۔ (الحج؍ ۳۹-۴۰)
(اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیوںکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے: ہمارا رب اللہ ہے)
اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ جنگ کا آغاز مسلمانوں نے نہیں کیا تھا، بلکہ جنگ ان پر تھوپی گئی تھی۔ دشمنوں کا منصوبہ تھا کہ مسلمانوں کو، جو ابھی کم زور ہیں، ابتدائی مرحلے ہی میں کچل دیں اور شمعِ اسلام کو اپنی پھونکوں سے گُل کردیں۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ان کا منہ توڑ جواب دیں اور ان کے منصوبوں کو خاک میں ملادیں، لیکن اس وقت بھی انھیں تاکید کی گئی کہ ان کے ساتھ جتنی زیادتی کی گئی ہے اتنا ہی بدلہ لیں، حد سے تجاوز نہ کریں:
وَقَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ (البقرۃ؍ ۱۹۰)
(اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا)
(ج) قرآن کریم میں مذکور آیاتِ قتال کاتعلق عام حالات سے نہیں ہے، بلکہ ان میں دورانِ جنگ کے سلسلے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ جب کسی گروہ سے جنگ برپا ہو تو میدانِ جنگ میں ایک فریق دوسرے فریق کے ساتھ کوئی روٗرعایت نہیں برتتا، بلکہ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مخالف کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائے اور اس کے افراد کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں قتل کرکے اس کی فوجی طاقت پارہ پارہ کردے۔ اس موقع پر کسی کم زوری اور نرمی کا مظاہرہ خود اپنے کو ہلاکت میں ڈالنے کے مثل ہے۔
![]() |
غلاف کعبہ پر قرآنی آیات کی نقشہ نگاری کا ایک منظر |
ہندوستان میں بھی اسلام کے مخالفین کی جانب سے قرآن پر اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں عیسائی مشنریاں پیش پیش رہی ہیں اور ہندو انتہا پسندوں نے بھی کافی سرگرمی دکھائی ہے۔ آئندہ سطور میں قرآن پر ہندو انتہا پسندوں کے اعتراضات کا جائزہ لینا مقصود ہے۔
ہندو معترضین میں ایک نمایاں نام سوامی دیانند سرسوتی (۱۸۲۴-۱۸۸۳ئ) کا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب سیتارتھ پرکاش میں جہاں دیگر مذاہب : یہودیت اور عیسائیت پر اعتراضات کیے ہیں وہیں ایک باب اسلام پر اعتراضات کرنے کے لیے بھی خاص کیا ہے۔ انھوں نے بہ کثرت قرآنی آیات نقل کرکے ان کے من مانے معانی و مفاہیم بتائے ہیں اور اسلام کو ایک جارحیت پسند اور غیر عقلی مذہب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ۲؎
اسلام اور قرآن پر بہت سے اعتراضات شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اکھل بھارت ہندو مہاسبھا نے ’’دیش میں دنگے کیوں ہوتے ہیں؟‘‘ کے عنوان سے ایک فولڈر شائع کیا تھا، جس میں قرآن کی چوبیس (۲۴) آیتوں یا ان کے ا جزاء کو نقل کرکے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ قرآن مسلمانوں کو دوسرے دھرموں کے لوگوں سے جھگڑا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اور کہا گیا تھا کہ جب تک ان آیتوں کو قرآن سے نکالا نہیں جاتا دیش کے دنگوں کو روکا نہیں جاسکتا‘‘۔ ۳؎
انہی الزامات کے تحت کلکتہ ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا اور قرآن پر پابندی عائد کروانے کی کوشش کی گئی تھی، مگر فاضل ججوں نے دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے خارج کردیا۔
عموماً ہندو شدّت پسندوں کی جانب سے قرآن کریم کے سلسلے میں جو اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں، آئندہ سطور میں ان کا تذکرہ کرکے ان کا جائزہ لینے اور صحیح نقطۂ نظر واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
۱- لفظ ’کافر‘ کا مفہوم؟
ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ قرآن نے اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے لفظ ’کافر‘ استعمال کیا ہے۔ ان میں ہندو بھی شامل ہیں۔ اس لفظ میں بغض، نفرت اور حقارت کا مفہوم شامل ہے۔ کافروں کے بارے میں قرآن میں جو باتیں کہی گئی ہیں، ان سے دنیا میں جس طرح کا معاملہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے او رمرنے کے بعد دوسری دنیا میں ان کے ساتھ جیسا معاملہ کیے جانے کی خبر دی گئی ہے، انھیں پڑھ کر مسلمانوں کے دلوں میں ان سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور ان سے دوٗر رہنے اور ہر طرح کا تعلق منقطع رکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لفظ ’کافر‘ کا یہی مفہوم ہے؟
عربی زبان میں لفظ کفر کے اصل معنیٰ چھپانے اور ڈھانکنے کے ہیں۔ عربوں کے کلام میں اس مادہ سے جتنے الفاظ آئے ہیں سب میں یہ معنیٰ کسی نہ کسی شکل میں ضرور پایا جاتا ہے۔ ماہر لغت ابن درید الازدی نے لکھا ہے:
اصل الکفر التغطیۃ علی الشئ ۴؎
(کفر کی اصل ہے کسی چیز کو ڈھانک لینا)
اسی لیے اہل عرب لفظ کافر کا اطلاق ان چیزوں پر کرتے ہیں جو کسی چیز کو ڈھانپ لیں۔ مثلاً ان کے کلام میں درج ذیل چیزوں کے لیے اس لفظ کا استعمال ملتا ہے:
رات: کہ وہ اپنی تاریکی سے تمام چیزوں کو ڈھانپ لیتی اور لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ کردیتی ہے۔
سمندر: کہ وہ بڑی سے بڑی چیز کو اپنے اندر چھپا لیتا ہے۔
بڑی وادی: کہ اس میں پہنچ کر لوگ دوسروں کی نگاہوں سے چھپ جاتے ہیں۔
دریا: کہ وہ اپنے اندر چھوٹی بڑی چیزوں کو چھپا لیتا ہے۔
گہرا بادل: کہ وہ ستاروں، چاند اور سورج کو چھپا لیتا ہے۔
کسان: کہ وہ زمین میں بیج ڈال کر اسے چھپا دیتا ہے۔
زِرَہ: کہ وہ فوجی کے جسم کو چھپا لیتی ہے۔
دور دراز کا علاقہ جہاں کسی کا گزر نہ ہو: کہ وہاں رہنے والے عام لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ ۵؎
اسی طرح عربی زبان میں ’کفر‘ ناشکری کے معنٰی میں بھی آتا ہے۔ اس میں بھی اس کے اصلی معنیٰ پائے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ جو شخص کسی کی ناشکری کرتا ہے وہ گویا اپنے محسن کے احسان کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ جمھرۃ اللغۃ میں ہے:
وکفر فلان النعمۃ اذا لم یشکرہا ۔ ۶؎
(فلاں نے نعمت کا کفر کیا، یعنی اس پر شکریہ ادا نہیں کیا)
البتہ عربی زبان میں لفظ ’کفر‘ کا غالب استعمال، اسلام وایمان کے بالمقابل ایک اصطلاح کے طور پر ہوتا ہے، ماہرین لغت نے اس کی صراحت کی ہے۔ ازدی نے لکھا ہے: الکفر ضد الاسلام ۷؎ جوہری اور فیروزآبادی کہتے ہیں: الکفر ضد الایمان۔ ۸؎
قرآن کریم میں لفظ ’کفر‘ کااستعمال مختلف لغوی معانی کے لیے بھی ہوا ہے اورایمان کے بالمقابل اصطلاح کے طور پر بھی۔ ایک مقام پر وہ اصل لغوی معنیٰ (چھپانے) میں آیا ہے۔ دنیاوی زندگی کو لہو و لعب قرار دیتے ہوئے اس کی یہ مثال بیان کی گئی ہے:
کَمَثَلِ غَیْْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ۔ (الحدید؍ ۲۰)
(اس کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے …)
اس آیت میں کسانوں کے لفظ ’کفار‘ لایا گیا ہے۔ کسان کو ’کافر‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کھیتی کے دوران بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے۔
بعض مقامات پر اس کا استعمال شکر کے بالمقابل ناشکری کے معنیٰ میں ہوا ہے:
فَاذْکُرُونِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُواْ لِیْ وَلاَ تَکْفُرُونِ۔ (البقرۃ؍ ۱۵۲)
(لہٰذا مجھے یاد رکھو، میں تمھیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، ناشکری نہ کرو)
إِنَّا ہَدَیْْنٰہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِراً وَإِمَّا کَفُوراً ۔ (الدھر؍ ۳)
(ہم نے اسے راستہ دکھایا، اب خواہ وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا)
اور چوں کہ ناشکری نعمت کے انکار کو مستلزم ہے،اس لیے بعض مقامات پر یہ انکار اور براء ت کے معنیٰ میں آیاہے:
إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللَّہِ أَوْثَاناً مَّوَدَّۃَ بَیْْنِکُمْ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُم بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُم بَعْضاً۔ (العنکبوت؍ ۲۵)
(تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنالیا ہے۔ مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کروگے)
اس مضمون کی بہت سی آیات ہیں۔ یہاں بہ طور مثال دو آیتیں درج کی جاتی ہیں :
وَمَن یَّتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالإِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ۔ (البقرۃ؍ ۱۰۸)
(جس شخص نے ایمان کی روش کو کفر کی روش سے بدل لیا وہ راہ راست سے بھٹک گیا)
أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ۔ (البقرۃ؍ ۸۵)
(کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟)
مفسرین اور ماہرینِ لغت نے صراحت کی ہے کہ لفظ ’کافر‘ میں وہ تمام معانی پائے جاتے ہیں جن کے لیے اس کا عربی زبان میں استعمال ہوتا ہے۔ علامہ ابن الجوزیؒ نے لکھا ہے:
’’لغت میں کفر کے معنیٰ چھپانے کے ہیں۔ کافر کو کافر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ حق پر پردہ ڈال دیتا ہے‘‘۔ ۹؎
جوہری فرماتے ہیں:
’’کافر کو کافر اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کے احسانات کا انکار کرتا ہے اور اس کی نعمتوں کو چھپا لیتاہے‘‘۔۱۰؎
ایک غلط فہمی کا ازالہ
ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ’’ایسے ہر شخص کو جو اسلام کی اساسیات پر ایمان نہ رکھتا ہو، کافر نہیں کہا جاسکتا، یہ لفظ ’غیر مسلم‘ کے مترادف نہیں ہے۔ کافر اسی شخص کو کہا جاسکتا ہے جس تک اسلام کی دعوت پہنچائی جائے اور اس پر اتمام حجت کردی جائے، اس کے باوجود وہ اسلام قبول نہ کرے۔ اتمام حجت کے بعد بھی متعین طور پر کسی کو کافر نہیں کہا جاسکتا‘‘۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ لفظ کافر کااستعمال ایمان اور اسلام کے بالمقابل ہوا ہے۔ جو شخص بھی اللہ کے دین کو نہ مانے اور اسلامی عقائد کو تسلیم نہ کرے وہ کافر ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں لفظ کفر کی نسبت یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی طرف کی گئی ہے۔ ۱۱؎
اسلام اصولی طور پر دین حق کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان فرق کرتا ہے، تاکہ اس کے احکام کے نفاذ کے معاملے میں دونوں کے ساتھ الگ الگ برتاؤ کیا جاسکے۔ دین حق کے ماننے والوں کو ان احکام کا پابند بنایا جاسکے اور نہ ماننے والوں کو ان کی پابندی سے مستثنیٰ رکھا جاسکے۔ اس لفظ کے ذریعے نہ غیر مسلموں سے نفرت کا اظہارکیا گیا ہے اور نہ اس میں لغوی طور پر بغض و نفرت ، حقارت اور ذلّت کے معانی پائے جاتے ہیں۔
۲- کافروں کے بارے میں عذابِ جہنم کے بیان سے نفرت پیدا ہوتی ہے
ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ قرآن میں جہنم کے عذاب کاتذکرہ تفصیل سے کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اسلام قبول نہیں کریں گے انھیں وہ عذاب دیا جائے گا ، مثال کے طور پر وہ ان جیسی آیات کا حوالہ دیتے ہیں:
إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِآیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْہِمْ نَاراً کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنَاہُمْ جُلُوْداً غَیْْرَہَا لِیَذُوقُواْ الْعَذَابَ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَزِیْزاً حَکِیْماً۔ (النسائ؍ ۵۶)
(جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کردیا ہے، انھیں بالیقین ہم آگ میں جھونگیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے، تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتا ہے)
فَلَنُذِیْقَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا عَذَاباً شَدِیْداً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَسْوَأَ الَّذِیْ کَانُوا یَعْمَلُونَ۔ ذٰلِکَ جَزَآئُ أَعْدَآء اللّٰہِ النَّارُ لَہُمْ فِیْہَا دَارُ الْخُلْدِ جَزَآئً مبِمَا کَانُوا بِآیٰتِنَا یَجْحَدُونَ۔ (حم السجدۃ؍ ۲۷-۲۸)
(ان کافروں کو ہم سخت عذاب کا مزہ چکھا کر رہیں گے اور جو بدترین حرکات یہ کرتے رہے ہیں ان کا پورا پورا بدلہ دیں گے۔ وہ دوزخ ہے جو اللہ کے دشمنوں کو بدلے میں ملے گی۔ اسی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کا گھر ہوگا۔ یہ ہے سزا اس جرم کی کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے)
وہ کہتے ہیں کہ ان آیات کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں غیر مسلموں کے بارے میں نفرت و حقارت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
کافروں کو آخرت میں دی جانے والی جو سزائیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے قانونِ عدل و انصاف کے عین مطابق ہیں۔ یہ سزائیں اہل ایمان کے دلوں میں کافروں سے نفرت و حقارت نہیں، بلکہ ہم دردی پیدا کرتی ہیںاور انھیں آمادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے ان بھائیوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی جدّو جہد کریں۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس دنیا میں پیدا کیا اور انھیں بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ ان کاتقاضا ہے کہ وہ اس پر ایمان لائیں اور اس کے ا حکام بجالائیں۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ حقیقت میں بڑے ناشکرے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللّٰہِ ہُمْ یَکْفُرُونَ۔ (النحل؍ ۷۲)
(پھر کیا یہ لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں)
جو لوگ اللہ کو چھوڑکر یا اس کے ساتھ دیوی دیوتاؤں کو پوجتے ہیں ،جو حقیقت میں نہ انھیں کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ، وہ اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا رویّہ بغاوت کے مترادف ہے ۔ ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو باغیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں اور اس کے احکام سے روگردانی کرتے ہیں۔ یہ اللہ کی نگاہ میں مجرم ہیں۔ اس نے ان کے لیے آخرت میں ایسی ہی سزائیں تجویز کر رکھی ہیں جن کے وہ مستحق ہیں:
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِباً أَوْ کَذَّبَ بِآیٰتِہِ إِنَّہُ لاَ یُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ۔ (یونس؍ ۱۷)
(پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا، جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے، یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے۔ یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پاسکتے)
یہ دنیا دارالامتحان ہے اور آخرت دارالجزائ۔ یہاں انسان جیسے کام کرے گا اس کا بدلہ آخرت میں پائے گا۔ جو لوگ دنیا میں اللہ کے باغی اور مجرم بن کر رہیں اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کریں انھیں آخرت میں سخت سزائیں دی جائیں گی۔ فرماں بردار اور نافرمان، اطاعت گزار اور سرکش، نیک اور مجرم دونوں کے انجام میں فرق کرنا عین تقاضائے انصاف ہے، لیکن یہ فرق آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالیٰ کرے گا۔ اس سے دنیا میں غیر مسلموں کے انسانی حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ اس سے اہل ایمان کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت و حقارت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
۳- مشرکین نجس ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ ہندوؤں کو قرآن میں ناپاک اور گندا کہا گیا ہے۔ اس تعبیر سے ان کے خلاف نفرت اور حقارت کا اظہار ہوتا ہے۔ معترضین کا اشارہ اس آیت کی طرف ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَـذَا۔ (التوبۃ؍۲۸)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مشرکین نجس ہیں، لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں)
اس آیت میں نجاست سے مراد جسمانی اور مادّی گندگی نہیں ہے، بلکہ عقیدہ کی خرابی اور شرک کی آلودگی ہے۔ اس پر تمام مفسّرین اور علماء کا اتفاق ہے۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: مشرکین نجس ہیں۔ اس سے مراد عقیدے کی نجاست اور گندگی ہے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ ان کے اعضاء پیشاب پاخانہ جیسی چیزوں کی طرح نجس ہیں‘‘۔ ۱۲؎
اسلام عقیدے کے معاملے میں کوئی مداہنت اور روٗ رعایت نہیں کرتا۔ وہ توحید کا علم بردار اور شرک کے سخت خلاف ہے۔ اس کے نزدیک شرک ایک گندگی ہے، جس سے اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے والے کا ذہن آلودہ ہوجاتا ہے۔ وہ اس گندگی کو ناپسند کرتا اور انسانوں کو اس سے پاک صاف رکھنا چاہتا ہے۔ اللہ کے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید کے علم بردار تھے۔ انھوں نے اللہ واحد کی عبادت کے لیے خانۂ کعبہ کی تعمیر کی تھی، لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ان کے پیرو شرک میں مبتلا ہوگئے تھے۔ وہ اللہ کی عبادت کے ساتھ ہزاروں دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرنے لگے تھے۔ خانۂ کعبہ کی دیواروں میں انھوں نے مورتیاں نصب کررکھی تھیں اور اس کے اندر اور مسجد حرام میں تین سو ساٹھ بت رکھ چھوڑے تھے۔ ۸ ہجری میں فتح مکہ کے بعد جب وہاں کا اقتدار توحید پرستوں کے ہاتھ میں آیا تو یہ امر فطری تھا کہ وہ توحید کے مرکز کو مظاہر شرک سے پاک کردیں، چنانچہ فتح مکہ کے اگلے سال حج کے موقع پر اعلانِ عام کردیا گیا کہ خانۂ کعبہ اللہ کا گھر ہے اور مسجد حرام کو مقدس مقام کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے شرک کی آلودگیوں میں مبتلا لوگوں کو آئندہ یہاں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔
جہاں تک کافروں اور مشرکوں کے ظاہر کا تعلق ہے اسلام نہ تو انھیں گندا قرار دیتا ہے اور نہ اس کی بنیاد پر ان سے الگ تھلگ یا دوٗر رہنے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے اصحاب کفار و مشرکین کے درمیان رہتے تھے، ان سے آپ کا ملنا جلنا رہتا تھا، وہ مسجد میں آتے تھے ، آپؐ اور آپؐ کے اصحاب ان کے برتنوں سے پینے اور وضو کرنے کے لیے پانی لیتے تھے، ان کا بنایا ہوا کھانا کھاتے تھے اور ان کے تیار کیے ہوئے کپڑے پہنتے تھے، لیکن کبھی ایسا نہیں کہ جن چیزوں پر ان کا ہاتھ لگتا ہو یا جو چیزیں ان کے بدن کے کسی حصے سے مَس ہوتی ہوں انھیں دھوئے جانے کا آپؐ نے حکم دیا ہو۔
حضرت حسنؓ بیان کرتے ہیں کہ قبیلۂ ثقیف کا وفد آیا تو اسے مسجد نبوی میں ٹھہرایا گیا۔ بعض صحابہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول یہ لوگ تو مشرک ہیں‘‘ (شاید ان کی مراد یہ تھی کہ ان کی وجہ سے مسجد ناپاک ہوجائے گی) آپؐ نے فرمایا:
إن الارض لا ینجّسہا شئ ۱۳؎
(زمین اس جیسی کسی چیز سے ناپاک نہیں ہوتی)
حضرت عمران بن حصینؓ نبی ﷺ کے ساتھ ایک سفر کا حال بیان کرتے ہیں کہ راستے میں ایک پڑاؤ پر پانی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کچھ صحابہ تلاش کے لیے نکلے۔ ایک غیر مسلم عورت پانی کے دو مشکیزوں کے ساتھ ملی۔ وہ اسے آںحضرت ﷺ کے پاس لے آئے۔ آپؐ نے اور تمام صحابہ نے اس سے پانی لے کر اپنی پیاس بجھائی۔ ۱۴؎
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہم جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتے تھے۔ غیرمسلموں کے کھانے پینے کے جو برتن ہمارے ہاتھ لگتے تھے انھیں ہم استعمال کرتے تھے۔ اس پر آپ ہماری کچھ نکیر نہیں کرتے تھے۔ ۱۵؎
حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ نے ایک مرتبہ آںحضرت ﷺ سے غیر مسلموں کے ان برتنوں کے بارے میں دریافت کیا، جن کے متعلق امکان ہوکہ ان میں وہ خنزیر کا گوشت پکاتے اور شراب پیتے رہے ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر دوسرے برتن موجود ہوں تو ان مشتبہ برتنوں کو نہ استعمال کرو، موجود نہ ہوں تو انہی کو اچھی طرح دھوکر استعمال کرسکتے ہو۔ ۱۶؎
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ مشرکین کی نجاست سے مراد عقیدہ کی خرابی ہے، نہ کہ ظاہری گندگی۔ جہاں تک انسانی تعلقات اور زندگی کے عام معاملات کا سوال ہے ان میں مشرکین کے ساتھ کوئی بھیدبھاؤ نہیں رکھاگیا ہے اور کسی حال میں ایسا رویہ نہیں اختیار کیا گیا ہے، جس سے ان کے سلسلے میں نفرت اور حقارت کا اظہار ہو۔
۴- کافروں سے دوستی کی ممانعت
ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ قرآن میں مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا ہے اور انھیں دشمن کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ دشمنوں کے بارے میں بغض و نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور انھیں نقصان پہنچانے کی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ اس اعتراض پر بہ طور دلیل اس طرح کی آیات پیش کی جاتی ہیں:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْکٰفِرِیْنَ أَوْلِیَآئَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (النسائ؍ ۱۴۴)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑکر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ)
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَآئَ تُلْقُونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَآئَ کُم مِّنَ الْحَقِّ۔ (الممتحنہ؍ ۱)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالاںکہ جو حق تمھارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کرچکے ہیں)
ان آیات پر ان کے صحیح تناظر میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ وہ کافروں کو ’اولیائ‘ نہ بنائیں۔ اولیاء ولی کی جمع ہے۔ اس کا مادہ ’و ل ی‘ اور مصدر ’ولائ‘ ہے۔ ولاء کا مفہوم یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد چیزیں اس طرح یکجا ہوں کہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ ہو جو ان سے مغایر ہو۔ اسی سے استعارۃً یہ لفظ قربت کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ خواہ یہ قربت جگہ کی ہو، یا تعلق کی ، یا مذہب کی، یا دوستی، مدد اور عقیدہ کی۔ جس شخص سے مذکورہ نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کاتعلق ہو اس کے لیے ’ولی‘ اور ’مولی‘ دونوں الفاظ مستعمل ہیں۔ ۱۷؎
لفظ ’مولی‘ کا اطلاق عربی زبان میں بہت سے لوگوں پر ہوتا ہے۔ مثلاً رب، مالک، آقا، محسن، غلام آزاد کرنے والا، مددگار، محبت کرنے والا، تابع داری کرنے والا، پڑوسی، چچازاد بھائی، حلیف، جس سے عہد وپیمان ہو، قرابت دار (داماد)، غلام، آزاد کردہ غلام، جس پر احسان کیا جائے۔ علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ اس لفظ کا استعمال حدیث میں ان میں سے بیش تر معانی میں ہوا ہے۔ ہرجگہ سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی معنیٰ میں آیا ہے۔۱۸؎
مذکورہ بالا آیتوں اوران جیسی دیگر آیتوں میں لفظ ’اولیائ‘ انتہائی قربت کے معنیٰ میں آیا ہے۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:
أولیاء أی خاصتکم وبطانتکم منہم۔ ۱۹؎
(کافروں کو اپنا ولی یعنی بہت قریبی اور رازدار نہ بناؤ)
علامہ زمخشری اس کایہ مفہوم بتاتے ہیں:
لاتتّخذوہم اولیاء تنصرونہم وتستنصرونہم وتؤاخونہم و تصافونہم وتعاشرونہم معاشرۃ المؤمنین۔ ۲۰؎
(کافروں کو اولیاء نہ بناؤ، یعنی ان سے تمھارا معاملہ ایسا نہ ہو کہ تم ان کی مدد کرو، ان سے مدد چاہو، ان سے بھائی چارہ اور خلوص و محبت کے تعلقات رکھو اور ان کے ساتھ اس طرح گھل مل کر رہو جس طرح اہل ایمان باہم رہتے ہیں)
ان حالات کو بھی نگاہ میں رکھنا ضروری ہے جن میں مسلمانوں کو کافروں سے انتہائی قربت کا تعلق رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ مسلمان سخت حالات سے گزر رہے تھے۔ ان کے خلاف ان کے دشمنوں نے جنگ برپا کررکھی تھی اور انھیں بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے تھے۔ یہود و نصاریٰ کا رویّہ بھی کھلی دشمنی پر مبنی تھا۔ وہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کا ساتھ دے رہے تھے۔ ایک تیسرا گروہ منافقین کا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو ظاہر میں اسلام کا دم بھرتے تھے اور انھوں نے خود کو مسلمانوں میں شامل کررکھا تھا، لیکن حقیقت میں وہ کافروں کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کو کوئی کامیابی ملتی تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹتے تھے اور انھیں کچھ نقصان پہنچتا تو خوشیاں مناتے تھے۔ یہ سارے لوگ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر متحد تھے۔ ایسے حالات میں اپنے دشمنوں سے قریبی تعلق رکھنا ان کے لیے انتہائی خطرناک تھا۔ یہ چیز دینی حیثیت سے بھی ضرر رساں تھی اور سیاسی اعتبار سے بھی۔ اسی لیے قرآن نے الگ الگ ہر گروہ کے بارے میں وضاحت سے مسلمانوں کو تاکید کی کہ ان سے ’ولایت‘ کا تعلق نہ رکھیں۔ کفّار کے بارے میں کہا:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْکٰفِرِیْنَ أَوْلِیَاء مِنْ دُوْنِِ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (النسائ؍ ۱۴۴)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ)
یہود و نصاریٰ سے تعلقات کے بارے میں بھی یہی حکم دیا:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَآئَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَآئَ بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ۔ (المائدۃ؍ ۵۱)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے)
منافقین کے بارے میں فرمایا:
وَدُّواْ لَوْ تَکْفُرُونَ کَمَا کَفَرُواْ فَتَکُونُونَ سَوَآء فَلاَ تَتَّخِذُواْ مِنْہُمْ أَوْلِیَآء ۔ (النسائ؍ ۸۹)
(وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہوجاؤ، تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہوجائیں، لہٰذا ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ)
اس معاملہ میں قرآن نے اس حد تک تاکید کی کہ جن لوگوں کے باپ اور بھائی دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے ہیں اور انھوں نے ایمان پر کفر کو ترجیح دی ہے، ان سے بھی قربت کا ویسا تعلق نہ رکھا جائے، جیسا کہ اہل ایمان کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ مبادا ان کے واسطے سے ان کے اسرار کفار تک نہ پہنچ جائیں:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ آبَآء کُمْ وَإِخْوَانَکُمْ أَوْلِیَآء إَنِ اسْتَحَبُّواْ الْکُفْرَ عَلَی الإِیْمَانِ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَأُوْلٰـئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُونَ۔ (التوبۃ؍ ۲۳)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ، اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے)
قرآن کریم کی بعض آیات میںان اسباب کی وضاحت کردی گئی ہے جن کی بناپر مسلمانوں کے علاوہ دوسروں سے انتہائی قربت کا تعلق رکھنے سے منع کیا گیا ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الَّذِیْنَ اتَّخَذُواْ دِیْنَکُمْ ہُزُواً وَلَعِباً مِّنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتٰبَ مِن قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ أَوْلِیَآئَ ۔ (المائدۃ؍ ۵۷)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھارے پیش رَو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمھارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنالیا ہے، انھیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ)
سورۂ ممتحنہ میں ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاء ۔ (آیت؍ ۱)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ)
اسی سورت میں آگے ہے:
إِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلٰئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُونَ۔ (آیت؍ ۹)
(وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں)
پہلی آیت میں بتایا گیا کہ ان لوگوں نے تمھارے دین کو مذاق اور کھیل بنارکھا ہے، اس کو وہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ دوسری آیت میں کہا گیا کہ وہ تمھارے دشمن ہیں اور تیسری آیت میں یہ وضاحت کی گئی کہ وہ محض دین کی وجہ سے تم سے جنگ کررہے ہیں، تمھیں تمھارے وطن سے نکالا ہے یا اس میں مدد کی ہے۔ یہ اسباب بجا طور پر اس بات کے متقاضی تھے کہ ان سے قریبی تعلق نہ رکھا جائے۔
یہی مضمون ایک دوسری آیت میں یوں مذکور ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَۃً مِّن دُونِکُمْ لاَ یَأْلُوْنَکُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ أَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ أَکْبَرُ۔ (آل عمران؍ ۱۱۸)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ۔ وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتے۔ تمھیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے)
اس آیت میں لفظ ’بطانۃ‘ کے استعمال میں بڑی بلاغت پائی جاتی ہے۔ بطانۃ کپڑے کے اندرونی حصے کو کہتے ہیں، جو جسم سے متصل ہوتا ہے۔ بہ طور استعارہ اس کا اطلاق اس شخص پر کیا جاتا ہے جسے آدمی اپنا گہرا دوست اور ہم دم وہم راز بنالے۔ ۲۱؎ ْ
اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے علاوہ دوسروں سے اتنا قریبی تعلق استوار نہ کرلو کہ ان پر اپنے راز منکشف کردو۔ اس لیے کہ وہ لوگ تمھارے بہی خواہ نہیں ہیں، تمھیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور تم سے دشمنی اور نفرت ان کے رویّے سے عیاں ہے۔
قریبی تعلق سے ممانعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو عام غیر مسلموں کے ساتھ انسانی تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا ہے، بلکہ ممانعت صرف ایسا تعلق رکھنے کی ہے جس سے اسلامی ریاست کے سیاسی و عسکری راز دشمنوں پر افشا ہوجائیں اور مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہوجائے۔ یہ ممانعت صرف ان لوگوں سے ہے جو مسلمانوں کے ساتھ برسر جنگ ہوں یا ان کے دشمنوں کے مددگار بنے ہوئے ہوں۔ رہے وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ساتھ مصروفِ جنگ نہ ہوں اور نہ ان کا طرز عمل عداوت اور ظلم و ستم پر مبنی ہو، ان کے ساتھ عدل و انصاف کرنے، اچھے تعلقات رکھنے اور بھلا برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَا یَنْہٰکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُم مِّنْ دِیَارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۔ (الممتحنۃ؍ ۸)
(اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو، جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے)
غیر مسلموں سے تعلقات کے سلسلے میں یہ ایک بہت اہم آیت ہے۔ اس میں دو الفاظ آئے ہیں: ’أَنْ تَبَرُّوْہُمْ‘ اور ’تُقْسِطُوْا إِلَیْْہِمْ‘۔ برّ سے مراد ہے حسن سلوک اور صلہ رحمی کرنا ۲۲؎ اس میں زیادہ سے زیادہ حسن سلوک کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے (البرّ: التوسّع فی الاحسان الیہ) ۲۳؎ تُقْسِطُوْا إِلَیْْہِمْ کے معنیٰ بعض مفسرین نے یہ بیان کیے ہیں کہ ان کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرو، جب کہ بعض دیگر مفسرین اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ صلہ رحمی کے طور پر اپنے مال کا کچھ حصہ انھیں دو (ان تعطوہم قسطاً من اموالکم علی وجہ الصلۃ)۲۴؎۔
بعض مفسرین اس آیت کو منسوخ قرار دیتے ہیں، لیکن اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت محکم یعنی غیر منسوخ ہے (وقال اکثر اہل التاویل ہی محکمۃ) ۲۵؎۔
امام قرطبیؒ نے لکھا ہے:
ہذہ الآیۃ رخصۃ من اللہ تعالیٰ فی صلۃ الذین لم یعادوا المؤمنین ولم یقاتلوہم۔ ۲۶؎
(اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی اجازت دی ہے جنھوں نے مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہیں کی اور ان سے جنگ نہیں کی)
امام رازیؒ فرماتے ہیں:
قال اہل التأویل: ہذہ الآیۃ تدلّ علی جواز البرّ بین المشرکین و المسلمین، وان کانت الموالاۃ منقطعۃ۔ ۲۷؎
(مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان نیکی اور حسن سلوک کا معاملہ جائز ہے، اگرچہ ان کے درمیان موالات (یعنی قریبی تعلق رکھنا) ممنوع ہے۔)
اس سے واضح ہوا کہ غیر مسلموں سے ہر طرح کے تعلق سے منع نہیں کیا گیا ہے، بلکہ ممانعت صرف ’ولایت‘ یعنی مخصوص قسم کے قریبی تعلق کی ہے۔ جہاں تک عام انسانی اور سماجی تعلقات رکھنے کی بات ہے وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:
الاحسان والہبۃ مستثناۃ من الولایۃ۔ ۲۸؎
(غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور انھیں کچھ دینا ’ولایت‘ میں شامل نہیں ہے)
امام رازیؒ نے لکھا ہے:
’’مومن کے کافر کو ’ولی‘ بنانے کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
۱- وہ اس کے کفر کو پسند کرتا ہو، اس کے باوجود اس سے دوستانہ تعلقات رکھتا ہو۔
۲- اس کو برسر باطل سمجھنے کے باوجود رشتہ داری یا قلبی تعلق کے سبب اس کی طرف مائل ہو، اس کا تعاون ، حمایت اور نصرت کرتا ہو۔
۳- دنیاوی معاملات میں اچھے تعلقات کا اظہار کرتا ہو۔
اول الذکر دو صورتیں ممنوع ہیں، تیسری صورت ممنوع نہیں ہے‘‘۔ ۲۹؎
۵- مخالفوں سے لڑنے اور انھیں قتل کرنے کے احکام
ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے قرآن پر ایک بڑا، بلکہ شاید سب سے بڑا اعتراض اس کے تصور جہاد پر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کافروں اور مشرکوں سے جنگ کریں، ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیں، ان کے لیے گھات لگائیں اور انھیں جہاں پائیں قتل کریں۔ بہ طور دلیل یہ آیات پیش کی جاتی ہیں:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُم مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْاْ فِیْکُمْ غِلْظَۃً۔ (التوبۃ؍ ۱۲۳)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جنگ کرو ان کافروں سے جو تمھارے پاس ہیں اور چاہیے کہ وہ تمھارے اندر سختی پائیں)
فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُواْ لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ۔ (التوبۃ؍ ۵)
(۔۔۔ تو مشرکوں کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو)
یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْْہِمْ وَمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔ (التحریم؍ ۹)
(اے نبی، کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ، ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے)
قَاتِلُوہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّہُ بِأَیْْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنصُرْکُمْ عَلَیْْہِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ۔ (التوبۃ؍ ۱۴)
(ان سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے گا اور انھیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلے میں تمھاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا)
قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتٰبَ حَتَّی یُعْطُواْ الْجِزْیَۃَ عَن یَدٍ وَہُمْ صٰغِرُونَ۔ (التوبۃ؍ ۲۹)
(جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں)
اس طرح کی آیات پیش کرکے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جب تک یہ آیات ہیں اس وقت تک مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان بقائے باہم ممکن نہیں۔
یہ غلط فہمی درحقیقت جنگ کے بارے میں قرآن کے احکام و تعلیمات کو صحیح تناظر میں نہ دیکھنے اور متعلقہ آیات کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹاکر پڑھنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ اس موضوع پر متعدد پہلوؤں سے غور کرنے کی ضرورت ہے:
(الف) اسلام جبر واکراہ کا مخالف ہے۔ قرآن میں یہ بات بہت زور دے کر کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے سامنے حق و اضح کردیا ہے، ساتھ ہی انھیں ارادہ و اختیار کی آزادی بخشی ہے کہ وہ چاہیں تو اسے قبول کرکے دائرۂ اسلام میں آجائیں اور چاہیں تو کفر کی روش پر قائم رہیں:
إِنَّا ہَدَیْْنٰہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِراً وَإِمَّا کَفُوراً ۔ (الدھر؍ ۳)
(ہم نے اسے راستہ دکھادیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا)
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّکُمْ فَمَن شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَن شَآئَ فَلْیَکْفُرْ۔ (الکہف؍ ۲۹)
(صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے ۔ اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے)
(ب) جب مسلمانوں کو حد سے زیادہ ستایا جانے لگا تب انھیں اجازت دی گئی کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا جواب دے سکتے ہیں:
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ۔ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ یَّقُولُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ۔ (الحج؍ ۳۹-۴۰)
(اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیوںکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے: ہمارا رب اللہ ہے)
اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ جنگ کا آغاز مسلمانوں نے نہیں کیا تھا، بلکہ جنگ ان پر تھوپی گئی تھی۔ دشمنوں کا منصوبہ تھا کہ مسلمانوں کو، جو ابھی کم زور ہیں، ابتدائی مرحلے ہی میں کچل دیں اور شمعِ اسلام کو اپنی پھونکوں سے گُل کردیں۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ان کا منہ توڑ جواب دیں اور ان کے منصوبوں کو خاک میں ملادیں، لیکن اس وقت بھی انھیں تاکید کی گئی کہ ان کے ساتھ جتنی زیادتی کی گئی ہے اتنا ہی بدلہ لیں، حد سے تجاوز نہ کریں:
وَقَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ (البقرۃ؍ ۱۹۰)
(اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا)
(ج) قرآن کریم میں مذکور آیاتِ قتال کاتعلق عام حالات سے نہیں ہے، بلکہ ان میں دورانِ جنگ کے سلسلے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ جب کسی گروہ سے جنگ برپا ہو تو میدانِ جنگ میں ایک فریق دوسرے فریق کے ساتھ کوئی روٗرعایت نہیں برتتا، بلکہ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مخالف کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائے اور اس کے افراد کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں قتل کرکے اس کی فوجی طاقت پارہ پارہ کردے۔ اس موقع پر کسی کم زوری اور نرمی کا مظاہرہ خود اپنے کو ہلاکت میں ڈالنے کے مثل ہے۔
(د) جنگ ایک ناپسندیدہ لیکن ناگزیر صورت حال ہے۔ اسی لیے مختلف مذاہب میں اس کے بارے میں احکام پائے جاتے ہیں۔ جن مذاہب میں جنگ سے متعلق کسی طرح کی تعلیم نہیں ملتی ان کے پیرووں کو بھی مختلف مواقع پر جنگ کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ مذہبی کتابوں میں جنگ سے متعلق احکام و قوانین ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کا تعلق دشمن قوم کے ساتھ عام برتاؤ سے ہے، بلکہ ظاہر ہے کہ ان میں جنگ کی مخصوص صورت حال کا بیان ہے۔ مثال کے طور پر ذیل میں ہندو مت کی مذہبی کتابوں کے چند حوالے دیے جاتے ہیں:
’’اے اِندر، ہم کو بہادرانہ سطوت عطا کر، آزمودہ کاری اور اس روز افزوں قوت کے ساتھ، جو مال غنیمت حاصل کرتی ہے۔ تیری مدد سے ہم جنگ میں اپنے دشمنوں کو مغلوب کریں، چاہے وہ اپنے ہوں یا پرائے، ہم ہر دشمن پر فتح مند ہوں۔ اے بہادر، ہم تیری مدد سے دونوں قسم کے دشمنوں کو قتل کرکے خوش حال ہوں، بڑی دولت کے ساتھ‘‘۔ ۳۰؎
’’اے اگنی، ہماری مزاحمت کرنے والی جماعتوں کو مغلوب کر، ہمارے دشمنوں کو بھگادے ۔ اے اجیت، دیوتاؤں کو نہ ماننے والے حریفوں کو قتل کر اور اپنے پجاری کو عظمت و شوکت نصیب کر‘‘۔ ۳۱؎
’’اے مینو، طاقت ور سے زیادہ طاقت ور ہوکر ادھر آ اور اپنے غضب سے ہمارے تمام دشمنوں کو ہلاک کردے، دشمنوں اور ورتیروں اور دسیوں کو قتل کرنے والے۔ تو ہمارے پاس ہر قسم کی دولت اور خزانے لا‘‘۔ ۳۲؎
بھاگوت گیتا کا تو موضوع ہی جنگ ہے۔ یہ در اصل کرشن جی کے اس طویل اپدیش پر مشتمل ہے جو انھوں نے پانڈوؤں کے سردار ارجن کو، جنگ پر ابھارنے اور لڑنے کی ترغیب دینے کے لیے دیا تھا۔
(ہ) ایک چیز یہ بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ان آیات کا خطاب اسلامی ریاست اور اس کی فوج سے ہے۔ قرآن نے تمام مسلمانوں کو کھلی چھوٹ نہیں دے دی ہے کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں غیر مسلموں کو قتل کردیں، بلکہ اسلامی ریاست سے دشمنی رکھنے والے غیر مسلموں سے جنگ کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف سربراہِ ریاست کو ہے۔ اسی کو طے کرنا ہے کہ جنگ کی جائے یا نہیں؟ اور کی جائے تو کب اور کیسے؟ رعایا پر ہر حال میں اس کی اطاعت لازم ہے۔ علامہ ابن قدامہؒ نے لکھا ہے:
امر الجہاد مو کول الی الامام واجتہادہ ویلزم الرعیّۃ طاعتہ فیما یراہ من ذلک۔ ۳۳؎
(جہاد کا معاملہ سربراہِ ریاست کے ذمّے ہے۔ وہی اس کا فیصلہ کرے گا اور رعایا پر اس کے فیصلے کو تسلیم کرنا لازم ہے)
اسی طرح جس قوم سے جنگ ہورہی ہو اس کے صرف ان افراد کو قتل کرنے کی اجازت دی گئی ہے جو جنگ میں عملاً حصہ لے رہے ہوں، یا اس کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ غیر متعلق لوگوں سے تعرّض کرنے اور انھیں نشانہ بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ولا تقتلوا شیخاً فانیاً ولا طفلاً ولا صغیراً ولا امراۃً۔ ۳۴؎
(اور نہ قتل کرو کسی بوڑھے کھوسٹ کو، کسی بچے کو، کسی کم سن کو اور کسی عورت کو)
قرآن کریم پر ہندوانتہا پسندوں کی جانب سے کیے جانے والے جملہ اعتراضات جذباتی نوعیت کے ہیں۔ ان کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے لیے قرآن کے مختلف مقامات سے کچھ آیتیں منتخب کرلی جاتی ہیں اور انھیں سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور ان کے من مانے مفہوم بیان کیے جاتے ہیں۔ اگر ان آیات کا مطالعہ ان کے سیاق میں کیا جائے اور ان حالات کو بھی پیش نظر رکھا جائے جن میں وہ نازل ہوئی تھیں تو کوئی اعتراض وارد نہیں ہوگا، بلکہ پڑھنے والے پر ان کی معقولیت آشکارا ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ قرآن کریم پر مستشرقین کے اعتراضات کے لیے ملاحظہ کیجیے راقم کا مقالہ بہ عنوان: ’’قرآن کریم پر مستشرقین کے اعتراضات ‘‘ شائع شدہ ’’روزنامہ راشٹریہ سہارا ، قرآن عظیم نمبر، ۱۴؍ اکتوبر ۲۰۰۶ء
۲؎ سوامی دیانند سرسوتی اور ان کی کتاب ستیارتھ پرکاش کے بارے میں ملاحظہ کیجیے: مولانا محمد فاروق خاں، ہندو دھرم کی جدید شخصیتیں، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی۔ انھون نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں کی تحقیق کے مطابق ستیارتھ پرکاش میں اسلام کا باب الحاقی ہے۔ وہ سوامی دیانند کا لکھا ہوا نہیں ہے۔
۳؎ ملاحظہ کیجیے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع شدہ کتابچہ بہ عنوان: قرآن مجید کی چوبیس آیات پر بے جا اعتراضات ، طبع چہارم ، ۱۹۹۳ئ، ص۳
۴؎ ازدی، ابوبکر محمد بن الحسن بن درید، جمہرۃ اللغۃ، دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد، ۱۳۴۵ھ، ۲/۴۰۱
۵؎ فیروز آبادی، مجدالدین محمد، القاموس، مطبع نول کشور لکھنؤ، ۱/۵۴
۶؎ جمھرۃ اللغۃ، ۲/۴۰۱
۷؎ حوالہ سابق
۸؎ جوہری، ابونصر اسماعیل بن حماد، تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ، طبع مصر، ۱۲۸۲ھ، ۱/۳۹۴، القاموس، ۱/۵۴
۹؎ ابن الجوزی، ابوالفرج جمال الدین عبدالرحمن بن علی البغدادی، زاد المسیر فی علم التفسیر، المکتب الاسلامی بیروت، ۱۴۰۷ھ، ۱/۲۷
۱۰؎ تاج اللغۃ، ۱/۳۹۵
۱۱؎ ملاحظہ کیجیے البقرۃ: ۸۹، المائدۃ: ۷۲، ۷۳، ۷۸، البینۃ: ۶
۱۲؎ نووی، یحییٰ بن شرف، شرح مسلم، باب الدلیل علی ان المسلم لا ینجس
۱۳؎ مصنف عبدالرزاق، کتاب الصلاۃ، باب المشرک یدخل المسجد
۱۴؎ صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب قضاء الفائت
۱۵؎ سنن ابی داؤد، کتاب الاطعمۃ، باب الاکل فی آنیۃ اہل الکتاب
۱۶؎ صحیح بخاری، کتاب الذبائح والصید، باب آنیۃ المجوس، صحیح مسلم، کتاب الصید والذبائح، باب الصید بالکلاب المعلّمۃ
۱۷؎ راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، المطبعۃ المیمنیۃ مصر، ۱۳۲۴ھ، ص۵۵۵
۱۸؎ ابن الاثیر الجزری، النہایۃ فی غریب الحدیث، المطبعۃ العثمانیۃ مصر، ۱۳۱۱ھ، ۴/۲۳۱، ابن منظور، ابوالفضل جمال الدین الافریقی، لسان العرب، دار صادر بیروت، ۱۳۷۴ھ، ۱۵/ ۴۰۹
۱۹؎ قرطبی، ابوعبداللہ محمد بن احمد الانصاری، الجامع لاحکام القرآن (تفسیر القرطبی) الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب مصر، ۱۹۸۷ئ، ۵/۴۲۵
۲۰؎ زمخشری، ابوالقاسم جار اللہ محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق التنزیل، مطبع مصطفی البابی الحلبی و أولادہ مصر، ۱۹۷۳ئ، ۱/۶۱۹
۲۱؎ طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، جامع البیان عن تاویل آی القرآن (تفسیر الطبری) دارالمعارف مصر، ۱۹۶۹ئ، ۷/۱۳۸، کشاف، ۱/۴۵۸، تفسیر قرطبی، ۴/۱۷۸
۲۲؎ ابن کثیر، ابوالفداء عماد الدین اسماعیل، تفسیر القرآن العظیم (تفسیر ابن کثیر) المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ مصر، ۱۳۵۶ھ، ۴/۳۴۹، لسان العرب، ۴/۵۴، مادہ ’بر‘
۲۳؎ المفردات فی غریب القرآن، ص۹۳
۲۴؎ ابن العربی، ابوبکر محمد بن عبداللہ المالکی الإشبیلی، احکام القرآن، مطبعۃ السعادۃ مصر، ۱۳۳۱ھ، ۲/۲۴۹، الماوردی، ابوالحسن علی بن حبیب البصری، النکت والعیون (تفسیر الماوردی)، مطابع المقہوی الکویت، ۱۴۰۲ھ، ۴/۲۲۳، تفسیر قرطبی، ۱۸/۵۹، تفسیر کبیر، ۸/۱۳۴
۲۵؎ تفسیر قرطبی، ۱۸/۵۹
۲۶؎ حوالہ سابق
۲۷؎ رازی، فخرالدین محمد بن عمر، مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) المطبعۃ العامرۃ مصر، ۱۳۰۸ھ، ۸/۱۳۴
۲۸؎ تفسیر قرطبی، ۸/۹۴
۲۹؎ تفسیر کبیر، ۲/۴۵۰
۳۰؎ رگ وید، ۶: ۱: ۸-۱۳
۳۱؎ یجروید، ۹:۳۷
۳۲؎ اتھروید، ۴:۳۲:۱-۳
۳۳؎ ابن قدامۃ، ابومحمد عبداللہ بن احمد بن محمد المقدسی، المغنی علی مختصر الخرقی، مکتبۃ الریاض الحدیثۃ ریاض، ۱۹۸۱ئ، ۸/۳۵۲
۳۴؎ سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد، باب فی دعاء المشرکین۔
٭٭
’’اے اِندر، ہم کو بہادرانہ سطوت عطا کر، آزمودہ کاری اور اس روز افزوں قوت کے ساتھ، جو مال غنیمت حاصل کرتی ہے۔ تیری مدد سے ہم جنگ میں اپنے دشمنوں کو مغلوب کریں، چاہے وہ اپنے ہوں یا پرائے، ہم ہر دشمن پر فتح مند ہوں۔ اے بہادر، ہم تیری مدد سے دونوں قسم کے دشمنوں کو قتل کرکے خوش حال ہوں، بڑی دولت کے ساتھ‘‘۔ ۳۰؎
’’اے اگنی، ہماری مزاحمت کرنے والی جماعتوں کو مغلوب کر، ہمارے دشمنوں کو بھگادے ۔ اے اجیت، دیوتاؤں کو نہ ماننے والے حریفوں کو قتل کر اور اپنے پجاری کو عظمت و شوکت نصیب کر‘‘۔ ۳۱؎
’’اے مینو، طاقت ور سے زیادہ طاقت ور ہوکر ادھر آ اور اپنے غضب سے ہمارے تمام دشمنوں کو ہلاک کردے، دشمنوں اور ورتیروں اور دسیوں کو قتل کرنے والے۔ تو ہمارے پاس ہر قسم کی دولت اور خزانے لا‘‘۔ ۳۲؎
بھاگوت گیتا کا تو موضوع ہی جنگ ہے۔ یہ در اصل کرشن جی کے اس طویل اپدیش پر مشتمل ہے جو انھوں نے پانڈوؤں کے سردار ارجن کو، جنگ پر ابھارنے اور لڑنے کی ترغیب دینے کے لیے دیا تھا۔
(ہ) ایک چیز یہ بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ان آیات کا خطاب اسلامی ریاست اور اس کی فوج سے ہے۔ قرآن نے تمام مسلمانوں کو کھلی چھوٹ نہیں دے دی ہے کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں غیر مسلموں کو قتل کردیں، بلکہ اسلامی ریاست سے دشمنی رکھنے والے غیر مسلموں سے جنگ کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف سربراہِ ریاست کو ہے۔ اسی کو طے کرنا ہے کہ جنگ کی جائے یا نہیں؟ اور کی جائے تو کب اور کیسے؟ رعایا پر ہر حال میں اس کی اطاعت لازم ہے۔ علامہ ابن قدامہؒ نے لکھا ہے:
امر الجہاد مو کول الی الامام واجتہادہ ویلزم الرعیّۃ طاعتہ فیما یراہ من ذلک۔ ۳۳؎
(جہاد کا معاملہ سربراہِ ریاست کے ذمّے ہے۔ وہی اس کا فیصلہ کرے گا اور رعایا پر اس کے فیصلے کو تسلیم کرنا لازم ہے)
اسی طرح جس قوم سے جنگ ہورہی ہو اس کے صرف ان افراد کو قتل کرنے کی اجازت دی گئی ہے جو جنگ میں عملاً حصہ لے رہے ہوں، یا اس کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ غیر متعلق لوگوں سے تعرّض کرنے اور انھیں نشانہ بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ولا تقتلوا شیخاً فانیاً ولا طفلاً ولا صغیراً ولا امراۃً۔ ۳۴؎
(اور نہ قتل کرو کسی بوڑھے کھوسٹ کو، کسی بچے کو، کسی کم سن کو اور کسی عورت کو)
قرآن کریم پر ہندوانتہا پسندوں کی جانب سے کیے جانے والے جملہ اعتراضات جذباتی نوعیت کے ہیں۔ ان کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے لیے قرآن کے مختلف مقامات سے کچھ آیتیں منتخب کرلی جاتی ہیں اور انھیں سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور ان کے من مانے مفہوم بیان کیے جاتے ہیں۔ اگر ان آیات کا مطالعہ ان کے سیاق میں کیا جائے اور ان حالات کو بھی پیش نظر رکھا جائے جن میں وہ نازل ہوئی تھیں تو کوئی اعتراض وارد نہیں ہوگا، بلکہ پڑھنے والے پر ان کی معقولیت آشکارا ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی و مراجع
۱؎ قرآن کریم پر مستشرقین کے اعتراضات کے لیے ملاحظہ کیجیے راقم کا مقالہ بہ عنوان: ’’قرآن کریم پر مستشرقین کے اعتراضات ‘‘ شائع شدہ ’’روزنامہ راشٹریہ سہارا ، قرآن عظیم نمبر، ۱۴؍ اکتوبر ۲۰۰۶ء
۲؎ سوامی دیانند سرسوتی اور ان کی کتاب ستیارتھ پرکاش کے بارے میں ملاحظہ کیجیے: مولانا محمد فاروق خاں، ہندو دھرم کی جدید شخصیتیں، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی۔ انھون نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں کی تحقیق کے مطابق ستیارتھ پرکاش میں اسلام کا باب الحاقی ہے۔ وہ سوامی دیانند کا لکھا ہوا نہیں ہے۔
۳؎ ملاحظہ کیجیے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع شدہ کتابچہ بہ عنوان: قرآن مجید کی چوبیس آیات پر بے جا اعتراضات ، طبع چہارم ، ۱۹۹۳ئ، ص۳
۴؎ ازدی، ابوبکر محمد بن الحسن بن درید، جمہرۃ اللغۃ، دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد، ۱۳۴۵ھ، ۲/۴۰۱
۵؎ فیروز آبادی، مجدالدین محمد، القاموس، مطبع نول کشور لکھنؤ، ۱/۵۴
۶؎ جمھرۃ اللغۃ، ۲/۴۰۱
۷؎ حوالہ سابق
۸؎ جوہری، ابونصر اسماعیل بن حماد، تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ، طبع مصر، ۱۲۸۲ھ، ۱/۳۹۴، القاموس، ۱/۵۴
۹؎ ابن الجوزی، ابوالفرج جمال الدین عبدالرحمن بن علی البغدادی، زاد المسیر فی علم التفسیر، المکتب الاسلامی بیروت، ۱۴۰۷ھ، ۱/۲۷
۱۰؎ تاج اللغۃ، ۱/۳۹۵
۱۱؎ ملاحظہ کیجیے البقرۃ: ۸۹، المائدۃ: ۷۲، ۷۳، ۷۸، البینۃ: ۶
۱۲؎ نووی، یحییٰ بن شرف، شرح مسلم، باب الدلیل علی ان المسلم لا ینجس
۱۳؎ مصنف عبدالرزاق، کتاب الصلاۃ، باب المشرک یدخل المسجد
۱۴؎ صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب قضاء الفائت
۱۵؎ سنن ابی داؤد، کتاب الاطعمۃ، باب الاکل فی آنیۃ اہل الکتاب
۱۶؎ صحیح بخاری، کتاب الذبائح والصید، باب آنیۃ المجوس، صحیح مسلم، کتاب الصید والذبائح، باب الصید بالکلاب المعلّمۃ
۱۷؎ راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، المطبعۃ المیمنیۃ مصر، ۱۳۲۴ھ، ص۵۵۵
۱۸؎ ابن الاثیر الجزری، النہایۃ فی غریب الحدیث، المطبعۃ العثمانیۃ مصر، ۱۳۱۱ھ، ۴/۲۳۱، ابن منظور، ابوالفضل جمال الدین الافریقی، لسان العرب، دار صادر بیروت، ۱۳۷۴ھ، ۱۵/ ۴۰۹
۱۹؎ قرطبی، ابوعبداللہ محمد بن احمد الانصاری، الجامع لاحکام القرآن (تفسیر القرطبی) الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب مصر، ۱۹۸۷ئ، ۵/۴۲۵
۲۰؎ زمخشری، ابوالقاسم جار اللہ محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق التنزیل، مطبع مصطفی البابی الحلبی و أولادہ مصر، ۱۹۷۳ئ، ۱/۶۱۹
۲۱؎ طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، جامع البیان عن تاویل آی القرآن (تفسیر الطبری) دارالمعارف مصر، ۱۹۶۹ئ، ۷/۱۳۸، کشاف، ۱/۴۵۸، تفسیر قرطبی، ۴/۱۷۸
۲۲؎ ابن کثیر، ابوالفداء عماد الدین اسماعیل، تفسیر القرآن العظیم (تفسیر ابن کثیر) المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ مصر، ۱۳۵۶ھ، ۴/۳۴۹، لسان العرب، ۴/۵۴، مادہ ’بر‘
۲۳؎ المفردات فی غریب القرآن، ص۹۳
۲۴؎ ابن العربی، ابوبکر محمد بن عبداللہ المالکی الإشبیلی، احکام القرآن، مطبعۃ السعادۃ مصر، ۱۳۳۱ھ، ۲/۲۴۹، الماوردی، ابوالحسن علی بن حبیب البصری، النکت والعیون (تفسیر الماوردی)، مطابع المقہوی الکویت، ۱۴۰۲ھ، ۴/۲۲۳، تفسیر قرطبی، ۱۸/۵۹، تفسیر کبیر، ۸/۱۳۴
۲۵؎ تفسیر قرطبی، ۱۸/۵۹
۲۶؎ حوالہ سابق
۲۷؎ رازی، فخرالدین محمد بن عمر، مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) المطبعۃ العامرۃ مصر، ۱۳۰۸ھ، ۸/۱۳۴
۲۸؎ تفسیر قرطبی، ۸/۹۴
۲۹؎ تفسیر کبیر، ۲/۴۵۰
۳۰؎ رگ وید، ۶: ۱: ۸-۱۳
۳۱؎ یجروید، ۹:۳۷
۳۲؎ اتھروید، ۴:۳۲:۱-۳
۳۳؎ ابن قدامۃ، ابومحمد عبداللہ بن احمد بن محمد المقدسی، المغنی علی مختصر الخرقی، مکتبۃ الریاض الحدیثۃ ریاض، ۱۹۸۱ئ، ۸/۳۵۲
۳۴؎ سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد، باب فی دعاء المشرکین۔
٭٭